داستان

تہذیب و ثقافت، واقعات انسانوں میں پنہاں ہیں داستان کی اہمیت کو کسی بھی زمانے میں کم نہیں کہا جاسکتا۔

آج کے علاوہ زمانہ قدیم میں بھی انسان نے تفریح و طبع کے لیے وقت نکالا، تفریح سے وقتی سکون حاصل ہوتا ہے۔ مشکل و تکالیف کو بھول کر ذرا دیر کے لیے وہ ایسی دنیا میں پہنچ جاتا ہے جہاں پر اسے سکون میسر ہوتا ہے۔ انسان نے جب شعور کی دنیا میں قدم رکھا تو لاشعوری طور پر جو تفریح کا عنصر داخل ہوا وہ قصہ، داستان، داستان گوئی، کہانی کہنے سنانے کا فعل داخل ہوا۔

انسان کی فطرت ہے کہ خود کو بڑا ثابت کرنا، خود کے لیے تعریف کروانا، دوسروں سے امید کرنا کہ وہ اس کی تعریف کریں۔ داستان کے لیے بہت بڑی وجہ یہ بھی رہی کہ انسان اپنے آپ کو جو دوسری تہذیب یا اس کی اپنی تہذیب کا رہن سہن، کھانے پینے، پہننے اوڑھنے کا معاشرتی انداز اسے محفوظ رکھنے کا یہ بڑا ذریعہ بڑا وسیلہ بن گیا۔ داستان کے ساتھ بہت سے قصے، حکایت، کتھا، اسی طرح سے افسانہ یہ تمام الفاظ متبادل کے طور پر بولے جاتے رہے۔ یعنی ایک دوسرے کے موافقت اور مخالفت میں بولے جا رہے ہیں۔

لیکن ان تمام الفاظوں کے ساتھ وسیع تر مفہوم میں باریکیاں ہیں۔ الگ الگ معنی و عکس میں قصہ کیا، حکایت کیا، داستان کیا، فسانہ کیا، کتھا کیا ہے۔ قصہ دراصل واقعات کا اس طرح بیان ہوتا ہے کہ اس میں حقیقت کی جھلکیاں اپنے طور پر نظر آتی ہیں۔ قصہ واقعے کو اس انداز میں بیان کرتا ہے، اس میں حقیقت کی دنیا ہر حالت میں آجاتی ہے جس میں حقیقت کی جھلکیاں اپنے آپ آجاتی ہیں۔

اس کا مقصد اطلاع فراہم کرنا بلکہ اس کے ساتھ تفریح کا عنصر بھی۔ حکایات واقعات کو اپنے انداز میں بیان کرنا جس کا کوئی اخلاقی نتیجہ نکلتا ہو یہ ہے حکایت کی تعریف۔ اسی طرح سے فسانہ اس کا مقصد من گھڑت خیال خیالی باتوں کو پیش کرنا کتھا ماخوذ ہے نسل درنسل سینہ میں دفن اپنے خاندان کے بارے میں تفصیل۔ کہانی کوئی بھی بات کہی جائے خواہ وہ سچ ہو یا جھوٹ کہانی جو زبان سے ادا کی جائے زبانی ادا کی جانے والی چیز کہانی ہے۔

داستان میں دو چیزیں نظر آتی ہیں کہ پہلے کیا وجود میں آیا مثال کے طور پر کہانی قصہ حکایت پہلے آئی یا پھر داستان۔ پہلے کہانی آئی۔ یعنی زبان سے کوئی بات ادا کی۔ کہانی میں مبالغہ سے کام لیا ، کوئی واقعہ بیان کرتے وقت اس میں نمک مسالہ لگا دیا گیا۔ یہ قصہ میں داخل ہوتی ہے۔ کہانی کی جو حد ہے وہ یہ ہے کہ انسان کوئی سچ یا جھوٹ بات بیان کرتا ہے۔ سرحد وہاں سے شروع ہوتی ہے جب اپنے تخیر کو استعمال کیا جاتا ہے۔

اختراجی ذہن کو استعمال کیا جاتا ہے اور اس میں اضافے کے ساتھ اس کو بیان کیا جاتا ہے۔ لیکن قصہ کی حد وہاں ختم ہو جاتی ہے جب متکلم اپنی بات ختم کرتا ہے۔ داستان وہاں سے شروع ہوتی ہے بلا کسی آمیزش کہ اس تحیر کے ساتھ اپنی جولانی شروع کردیتا ہے اور اسی تخیر کی جولانی کی کافی داستانیں ہیں۔

ایک وقت تھا جب فراغت بہت زیادہ تھی لوگوں کے پاس اتنا وقت تھا کہ تفریح کے لیے جو وسائل اختیار کیے تھے وہ انسان کو اپنے وسیلے کے طور پر اسے استعمال کیا گیا۔ دوسری بات یہ کہ داستانوں کے موضوعات پر اگر بات کریں شروع سے اس کے موضوعات نظر آئیں گے خواہ ''دکن'' کا زمانہ ہو یا ''لکھنو، دہلی'' میں لکھی گئی داستانیں یا ''فورٹ ولیم کالج کلکتہ'' میں لکھی گئی داستانیں ہوں۔ ان تمام کے موضوعات مختلف ہیں۔


