آسٹریلین اوپن ٹینس ٹورنامنٹ
سخت گرمی میں کھلاڑیوں کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا
آسٹریلین اوپن ٹینس ٹورنامنٹ کا آغاز 1905ء میں ہوا، ذرائع آمد و رفت زیادہ نہ ہونے کی وجہ دیگر قوموں کے کھلاڑی مشکل سے ہی کینگروز کے دیس آنے میں کامیاب ہوتے، اسی لئے 15 سال تک مقامی پلیئرز کے حکمرانی برقرار رہی، وقت گزرنے کے ساتھ سفری سہولیات میں اضافہ اور رابطے آسان ہوئے تو آسٹریلین اوپن کو سیزن کے پہلے گرینڈ سلم ایونٹ کے طور پر پہچان حاصل ہوئی۔
ابتدا میں سڈنی، برسبین اور نیوزی لینڈ کو بھی مقابلوں کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہوا تھا تاہم اب میلبورن اس میگا ایونٹ کا مستقل مسکن بن چکا۔ یوایس اوپن کے بعد یہاں شائقین کی سب سے زیادہ تعداد سنسنی خیز مقابلوں کا لطف اٹھاتی ہے تو دوسری طرف کروڑوں ٹی وی ناظرین کھلاڑیوں کی ایک ایک ادا پر وارے نیارے جاتے ہیں۔ ٹورنامنٹ کا آغاز بھی دیگر گرینڈ سلم سے مختلف انداز میں ہوتا ہے، ٹینس سٹارز چڑیا گھر کی سیر کرتے ہوئے عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں، تصاویر دنیا بھر کے اخبارات کی زینت بنتی ہیں، آسٹریلوی ثقافت کا بھرپور اظہار کرنے والے میلبورن میں سیاحوں کی گہری دلچسپی مقابلوں کے دوران ایک میلے کا سماں پیدا کردیتی ہے، مقامی لوگ میزبانی کو قابل فخر قرار دیتے ہوئے مہمانوں کی خوب آؤ بھگت کرتے ہیں، ہوٹل خصوصی پیکج فراہم کرکے ملکی اور غیر ملکی شائقین کے دل جیتنے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔
برسوں سے جاری ایونٹ میں کئی ستارے ٹینس کے افق پر ابھرے اور آب وتاب دکھا کر غروب ہوگئے، تاہم سورج کی تمازت اور موسم کی شدت کے بارے میں بحث بھی ساتھ ساتھ چلتی رہی، جنوری میں یہ خطہ سخت گرم ہواؤں کی زد میں ہوتا ہے، دنیا کے دیگر میدانوں پر اپنی دھاک بٹھانے والے کئی نامور کھلاڑی یہاں گرمی کے سبب کمزور حریفوں کے سامنے ہمت ہارتے نظر آتے ہیں، امریکی سپر سٹار سیرینا ولیمز نے گرچہ یہاں ریکارڈ 5 بار ٹائٹل اپنے نام کیا ہے لیکن گزشتہ سال نو آموز ہم وطن سلونی سٹیفنز نے انہیں گھر کا راستہ دکھا دیا تھا، متعدد عالمی فتوحات کے باوجود انہیں 2010 کے بعد سے میلبورن میں ٹرافی اٹھانے کا موقع نہیں مل سکا۔
اس بار کچھ زیادہ ہی سخت گرم موسم کے باوجود مقابلے کروانے پر منتظمین کو آڑے ہاتھوں لیا گیا لیکن عالمی ٹینس فیڈریشن اور مقامی حکام کے کان پر جوں تک نہ رینگی،انہوں نے 1998 میں متعارف کروائی جانے والی ''ایکسٹریم ہیٹ پالیسی'' کو ڈھال بناتے ہوئے کہا کہ ریفری حالات قابو سے باہر ہوتے دیکھیں تو مقابلوں میں وقفہ یا التوا کے فیصلے کرنے میں با اختیار ہیں۔
دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ آفیشلز کو طویل ریلیز اور گھنٹوں پر محیط میچ کھیلنا نہیں بلکہ دیکھنا ہوتے ہیں، انہیں چلچلاتی دھوپ میں پسینے سے شرابور کھلاڑیوں کی حالت کا اندازہ اسی وقت ہوتا ہے جب وہ نڈھال ہوکر گرنے والے ہوتے ہیں۔ اب تک کئی ناخوشگوار واقعات ایونٹ کے حسن کو گہنا چکے ہیں۔
کینیڈا سے تعلق رکھنے والے پلیئر فرینک ڈینسیوک پہلے راؤنڈ کے میچ میں گرمی کی وجہ سے بے ہوش ہوگئے تھے، ان کا فرنچ حریف بینوا پیئر سے میچ کورٹ نمبر 6 پر شیڈول تھا جس پر چھت موجود نہیں، طبی امداد لینے کے بعد 29 سالہ کھلاڑی نے کہا ''جب تک کوئی مر نہیں جاتا یہ لوگ اتنی دھوپ میں میچ کھلواتے رہیں گے، یہ عمل ''غیرانسانی'' اور کسی کے لیے بھی مناسب نہیں''۔
تین بار آسٹریلین اوپن کا فائنل ہارنے والے برطانوی سٹار اینڈی مرے بھی پیچھے نہ رہے، انہوں نے کہا کہ اس قسم کے واقعات ٹورنامنٹ کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہیں، اگر لوگ بے ہوش ہوتے رہے تو یہ ٹینس کے لیے اچھا نہیں ہو گا، مسلسل 3 سے 4 گھنٹے گرمی برداشت کرنا مشکل ہے، وکٹوریا آذرنیکا نے گرم موسم میں کھیلنے کو 'توے پر ناچنے' کے مترادف قرار دیا۔ ڈینسیوک کے میچ کے دوران ایک بال بوائے بھی بے ہوش ہوا جس کے بعد گیند اٹھانے والے لڑکے اور لڑکیوں کی شفٹ بھی ایک گھنٹے سے کم کر کے 45 منٹ کر دی گئی۔
اگلے روز درجہ حرارت 43 تک پہنچ گیا، منتظمین کو ایمرجنسی پلان پر عملدرآمد کرتے ہوئے 4 گھنٹوں تک کھیل معطل رکھنا پڑا جس پر پلیئرز تلملا اٹھے، خاص طور پر روسی سٹار شراپووا شدید پریشانی کا شکار ہوئیں، انہوں نے اطالوی حریف کیرن کنیپ پر بڑی مشکل سے فتح پائی، کیرولین ووزینسکی بھی امریکی ان سیڈڈ پلیئر کرسٹینا پر غلبہ پانے سے قبل پسینے میں نہا گئیں، امریکا کی سلونی سٹیفنز اور قازقستان کی زرینہ دیاس مضبوط اعصاب کی بدولت تیسرے راؤنڈ میں جگہ بنانے میں کامیاب رہیں۔
مینز سنگلز میں راجر فیڈرر نے موسم کا مقابلہ کرتے ہوئے سلواکیہ کے بلاز کاوکک کو زیر کیا، سخت جان رافیل نڈال نے میزبان تھناسی کوکناکس کو ایونٹ سے باہر کیا،جو ولفریڈ سونگا، سٹیفن روبر، گیل مونفیلز اور گریگور ڈیمٹروف نے بھی تیسرے راؤنڈ میں قدم رکھے۔ اگلے روز گرمی کی شدت میں قدرے کمی سے کھلاڑیوں کے حوصلے بڑھ گئے، تیسرے راؤنڈ کے میچز میں سرب پلیئر ایوانووک نے آسٹریلوی سمانتھا سٹوسر کو شکست دی، چینی پلیئر ژینگ ژی کو میزبان وائلڈ کارڈ پلیئر کیسی ڈیلوکا نے قابو کیا، ٹائٹل فیورٹ سرینا ولیمز نے نے ڈینیلا ہنچووا کو زیر کرتے ہوئے آسٹریلین اوپن میں 61ویں فتح حاصل کے ساتھ نیا ریکارڈ قائم کردیا، ایوگینے بوچارڈ، لینا، ایکٹرینا ماکارووا، اینجلیک کیربر اور فلاویا پنیٹا نے بھی پیش قدمی جاری رکھی۔
مینز سنگلز مقابلوں میں دفاعی چیمپئن سرب نووک جوکووک نے ڈینس ستومن پر غلبہ پالیا، ڈیوڈ فیرر، ٹوماس بریڈیچ،ٹومی روبریڈو، فابیو فوگنینی بھی فاتح رہے، سٹینسلس واورنیکا کو واک اوور مل گیا۔ ان سطور کے تحریر کیے جانے تک ایونٹ میں کوئی بڑا اپ سیٹ دیکھنے میں نہیں آیا، نووک جوکووک اور آذرینکا ٹائٹل فتوحات کی ہیٹ ٹرک کے لیے پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں، تاہم سخت موسم کسی کی مہم بھی کمزور بناسکتا ہے۔
