شام کے بعد
ہم کئی سالوں تک ان قبائلی علاقوں کو علاقہ غیر کہتے رہے ۔۔۔
Black Hawk Down ہالی ووڈ کی مشہور زمانہ فلم ہے۔یہ فلم2001 ء میں ریلیز کی گئی۔ یہ فلم صومالیہ میں اقوامِ متحدہ کے امن آپریشن کے بارے میں ہے۔ 1993ء میں صومالیہ کے فرح عدید اور اس کی عسکری مزاحمت کو امریکی فوج نے کس بہادری سے کچلا اس کا اندازہ یہ فلم دیکھ کر ہی لگایا جاسکتا ہے۔مگر 1946ء میں ہٹلر کے خلاف بننے والی ہالی ووڈ کی فلموں میں جہاں حقیقت کو چھپایا گیا ہے، اسی طرح اس فلم میں پاکستانی فوجیوں کے کردار کو بھی نظر انداز کردیا گیا۔اس بات کا اعتراف اس وقت کے ڈی جی ملٹری آپریشنز سابق جنرل پرویز مشرف نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کے ایک سیمینار میں بھی کر چکے ہیں ۔انھوں نے اس دن کا خاص طور پر ذکر کیا کہ جب موغا دیشو میں ایک ہی دن میں پاک آرمی کے 28 جوان فرح عدید کے ساتھیوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے تھے۔اس طرح 42 پاک فوج کے جوان اس مشن میں شہید ہوئے مگر ان کی قربانیوں کی اہمیت اتنی نہ تھی کہ ایک فلم میں ان کو ایک منٹ کی جگہ ہی دے دی جاتی۔یہ وہ قدر ہے جو گورا سامراج ہماری قربانیوں کی کرتا ہے۔
یہی ڈی جی ملٹری آپریشنز جب خود اس ملک کے باوردی حکمران بنے تو Black Hawk Down بھول گئے اوردہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں اس کے اتحادی بن گئے۔Federally Administered Tribal Areas یعنی کے فاٹا یا قبائلی علاقہ جات پاکستان اور افغانستان کے درمیان مختلف قبائل پر مشتمل عسکری طاقتوں کا ایک ایسا علاقہ ہے جس کی سرحدیں ایک طرف تو پاکستانی صوبے خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے ملتی ہیں تو دوسری طرف افغانستان سے۔شمالی اور جنوبی وزیرستان، باجوڑ، خیبر ،اورکزئی،کرم ایجنسی اور مہمند پے مشتمل یہ علاقہ ہمیشہ ہی اپنے طور سے جیتتا آیا ہے۔برطانوی سامراج نے Murderous Outrages Regulation کے قانون کے تحت اس پر کسی نہ کسی طرح اپنی حکمرانی کا ٹھپہ لگانے کی کوشش کی اور پاکستانی حکومتوں نے اسی قانون کی ماڈرن شکلFrontier Crimes Regulations کے ذریعے ان پر حکمرانی کا ٹھپہ لگایا۔
مگر سچ تو یہ ہے کہ انگریزی فلم Hills Have Eyes کے کرداروں کی طرح یہ لوگ صدیوں کی محرومیوں کے باعث اس قدر بپھر چکے تھے کہ یہ نہ تو برطانوی سامراج کے قابو آئے اور نہ ہی ہمارے۔پہلی غلطی ہم نے پاکستان کی آزادی سے ہی شروع کردی ۔ہم نے ان علاقوں کو بری طرح پاکستان کے نظر انداز علاقوں میں شامل کر دیا۔ تعلیم،صحت، سڑکیں ، بجلی الغرض ہم نے ہر طرح کی سہولتوں سے ان کو محروم رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان علاقوں میں ایک بھی یونیورسٹی قائم نہیں ہے۔یوں یہ لوگ اپنے علاقوں میں تعلیم سے دور ہوتے چلے گئے۔انھوں نے اچھی سڑکوں، تعلیم،صحت کی سہولیات، صاف پانی اور پر امن زندگی کا سورج کبھی دیکھا ہی نہیں۔دوسری غلطی ہم نے روس کے خلاف امریکا کی مدد کرکے کی۔ہم نے ان علاقوں اور ان کے علم سے عاری قبائل کو امریکی حمایت میں روس کے خلاف جہادی کیمپ بنانے میں اور جہادی ٹریننگ دینے میں استعمال کیا۔یوں جنم ہوا القائدہ کا، طالبان کا ۔ہم نے روس کو امریکا کی خاطر توڑ ڈالا مگر ہم نے افغان مہاجر،کلاشنکوف کلچر،ہیروئن اور بارود ان لوگوں کی رگوں میں داخل کردیا۔یہ علاقے افغانستان کے علاقوں سے مل کر غیر قانونی ادویات کی اسمگلنگ کی منڈی بن گئے اور یوں ان پر پیسوں کی بارش ہونے لگی۔
