معرکہ سیف القدس فاتح کون رہا
فلسطینی مزاحمت حساب لینے کے لیے آمادہ ہے اور صہیونی دشمن کے مقابلہ کے لیے تیار ہے۔
سرزمین فلسطین پر غاصب صہیونیوں کے مقابلہ میں دفاع القدس کے لیے ہونیوالے معرکہ کو فلسطینی مزاحمت نے ''سیف القدس'' یعنی ''القدس کی تلوار'' نامی معرکہ کا عنوان دیا تھا۔
یہ معرکہ گیارہ دن جاری رہنے کے بعد اسرائیلی دبائو کے باعث امریکا اور دوسری یورپی قوتوں کے ایما پر مصری حکومت کی ثالثی کے بعد جنگ بندی کے ساتھ اختتام پذیر ہو گیا۔ اس عنوان سے پاکستان میں متعدد ابحاث جاری ہیں۔
ایک گروہ کا کہنا ہے کہ اس جنگ کی شروعات کرنے میں فلسطینیوں کی مزاحمتی و سیاسی جماعت حماس کی غلطی ہے جب کہ ایک گروہ یہ بھی کہتا ہوا پایا گیا ہے کہ کہ فلسطینیوں کو اس معرکہ میں کیا حاصل ہوا؟ یہ ابحاث سوشل میڈیا پر جاری ہیں۔ اگر چہ دونوں طرح کے بحث کرنیوالوں کے پاس اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی بھی ٹھوس قسم کا ثبوت یا دلیل موجود ہی نہیں ہے۔
یہ بات قابل غور ہے اور ذہن نشین ہونی چاہیے کہ اسرائیل صہیونیوں کی ایک ایسی ناجائز ریاست ہے جو فلسطینیوں کی سرزمین پر غاصبانہ طریقہ سے قائم کی گئی ہے ۔اس کے قیام میں برطانیہ اور امریکا سمیت یورپی قوتوں کی ملی بھگت شامل تھی۔ اس ناجائز ریاست کے قیام سے ہی فلسطینیوں کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے وطن سے جبری طور پر نکال دینا، فلسطینیوں کا قتل عام کرنا، فلسطینی خواتین اور بچوں کو جیل میں قید کرنا، نوجوانوں کو تعلیمی سرگرمیوں سے دور رکھنا، گھروں کی مسماری کرنا، مساجد اور مقدس مقامات پر حملے کرنا، قبلہ اول اور بیت المقدس کی توہین کرنا، مسیحی اور مسلمان فلسطینیوں کو ان کے مذہبی عقائد سے محروم رکھنا سمیت فلسطین کے علاقہ غزہ پٹی کا پندرہ سال سے صہیونی محاصرہ جاری رکھنا یہ سب کچھ اور اس سے زیادہ بہت کچھ سب کا سب غاصب صہیونیوں کی ناجائز اور جعلی ریاست اسرائیل کے ایک سو سالہ کارناموں کی تاریخ میں رقم ہے۔
حماس جو کہ فلسطین کی ایک سیاسی و مزاحمتی جماعت ہے اور غزہ میں بھرپور قوت اور قدرت رکھتی ہے۔ ان سب حالات کو قریب سے مانیٹر کر رہی تھی۔ مقامی سیاسی اور مزاحمتی جماعت ہونے کی حیثیت سے یہ حماس کی ذمے داری تھی کہ وہ اسرائیل کی جانب سے شروع کی جانیوالی جارحیت کے مقابلہ میں فلسطینی قوم کا دفاع کرے اور صہیونی دشمن کو منہ توڑ جواب دے۔
مقبوضہ فلسطین میں حالیہ گیارہ روز جنگ بھی اسرائیل کی جانب سے کچھ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے شروع کی گئی تھی جن میں پہلا ہدف شیخ جراح نامی علاقہ کو مکمل طور پر فلسطینیوں سے خالی کروانا اور وہاں پر صہیونیوں کی آباد کاری کو عمل میں لانا۔ اسی طرح دوسرا بڑا مقصد یہ تھا کہ مقبوضہ بیت المقدس کے باقی ماندہ علاقہ کو مکمل طور پر اسرائیلی تسلط میں لینا۔
تیسرا ہم ترین مقصد اسرائیل چاہتا تھا کہ مسجد اقصیٰ اور القدس کا مکمل کنٹرول صہیونیوں کو حاصل ہو جائے اور قدس شریف یہودی سازی کا عمل مکمل ہو سکے۔ ان تمام مقاصد کے ساتھ ایک بڑا ہدف یہ بھی تھا کہ حماس کے ٹھکانوں کو بمباری کا نشانہ بنا کر حماس کی اعلیٰ قیادت کو قتل کرنے کے ساتھ ساتھ حماس کو مکمل طور پر مفلوج کر دے۔
