بچوں کے لیے محض آنسو نہ بہائیں
بچوں کی محبت میں آنسو نہ بہائیں بلکہ ان کو اچھا ماحول دینے کے لیے، بچپن سے خوشیاں سمیٹنے کے لیے انھیں مواقع دی
جب ایک معروف ادیب سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ بچوں کے لیے کیوں نہیں لکھتے تو ان کا جواب تھا کہ بچوں کے لیے لکھنا آسان نہیں ہے، اسی لیے ہمارے ہاں بچوں سے متعلق ادب میں بہت کم ذخیرہ نظر آتا ہے۔ بے شک آج ''بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے'' مگر افسوس ناک صورت حال ہے کہ ان کے مسائل پر بھی بہت کم ہی آواز بلند کی جاتی ہے۔ چند روز قبل نواب شاہ میں ڈمپر نے ایک اسکول وین کو روند ڈالا، جس میں 24 بچے جاں بحق اور کثیر تعداد میں زخمی ہوگئے۔ اس سانحے کی خبر سن کر ہر ایک کی آنکھ اشکبار تھی۔ خبر کی تفصیلات جاننا بھی نرم دل لوگوں کے لیے کسی طوفان سے کم نہ تھا۔
اس سانحے کے بعد پھر روایتی طریقے کے تحت بچوں کو اسکول لانے لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ کے مسائل پر انگلیاں اٹھنے لگیں کہ کس طرح بچوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ویگنوں اور اسکول بسوں میں جانے والے بچے انتہائی خطرناک طریقے سے سفر کرتے ہیں اور گرمی کے موسم میں تو ان بچوں کا حال ناقابل بیان ہوجاتا ہے لیکن کبھی ہم نے بچوں کے دیگر مسائل پر بھی توجہ دی ہے؟
آج سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح حکومت تعلیمی اداروں پر توجہ نہیں دیتی ویسے ہی والدین بھی بچوں پر توجہ نہیں دیتے۔ مشاہدے کے مطابق عموماً والدین بچے کے لیے اسکول، وین اور ٹیوشن کا بندوبست کرکے سمجھتے ہیں کہ انھوں نے بچوں کے تمام حقوق ادا کردیے۔ سوال یہ ہے کہ حادثے کے بعد ہی ہم سب کی آنکھیں کیوں کھلتی ہیں؟ کیا ہمیں نظر نہیں آتا کہ روزانہ بچے اسکول وین میں کس طرح ٹھونس کر سوار کیے جاتے ہیں؟ ڈرائیور حضرات کس بے پرواہی سے اندھا دھند تیزی کے ساتھ بچوں کی وین بھگاتے ہیں۔ صبح و شام چھوٹے موٹے کتنے حادثات ہوتے ہیں؟ پھر ان ویگنوں میں گیس سلینڈر کا معیار کیا ہے؟
اسکول وین کے بعد اسکول کا جائزہ لیجیے، مڈل کلاس یا عوام کے اکثریتی علاقوں میں پرائیویٹ اسکولوں کی حالت زار بھی بچوں پر مزید ظلم ڈھاتی ہے، اکثر اسکولوں میں پنکھے بھی ضرورت کے مطابق نہیں ہوتے جب کہ بھاری بھاری فیسوں والے اسکول بھی بجلی جانے پر متبادل انتظام نہیں رکھتے۔ کچھ اسکول جنریٹر دکھاوے کے لیے رکھتے ہیں کہ جب بجلی نہ آئے تب بھی بند رہتے ہیں اور اسکول کے بچے تیز گرمی میں پسینے میں شرابور اندھیرے کمروں میں پڑھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم میں سے کتنے والدین اسکول کی عمارت اور سہولیات کو جانچتے ہیں یا بچوں سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ اسکول میں کیا کچھ ہو رہا ہے؟
