بے قصور ملالہ

آج اگر ملالہ غیروں میں رہ کر، ان کے کلچر سے متاثر ہوکر، ایسی بات کرتی ہے تو اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہمارا قصور ہے

ملالہ اس قوم کی بیٹی تھی، مگر ہم نے اپنی بیٹی کی حفاظت نہیں کی۔ (فوٹو: فائل)

گاڑی دبئی روانگی کےلیے تیار تھی، اتنے میں میرا ساتھی ایڈون بنڈو دوڑتا ہوا گاڑی میں داخل ہوا۔ ''تم کہاں جارہے ہو؟'' میں نے اس کے حلیے پر نظر ڈالتے ہوئے پوچھا۔

''میں اپنی محبوبہ سے ملنے العین جارہا ہوں''۔ (العین دبئی سے دو گھنٹے کی مسافت پر ایک پرفضا اور خوبصورت ریاست ہے)

'''مگر اس حلیے میں؟'' مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے اس کے نیکر اور شرٹ کو دیکھ کر سوال کر ڈالا۔ میری حیرت کو بھانپتے ہوئے وہ مسکرایا اور بولا ''یہ ہمار کلچر ہے۔''

''ٹھیک ہے بھائی، دراصل ہم ٹیوب ویل میں نہاتے ہوئے یہ لباس پہنتے ہیں۔'' میں نے قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا۔

آج سے کم وبیش 9 سال پرانا یہ واقعہ مجھے ملالہ کے حالیہ انٹرویو میں ایک متنازع حصے پر ہونے والی تنقید پر یاد آگیا۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہم تنقید کرتے ہوئے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ملالہ اس قوم کی بیٹی تھی، مگر ہم نے اپنی بیٹی کی حفاظت نہیں کی۔ غیروں نے اسے پناہ دی، تحفظ دیا، عزت دی، مالی تحفظ دیا اور وہ سب کچھ اسے اور اس کے خاندان کو مہیا کیا جو مملکت خداداد پاکستان کو مہیا کرنا چاہیے تھا، مگر ہم نہ کرسکے۔ آج اگر وہ غیروں میں رہ کر، ان کے کلچر سے متاثر ہوکر، ایسی کوئی بات کرتی ہے تو اس میں اس کا کوئی قصور نہیں بلکہ ہمارا قصور ہے۔ ہمیں خود پر تنقید کرنی چاہیے، ہمیں اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے۔ اس طرح کی چیزیں ہمارے تربیتی نظام، ہماری روایات، ہماری اقدار کی کمزوری پر سوالیہ نشان ہیں۔


غور طلب امر یہ ہے کہ کیا کبھی کسی گورے نے ہمارے ملک میں رہ کر، ہماری اقدار سے متاثر ہوکر ایسی بات کی ہوکہ نکاح میں ہی اصل زندگی ہے۔ اسے تو چھوڑیے، کبھی کسی نے یہ کہا ہو کہ جناب کرتا شلوار کیا شاندار لباس ہے، یہ آپ کے جسم کو وہ تحفظ دیتا ہے جو کوئی اور لباس مہیا نہیں کرتا۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہم ایک متاثر کرنے والی نہیں، متاثر ہونے والی قوم ہیں۔ ہم دینے والا ہاتھ نہیں (جسے اللہ نے پسند کیا ہے) لینے والا ہاتھ ہیں۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ ہم جیسے ہی ان کے ملک میں جاتے ہیں تو ہم ان کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ ملالہ نے تو صرف ایک بیان دیا ہے (کچھ ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ ان کے والد کا یہ دعویٰ ہے کہ ملالہ کا انٹرویو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے، یعنی انہوں نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا) ہماری کتنی ہی اداکارائیں بیرون ملک جاکر ''روم میں ایسے کرو جیسے رومی کرتے ہیں'' کی عملی تصویر بن جاتی ہیں۔ اور بہتی گنگا میں نہ صرف ہاتھ دھوتی ہیں بلکہ بعض تو غسل تک کرلیتی ہیں۔ اور بعدازاں رمضان ٹرانسمیشن کے ذریعے دنیا اور آخرت کما رہی ہوتی ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ آئندہ ایسے واقعات نہ ہوں تو ہمیں اپنے تربیتی نظام کو مضبوط کرنا ہوگا، اور ایسا اسی وقت ہی ممکن ہے جب آج کی ماں موبائل چھوڑ کر شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی والدہ محترمہ کی طرح تربیت کی ذمے داری ادا کرے۔ والیٔ ریاست اگر اس قابل نہیں کہ خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ یا پانچویں خلیفہ عمر بن عبدالعزیزؒ کی پیروی کرے تو کم ازکم سائیکل والے کافر مگر اسلامی اقدار کی پیروی کرتے وزیراعظم کی پیروی کرلے۔

اور آخر میں علما اور عوام سے چند گزارشات:

اجتماعات، بالخصوص جمعہ کے اجتماعات میں روایتی موضوعات پر گفتگو کرنے کے بجائے تربیت، نکاح کی اہمیت، جلد اور سادگی سے شادی، زنا کے نقصانات، جنسی ہراسانی جیسے موضوعات پر بار بار اور تفصیل سے گفتگو کی جائے، تاکہ ہمارے اجتماعی شعور میں اضافہ ہوسکے۔

عوام جو ہر ایسے واقعے پر بلبلا اٹھتے ہیں، جنہیں ہر ایسی بات پر محسوس ہوتا ہے کہ شاید اسلام خطرے میں ہے، انہیں بھی خود کی اصلاح کرنی ہوگی۔ اپنے کردار، قول و فعل کی درستی کرنی ہوگی۔ وگرنہ صرف سوشل، پرنٹ، الیکٹرانک میڈیا پر تنقید کرنے سے اسلام کا بول بالا اور ایسے واقعات کا تدارک ممکن نہ ہوسکے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story