واضح رہے کہ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اسرائیل نے ماضی میں بھی مسلسل تواتر کے ساتھ سنہ2007سے 2019 تک چار جنگیں مسلط کی ہیں لیکن ہمیشہ ناکامی ہی اسرائیل کا مقدر بنی ہے۔اب آتے ہیں اس گیارہ روز جنگ میں اسرائیل کو حاصل ہونیوالے اہداف کی طرف۔ درج بالا سطور میں بیان کیے گئے چند ایک بنیادی اہداف میں سے گیارہ دن کے بعد جنگ بندی کے موقع پر اسرائیل کی غاصب حکومت یہ کہنے کے قابل نہیں ہے کہ انھوں نے کوئی ایک ہدف بھی حاصل کیا ہے۔
اب اگر بین الاقوامی تعلقات اور جنگوں کے مطالعہ کے علوم کیمطابق بات کی جائے تو اہداف کا حاصل نہ ہونا شکست کھانے کے مترادف ہوتا ہے۔ یعنی اسرائیل بے پناہ ٹیکنالوجی اور جنگی جنون کے باوجود گیارہ دن کے معرکہ سیف القدس میں فلسطینی مزاحمت کاروں یعنی حماس اور جہاد اسلامی کے ہاتھوں شکست کھا گیا ہے۔ اسرائیل کی شکست اور ذلت کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ اسرائیل کو امریکا سے جنگ بندی کروانے کے لیے درخواست کرنا پڑی۔ اسی طرح ایک بھی ہدف کا حاصل نہ ہونا اسرائیل کی رسوائی کے لیے ٹھوس دلیل ہے۔
آئیے اب خود صہیونیوں کی زبانی مشاہدہ کرتے ہیں کہ وہ اس گیارہ روزہ جنگ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ صہیونیوں کی غاصب ریاست اسرائیل کا سابق وزیر دفاع جو کہ خود ایک شدت پسند صہیونی ہے اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ گیارہ روز جنگ میں اسرائیل کو اہداف حاصل نہیں ہو سکے۔ اس نے واضح طور پر 27مئی کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ حماس ایک مرتبہ پھر اسرائیل کو شکست دینے میں کامیاب ہوئی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ فلسطین کی مزاحمت نے تاریخ کے چہرے پر مزاحمت کا ایک نیا باب رقم کیا ہے اور دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ فلسطینی مزاحمت اسرائیل کے مقابلہ میں خاموش نہیں رہے گی۔ وہ زمانہ چلا گیا کہ جب اسرائیل عرب ممالک کی زمینوں پر قبضہ کرتا تھا، مارتا تھا، قتل و غارت کرتا تھا اور چلا جاتا تھا بلکہ اب اسرائیل کو اس کے جرائم کا پورا پورا حساب جنگ کے میدان میں ہی دینا پڑے گا۔
فلسطینی مزاحمت حساب لینے کے لیے آمادہ ہے اور صہیونی دشمن کے مقابلہ کے لیے تیار ہے۔ یہاں ان تمام افراد کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ تجزیہ یا تبصرہ کرتے وقت فلسطین کی اسلامی مزاحمت کی عظیم الشان جد و جہد کو سبوتاژ نہ کریں کیونکہ فلسطینی مزاحمت نے صرف فلسطین اور مقبوضہ بیت المقدس کا دفاع نہیں کیا بلکہ اسرائیل کے ساتھ معرکہ میں القدس کی تلوار نے پوری مسلم امہ اور انسانیت کا دفاع کیا ہے۔
ہمارا فریضہ بنتا ہے کہ ہم فلسطین اور اس کی مزاحمت اور بے مثال جدوجہد کے خلاف جھوٹ پر مبنی پراپیگنڈا کی سرکوبی کریں اور مظلوم فلسطینیوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے اخلاقی سطح پر ان کی حمایت کر کے حوصلوں کو بلند کریں۔ معرکہ سیف القدس نے فیصلہ کر دیا ہے کہ فاتح کون ہے اور شکست کس کو ہوئی ہے۔ اس جنگ نے فلسطینیوں کو قدس شریف کی آزادی کے مزید قریب کر دیا ہے۔ اسرائیل کے زوال میں ایک اور کیل ٹھونک دی گئی ہے۔
