لاہورمیں حکومتی اقدامات سے فضائی آلودگی میں نمایاں کمی
لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں 22 ویں نمبر ہے
میاواکی جنگلات لگانے ،اینٹوں کے بھٹوں کی زگ زیگ پرمنتقلی اورفصلوں کوباقیات کوآگ لگانے پرپابندی سےفضائی آلودگی میں نمایاں کمی آئی ہے، ایئر کوالٹی انڈیکس اینی شیٹو کی رپورٹ کے مطابق لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں 22 ویں نمبر ہے، ہفتے کے روز لاہور میں مجموعی طور پر ایئر کوالٹی انڈیکس 78 ریکارڈ کیا گیا ہے، لاہور میں سب سے زیادہ فضائی آلودگی امریکن اسکول کے قریبی علاقہ میں 121 پی ایم دواعشاریہ پانچ ریکارڈ کی گئی ہے تاہم ماہر ماحولیات کاکہنا ہے فضائی الودگی کی شرح میں کمی درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے ہے۔
ایئر کوالٹی انڈیکس کے تحت فضا میں موجود باریک ذرات یعنی "پارٹیکیولیٹ میٹر" (پی ایم) کی پیمائش کی جاتی ہے اور جسے 0 سے 500 کے درمیان یعنی کم از کم آلودہ سے لے کر زیادہ سے زیادہ آلودہ تک کے درمیان ترتیب دیا جاتا ہے۔پاکستان میں گزشتہ چندبرسوں میں فضائی آلودگی پرقابوپانے کے لئے کئی اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن میں موجودہ حکومت کی طرف سے 10 بلین ٹری پراجیکٹ قابل ذکرہے۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہورمیں پی ایچ اے نے شہرکے مختلف حصوں میں 51 میاواکی جنگلات لگائے ہیں جواب بڑھ رہے ہیں۔ان میاواکی جنگلات کی وجہ سے بھی لاہورمیں فضائی آلودگی میں بہتری آئی ہے۔ پی ایچ اے کے ڈائریکٹرجنرل جواداحمدقریشی کہتے ہیں ہم نے ایک سال میں 51 میاواکی جنگلات لگانے کا ہدف پوراکیاہے اب مزید 30 میاواکی جنگلات لگائے جائیں گے جس سے لاہورکی آب وہوا میں مزید بہتری آئے گی۔ جلوپارک سمیت لاہور کینال کے ساتھ جو میاواکی جنگلات لگائے گئے ہیں آنے والے مون سون سیزن میں تیزی سے بڑھیں گے۔
محکمہ ماحولیات پنجاب کے ڈائریکٹرنسیم الرحمن نے بتایا لاہورسمیت پنجاب میں آلودگی کم ہوئی ہے اس کی ایک بڑی وجہ کورونالاک ڈاؤن کے دوران ٹرانسپورٹ،فیکٹریوں ،کارخانوں کی محدودبندش یاپھران کےچلنے کے اوقات کارمیں کمی ہے۔شہریوں کی آمدورفت کم ہونے سے ٹرانسپورٹ میں کمی آئی جبکہ دوسری طرف پنجاب میں اینٹوں کے تمام بھٹوں کوزگ زیگ پرمنتقل کردیاگیا ہے۔اسی طرح گندم کی فصلوں کی باقیات کوآگ لگانے کے واقعات بھی ماضی کی نسبت بہت کم رپورٹ ہوئے ہیں۔
ایئرکوالٹی انڈکس اینیشیٹو کے اعداد و شمارکے مطابق پانچ جون کو اسلام آبادآباد میں ایئرکوالٹی انڈکس 152، راولپنڈی میں 120، بہاولپورمیں 119، ساہیوال میں 105، فیصل آبادمیں 97،لاہور میں 78، جبکہ رائیونڈ میں 72 ریکارڈکیاگیا۔ اگرصرف لاہورکی بات کی جائے تو یہاں فضائی آلودگی کی جانچ کے لئے سرکاری اورغیرسرکاری سطح پرمختلف علاقوں میں سینسرز لگائے گئے ہیں۔ لاہورمیں امریکن سکول کے قریب 121، لمزڈی ایچ اے کے قریب 104، کوٹ لکھپت میں 90، یوایس قونصلیٹ میں 78، ماڈل ٹاؤن میں 70، ایف سی کالج میں 67 ریکارڈ کیا گیا ہے تاہم ایئر کوالٹی انڈیکس کی پیش گوئی کے مطابق آنے والے دنوں میں لاہور میں فضائی آلودگی بڑھ سکتی ہے ، اتوار 6 جون کو ایئرکوالٹی کی شرح 130، پیر7جون کو 121 اور منگل کویہ شرح 109 تک پہنچنے کاامکان ہے۔
ماہرماحولیات علیم بٹ کہتے ہیں اس وقت فضائی آلودگی کی شرح کم ظاہرہونے کی وجہ سے درجہ حرارت ہے، درجہ حرارت میں جس قدراضافہ ہوگاہوامیں موجود مختلف مالیکیولز کا باہمی فاصلہ بڑھ جاتا ہے جبکہ سردیوں میں ایک دوسرے کے قریب آجاتے ہیں جس سے ہوابھاری ہوتی ہے اوراس میں آلودگی کی شرح زیادہ ریکارڈہوتی ہے، گرمیوں میں ہوا ہلکی ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اس میں آلودگی کی شرح کم ظاہرہوتی ہے ۔ وہ نہیں سمجھتے کہ حکومت نے ابھی تو کوئی ایسا بڑا قدام اٹھایا ہو جس سے ہوا میں موجود خطرناک عناصر کی شرح مستقل طور پر کم ہوسکے۔