60، 80 اور 120 گز کے اسکولوں میں تو بجلی کی موجودگی میں بھی روشنی اور ہوا کی کمی بلکہ حبس کا ماحول ہوتا ہے، حالانکہ بچوں کے لیے نصاب کے علاوہ غیر نصابی سرگرمیاں خصوصاً جسمانی مشقوں کے لیے سرگرمیاں انتہائی اہم ہوتی ہیں جو صحت کے لیے بھی ضروری ہیں مگر ہمارے اسکول کے بچوں کی اکثریت اس سے بھی محروم ہے۔ کیا والدین کو اس کی خبر ہے؟
اگر والدین کو بچوں کے اسکول کے ماحول اور کیمپس کے بارے میں علم ہے کہ وہاں کشادہ کمرے نہیں ہیں اور کھیلنے کے لیے میدان بھی نہیں ہیں تو کیا وہ اپنے بچوں کو گھر میں یا گھر کے باہر کھیلنے کودنے کے لیے مواقع و ماحول فراہم کرتے ہیں؟ یہ ہماری لوکل گورنمنٹ کی ایک بہت بڑی ناکامی ہے کہ انھوں نے بچوں کے کھیلنے کے لیے میدان فراہم نہیں کیے بلکہ ایک دہائی قبل کراچی جیسے شہر میں جہاں بڑے بڑے کھلے میدان ہوا کرتے تھے نہ جانے کیوں عمارتیں، فلیٹس تعمیر کردیے گئے ہیں، محلوں کے پارکس میں بھی گیٹ لگا کر اور کمرشل جھولوں کی اجازت دے کر بچوں کے کھیلنے کودنے کے مواقع تقریباً ختم کردیے گئے ہیں، اب اگر بچوں کا دل چاہے تو وہ سڑک پر گیند بلا لے کر آجاتے ہیں جس سے ان کی جانوں کو بھی خطرہ ہوتا ہے۔
ذرا غور کیجیے، اسکولوں میں کھیلنے کے لیے میدان نہیں، گھر میں جگہ نہیں، گلی محلوں کے میدان پلاٹوں کی سیاست کی نذر ہوگئے۔ بچے اگر گھر کی چار دیواری میں کھیلنا چاہیں تو بھی پابندی شور نہ کرو! بچوں سے گھر میں کھیلنے والا کوئی نہیں، گھر کے مرد کمانے کے لیے صبح تا رات گھر سے باہر، لڑکے باہر ڈبو گیم پر یا دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی میں، خواتین ہانڈی چولہے یا ٹی وی میں۔۔۔۔ اب بچے کے پاس مواقع کیا؟ ٹی وی، ویڈیوگیمز یا انٹرنیٹ بچوں کی تربیت کے لیے نہ ماحول، نہ بڑوں کا ساتھ، نہ کھیل کے میدان، آخر بچے کہاں جائیں؟
تنگ و تاریک گلیوں، محلوں، گھروں وغیرہ میں حتیٰ کہ ایسے ہی ماحول کے اسکولوں میں وقت گزارنے والے بچوں میں صحت کے مسائل بڑھتے ہیں اور ان میں ہڈیوں کی بیماری عام دیکھی جاسکتی ہے۔
آئیے! تھوڑی دیر کے لیے تصور کیجیے! ہمارے بچے! بھاری بھرکم بستے اتنے کہ والدین سے بھی نہ اٹھیں، اسکول بس آئی تو یہ جانوروں کی طرح ٹھونس دیے گئے، اسکول پہنچے تو روشنی، ہوا، بجلی کے مسائل، اسکول میں کھیلنے کی جگہ نہیں، چھٹی ہوئی تو پھر اسکول بس اور چھوٹی وینوں میں ٹھونس دیے گئے، ڈرائیور اپنا وقت بچانے کے لیے انتہائی تیز اور خطرناک ڈرائیونگ کرتا ہے، سلینڈر غیر معیاری ہو تو دھماکے کا بھی خطرہ۔۔۔! گھر آئے تو کھانے کی جلدی کہ سپارہ پڑھنے جانا ہے، مدرسے سے آئے تو پھر جلدی کہ ٹیوشن پڑھنے جانا ہے، ٹیوشن سے آئے تو اور بھی تھکے ہوئے۔۔۔۔ اب کیا کریں؟ باہر کھیلنے کے مواقع نہیں، اگر موقع ملا تو بس ٹی وی، موبائل سے کھیلنے یا انٹرنیٹ وغیرہ کی تفریح جن میں صرف اور صرف آنکھوں کا استعمال ہوتا ہے، یوں صبح سے بچے کی نظروں کا استعمال مسلسل ہوتے ہوتے ٹی وی جیسے تفریحی مواقع تک پہنچ جاتا ہے، چلیں یوں بچے کی نظر بھی گئی۔۔۔۔ اب عینک بھی لگانی ہے۔
