گھوٹکی ریل حادثہ کیا محفوظ سفر کی ضمانت فراہم کی جاسکے گی
نئے ہفتے کا پہلا دن ملک میں ٹرین حادثات کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کرگیا۔
نئے ہفتے کا پہلا دن ملک میں ٹرین حادثات کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کرگیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق گھوٹکی کے ریتی ریلوے اسٹیشن کے قریب دومسافرٹرینوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں 62افرادجاں بحق جبکہ 100 سے زائد زخمی ہوگئے۔حادثہ رات ساڑھے تین بجے اس وقت پیش آیا جب سرگودھا جانے والی ملت ایکسپریس ٹرین کی 10 سے زائد بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں اور مخالف سمت سے آنے والی سرسید ایکسپریس ان بوگیوں سے ٹکرا گئی۔
ترجمان پاکستان ریلوے نے تصدیق کی کہ کراچی سے سرگودھا آنے والی ملت ایکسپریس کی بوگیاں پٹڑی سے اتر کر ڈاؤن ٹریک پر جاگریں اور راولپنڈی سے آنے والی سرسید ایکسپریس ان بوگیوں سے ٹکرا گئی۔ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ریلوے سکھر طارق لطیف کے مطابق حادثے میں 13 سے زائد بوگیوں کو نقصان پہنچا، جن میں 9 بوگیاں ملت ایکسپریس اور 4 بوگیاں سرسید ایکسپریس کی شامل ہیں۔
معجزانہ طور پر بچ جانے والے انجن ڈرائیور سرسید ایکسپریس کے مطابق ریتی اسٹیشن سے نکلنے کے بعد ٹرین مقررہ اسپیڈ پر تھی کہ اچانک ملت ایکسپریس کی بوگیاں ڈی ریل ہوتی نظر آئیں لیکن فاصلہ کم ہونے کے باعث ملت ایکسپریس کی ڈی ریل بوگیوں سے ٹکراگئی۔ انجن ڈرائیور سرسید ایکسپریس نے بتایا کہ حادثے کے بعد دو گھنٹے تک انجن میں پھنسا رہا، مقامی افراد نے دو گھنٹے بعد مجھے ریسکیو کیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حادثے کے حوالے سے عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ملت ایکسپریس میں لگائی گئی بوگی نمبر 10 کا ہْک خراب تھا، ڈرائیور نے 10 نمبر بوگی کو گاڑی میں شامل کرنے سے انکار کیا تھا لیکن مکینیکل ڈیپارٹمنٹ نے زبردستی 10 نمبر بوگی کو گاڑی میں ڈالا جس کی وجہ سے حادثہ پیش آیا۔ 10 نمبر بوگی ہی رونتی اسٹیشن کے قریب آ کر پٹری سے اتر گئی جس کی وجہ سے حادثہ ہوا، 11 اور 12 نمبر بوگی کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
حادثہ کے بعد فوج اور رینجرز کے دستوں نے بھی مقامی انتظامیہ کے ساتھ مل کر امدادی اور بچاؤ آپریشن میں حصہ لیا۔ جاں بحق افراد اور زخمیوں کو منتقل کیا۔پاکستان ریلوے ٹرین حادثے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کو معاوضے کے طور پر پالیسی کے مطابق 15 لاکھ روپے ادا کرے گا۔ترجمان ریلوے کے مطابق زخمی ہونے والے مسافروں کو معمولی اور شدید نوعیت کی انجریز کے مطابق 50 ہزار سے 3 لاکھ روپے دیئے جائیں گے۔
ریلوے انتظامیہ نے ٹرین حادثہ کے متاثرین کے ہنگامی بنیادوں پر کوائف جمع کرنے شروع کر دیے ہیں اور بہت جلد امدادی رقم کی فراہمی کا عمل بھی شروع کر دیا جائے گا۔گھوٹکی حادثے پر وفاقی وزیر ریلوے محمد اعظم خان سواتی نے نوٹس لے لیا ہے۔
وفاقی وزیر نے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ پر مشتمل انکوائری جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے ڈہرکی کے قریب مسافر ٹرینوں کے حادثے میںمسافروں کی اموات پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ،شریک چیئرمین آصف علی زرداری ،وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ اورصوبائی وزیر تعلیم سعید غنی نے جاں بحق ہونے والوں کی مغفرت اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہوئے کہا کہ اس نااہل دور حکومت میں ٹرینوں کے حادثے معمول بن گئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ٹرین حادثوں پر استعفے کے مثالیں دینے والے وزیر اعظم عمران خان کو اپنی نااہل و نالائق کابینہ سمیت فوری استعفیٰ دے دینا چاہیے۔
