کرکٹ بورڈ بھی کہیں پی او اے نہ بن جائے
کھیلوں کے معاملات عدالتوں سے دور رکھنا ہی بہتر ہوگا
KARACHI:
پی سی بی میں ان دنوں ایک بار پھر بے یقینی چھائی ہوئی ہے، وہ تمام آفیشلز جو ذکا اشرف کو ماضی کا باب سمجھ کر نجم سیٹھی کی خوشامدوں میں لگے ہوئے تھے، اب چیئرمین کی واپسی سے ان کی سٹی گم ہو چکی، بظاہر ذکا اشرف کی بحالی سے ایسا نظر آتا ہے کہ چند ماہ قبل تک معاملات جیسے چل رہے تھے وہ دور اب واپس آ جائے گا مگر حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔
معاملات ایک بار پھر عدالت تک پہنچتے دکھائی دے رہے ہیں جس کے بعد خدشہ ہے کہ کہیں کرکٹ بورڈ بھی پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن نہ بن جائے، ہمارے ملک نے اولمپکس میں گنتی کے چند میڈلز ہی بمشکل جیتے ہیں، مگر کروڑوں روپے کے بینک بیلنس کی حامل پی او اے کے آفیشلز تنازعات میں ضرور چیمپئن بن چکے، 2 گروپس کی باہمی رسہ کشی سے کھیلوں میں پاکستان کا مستقبل مزید تاریک ہو چکا ہے، ہاکی پر تو زوال کئی برس سے آیا ہوا تھا اب کرکٹ کے لیے بھی معاملات اتنے سازگار نہیں لگتے، ذکا اشرف کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے، اس کے دور حکومت میں وہ صدرمملکت کی مکمل سپورٹ سے آسانی سے برسراقتدار رہے، البتہ اس وقت پنجاب گورنمنٹ سے ان کے تعلقات خاصے کشیدہ تھے، قذافی اسٹیڈیم کی دیوار کا معاملہ تو تھانے تک پہنچ گیا، دونوں جانب سے خوب لفظی گولہ باری ہوئی، ایسے میں ذکا اشرف نے یہ تک کہہ دیا کہ ''سری لنکن ٹیم پر لاہور میں حملہ پنجاب حکومت کی وجہ سے ہوا اور وہی ملکی کرکٹ میدان ویران ہونے کی ذمہ دار ہے''۔ پاکستان میں تو عام لوگ بھی وقت آنے پر حساب برابر کر دیتے ہیں، سیاست دانوں کی انا تو ویسے بھی زیادہ ہوتی ہے۔
ن لیگ کے حکومت میں آتے ہی اچانک ذکا اشرف کے انتخابات جیت کر اقتدار کو طول دینے کا معاملہ کورٹ پہنچ گیا اور وہ برطرف بھی ہوگئے، اس وقت ایسا دکھائی دیتا تھا کہ اب وہ واپس نہیں آسکیں گے لیکن ذکا اشرف کے قریبی لوگ بخوبی جانتے تھے کہ وہ اس انداز میں عہدے سے الگ نہیں ہوں گے، انھوں نے مہنگے وکلا کی خدمات حاصل کیں اور بحال ہو کر نئی مثال قائم کر دی، اس دوران عبوری طور پر انتظامات سنبھالنے والے نجم سیٹھی بھی پی سی بی میں ملنے والے پروٹول و دیگر سہولتوں کے عادی ہو گئے، گوکہ انھوں نے اپنے ٹی وی چینل کو پاک سری لنکا سیریز کے نشریاتی حقوق دے کر حصے کا کام مکمل کر لیا مگر اتنی آسانی سے کرکٹ بورڈ کو خیرباد کہنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ سارا معاملہ ذکا اشرف نے اپنا وقار بحال کرنے کے لیے اٹھایا، وہ بحال ہو کر عہدہ چھوڑ دیں گے مگر ایسا نہ ہونے سے انھیں بازی پلٹتی محسوس ہو رہی ہے، گوکہ قانونی طور پروہ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ عدالتی فیصلے کو چیلنج کر سکیں مگر ایسا خارج از امکان نہیں کہ حکومت یا کوئی اور یہ کر گذرے، ایسے میں ایک بار پھر طویل عدالتی جنگ شروع اور پاکستانی کرکٹ مزید مسائل کا شکار ہو سکتی ہے۔