انھوں نے پیسوں سے مزید بارود خریدا انھیں اپنی باہمی قبائلی دشمنیوں میں استعمال کیا اور ہم خاموش تماشہ دیکھتے رہے۔ہم ان قبائل کی بہادری اور ان کی افغانی قبائل سے رشتہ داریوں پر اس قدر پر اعتماد تھے کہ ہمیں افغانستان کے بارڈر کی طرف سے کوئی خوف نہ تھا۔تیسری ٖغلطی پرویز مشرف نے امریکا اور افغانستان کی جنگ میں پاکستان کو جھونک کر کر ڈالی۔یہ غلطی سب سے بھیانک ثابت ہوئی۔ ٖفاٹا کے قبائل جو اپنے کئی سالوں کی رشتہ داریاں اپنے افغان بھائیوں کے ساتھ امریکا کے خلاف جنگ لڑ کر نبھا رہے تھے ہمارے دشمن بن گئے۔ خود کش حملے ہٹلر کی نازی فوجوں کی ایجاد تھی اور اس جرمن طریقہ جنگ کے بارے میں پہلی بار10 اگست 1940ء کو نیویارک ٹائمز میں انکشاف کیا گیا۔پھر پوری دنیا میں یہ طریقہ جنگ مہلک ہتھیار بن گیا۔بیروت میں 1982ء میں اسی طرز کے حملوں کو فدائی حملے کہا گیا۔1987ء میں سری لنکا کی فوج کے خلاف تامل ٹائیگرز نے خود حملے شروع کیے۔پھر 2003ء میں عراق سے ہوتے ہوئے یہ حملے اٖفغانستان پہنچ گئے۔
2004ء میں جب گوانتانامو جیل سے آزاد ہونے والے قیدیوں نے جب ساتھیوں کو قرآن کی بے حرمتی جیسے واقعات سنائے تو افغانستان میں خود کش حملوں کی روایت پڑگئی۔ردِعمل میں امریکی فوج اور اتحادیوں نے افغانستان پر مزید بمباری کی اور انتقام کی آگ میں جلتے کئی بچے،عورتیں ،بزرگ ان حملوں کے لیے طالبان کو دستیاب ہونے لگے۔یوں پاکستان کو حامد کرزئی کے شور مچانے اور امریکی دباؤ پر فاٹا میں عسکری آپریشن کے لیے کہا جانے لگا۔ باقی کا کام خود امریکا نے ڈرون حملوں کے ذریعے فاٹا میں کردیا۔یوں جہالت اور محرومیوں کے اندھیروں میں پلتے یہ بپھرے قبائل خود کش جیکٹیں پہنے ہماری صفوں میں گھس آئے۔ کئی امریکا مخالف پاکستان انتہا پسند مذہبی تنظیمیں بھی امریکا کے خلاف جہاد کے نام پر ان کی ہر ممکن مدد کرنے لگیں یوںمسجدوں میں دیا ہمارا ہی چندہ بارود کی شکل میں ہماری صفوں میں ہمارے چیتھڑے اڑانے لگا۔ اسرائیلی موساد،بھارتی را، گاندھی کی باقیات سمیت کئی غیر ملکی طاقتیں بھی اس ہجوم میں شامل ہوگئیں۔ بھارت کشمیر کے جہاد کو دہشت گردی سے جوڑنے اور پاکستان کو گوریلا وار کے ذریعے نیست و نابود کرنے کے لیے میدان میں اتر آیا۔ آج ان علاقوں کی محرومیاں ٹی ٹی پی کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں اور اب جب ہر گلی ،بازار، مزارات ،مسجدوں میں خون آلود چیتھڑے ہواؤں کی نذر ہونے لگے ہیں تو ہم سجدوں میں گڑا گڑا کر خدا سے دعائیں مانگنے اور کہنے لگے ؎
لوٹ آتی ہے میری شب بھر کی عبادت خالی