علیم بٹ کہتے ہیں عام طور پر اکتوبرسے فروری تک ہوا میں آلودگی کی شرح بڑھ جاتی ہے جبکہ باقی دنوں میں یہ کم ہوتی ہے، آلودگی بڑھنے کی بڑی وجوہات میں فصلوں کی باقیات کوجلانا، گاڑیوں ،فیکٹریوں اورکارخانوں کا زہریلااورکاربن والادھواں، اینٹوں کے بھٹوں سے نکلنے والا دھواں اور تعمیراتی کاموں کے دوران اڑنے والی گردوغبارشامل ہے۔
ایئر کوالٹی انڈیکس کے تحت فضا میں موجود باریک ذرات یعنی "پارٹیکیولیٹ میٹر" (پی ایم) کی پیمائش کی جاتی ہے اور جسے 0 سے 500 کے درمیان یعنی کم از کم آلودہ سے لے کر زیادہ سے زیادہ آلودہ تک کے درمیان ترتیب دیا جاتا ہے۔پاکستان میں گزشتہ چندبرسوں میں فضائی آلودگی پرقابوپانے کے لئے کئی اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن میں موجودہ حکومت کی طرف سے 10 بلین ٹری پراجیکٹ قابل ذکرہے۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہورمیں پی ایچ اے نے شہرکے مختلف حصوں میں 51 میاواکی جنگلات لگائے ہیں جواب بڑھ رہے ہیں۔ان میاواکی جنگلات کی وجہ سے بھی لاہورمیں فضائی آلودگی میں بہتری آئی ہے۔ پی ایچ اے کے ڈائریکٹرجنرل جواداحمدقریشی کہتے ہیں ہم نے ایک سال میں 51 میاواکی جنگلات لگانے کا ہدف پوراکیاہے اب مزید 30 میاواکی جنگلات لگائے جائیں گے جس سے لاہورکی آب وہوا میں مزید بہتری آئے گی۔ جلوپارک سمیت لاہور کینال کے ساتھ جو میاواکی جنگلات لگائے گئے ہیں آنے والے مون سون سیزن میں تیزی سے بڑھیں گے۔
محکمہ ماحولیات پنجاب کے ڈائریکٹرنسیم الرحمن نے بتایا لاہورسمیت پنجاب میں آلودگی کم ہوئی ہے اس کی ایک بڑی وجہ کورونالاک ڈاؤن کے دوران ٹرانسپورٹ،فیکٹریوں ،کارخانوں کی محدودبندش یاپھران کےچلنے کے اوقات کارمیں کمی ہے۔شہریوں کی آمدورفت کم ہونے سے ٹرانسپورٹ میں کمی آئی جبکہ دوسری طرف پنجاب میں اینٹوں کے تمام بھٹوں کوزگ زیگ پرمنتقل کردیاگیا ہے۔اسی طرح گندم کی فصلوں کی باقیات کوآگ لگانے کے واقعات بھی ماضی کی نسبت بہت کم رپورٹ ہوئے ہیں۔
ایئرکوالٹی انڈکس اینیشیٹو کے اعداد و شمارکے مطابق پانچ جون کو اسلام آبادآباد میں ایئرکوالٹی انڈکس 152، راولپنڈی میں 120، بہاولپورمیں 119، ساہیوال میں 105، فیصل آبادمیں 97،لاہور میں 78، جبکہ رائیونڈ میں 72 ریکارڈکیاگیا۔ اگرصرف لاہورکی بات کی جائے تو یہاں فضائی آلودگی کی جانچ کے لئے سرکاری اورغیرسرکاری سطح پرمختلف علاقوں میں سینسرز لگائے گئے ہیں۔ لاہورمیں امریکن سکول کے قریب 121، لمزڈی ایچ اے کے قریب 104، کوٹ لکھپت میں 90، یوایس قونصلیٹ میں 78، ماڈل ٹاؤن میں 70، ایف سی کالج میں 67 ریکارڈ کیا گیا ہے تاہم ایئر کوالٹی انڈیکس کی پیش گوئی کے مطابق آنے والے دنوں میں لاہور میں فضائی آلودگی بڑھ سکتی ہے ، اتوار 6 جون کو ایئرکوالٹی کی شرح 130، پیر7جون کو 121 اور منگل کویہ شرح 109 تک پہنچنے کاامکان ہے۔
ماہرماحولیات علیم بٹ کہتے ہیں اس وقت فضائی آلودگی کی شرح کم ظاہرہونے کی وجہ سے درجہ حرارت ہے، درجہ حرارت میں جس قدراضافہ ہوگاہوامیں موجود مختلف مالیکیولز کا باہمی فاصلہ بڑھ جاتا ہے جبکہ سردیوں میں ایک دوسرے کے قریب آجاتے ہیں جس سے ہوابھاری ہوتی ہے اوراس میں آلودگی کی شرح زیادہ ریکارڈہوتی ہے، گرمیوں میں ہوا ہلکی ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اس میں آلودگی کی شرح کم ظاہرہوتی ہے ۔ وہ نہیں سمجھتے کہ حکومت نے ابھی تو کوئی ایسا بڑا قدام اٹھایا ہو جس سے ہوا میں موجود خطرناک عناصر کی شرح مستقل طور پر کم ہوسکے۔
علیم بٹ کہتے ہیں عام طور پر اکتوبرسے فروری تک ہوا میں آلودگی کی شرح بڑھ جاتی ہے جبکہ باقی دنوں میں یہ کم ہوتی ہے، آلودگی بڑھنے کی بڑی وجوہات میں فصلوں کی باقیات کوجلانا، گاڑیوں ،فیکٹریوں اورکارخانوں کا زہریلااورکاربن والادھواں، اینٹوں کے بھٹوں سے نکلنے والا دھواں اور تعمیراتی کاموں کے دوران اڑنے والی گردوغبارشامل ہے۔