دیکھتے ہیں کہ معاملہ کس کروٹ بیٹھتا ہے لیکن جس طرح ذکا اشرف عدالتی فیصلے پر برطرف ہونے کے بعد اسی انداز سے واپس آئے انھیں کام کرنے دینے کا موقع دینا چاہیے،کم سے کم ان کے سابق دور میں کچھ تو اچھا ہوا تھا، نجم سیٹھی تو کئی ماہ بورڈ میں گذارنے کے بعد کوئی ایک کام بھی ایسا نہ کر سکے جس پر فخر کر سکیں،ان کے پاس '' ملک کی خدمت'' کے لیے کئی دیگر آپشنز بھی موجود ہیں، ممکن ہے آئندہ چند ماہ میں کسی ملک کا سفیر مقرر کر دیا جائے۔ذکا اشرف بھی اب تبدیل شدہ شخصیت نظر آتے ہیں، انھوں نے محاذ آرائی سے بچنے کی پالیسی اپناتے ہوئے حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے، اس کا کیا جواب ملتا ہے چند روز میں اندازہ ہو جائے گا۔
ذکا اشرف کو واپسی پر کئی چیلنجز کا سامنا ہے،ماضی میں انھوں نے معین خان کو کئی بار بورڈ کے ساتھ منسلک کرنا چاہا مگر نجانے کیوں سابق کپتان ہمیشہ اپنی اکیڈمی کی مصروفیات کو جواز بنا کر معذرت کرتے رہے، حیران کن طور پر نجم سیٹھی کے چیئرمین بننے کے بعد وہ چیف سلیکٹر اور پھر عدالتی فیصلے پر برطرف ہو کر ٹیم منیجر بن گئے، اب وہ کوچ بننے کے خواہاں ہیں، ذکا اشرف پہلے کوالیفائیڈ اور غیرملکی کوچ کے حامی تھے اب دیکھنا ہوگا کہ ان کی سوچ کیا ہے، انھوں نے محسن خان کو ہٹا کرڈیو واٹمور کو ذمہ داری سونپی مگر یہ تجربہ زیادہ کامیاب ثابت نہ ہو سکا، نجم سیٹھی ملکی کوچ کے تقرر کا اعلان کر چکے، اس حوالے سے محسن خان، وقار یونس اور معین کے نام زیرگردش رہے،محسن کے ذکا اشرف سے تعلقات انتہائی کشیدہ رہے ہیں، وہ چیئرمین کیخلاف بیان بازی بھی کر چکے۔
کوچنگ کے آخری دنوں میں محسن ڈریسنگ روم میں موجودگی کے باوجود کئی بار بہانہ بنا کر ان سے ملاقات کے لیے بھی نہیں آئے تھے، انھیں ذمہ داری سونپنے کا امکان تو خاصا معدوم لگتا ہے، گوکہ ان کے لیے نجم سیٹھی کے پاس خاصی سفارشیں آ رہی تھیں مگر اب وہ خود خاموش ہو کر بیٹھ جائیں گے، معین کے بارے میں یہ واضح نہیں کہ کیا وہ اب نئے سیٹ اپ میں ذمہ داری سنبھالنا چاہیں گے؟ ایسے میں وقار یونس فیورٹ نظر آتے ہیں، مگر ممکن ہے اس فہرست میں نئے نام بھی شامل ہو جائیں، اگر ذکا اشرف غیرملکی کوچ کی سابقہ پالیسی پر عمل پیرا نظر آئے تو شارٹ ٹرم بنیادوں پر کسی کا تقرر کر کے تلاش شروع کی جا سکتی ہے۔
ذکا اشرف کی واپسی سے مصباح الحق اور محمد حفیظ کے چہرے بھی خوشی سے دمک گئے ہوں گے، دونوں ان کے خاصے قریب سمجھے جاتے ہیں، گوکہ چیئرمین نے ورلڈکپ 2015 میں مصباح کی کپتانی کو یقینی قرار نہیں دیا مگر سابق تجربے کو دیکھتے ہوئے اعتماد برقرار رہنے کی ہی توقع ہے۔ پی سی بی کے لیے ایک اور اہم ٹاسک نئی سلیکشن کمیٹی یا صرف چیف سلیکٹر کا تقرر بھی ہے، اس سلسلے میں جوڑ توڑ شروع ہوچکا، محمد الیاس اور عامر سہیل کے نام سامنے آچکے، دونوں ماضی میں بھی اس حیثیت سے فرائض انجام دے چکے، البتہ انٹرنیشنل کرکٹ کے کم تجربے اور تنازعات کے سبب الیاس کو ذمہ داری نہ سونپنا ہی مناسب ہوگا، کئی اچھے سابق کرکٹرز ملک میں موجود ہیں، انھیں آزمانا چاہیے، صرف اس ڈر سے کہ کوئی کام نہ سونپا تو میڈیا میں تنقید کرے گا کسی کو نوازنا کسی صورت درست نہیں۔