ہم کئی سالوں تک ان قبائلی علاقوں کو علاقہ غیر کہتے رہے ۔اس بات کا سہارا ہماری حکومتوں نے بھی لیا اور کبھی اندھیروں میں ڈوبے قبائل کو علم کی روشنی عطا نہ کی۔ہم ان علاقوں سے معدنیات لیتے رہے مگر ہم نے پاکستان کی دو فیصد آبادی پر مشتمل ان علاقوں پر قومی ٹیکسوں کا ایک فیصد بھی نہ لگایا۔جس طرح لوڈشیڈنگ سے مستثنی ہمارے حکمرانوں کے محلوں میں رہنے والوں کو یہ معلوم نہیں کہ رات بھر لائٹ نہ آنے پر گرمی میں غریب کا بچہ بلبلاتا کیسا لگتا ہے۔اسی طرح ہمیں بھی معلوم نہیں کہ جنھوں نے کبھی علم اور بنیادی سہولتوں کے سورج کی ایک کرن بھی نہ دیکھی ہو ان کی راتیں کیسے کٹتی ہیں اور ان کے غم کیا ہوتے ہیں؟ ایک گونج میرے کانوں میں یہ کہتی ہے کہ یہ قصہ آج کا نہیں ہے ،یہ صدیوں پرانی بات ہے جب آج کے دور کہ یہ خود کش بمبار ہم سے اپنی محرومیوں کا رونا رویا کرتے تھے اور چیخ چیخ کر کہا کرتے تھے۔
تو سورج ہے تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ
تو کسی روز اتر میرے گھر میں شام کے بعد
یہی ڈی جی ملٹری آپریشنز جب خود اس ملک کے باوردی حکمران بنے تو Black Hawk Down بھول گئے اوردہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں اس کے اتحادی بن گئے۔Federally Administered Tribal Areas یعنی کے فاٹا یا قبائلی علاقہ جات پاکستان اور افغانستان کے درمیان مختلف قبائل پر مشتمل عسکری طاقتوں کا ایک ایسا علاقہ ہے جس کی سرحدیں ایک طرف تو پاکستانی صوبے خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے ملتی ہیں تو دوسری طرف افغانستان سے۔شمالی اور جنوبی وزیرستان، باجوڑ، خیبر ،اورکزئی،کرم ایجنسی اور مہمند پے مشتمل یہ علاقہ ہمیشہ ہی اپنے طور سے جیتتا آیا ہے۔برطانوی سامراج نے Murderous Outrages Regulation کے قانون کے تحت اس پر کسی نہ کسی طرح اپنی حکمرانی کا ٹھپہ لگانے کی کوشش کی اور پاکستانی حکومتوں نے اسی قانون کی ماڈرن شکلFrontier Crimes Regulations کے ذریعے ان پر حکمرانی کا ٹھپہ لگایا۔
مگر سچ تو یہ ہے کہ انگریزی فلم Hills Have Eyes کے کرداروں کی طرح یہ لوگ صدیوں کی محرومیوں کے باعث اس قدر بپھر چکے تھے کہ یہ نہ تو برطانوی سامراج کے قابو آئے اور نہ ہی ہمارے۔پہلی غلطی ہم نے پاکستان کی آزادی سے ہی شروع کردی ۔ہم نے ان علاقوں کو بری طرح پاکستان کے نظر انداز علاقوں میں شامل کر دیا۔ تعلیم،صحت، سڑکیں ، بجلی الغرض ہم نے ہر طرح کی سہولتوں سے ان کو محروم رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان علاقوں میں ایک بھی یونیورسٹی قائم نہیں ہے۔یوں یہ لوگ اپنے علاقوں میں تعلیم سے دور ہوتے چلے گئے۔انھوں نے اچھی سڑکوں، تعلیم،صحت کی سہولیات، صاف پانی اور پر امن زندگی کا سورج کبھی دیکھا ہی نہیں۔دوسری غلطی ہم نے روس کے خلاف امریکا کی مدد کرکے کی۔ہم نے ان علاقوں اور ان کے علم سے عاری قبائل کو امریکی حمایت میں روس کے خلاف جہادی کیمپ بنانے میں اور جہادی ٹریننگ دینے میں استعمال کیا۔یوں جنم ہوا القائدہ کا، طالبان کا ۔ہم نے روس کو امریکا کی خاطر توڑ ڈالا مگر ہم نے افغان مہاجر،کلاشنکوف کلچر،ہیروئن اور بارود ان لوگوں کی رگوں میں داخل کردیا۔یہ علاقے افغانستان کے علاقوں سے مل کر غیر قانونی ادویات کی اسمگلنگ کی منڈی بن گئے اور یوں ان پر پیسوں کی بارش ہونے لگی۔