ریلوے کی تاریخ کا بھیانک ترین ٹرین حادثہ 4 جنوری 1990 کو جب پنوں عاقل کے قریب سانگی کے مقام پر ہوا تھا جس میں 307 افراد جان سے گئے تھے۔ سال 2019 پاکستان ریلوے کی تاریخ کا بدترین سال ثابت ہوا، 100 سے زائد حادثات ہوئے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ڈی ایس ریلوے سکھر نے ٹریک کی خستہ حالی سے متعلق گزشتہ ہفتے سی ای او ریلوے کو مراسلہ لکھا تھا۔ مراسلے میں کہا گیا تھا کہ سکھر ڈویڑن میں مین لائن کے456 کلو میٹرٹریک کی حالت خراب ہے اور برانچ لائن کا 532کلو میٹر ٹریک بھی خستہ حالی کا شکار ہے۔
عام تاثر یہ ہے کہ پے درپے حادثات کے باوجود ریلوے انتظامیہ ان پر قابو پانے میں ناکام نظرآتی ہے۔ہر حادثے کے بعد تحقیقات کا اعلا ن کیا جاتا ہے اور چند روز گذر جانے کے بعد سب اس حادثے کا بھول جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ گھوٹکی میں ہونے والے اس حادثے کو ایک ٹیسٹ کیس بنایا جائے اور سائنسی بنیادوں پر حادثے کی تحقیقات کی جائیں اور جو بھی افراد غفلت اور لاپرواہی کے مرتکب ہوئے ہیں ان کو عبرتناک سزائیں دی جائیں۔ پوری دنیا میں ٹرین کے سفر کو محفوظ ترین تصور کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔
محکمہ داخلہ حکومت سندھ نے کورونا ایس او پیز کا نیا حکم نامہ جاری کردیا ہے، کراچی میں رات 8 بجے تک کاروبار کی اجازت ہوگی جبکہ جمعہ اور اتوار کو کاروبار بند رہے گا۔ محکمہ داخلہ سندھ کے نوٹیفکیشن میں شادی ہالز، پارکس، امیوزمنٹ پارکس بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، بیکریاں اور دودھ کی دکانیں رات 12 بجے تک کھلی رہیں گی، نمائش کے لیے ایکسپو ہالز پرپابندی برقرار رہے گی۔ نویں سے 12ویں جماعت تک تعلیمی ادارے کھلے رہیں گے، تعلیمی اداروں میں کورونا ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے گا جبکہ 50 فیصد حاضری ہوگی، تعلیمی اداروں میں تدریسی و غیر تدریسی عملے کو لازمی ویکسینیشن کرانا ہوگی۔
صوبے میں مزارات، سینما، تھیٹر بھی بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔کھلی فضا میں شادی تقاریب میں 150 مہمان شرکت کریں گے، اس کے علاوہ بین الصوبائی ٹرانسپورٹ ہفتہ اور اتوارکو بند رہے گی۔ کورونا ہاٹ اسپاٹ علاقوں میں پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
محکمہ داخلہ سندھ نے یہ نوٹی فکیشن صوبائی کورونا ٹاسک فورس کے اجلاس میں کیے جانے والے فیصلوں کی تناظر میں جاری کیا ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ یکم جون 2021 کو کراچی میں کووڈ کیسز کا تناسب 12.45 سے کم ہو کر 5 جون کو 8.25 فیصد رہ گیا ہے لیکن یہ دیکھا گیا ہے کہ اموات کی شرح اب بھی 1.6 فیصد ہے۔ ان نئے احکامات پر عمل درآمد شروع ہوگیا ہے جبکہ ایس او پیز کے مطابق نویں جماعت سے اس سے اوپر کی کلاسز میں تدریس کا آغاز بھی ہوگیا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے حکومت سندھ کے اقدامات بروقت ہیں۔
وزیراعلی سندھ مرادعلی شاہ نے آئندہ مالی سال کے مجوزہ وفاقی بجٹ پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کو خط ارسال کیا ہے۔ انہوں نے خط میں کہا ہے کہ جب سے پی ٹی آئی برسراقتدار آئی ہے سندھ کے ساتھ متعصبانہ رویہ برتا جا رہا ہے،وفاق کے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام میں سندھ کے منصوبے نظر انداز کردئیے گئے ہیں اوروفاقی حکومت کا ادارہ ایس آئی ڈی سی ایل سندھ میں ایسٹ انڈیا طرز کی مداخلت ہے۔
وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنے خط میں اس امر پر افسوس کا اظہارکیا ہے کہ سندھ کے خدشات، تحفظات کو بار بار نظر انداز کیاجا رہا ہے، سندھ کے لوگوں کے ساتھ ناانصافی کی جا رہی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق وفاق اور سندھ کے درمیان مختلف ایشوز پر تاحال ہم آہنگی پیدا نہ ہونا افسوسناک ہے۔ وزیراعظم عمران کو چاہیے کہ وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں اور ان کے تحفظات دور کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ وزیراعلیٰ سندھ کو بھی چاہیے کہ وہ صرف خطوط کے ذریعے اپنے تحفظات کا اظہار نہ کریں بلکہ قابل عمل تجاویز وزیراعظم کے سامنے رکھیں اور اس سلسلے میں وزیراعظم سے ملاقات بھی کرسکتے ہیں۔
سندھ کے شہری علاقوں کے مسائل اور عوام میں پائی جانے والی شدید بے چینی نے ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کو سوچنے پر مجبورکردیا ہے اور اب ایسی آوازیں آنا شروع ہوگئی ہیں کہ مسائل کے حل کے لیے اپنی اپنی جماعتوں کو برقرا ر رکھتے ہوئے ایک پیج پر آیا جائے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان تن تنہا پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اگر وہ واقعی سندھ میں کوئی تبدیلی چاہتی ہے تو اسے ڈاکٹرفاروق ستار اور آفاق احمد کی تعاون کی تجویز پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق گھوٹکی کے ریتی ریلوے اسٹیشن کے قریب دومسافرٹرینوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں 62افرادجاں بحق جبکہ 100 سے زائد زخمی ہوگئے۔حادثہ رات ساڑھے تین بجے اس وقت پیش آیا جب سرگودھا جانے والی ملت ایکسپریس ٹرین کی 10 سے زائد بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں اور مخالف سمت سے آنے والی سرسید ایکسپریس ان بوگیوں سے ٹکرا گئی۔
ترجمان پاکستان ریلوے نے تصدیق کی کہ کراچی سے سرگودھا آنے والی ملت ایکسپریس کی بوگیاں پٹڑی سے اتر کر ڈاؤن ٹریک پر جاگریں اور راولپنڈی سے آنے والی سرسید ایکسپریس ان بوگیوں سے ٹکرا گئی۔ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ریلوے سکھر طارق لطیف کے مطابق حادثے میں 13 سے زائد بوگیوں کو نقصان پہنچا، جن میں 9 بوگیاں ملت ایکسپریس اور 4 بوگیاں سرسید ایکسپریس کی شامل ہیں۔
معجزانہ طور پر بچ جانے والے انجن ڈرائیور سرسید ایکسپریس کے مطابق ریتی اسٹیشن سے نکلنے کے بعد ٹرین مقررہ اسپیڈ پر تھی کہ اچانک ملت ایکسپریس کی بوگیاں ڈی ریل ہوتی نظر آئیں لیکن فاصلہ کم ہونے کے باعث ملت ایکسپریس کی ڈی ریل بوگیوں سے ٹکراگئی۔ انجن ڈرائیور سرسید ایکسپریس نے بتایا کہ حادثے کے بعد دو گھنٹے تک انجن میں پھنسا رہا، مقامی افراد نے دو گھنٹے بعد مجھے ریسکیو کیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حادثے کے حوالے سے عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ملت ایکسپریس میں لگائی گئی بوگی نمبر 10 کا ہْک خراب تھا، ڈرائیور نے 10 نمبر بوگی کو گاڑی میں شامل کرنے سے انکار کیا تھا لیکن مکینیکل ڈیپارٹمنٹ نے زبردستی 10 نمبر بوگی کو گاڑی میں ڈالا جس کی وجہ سے حادثہ پیش آیا۔ 10 نمبر بوگی ہی رونتی اسٹیشن کے قریب آ کر پٹری سے اتر گئی جس کی وجہ سے حادثہ ہوا، 11 اور 12 نمبر بوگی کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
حادثہ کے بعد فوج اور رینجرز کے دستوں نے بھی مقامی انتظامیہ کے ساتھ مل کر امدادی اور بچاؤ آپریشن میں حصہ لیا۔ جاں بحق افراد اور زخمیوں کو منتقل کیا۔پاکستان ریلوے ٹرین حادثے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کو معاوضے کے طور پر پالیسی کے مطابق 15 لاکھ روپے ادا کرے گا۔ترجمان ریلوے کے مطابق زخمی ہونے والے مسافروں کو معمولی اور شدید نوعیت کی انجریز کے مطابق 50 ہزار سے 3 لاکھ روپے دیئے جائیں گے۔