گوکہ منتظمین ایشیا کپ کے شیڈول کا بھی اعلان کر چکے مگر پاکستانی شرکت کی تاحال تصدیق نہیں ہوئی ہے، ذکا اشرف ماضی میں بنگلہ دیشی بورڈ سے سخت ناراض رہ چکے، 2 بار وعدے کے مطابق ٹیم نہ بھیجنے پر انھوں نے بنگلہ دیش کی لیگز میں پاکستان کے پلیئرز کو شرکت سے روک دیا تھا، اب دیکھنا ہوگا کہ ان کا غصہ کس حد تک ٹھنڈا ہوا ہے، ویسے اگر حکومت نے کہہ دیا تو ٹیم کو ہر صورت بھیجنا ہی پڑے گا۔
پاکستانی ٹیم ان دنوں شارجہ میں سری لنکا سے سیریز کا آخری ٹیسٹ کھیل رہی ہے، مہمان سائیڈ سیریز میں سبقت لے کر مطمئن ہو گئی، اسے سیریز گنوانے کا کوئی خوف نہیں رہا، یہی وجہ ہے کہ تیسرے میچ کی پہلی اننگز تقریباً 2 روز میں مکمل کی،اس کا ایک مقصد دوسری بیٹنگ سے بچنا بھی تھا،البتہ بے جان پچ پر احمد شہزاد کے سوا دیگر پاکستانی بیٹسمین تاحال بڑی اننگز کھیلنے میں ناکام رہے ہیں، سری لنکنز پر کسی قسم کا دباؤ نہیں، وہ جانتے ہیں کہ ڈرا کی صورت میں بھی ٹرافی تھام کر گروپ فوٹو بنوانے کا موقع مل جائے گا، مگر پاکستان کو سیریز گنوانے کے خطرات لاحق ہیں، اسے بڑا اسکور کر کے حریف کو دوسری اننگز میں جلد آؤٹ کرنا ہو گا،تمام تر امیدیں مصباح الحق سے ہی وابستہ ہیں، وقت کا عنصر بھی اہمیت رکھتا ہے، اب 2 روز باقی رہ گئے، معاملہ آر یا پار والا ہوگیا، بقول حنیف محمد ''ہار 0-1 سے ہو یا 0-2 ہار ہی ہوتی ہے۔
پاکستان کو آل آؤٹ جانا چاہیے'' مگر کپتان سے ایسی توقع وابستہ کرنا شائد درست نہ ہو گا۔سیریز کے ابتدائی 2 ٹیسٹ کے لیے تیار شدہ پچز پر انھوں نے شدید تنقید کی، دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اس پورے عمل میں خود شریک رہے تھے، مصباح کو ٹیسٹ میں زیادہ تر فتوحات سعید اجمل کی مرہون منت ملیں، اس بار تاحال اسپنر کا جادو نہیں چل سکا، اسی لیے پاکستان کو سیریز میں حریف پر حاوی ہونے کا موقع نہ مل سکا، ایسے میں پچز کو موردالزام ٹھہرانا کپتان کو آسان لگا، یہ درست ہے کہ سعید سیریزمیں زیادہ وکٹیں نہ لے سکے لیکن انھیں تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیں، یہ نہ بھولیں کہ وہ ٹیم کو کئی میچز جتوا چکے، طویل عرصے بعد پاکستان کو ایسا اسپنر ملا، آؤٹ آف فارم کوئی بھی کھلاڑی ہو سکتا ہے، سعید اجمل بھی انسان ہیں ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، اس مشکل وقت میں بجائے ان کی ٹانگیں کھینچنے کے انھیں سپورٹ کرنا چاہیے، وہ اب بھی میچ ونر ہیں اور جلد اسے ثابت بھی کر دیں گے، جب تک ہم اپنے ہیروز کی قدر نہیں کرنا سیکھتے ترقی کرنا مشکل ہو گا۔