یہ معرکہ گیارہ دن جاری رہنے کے بعد اسرائیلی دبائو کے باعث امریکا اور دوسری یورپی قوتوں کے ایما پر مصری حکومت کی ثالثی کے بعد جنگ بندی کے ساتھ اختتام پذیر ہو گیا۔ اس عنوان سے پاکستان میں متعدد ابحاث جاری ہیں۔
ایک گروہ کا کہنا ہے کہ اس جنگ کی شروعات کرنے میں فلسطینیوں کی مزاحمتی و سیاسی جماعت حماس کی غلطی ہے جب کہ ایک گروہ یہ بھی کہتا ہوا پایا گیا ہے کہ کہ فلسطینیوں کو اس معرکہ میں کیا حاصل ہوا؟ یہ ابحاث سوشل میڈیا پر جاری ہیں۔ اگر چہ دونوں طرح کے بحث کرنیوالوں کے پاس اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی بھی ٹھوس قسم کا ثبوت یا دلیل موجود ہی نہیں ہے۔
یہ بات قابل غور ہے اور ذہن نشین ہونی چاہیے کہ اسرائیل صہیونیوں کی ایک ایسی ناجائز ریاست ہے جو فلسطینیوں کی سرزمین پر غاصبانہ طریقہ سے قائم کی گئی ہے ۔اس کے قیام میں برطانیہ اور امریکا سمیت یورپی قوتوں کی ملی بھگت شامل تھی۔ اس ناجائز ریاست کے قیام سے ہی فلسطینیوں کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے وطن سے جبری طور پر نکال دینا، فلسطینیوں کا قتل عام کرنا، فلسطینی خواتین اور بچوں کو جیل میں قید کرنا، نوجوانوں کو تعلیمی سرگرمیوں سے دور رکھنا، گھروں کی مسماری کرنا، مساجد اور مقدس مقامات پر حملے کرنا، قبلہ اول اور بیت المقدس کی توہین کرنا، مسیحی اور مسلمان فلسطینیوں کو ان کے مذہبی عقائد سے محروم رکھنا سمیت فلسطین کے علاقہ غزہ پٹی کا پندرہ سال سے صہیونی محاصرہ جاری رکھنا یہ سب کچھ اور اس سے زیادہ بہت کچھ سب کا سب غاصب صہیونیوں کی ناجائز اور جعلی ریاست اسرائیل کے ایک سو سالہ کارناموں کی تاریخ میں رقم ہے۔
حماس جو کہ فلسطین کی ایک سیاسی و مزاحمتی جماعت ہے اور غزہ میں بھرپور قوت اور قدرت رکھتی ہے۔ ان سب حالات کو قریب سے مانیٹر کر رہی تھی۔ مقامی سیاسی اور مزاحمتی جماعت ہونے کی حیثیت سے یہ حماس کی ذمے داری تھی کہ وہ اسرائیل کی جانب سے شروع کی جانیوالی جارحیت کے مقابلہ میں فلسطینی قوم کا دفاع کرے اور صہیونی دشمن کو منہ توڑ جواب دے۔
مقبوضہ فلسطین میں حالیہ گیارہ روز جنگ بھی اسرائیل کی جانب سے کچھ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے شروع کی گئی تھی جن میں پہلا ہدف شیخ جراح نامی علاقہ کو مکمل طور پر فلسطینیوں سے خالی کروانا اور وہاں پر صہیونیوں کی آباد کاری کو عمل میں لانا۔ اسی طرح دوسرا بڑا مقصد یہ تھا کہ مقبوضہ بیت المقدس کے باقی ماندہ علاقہ کو مکمل طور پر اسرائیلی تسلط میں لینا۔
تیسرا ہم ترین مقصد اسرائیل چاہتا تھا کہ مسجد اقصیٰ اور القدس کا مکمل کنٹرول صہیونیوں کو حاصل ہو جائے اور قدس شریف یہودی سازی کا عمل مکمل ہو سکے۔ ان تمام مقاصد کے ساتھ ایک بڑا ہدف یہ بھی تھا کہ حماس کے ٹھکانوں کو بمباری کا نشانہ بنا کر حماس کی اعلیٰ قیادت کو قتل کرنے کے ساتھ ساتھ حماس کو مکمل طور پر مفلوج کر دے۔