اف۔۔۔۔! کیا قیامت ہے ہمارے بچوں پر۔۔۔۔ کیا کوئی ان پہ رحم کھائے گا؟ وفاقی حکومت؟ صوبائی حکومت؟ بلدیاتی ادارے؟ والدین۔۔۔؟
آئیے محض حادثے پر بچوں کی محبت میں آنسو نہ بہائیں بلکہ ان کو اچھا ماحول دینے کے لیے، بچپن سے خوشیاں سمیٹنے کے لیے انھیں مواقع دیں اور اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
اس سانحے کے بعد پھر روایتی طریقے کے تحت بچوں کو اسکول لانے لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ کے مسائل پر انگلیاں اٹھنے لگیں کہ کس طرح بچوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ویگنوں اور اسکول بسوں میں جانے والے بچے انتہائی خطرناک طریقے سے سفر کرتے ہیں اور گرمی کے موسم میں تو ان بچوں کا حال ناقابل بیان ہوجاتا ہے لیکن کبھی ہم نے بچوں کے دیگر مسائل پر بھی توجہ دی ہے؟
آج سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح حکومت تعلیمی اداروں پر توجہ نہیں دیتی ویسے ہی والدین بھی بچوں پر توجہ نہیں دیتے۔ مشاہدے کے مطابق عموماً والدین بچے کے لیے اسکول، وین اور ٹیوشن کا بندوبست کرکے سمجھتے ہیں کہ انھوں نے بچوں کے تمام حقوق ادا کردیے۔ سوال یہ ہے کہ حادثے کے بعد ہی ہم سب کی آنکھیں کیوں کھلتی ہیں؟ کیا ہمیں نظر نہیں آتا کہ روزانہ بچے اسکول وین میں کس طرح ٹھونس کر سوار کیے جاتے ہیں؟ ڈرائیور حضرات کس بے پرواہی سے اندھا دھند تیزی کے ساتھ بچوں کی وین بھگاتے ہیں۔ صبح و شام چھوٹے موٹے کتنے حادثات ہوتے ہیں؟ پھر ان ویگنوں میں گیس سلینڈر کا معیار کیا ہے؟
اسکول وین کے بعد اسکول کا جائزہ لیجیے، مڈل کلاس یا عوام کے اکثریتی علاقوں میں پرائیویٹ اسکولوں کی حالت زار بھی بچوں پر مزید ظلم ڈھاتی ہے، اکثر اسکولوں میں پنکھے بھی ضرورت کے مطابق نہیں ہوتے جب کہ بھاری بھاری فیسوں والے اسکول بھی بجلی جانے پر متبادل انتظام نہیں رکھتے۔ کچھ اسکول جنریٹر دکھاوے کے لیے رکھتے ہیں کہ جب بجلی نہ آئے تب بھی بند رہتے ہیں اور اسکول کے بچے تیز گرمی میں پسینے میں شرابور اندھیرے کمروں میں پڑھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم میں سے کتنے والدین اسکول کی عمارت اور سہولیات کو جانچتے ہیں یا بچوں سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ اسکول میں کیا کچھ ہو رہا ہے؟
60، 80 اور 120 گز کے اسکولوں میں تو بجلی کی موجودگی میں بھی روشنی اور ہوا کی کمی بلکہ حبس کا ماحول ہوتا ہے، حالانکہ بچوں کے لیے نصاب کے علاوہ غیر نصابی سرگرمیاں خصوصاً جسمانی مشقوں کے لیے سرگرمیاں انتہائی اہم ہوتی ہیں جو صحت کے لیے بھی ضروری ہیں مگر ہمارے اسکول کے بچوں کی اکثریت اس سے بھی محروم ہے۔ کیا والدین کو اس کی خبر ہے؟