حالیہ سیریز میں پاکستانی پیسر جنید خان نے عمدہ بولنگ کی، سازگار وکٹ پر وہ حریف ٹیموں کے لیے مسائل پیدا کر سکتے ہیں البتہ راحت علی نے مایوس کیا، انجرڈ عمر گل اور محمد عرفان کی کمی شدت سے محسوس ہوئی، انجری کے سبب وطن واپس جانے والے بلاول بھٹی بھی غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل پیسر دکھائی نہ دیے، محمد طلحہ کو تیسرے میچ میں کھلایا گیا مگر پہلی اننگز میں وہ بھی ڈیڈ وکٹ پر جدوجہد کرتے رہے، عبدالرحمان کو اس مقابلے میں صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملا مگر 300 میں سے ان کی ایک ہی گیند وکٹ لینے کے قابل ثابت ہوئی،ٹیسٹ میچ جیتنا ہے تو میچ میں 20 وکٹیں لینے کے قابل بولرز ہونا ضروری ہے، موجودہ بولنگ اٹیک اس قابل نہیں ہے، صرف سعید اجمل پر انحصارکیا گیا جس کا خمیازہ بھگتنا پڑا، پاکستان کی مشکل یہ ہے کہ تیز پچز بنائیں تو اپنے بیٹسمینوں سے ہی 100 رنز بنانا مشکل ہوجاتا ہے، ایسے میں ڈیڈ وکٹیں تیار کرنا ہماری مجبوری ہے۔
ون ڈے سیریز میں تین سنچریوں کا انعام محمد حفیظ کو ٹیسٹ اسکواڈ میں شمولیت کی صورت میں ملا، ناکامی کے سبب تیسرے میچ میں انھیں ڈراپ کر دیا گیا، ایسا پاکستان میں ہی ہوتا ہے کہ کسی فارمیٹ میں اچھے کھیل کا صلہ دوسرے کے ٹیم میں شامل کر کے دیا جائے، آسٹریلیا، انگلینڈ یا جنوبی افریقہ میں ایسی کبھی نہیں ہوتا، پروٹیز بیٹسمین کوائنٹن ڈی کوک کی مثال سامنے ہے، انھوں نے ون ڈے میں کئی سنچریاں بنائیں مگر ٹیسٹ ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا، یہاں دوستی نبھانے کے لیے مصباح نے حفیظ کو سپورٹ کیا نتیجہ دوسرے ٹیسٹ میں شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا، یہ پاکستانی ٹیم ہے کوئی گلی محلے کی سائیڈ نہیں، مصباح اور حفیظ اپنی دوستی گھر پر رکھ کر آیا کریں، میدان میں ٹیم کے لیے جو بہتر ہے وہی کرنا چاہیے۔
پاکستانی اوپنر احمد شہزاد مختصر طرزکی کرکٹ میں اپنی صلاحیتیں ثابت کر چکے، اب ٹیسٹ میں وہ بالکل مختلف روپ میں نظر آئے، شارجہ میں ان کا ٹمپرامنٹ دیکھ کر محسوس ہی نہیں ہوا کہ یہ وہی جارح مزاج احمد شہزاد ہیں، البتہ سنچری کے بعد انھوں نے تیزی سے اسٹرائیک ریٹ بہتر بنایا، پوری اننگز میں واحد غلطی انھوں نے ہیراتھ کو ریورس سوئپ کی صورت میں کی جس پر ایک بار بچے مگر دوسری مرتبہ بیلز اڑ گئیں، اس سے سبق سیکھتے ہوئے وہ مستقبل میں ٹیم کے مزید کام آئیں گے۔ خرم منظور کی جب جان پر بنی تو اچھی اننگز کھیلنے میں کامیاب رہے لیکن ٹیم میں جگہ برقرار رکھنے کیلیے انہیں کارکردگی میں تسلسل لانا ہوگا۔ اسد شفیق بھی بیحد مایوس کر رہے ہیں، انھیں بھی اب گھر بھیج دینا چاہیے، مگر یہاں مسلسل ناکامیوں کے باوجود اظہر علی کو مواقع دیئے جارہے ہیں تو اسد نے تو کچھ عرصے قبل سنچری بھی بنائی تھی، کب تک ہم ایک بڑی اننگز کے بل بوتے پر پلیئرز کو متواتر مواقع دیتے رہیں گے، جس طرح ون ڈے میں صہیب مقصود کو آزمایا گیا، سلیکٹرز کو ٹیسٹ کے لیے بھی اچھے بیٹسمین تلاش کرنے چاہئیں، اسی صورت ٹیم کی زوال پذیر کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے گا۔