ہم مذہبی اخلاقی انداز میں جو داستانیں لکھی گئیں۔ ہم مذہبی داستانوں میں ''امیر حمزہ'' اور شکستہ انداز اس قسم کی داستانیں جو حاصل ہیں اسی طرح سے بہت سے ''سب رس'' کی جو کہانیاں ایک بڑا سلسلہ ہے جس میں موضوعات داستانوں کا ایک سلسلہ بنتا ہے۔

فسانہ عجائب، باغ و بہار، میرا امن دہلوی، حیدر بخش حیدری کی داستانیں یہ سب فورٹ ولیم کالج کلکتہ سے وابستہ ہیں۔ اس سے پہلے ملا وجہی نے داستانیں لکھیں مختلف موضوعات پر داستانیں تحریر کی گئیں۔ ان تمام کا مقصد تفریح فراہم کرنا انسان کی مشکل و پریشانی دور کرنا۔ داستانوں کے ماخذ کیا ہیں۔ کوئی واقعہ بیان کردیں تو کیا یہ داستان کا ماخوذ اس ضمن میں تعریف کی، میں اگر یہ کہوں کہ ''راجہ مر گیا اور رانی مر گئی'' تو یہ ایک سادہ سا بیان ہوگا۔

اس کے برعکس اس بات کو اس طرح کہا جائے کہ ''راجہ مر گیا اور اس کے غم میں رانی بھی مر گئی'' تو یہ بات داستان کا ماخوذ ہے۔ماخوذ کے لیے یہ بات ضرور ہے کہ جو بیان کیا گیا ہے اس کے اندر ایک دلیل اور علم ہونا چاہیے جب وہ داستان کا صحیح ماخوذ کہلائے گا۔ کچھ داستانوں میں ماخوذ واقعات سجے ہوں، ماخوذ تین طرح کے ہیں۔

1۔ باقیات۔2۔موضوعات جو برائے نام ہوں یعنی داستان کے قصے اتنے اہم ہیں کہ انھیں کسی پلاٹ کی ضرورت نہیں، ایسی داستانوں میں ''الف لیلیٰ'' ، ''داستان امیر حمزہ''، ''طلسم ہوش ربا'' شامل ہیں۔

3۔ جن میں مکمل واقعات تو ہیں لیکن اس میں کہانی جو اپنے کسی ضمن کے بغیر اپنالیں جیسے آرائش محفل، باغ و بہار، قصہ چہار درویش، معاشرت و تہذیب ملتی ہیں۔ داستان نگاری مختلف ہے، صنف اول پر عبدالحکیم شرر۔ رضیم، بزم، حسن و عشق، عیاری نگاری۔ عبدالحکیم شرر نے چار اصناف داستان نگاری کے لیے کہیں۔ خواجہ معین دہلوی نے کہا داستان میں طوالت ہونی چاہیے اس میں تکرار نہ ہو۔ داستان گو کا ذہن صاف ہو وہ نئی نئی باتیں پیش کرے۔ وہ کانوں پر بوجھ نہ بنے جو کام کی بات ہو۔ داستان افسانوںکیانداز سے مختلف ہو اس پر افسانہ کا تاثر نہ ہو۔ دبستان، بوستان، آرائش محفل، طلسم ہوش ربا، امیر حمزہ، ہماری اردو کتب میں جو پرانی داستانیں موجود ہیں وہی مثال ہیں آج تک ان کا بدل نہیں۔

پہلا دور ''سب رس'' ملا وجہی 1635 ''قصہ مہر و ما'' 1675، دوسرا دور 1800 میر امن دہلوی، فورٹ ولیم کالج کلکتہ ''فسانہ عجائب'' رجب علی بیگ سرور یہ کتاب لکھنو میں لکھی گئی اور ''باغ و بہار'' آسان اردو میں لکھی گئی۔ اندر اور باہر جو اس دور میں کتب تصنیف ہوئیں ان میں فورٹ ولیم کالج کا دخل ہے تیسرا دور بوستان خیال، امیر حمزہ، الف لیلیٰ یا طلسم ہوشربا یہ اپنے آپ کو بڑی کہانی کے روپ میں دھار لیتی ہیں۔ شمال و مغرب میں داستانیں نہیں لکھی گئیں۔

تہذیب و ثقافت، واقعات انسانوں میں پنہاں ہیں داستان کی اہمیت کو کسی بھی زمانے میں کم نہیں کہا جاسکتا مشہور داستانوں میں فسانہ عجائب، دبستان خیال، سب رس، طوطا مینا کہانی، طلسم ہوش ربا۔ یہ زندگی و معاشرت کی پوری تصویر ہیں۔ یہاں میں اس امر کو دہراتے ہوئے کہوں گا ناول سے اس کا تقابل نہیں کیا جاسکتا۔

داستان واقعات کا مجموعہ ہے کہانی کے اندر کہانی قصے کے اندر قصہ۔ مرزا فرحت اللہ بیگ نے کیا خوب تخیل پیش کیا۔ جب تک ہم پڑھیں گے نہیں تو ہم اپنے آپ کو اس دور کے بارے میں نہیں جان سکتے۔ ہمیں اپنا خلا بھی دور کرنا ہوگا کہیں نہ کہیں آج سے اس دور میں پہنچ جائیں گے جب وہ داستانیں تحریر ہوئیں۔
Load Next Story