اگر والدین کو بچوں کے اسکول کے ماحول اور کیمپس کے بارے میں علم ہے کہ وہاں کشادہ کمرے نہیں ہیں اور کھیلنے کے لیے میدان بھی نہیں ہیں تو کیا وہ اپنے بچوں کو گھر میں یا گھر کے باہر کھیلنے کودنے کے لیے مواقع و ماحول فراہم کرتے ہیں؟ یہ ہماری لوکل گورنمنٹ کی ایک بہت بڑی ناکامی ہے کہ انھوں نے بچوں کے کھیلنے کے لیے میدان فراہم نہیں کیے بلکہ ایک دہائی قبل کراچی جیسے شہر میں جہاں بڑے بڑے کھلے میدان ہوا کرتے تھے نہ جانے کیوں عمارتیں، فلیٹس تعمیر کردیے گئے ہیں، محلوں کے پارکس میں بھی گیٹ لگا کر اور کمرشل جھولوں کی اجازت دے کر بچوں کے کھیلنے کودنے کے مواقع تقریباً ختم کردیے گئے ہیں، اب اگر بچوں کا دل چاہے تو وہ سڑک پر گیند بلا لے کر آجاتے ہیں جس سے ان کی جانوں کو بھی خطرہ ہوتا ہے۔
ذرا غور کیجیے، اسکولوں میں کھیلنے کے لیے میدان نہیں، گھر میں جگہ نہیں، گلی محلوں کے میدان پلاٹوں کی سیاست کی نذر ہوگئے۔ بچے اگر گھر کی چار دیواری میں کھیلنا چاہیں تو بھی پابندی شور نہ کرو! بچوں سے گھر میں کھیلنے والا کوئی نہیں، گھر کے مرد کمانے کے لیے صبح تا رات گھر سے باہر، لڑکے باہر ڈبو گیم پر یا دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی میں، خواتین ہانڈی چولہے یا ٹی وی میں۔۔۔۔ اب بچے کے پاس مواقع کیا؟ ٹی وی، ویڈیوگیمز یا انٹرنیٹ بچوں کی تربیت کے لیے نہ ماحول، نہ بڑوں کا ساتھ، نہ کھیل کے میدان، آخر بچے کہاں جائیں؟
تنگ و تاریک گلیوں، محلوں، گھروں وغیرہ میں حتیٰ کہ ایسے ہی ماحول کے اسکولوں میں وقت گزارنے والے بچوں میں صحت کے مسائل بڑھتے ہیں اور ان میں ہڈیوں کی بیماری عام دیکھی جاسکتی ہے۔
آئیے! تھوڑی دیر کے لیے تصور کیجیے! ہمارے بچے! بھاری بھرکم بستے اتنے کہ والدین سے بھی نہ اٹھیں، اسکول بس آئی تو یہ جانوروں کی طرح ٹھونس دیے گئے، اسکول پہنچے تو روشنی، ہوا، بجلی کے مسائل، اسکول میں کھیلنے کی جگہ نہیں، چھٹی ہوئی تو پھر اسکول بس اور چھوٹی وینوں میں ٹھونس دیے گئے، ڈرائیور اپنا وقت بچانے کے لیے انتہائی تیز اور خطرناک ڈرائیونگ کرتا ہے، سلینڈر غیر معیاری ہو تو دھماکے کا بھی خطرہ۔۔۔! گھر آئے تو کھانے کی جلدی کہ سپارہ پڑھنے جانا ہے، مدرسے سے آئے تو پھر جلدی کہ ٹیوشن پڑھنے جانا ہے، ٹیوشن سے آئے تو اور بھی تھکے ہوئے۔۔۔۔ اب کیا کریں؟ باہر کھیلنے کے مواقع نہیں، اگر موقع ملا تو بس ٹی وی، موبائل سے کھیلنے یا انٹرنیٹ وغیرہ کی تفریح جن میں صرف اور صرف آنکھوں کا استعمال ہوتا ہے، یوں صبح سے بچے کی نظروں کا استعمال مسلسل ہوتے ہوتے ٹی وی جیسے تفریحی مواقع تک پہنچ جاتا ہے، چلیں یوں بچے کی نظر بھی گئی۔۔۔۔ اب عینک بھی لگانی ہے۔
اف۔۔۔۔! کیا قیامت ہے ہمارے بچوں پر۔۔۔۔ کیا کوئی ان پہ رحم کھائے گا؟ وفاقی حکومت؟ صوبائی حکومت؟ بلدیاتی ادارے؟ والدین۔۔۔؟
آئیے محض حادثے پر بچوں کی محبت میں آنسو نہ بہائیں بلکہ ان کو اچھا ماحول دینے کے لیے، بچپن سے خوشیاں سمیٹنے کے لیے انھیں مواقع دیں اور اپنا اپنا کردار ادا کریں۔