skhaliq.express.com.pk
پی سی بی میں ان دنوں ایک بار پھر بے یقینی چھائی ہوئی ہے، وہ تمام آفیشلز جو ذکا اشرف کو ماضی کا باب سمجھ کر نجم سیٹھی کی خوشامدوں میں لگے ہوئے تھے، اب چیئرمین کی واپسی سے ان کی سٹی گم ہو چکی، بظاہر ذکا اشرف کی بحالی سے ایسا نظر آتا ہے کہ چند ماہ قبل تک معاملات جیسے چل رہے تھے وہ دور اب واپس آ جائے گا مگر حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔
معاملات ایک بار پھر عدالت تک پہنچتے دکھائی دے رہے ہیں جس کے بعد خدشہ ہے کہ کہیں کرکٹ بورڈ بھی پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن نہ بن جائے، ہمارے ملک نے اولمپکس میں گنتی کے چند میڈلز ہی بمشکل جیتے ہیں، مگر کروڑوں روپے کے بینک بیلنس کی حامل پی او اے کے آفیشلز تنازعات میں ضرور چیمپئن بن چکے، 2 گروپس کی باہمی رسہ کشی سے کھیلوں میں پاکستان کا مستقبل مزید تاریک ہو چکا ہے، ہاکی پر تو زوال کئی برس سے آیا ہوا تھا اب کرکٹ کے لیے بھی معاملات اتنے سازگار نہیں لگتے، ذکا اشرف کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے، اس کے دور حکومت میں وہ صدرمملکت کی مکمل سپورٹ سے آسانی سے برسراقتدار رہے، البتہ اس وقت پنجاب گورنمنٹ سے ان کے تعلقات خاصے کشیدہ تھے، قذافی اسٹیڈیم کی دیوار کا معاملہ تو تھانے تک پہنچ گیا، دونوں جانب سے خوب لفظی گولہ باری ہوئی، ایسے میں ذکا اشرف نے یہ تک کہہ دیا کہ ''سری لنکن ٹیم پر لاہور میں حملہ پنجاب حکومت کی وجہ سے ہوا اور وہی ملکی کرکٹ میدان ویران ہونے کی ذمہ دار ہے''۔ پاکستان میں تو عام لوگ بھی وقت آنے پر حساب برابر کر دیتے ہیں، سیاست دانوں کی انا تو ویسے بھی زیادہ ہوتی ہے۔
ن لیگ کے حکومت میں آتے ہی اچانک ذکا اشرف کے انتخابات جیت کر اقتدار کو طول دینے کا معاملہ کورٹ پہنچ گیا اور وہ برطرف بھی ہوگئے، اس وقت ایسا دکھائی دیتا تھا کہ اب وہ واپس نہیں آسکیں گے لیکن ذکا اشرف کے قریبی لوگ بخوبی جانتے تھے کہ وہ اس انداز میں عہدے سے الگ نہیں ہوں گے، انھوں نے مہنگے وکلا کی خدمات حاصل کیں اور بحال ہو کر نئی مثال قائم کر دی، اس دوران عبوری طور پر انتظامات سنبھالنے والے نجم سیٹھی بھی پی سی بی میں ملنے والے پروٹول و دیگر سہولتوں کے عادی ہو گئے، گوکہ انھوں نے اپنے ٹی وی چینل کو پاک سری لنکا سیریز کے نشریاتی حقوق دے کر حصے کا کام مکمل کر لیا مگر اتنی آسانی سے کرکٹ بورڈ کو خیرباد کہنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ سارا معاملہ ذکا اشرف نے اپنا وقار بحال کرنے کے لیے اٹھایا، وہ بحال ہو کر عہدہ چھوڑ دیں گے مگر ایسا نہ ہونے سے انھیں بازی پلٹتی محسوس ہو رہی ہے، گوکہ قانونی طور پروہ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ عدالتی فیصلے کو چیلنج کر سکیں مگر ایسا خارج از امکان نہیں کہ حکومت یا کوئی اور یہ کر گذرے، ایسے میں ایک بار پھر طویل عدالتی جنگ شروع اور پاکستانی کرکٹ مزید مسائل کا شکار ہو سکتی ہے۔