واضح رہے کہ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اسرائیل نے ماضی میں بھی مسلسل تواتر کے ساتھ سنہ2007سے 2019 تک چار جنگیں مسلط کی ہیں لیکن ہمیشہ ناکامی ہی اسرائیل کا مقدر بنی ہے۔اب آتے ہیں اس گیارہ روز جنگ میں اسرائیل کو حاصل ہونیوالے اہداف کی طرف۔ درج بالا سطور میں بیان کیے گئے چند ایک بنیادی اہداف میں سے گیارہ دن کے بعد جنگ بندی کے موقع پر اسرائیل کی غاصب حکومت یہ کہنے کے قابل نہیں ہے کہ انھوں نے کوئی ایک ہدف بھی حاصل کیا ہے۔
اب اگر بین الاقوامی تعلقات اور جنگوں کے مطالعہ کے علوم کیمطابق بات کی جائے تو اہداف کا حاصل نہ ہونا شکست کھانے کے مترادف ہوتا ہے۔ یعنی اسرائیل بے پناہ ٹیکنالوجی اور جنگی جنون کے باوجود گیارہ دن کے معرکہ سیف القدس میں فلسطینی مزاحمت کاروں یعنی حماس اور جہاد اسلامی کے ہاتھوں شکست کھا گیا ہے۔ اسرائیل کی شکست اور ذلت کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ اسرائیل کو امریکا سے جنگ بندی کروانے کے لیے درخواست کرنا پڑی۔ اسی طرح ایک بھی ہدف کا حاصل نہ ہونا اسرائیل کی رسوائی کے لیے ٹھوس دلیل ہے۔
آئیے اب خود صہیونیوں کی زبانی مشاہدہ کرتے ہیں کہ وہ اس گیارہ روزہ جنگ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ صہیونیوں کی غاصب ریاست اسرائیل کا سابق وزیر دفاع جو کہ خود ایک شدت پسند صہیونی ہے اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ گیارہ روز جنگ میں اسرائیل کو اہداف حاصل نہیں ہو سکے۔ اس نے واضح طور پر 27مئی کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ حماس ایک مرتبہ پھر اسرائیل کو شکست دینے میں کامیاب ہوئی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ فلسطین کی مزاحمت نے تاریخ کے چہرے پر مزاحمت کا ایک نیا باب رقم کیا ہے اور دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ فلسطینی مزاحمت اسرائیل کے مقابلہ میں خاموش نہیں رہے گی۔ وہ زمانہ چلا گیا کہ جب اسرائیل عرب ممالک کی زمینوں پر قبضہ کرتا تھا، مارتا تھا، قتل و غارت کرتا تھا اور چلا جاتا تھا بلکہ اب اسرائیل کو اس کے جرائم کا پورا پورا حساب جنگ کے میدان میں ہی دینا پڑے گا۔
فلسطینی مزاحمت حساب لینے کے لیے آمادہ ہے اور صہیونی دشمن کے مقابلہ کے لیے تیار ہے۔ یہاں ان تمام افراد کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ تجزیہ یا تبصرہ کرتے وقت فلسطین کی اسلامی مزاحمت کی عظیم الشان جد و جہد کو سبوتاژ نہ کریں کیونکہ فلسطینی مزاحمت نے صرف فلسطین اور مقبوضہ بیت المقدس کا دفاع نہیں کیا بلکہ اسرائیل کے ساتھ معرکہ میں القدس کی تلوار نے پوری مسلم امہ اور انسانیت کا دفاع کیا ہے۔
ہمارا فریضہ بنتا ہے کہ ہم فلسطین اور اس کی مزاحمت اور بے مثال جدوجہد کے خلاف جھوٹ پر مبنی پراپیگنڈا کی سرکوبی کریں اور مظلوم فلسطینیوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے اخلاقی سطح پر ان کی حمایت کر کے حوصلوں کو بلند کریں۔ معرکہ سیف القدس نے فیصلہ کر دیا ہے کہ فاتح کون ہے اور شکست کس کو ہوئی ہے۔ اس جنگ نے فلسطینیوں کو قدس شریف کی آزادی کے مزید قریب کر دیا ہے۔ اسرائیل کے زوال میں ایک اور کیل ٹھونک دی گئی ہے۔