abbas.raza@express.com.pk
ابتدا میں سڈنی، برسبین اور نیوزی لینڈ کو بھی مقابلوں کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہوا تھا تاہم اب میلبورن اس میگا ایونٹ کا مستقل مسکن بن چکا۔ یوایس اوپن کے بعد یہاں شائقین کی سب سے زیادہ تعداد سنسنی خیز مقابلوں کا لطف اٹھاتی ہے تو دوسری طرف کروڑوں ٹی وی ناظرین کھلاڑیوں کی ایک ایک ادا پر وارے نیارے جاتے ہیں۔ ٹورنامنٹ کا آغاز بھی دیگر گرینڈ سلم سے مختلف انداز میں ہوتا ہے، ٹینس سٹارز چڑیا گھر کی سیر کرتے ہوئے عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں، تصاویر دنیا بھر کے اخبارات کی زینت بنتی ہیں، آسٹریلوی ثقافت کا بھرپور اظہار کرنے والے میلبورن میں سیاحوں کی گہری دلچسپی مقابلوں کے دوران ایک میلے کا سماں پیدا کردیتی ہے، مقامی لوگ میزبانی کو قابل فخر قرار دیتے ہوئے مہمانوں کی خوب آؤ بھگت کرتے ہیں، ہوٹل خصوصی پیکج فراہم کرکے ملکی اور غیر ملکی شائقین کے دل جیتنے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔
برسوں سے جاری ایونٹ میں کئی ستارے ٹینس کے افق پر ابھرے اور آب وتاب دکھا کر غروب ہوگئے، تاہم سورج کی تمازت اور موسم کی شدت کے بارے میں بحث بھی ساتھ ساتھ چلتی رہی، جنوری میں یہ خطہ سخت گرم ہواؤں کی زد میں ہوتا ہے، دنیا کے دیگر میدانوں پر اپنی دھاک بٹھانے والے کئی نامور کھلاڑی یہاں گرمی کے سبب کمزور حریفوں کے سامنے ہمت ہارتے نظر آتے ہیں، امریکی سپر سٹار سیرینا ولیمز نے گرچہ یہاں ریکارڈ 5 بار ٹائٹل اپنے نام کیا ہے لیکن گزشتہ سال نو آموز ہم وطن سلونی سٹیفنز نے انہیں گھر کا راستہ دکھا دیا تھا، متعدد عالمی فتوحات کے باوجود انہیں 2010 کے بعد سے میلبورن میں ٹرافی اٹھانے کا موقع نہیں مل سکا۔
اس بار کچھ زیادہ ہی سخت گرم موسم کے باوجود مقابلے کروانے پر منتظمین کو آڑے ہاتھوں لیا گیا لیکن عالمی ٹینس فیڈریشن اور مقامی حکام کے کان پر جوں تک نہ رینگی،انہوں نے 1998 میں متعارف کروائی جانے والی ''ایکسٹریم ہیٹ پالیسی'' کو ڈھال بناتے ہوئے کہا کہ ریفری حالات قابو سے باہر ہوتے دیکھیں تو مقابلوں میں وقفہ یا التوا کے فیصلے کرنے میں با اختیار ہیں۔
دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ آفیشلز کو طویل ریلیز اور گھنٹوں پر محیط میچ کھیلنا نہیں بلکہ دیکھنا ہوتے ہیں، انہیں چلچلاتی دھوپ میں پسینے سے شرابور کھلاڑیوں کی حالت کا اندازہ اسی وقت ہوتا ہے جب وہ نڈھال ہوکر گرنے والے ہوتے ہیں۔ اب تک کئی ناخوشگوار واقعات ایونٹ کے حسن کو گہنا چکے ہیں۔