دیکھتے ہیں کہ معاملہ کس کروٹ بیٹھتا ہے لیکن جس طرح ذکا اشرف عدالتی فیصلے پر برطرف ہونے کے بعد اسی انداز سے واپس آئے انھیں کام کرنے دینے کا موقع دینا چاہیے،کم سے کم ان کے سابق دور میں کچھ تو اچھا ہوا تھا، نجم سیٹھی تو کئی ماہ بورڈ میں گذارنے کے بعد کوئی ایک کام بھی ایسا نہ کر سکے جس پر فخر کر سکیں،ان کے پاس '' ملک کی خدمت'' کے لیے کئی دیگر آپشنز بھی موجود ہیں، ممکن ہے آئندہ چند ماہ میں کسی ملک کا سفیر مقرر کر دیا جائے۔ذکا اشرف بھی اب تبدیل شدہ شخصیت نظر آتے ہیں، انھوں نے محاذ آرائی سے بچنے کی پالیسی اپناتے ہوئے حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے، اس کا کیا جواب ملتا ہے چند روز میں اندازہ ہو جائے گا۔
ذکا اشرف کو واپسی پر کئی چیلنجز کا سامنا ہے،ماضی میں انھوں نے معین خان کو کئی بار بورڈ کے ساتھ منسلک کرنا چاہا مگر نجانے کیوں سابق کپتان ہمیشہ اپنی اکیڈمی کی مصروفیات کو جواز بنا کر معذرت کرتے رہے، حیران کن طور پر نجم سیٹھی کے چیئرمین بننے کے بعد وہ چیف سلیکٹر اور پھر عدالتی فیصلے پر برطرف ہو کر ٹیم منیجر بن گئے، اب وہ کوچ بننے کے خواہاں ہیں، ذکا اشرف پہلے کوالیفائیڈ اور غیرملکی کوچ کے حامی تھے اب دیکھنا ہوگا کہ ان کی سوچ کیا ہے، انھوں نے محسن خان کو ہٹا کرڈیو واٹمور کو ذمہ داری سونپی مگر یہ تجربہ زیادہ کامیاب ثابت نہ ہو سکا، نجم سیٹھی ملکی کوچ کے تقرر کا اعلان کر چکے، اس حوالے سے محسن خان، وقار یونس اور معین کے نام زیرگردش رہے،محسن کے ذکا اشرف سے تعلقات انتہائی کشیدہ رہے ہیں، وہ چیئرمین کیخلاف بیان بازی بھی کر چکے۔
کوچنگ کے آخری دنوں میں محسن ڈریسنگ روم میں موجودگی کے باوجود کئی بار بہانہ بنا کر ان سے ملاقات کے لیے بھی نہیں آئے تھے، انھیں ذمہ داری سونپنے کا امکان تو خاصا معدوم لگتا ہے، گوکہ ان کے لیے نجم سیٹھی کے پاس خاصی سفارشیں آ رہی تھیں مگر اب وہ خود خاموش ہو کر بیٹھ جائیں گے، معین کے بارے میں یہ واضح نہیں کہ کیا وہ اب نئے سیٹ اپ میں ذمہ داری سنبھالنا چاہیں گے؟ ایسے میں وقار یونس فیورٹ نظر آتے ہیں، مگر ممکن ہے اس فہرست میں نئے نام بھی شامل ہو جائیں، اگر ذکا اشرف غیرملکی کوچ کی سابقہ پالیسی پر عمل پیرا نظر آئے تو شارٹ ٹرم بنیادوں پر کسی کا تقرر کر کے تلاش شروع کی جا سکتی ہے۔
ذکا اشرف کی واپسی سے مصباح الحق اور محمد حفیظ کے چہرے بھی خوشی سے دمک گئے ہوں گے، دونوں ان کے خاصے قریب سمجھے جاتے ہیں، گوکہ چیئرمین نے ورلڈکپ 2015 میں مصباح کی کپتانی کو یقینی قرار نہیں دیا مگر سابق تجربے کو دیکھتے ہوئے اعتماد برقرار رہنے کی ہی توقع ہے۔ پی سی بی کے لیے ایک اور اہم ٹاسک نئی سلیکشن کمیٹی یا صرف چیف سلیکٹر کا تقرر بھی ہے، اس سلسلے میں جوڑ توڑ شروع ہوچکا، محمد الیاس اور عامر سہیل کے نام سامنے آچکے، دونوں ماضی میں بھی اس حیثیت سے فرائض انجام دے چکے، البتہ انٹرنیشنل کرکٹ کے کم تجربے اور تنازعات کے سبب الیاس کو ذمہ داری نہ سونپنا ہی مناسب ہوگا، کئی اچھے سابق کرکٹرز ملک میں موجود ہیں، انھیں آزمانا چاہیے، صرف اس ڈر سے کہ کوئی کام نہ سونپا تو میڈیا میں تنقید کرے گا کسی کو نوازنا کسی صورت درست نہیں۔