انھوں نے پیسوں سے مزید بارود خریدا انھیں اپنی باہمی قبائلی دشمنیوں میں استعمال کیا اور ہم خاموش تماشہ دیکھتے رہے۔ہم ان قبائل کی بہادری اور ان کی افغانی قبائل سے رشتہ داریوں پر اس قدر پر اعتماد تھے کہ ہمیں افغانستان کے بارڈر کی طرف سے کوئی خوف نہ تھا۔تیسری ٖغلطی پرویز مشرف نے امریکا اور افغانستان کی جنگ میں پاکستان کو جھونک کر کر ڈالی۔یہ غلطی سب سے بھیانک ثابت ہوئی۔ ٖفاٹا کے قبائل جو اپنے کئی سالوں کی رشتہ داریاں اپنے افغان بھائیوں کے ساتھ امریکا کے خلاف جنگ لڑ کر نبھا رہے تھے ہمارے دشمن بن گئے۔ خود کش حملے ہٹلر کی نازی فوجوں کی ایجاد تھی اور اس جرمن طریقہ جنگ کے بارے میں پہلی بار10 اگست 1940ء کو نیویارک ٹائمز میں انکشاف کیا گیا۔پھر پوری دنیا میں یہ طریقہ جنگ مہلک ہتھیار بن گیا۔بیروت میں 1982ء میں اسی طرز کے حملوں کو فدائی حملے کہا گیا۔1987ء میں سری لنکا کی فوج کے خلاف تامل ٹائیگرز نے خود حملے شروع کیے۔پھر 2003ء میں عراق سے ہوتے ہوئے یہ حملے اٖفغانستان پہنچ گئے۔
2004ء میں جب گوانتانامو جیل سے آزاد ہونے والے قیدیوں نے جب ساتھیوں کو قرآن کی بے حرمتی جیسے واقعات سنائے تو افغانستان میں خود کش حملوں کی روایت پڑگئی۔ردِعمل میں امریکی فوج اور اتحادیوں نے افغانستان پر مزید بمباری کی اور انتقام کی آگ میں جلتے کئی بچے،عورتیں ،بزرگ ان حملوں کے لیے طالبان کو دستیاب ہونے لگے۔یوں پاکستان کو حامد کرزئی کے شور مچانے اور امریکی دباؤ پر فاٹا میں عسکری آپریشن کے لیے کہا جانے لگا۔ باقی کا کام خود امریکا نے ڈرون حملوں کے ذریعے فاٹا میں کردیا۔یوں جہالت اور محرومیوں کے اندھیروں میں پلتے یہ بپھرے قبائل خود کش جیکٹیں پہنے ہماری صفوں میں گھس آئے۔ کئی امریکا مخالف پاکستان انتہا پسند مذہبی تنظیمیں بھی امریکا کے خلاف جہاد کے نام پر ان کی ہر ممکن مدد کرنے لگیں یوںمسجدوں میں دیا ہمارا ہی چندہ بارود کی شکل میں ہماری صفوں میں ہمارے چیتھڑے اڑانے لگا۔ اسرائیلی موساد،بھارتی را، گاندھی کی باقیات سمیت کئی غیر ملکی طاقتیں بھی اس ہجوم میں شامل ہوگئیں۔ بھارت کشمیر کے جہاد کو دہشت گردی سے جوڑنے اور پاکستان کو گوریلا وار کے ذریعے نیست و نابود کرنے کے لیے میدان میں اتر آیا۔ آج ان علاقوں کی محرومیاں ٹی ٹی پی کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں اور اب جب ہر گلی ،بازار، مزارات ،مسجدوں میں خون آلود چیتھڑے ہواؤں کی نذر ہونے لگے ہیں تو ہم سجدوں میں گڑا گڑا کر خدا سے دعائیں مانگنے اور کہنے لگے ؎
لوٹ آتی ہے میری شب بھر کی عبادت خالی
ہم کئی سالوں تک ان قبائلی علاقوں کو علاقہ غیر کہتے رہے ۔اس بات کا سہارا ہماری حکومتوں نے بھی لیا اور کبھی اندھیروں میں ڈوبے قبائل کو علم کی روشنی عطا نہ کی۔ہم ان علاقوں سے معدنیات لیتے رہے مگر ہم نے پاکستان کی دو فیصد آبادی پر مشتمل ان علاقوں پر قومی ٹیکسوں کا ایک فیصد بھی نہ لگایا۔جس طرح لوڈشیڈنگ سے مستثنی ہمارے حکمرانوں کے محلوں میں رہنے والوں کو یہ معلوم نہیں کہ رات بھر لائٹ نہ آنے پر گرمی میں غریب کا بچہ بلبلاتا کیسا لگتا ہے۔اسی طرح ہمیں بھی معلوم نہیں کہ جنھوں نے کبھی علم اور بنیادی سہولتوں کے سورج کی ایک کرن بھی نہ دیکھی ہو ان کی راتیں کیسے کٹتی ہیں اور ان کے غم کیا ہوتے ہیں؟ ایک گونج میرے کانوں میں یہ کہتی ہے کہ یہ قصہ آج کا نہیں ہے ،یہ صدیوں پرانی بات ہے جب آج کے دور کہ یہ خود کش بمبار ہم سے اپنی محرومیوں کا رونا رویا کرتے تھے اور چیخ چیخ کر کہا کرتے تھے۔
تو سورج ہے تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ
تو کسی روز اتر میرے گھر میں شام کے بعد