کینیڈا سے تعلق رکھنے والے پلیئر فرینک ڈینسیوک پہلے راؤنڈ کے میچ میں گرمی کی وجہ سے بے ہوش ہوگئے تھے، ان کا فرنچ حریف بینوا پیئر سے میچ کورٹ نمبر 6 پر شیڈول تھا جس پر چھت موجود نہیں، طبی امداد لینے کے بعد 29 سالہ کھلاڑی نے کہا ''جب تک کوئی مر نہیں جاتا یہ لوگ اتنی دھوپ میں میچ کھلواتے رہیں گے، یہ عمل ''غیرانسانی'' اور کسی کے لیے بھی مناسب نہیں''۔
تین بار آسٹریلین اوپن کا فائنل ہارنے والے برطانوی سٹار اینڈی مرے بھی پیچھے نہ رہے، انہوں نے کہا کہ اس قسم کے واقعات ٹورنامنٹ کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہیں، اگر لوگ بے ہوش ہوتے رہے تو یہ ٹینس کے لیے اچھا نہیں ہو گا، مسلسل 3 سے 4 گھنٹے گرمی برداشت کرنا مشکل ہے، وکٹوریا آذرنیکا نے گرم موسم میں کھیلنے کو 'توے پر ناچنے' کے مترادف قرار دیا۔ ڈینسیوک کے میچ کے دوران ایک بال بوائے بھی بے ہوش ہوا جس کے بعد گیند اٹھانے والے لڑکے اور لڑکیوں کی شفٹ بھی ایک گھنٹے سے کم کر کے 45 منٹ کر دی گئی۔
اگلے روز درجہ حرارت 43 تک پہنچ گیا، منتظمین کو ایمرجنسی پلان پر عملدرآمد کرتے ہوئے 4 گھنٹوں تک کھیل معطل رکھنا پڑا جس پر پلیئرز تلملا اٹھے، خاص طور پر روسی سٹار شراپووا شدید پریشانی کا شکار ہوئیں، انہوں نے اطالوی حریف کیرن کنیپ پر بڑی مشکل سے فتح پائی، کیرولین ووزینسکی بھی امریکی ان سیڈڈ پلیئر کرسٹینا پر غلبہ پانے سے قبل پسینے میں نہا گئیں، امریکا کی سلونی سٹیفنز اور قازقستان کی زرینہ دیاس مضبوط اعصاب کی بدولت تیسرے راؤنڈ میں جگہ بنانے میں کامیاب رہیں۔
مینز سنگلز میں راجر فیڈرر نے موسم کا مقابلہ کرتے ہوئے سلواکیہ کے بلاز کاوکک کو زیر کیا، سخت جان رافیل نڈال نے میزبان تھناسی کوکناکس کو ایونٹ سے باہر کیا،جو ولفریڈ سونگا، سٹیفن روبر، گیل مونفیلز اور گریگور ڈیمٹروف نے بھی تیسرے راؤنڈ میں قدم رکھے۔ اگلے روز گرمی کی شدت میں قدرے کمی سے کھلاڑیوں کے حوصلے بڑھ گئے، تیسرے راؤنڈ کے میچز میں سرب پلیئر ایوانووک نے آسٹریلوی سمانتھا سٹوسر کو شکست دی، چینی پلیئر ژینگ ژی کو میزبان وائلڈ کارڈ پلیئر کیسی ڈیلوکا نے قابو کیا، ٹائٹل فیورٹ سرینا ولیمز نے نے ڈینیلا ہنچووا کو زیر کرتے ہوئے آسٹریلین اوپن میں 61ویں فتح حاصل کے ساتھ نیا ریکارڈ قائم کردیا، ایوگینے بوچارڈ، لینا، ایکٹرینا ماکارووا، اینجلیک کیربر اور فلاویا پنیٹا نے بھی پیش قدمی جاری رکھی۔
مینز سنگلز مقابلوں میں دفاعی چیمپئن سرب نووک جوکووک نے ڈینس ستومن پر غلبہ پالیا، ڈیوڈ فیرر، ٹوماس بریڈیچ،ٹومی روبریڈو، فابیو فوگنینی بھی فاتح رہے، سٹینسلس واورنیکا کو واک اوور مل گیا۔ ان سطور کے تحریر کیے جانے تک ایونٹ میں کوئی بڑا اپ سیٹ دیکھنے میں نہیں آیا، نووک جوکووک اور آذرینکا ٹائٹل فتوحات کی ہیٹ ٹرک کے لیے پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں، تاہم سخت موسم کسی کی مہم بھی کمزور بناسکتا ہے۔
abbas.raza@express.com.pk