گوکہ منتظمین ایشیا کپ کے شیڈول کا بھی اعلان کر چکے مگر پاکستانی شرکت کی تاحال تصدیق نہیں ہوئی ہے، ذکا اشرف ماضی میں بنگلہ دیشی بورڈ سے سخت ناراض رہ چکے، 2 بار وعدے کے مطابق ٹیم نہ بھیجنے پر انھوں نے بنگلہ دیش کی لیگز میں پاکستان کے پلیئرز کو شرکت سے روک دیا تھا، اب دیکھنا ہوگا کہ ان کا غصہ کس حد تک ٹھنڈا ہوا ہے، ویسے اگر حکومت نے کہہ دیا تو ٹیم کو ہر صورت بھیجنا ہی پڑے گا۔
پاکستانی ٹیم ان دنوں شارجہ میں سری لنکا سے سیریز کا آخری ٹیسٹ کھیل رہی ہے، مہمان سائیڈ سیریز میں سبقت لے کر مطمئن ہو گئی، اسے سیریز گنوانے کا کوئی خوف نہیں رہا، یہی وجہ ہے کہ تیسرے میچ کی پہلی اننگز تقریباً 2 روز میں مکمل کی،اس کا ایک مقصد دوسری بیٹنگ سے بچنا بھی تھا،البتہ بے جان پچ پر احمد شہزاد کے سوا دیگر پاکستانی بیٹسمین تاحال بڑی اننگز کھیلنے میں ناکام رہے ہیں، سری لنکنز پر کسی قسم کا دباؤ نہیں، وہ جانتے ہیں کہ ڈرا کی صورت میں بھی ٹرافی تھام کر گروپ فوٹو بنوانے کا موقع مل جائے گا، مگر پاکستان کو سیریز گنوانے کے خطرات لاحق ہیں، اسے بڑا اسکور کر کے حریف کو دوسری اننگز میں جلد آؤٹ کرنا ہو گا،تمام تر امیدیں مصباح الحق سے ہی وابستہ ہیں، وقت کا عنصر بھی اہمیت رکھتا ہے، اب 2 روز باقی رہ گئے، معاملہ آر یا پار والا ہوگیا، بقول حنیف محمد ''ہار 0-1 سے ہو یا 0-2 ہار ہی ہوتی ہے۔
پاکستان کو آل آؤٹ جانا چاہیے'' مگر کپتان سے ایسی توقع وابستہ کرنا شائد درست نہ ہو گا۔سیریز کے ابتدائی 2 ٹیسٹ کے لیے تیار شدہ پچز پر انھوں نے شدید تنقید کی، دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اس پورے عمل میں خود شریک رہے تھے، مصباح کو ٹیسٹ میں زیادہ تر فتوحات سعید اجمل کی مرہون منت ملیں، اس بار تاحال اسپنر کا جادو نہیں چل سکا، اسی لیے پاکستان کو سیریز میں حریف پر حاوی ہونے کا موقع نہ مل سکا، ایسے میں پچز کو موردالزام ٹھہرانا کپتان کو آسان لگا، یہ درست ہے کہ سعید سیریزمیں زیادہ وکٹیں نہ لے سکے لیکن انھیں تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیں، یہ نہ بھولیں کہ وہ ٹیم کو کئی میچز جتوا چکے، طویل عرصے بعد پاکستان کو ایسا اسپنر ملا، آؤٹ آف فارم کوئی بھی کھلاڑی ہو سکتا ہے، سعید اجمل بھی انسان ہیں ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، اس مشکل وقت میں بجائے ان کی ٹانگیں کھینچنے کے انھیں سپورٹ کرنا چاہیے، وہ اب بھی میچ ونر ہیں اور جلد اسے ثابت بھی کر دیں گے، جب تک ہم اپنے ہیروز کی قدر نہیں کرنا سیکھتے ترقی کرنا مشکل ہو گا۔
حالیہ سیریز میں پاکستانی پیسر جنید خان نے عمدہ بولنگ کی، سازگار وکٹ پر وہ حریف ٹیموں کے لیے مسائل پیدا کر سکتے ہیں البتہ راحت علی نے مایوس کیا، انجرڈ عمر گل اور محمد عرفان کی کمی شدت سے محسوس ہوئی، انجری کے سبب وطن واپس جانے والے بلاول بھٹی بھی غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل پیسر دکھائی نہ دیے، محمد طلحہ کو تیسرے میچ میں کھلایا گیا مگر پہلی اننگز میں وہ بھی ڈیڈ وکٹ پر جدوجہد کرتے رہے، عبدالرحمان کو اس مقابلے میں صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملا مگر 300 میں سے ان کی ایک ہی گیند وکٹ لینے کے قابل ثابت ہوئی،ٹیسٹ میچ جیتنا ہے تو میچ میں 20 وکٹیں لینے کے قابل بولرز ہونا ضروری ہے، موجودہ بولنگ اٹیک اس قابل نہیں ہے، صرف سعید اجمل پر انحصارکیا گیا جس کا خمیازہ بھگتنا پڑا، پاکستان کی مشکل یہ ہے کہ تیز پچز بنائیں تو اپنے بیٹسمینوں سے ہی 100 رنز بنانا مشکل ہوجاتا ہے، ایسے میں ڈیڈ وکٹیں تیار کرنا ہماری مجبوری ہے۔
ون ڈے سیریز میں تین سنچریوں کا انعام محمد حفیظ کو ٹیسٹ اسکواڈ میں شمولیت کی صورت میں ملا، ناکامی کے سبب تیسرے میچ میں انھیں ڈراپ کر دیا گیا، ایسا پاکستان میں ہی ہوتا ہے کہ کسی فارمیٹ میں اچھے کھیل کا صلہ دوسرے کے ٹیم میں شامل کر کے دیا جائے، آسٹریلیا، انگلینڈ یا جنوبی افریقہ میں ایسی کبھی نہیں ہوتا، پروٹیز بیٹسمین کوائنٹن ڈی کوک کی مثال سامنے ہے، انھوں نے ون ڈے میں کئی سنچریاں بنائیں مگر ٹیسٹ ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا، یہاں دوستی نبھانے کے لیے مصباح نے حفیظ کو سپورٹ کیا نتیجہ دوسرے ٹیسٹ میں شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا، یہ پاکستانی ٹیم ہے کوئی گلی محلے کی سائیڈ نہیں، مصباح اور حفیظ اپنی دوستی گھر پر رکھ کر آیا کریں، میدان میں ٹیم کے لیے جو بہتر ہے وہی کرنا چاہیے۔
پاکستانی اوپنر احمد شہزاد مختصر طرزکی کرکٹ میں اپنی صلاحیتیں ثابت کر چکے، اب ٹیسٹ میں وہ بالکل مختلف روپ میں نظر آئے، شارجہ میں ان کا ٹمپرامنٹ دیکھ کر محسوس ہی نہیں ہوا کہ یہ وہی جارح مزاج احمد شہزاد ہیں، البتہ سنچری کے بعد انھوں نے تیزی سے اسٹرائیک ریٹ بہتر بنایا، پوری اننگز میں واحد غلطی انھوں نے ہیراتھ کو ریورس سوئپ کی صورت میں کی جس پر ایک بار بچے مگر دوسری مرتبہ بیلز اڑ گئیں، اس سے سبق سیکھتے ہوئے وہ مستقبل میں ٹیم کے مزید کام آئیں گے۔ خرم منظور کی جب جان پر بنی تو اچھی اننگز کھیلنے میں کامیاب رہے لیکن ٹیم میں جگہ برقرار رکھنے کیلیے انہیں کارکردگی میں تسلسل لانا ہوگا۔ اسد شفیق بھی بیحد مایوس کر رہے ہیں، انھیں بھی اب گھر بھیج دینا چاہیے، مگر یہاں مسلسل ناکامیوں کے باوجود اظہر علی کو مواقع دیئے جارہے ہیں تو اسد نے تو کچھ عرصے قبل سنچری بھی بنائی تھی، کب تک ہم ایک بڑی اننگز کے بل بوتے پر پلیئرز کو متواتر مواقع دیتے رہیں گے، جس طرح ون ڈے میں صہیب مقصود کو آزمایا گیا، سلیکٹرز کو ٹیسٹ کے لیے بھی اچھے بیٹسمین تلاش کرنے چاہئیں، اسی صورت ٹیم کی زوال پذیر کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے گا۔
skhaliq.express.com.pk