ریلوے انتظامیہ نے ٹرین حادثہ کے متاثرین کے ہنگامی بنیادوں پر کوائف جمع کرنے شروع کر دیے ہیں اور بہت جلد امدادی رقم کی فراہمی کا عمل بھی شروع کر دیا جائے گا۔گھوٹکی حادثے پر وفاقی وزیر ریلوے محمد اعظم خان سواتی نے نوٹس لے لیا ہے۔
وفاقی وزیر نے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ پر مشتمل انکوائری جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے ڈہرکی کے قریب مسافر ٹرینوں کے حادثے میںمسافروں کی اموات پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ،شریک چیئرمین آصف علی زرداری ،وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ اورصوبائی وزیر تعلیم سعید غنی نے جاں بحق ہونے والوں کی مغفرت اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہوئے کہا کہ اس نااہل دور حکومت میں ٹرینوں کے حادثے معمول بن گئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ٹرین حادثوں پر استعفے کے مثالیں دینے والے وزیر اعظم عمران خان کو اپنی نااہل و نالائق کابینہ سمیت فوری استعفیٰ دے دینا چاہیے۔
ریلوے کی تاریخ کا بھیانک ترین ٹرین حادثہ 4 جنوری 1990 کو جب پنوں عاقل کے قریب سانگی کے مقام پر ہوا تھا جس میں 307 افراد جان سے گئے تھے۔ سال 2019 پاکستان ریلوے کی تاریخ کا بدترین سال ثابت ہوا، 100 سے زائد حادثات ہوئے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ڈی ایس ریلوے سکھر نے ٹریک کی خستہ حالی سے متعلق گزشتہ ہفتے سی ای او ریلوے کو مراسلہ لکھا تھا۔ مراسلے میں کہا گیا تھا کہ سکھر ڈویڑن میں مین لائن کے456 کلو میٹرٹریک کی حالت خراب ہے اور برانچ لائن کا 532کلو میٹر ٹریک بھی خستہ حالی کا شکار ہے۔
عام تاثر یہ ہے کہ پے درپے حادثات کے باوجود ریلوے انتظامیہ ان پر قابو پانے میں ناکام نظرآتی ہے۔ہر حادثے کے بعد تحقیقات کا اعلا ن کیا جاتا ہے اور چند روز گذر جانے کے بعد سب اس حادثے کا بھول جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ گھوٹکی میں ہونے والے اس حادثے کو ایک ٹیسٹ کیس بنایا جائے اور سائنسی بنیادوں پر حادثے کی تحقیقات کی جائیں اور جو بھی افراد غفلت اور لاپرواہی کے مرتکب ہوئے ہیں ان کو عبرتناک سزائیں دی جائیں۔ پوری دنیا میں ٹرین کے سفر کو محفوظ ترین تصور کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔
محکمہ داخلہ حکومت سندھ نے کورونا ایس او پیز کا نیا حکم نامہ جاری کردیا ہے، کراچی میں رات 8 بجے تک کاروبار کی اجازت ہوگی جبکہ جمعہ اور اتوار کو کاروبار بند رہے گا۔ محکمہ داخلہ سندھ کے نوٹیفکیشن میں شادی ہالز، پارکس، امیوزمنٹ پارکس بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، بیکریاں اور دودھ کی دکانیں رات 12 بجے تک کھلی رہیں گی، نمائش کے لیے ایکسپو ہالز پرپابندی برقرار رہے گی۔ نویں سے 12ویں جماعت تک تعلیمی ادارے کھلے رہیں گے، تعلیمی اداروں میں کورونا ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے گا جبکہ 50 فیصد حاضری ہوگی، تعلیمی اداروں میں تدریسی و غیر تدریسی عملے کو لازمی ویکسینیشن کرانا ہوگی۔
صوبے میں مزارات، سینما، تھیٹر بھی بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔کھلی فضا میں شادی تقاریب میں 150 مہمان شرکت کریں گے، اس کے علاوہ بین الصوبائی ٹرانسپورٹ ہفتہ اور اتوارکو بند رہے گی۔ کورونا ہاٹ اسپاٹ علاقوں میں پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
محکمہ داخلہ سندھ نے یہ نوٹی فکیشن صوبائی کورونا ٹاسک فورس کے اجلاس میں کیے جانے والے فیصلوں کی تناظر میں جاری کیا ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ یکم جون 2021 کو کراچی میں کووڈ کیسز کا تناسب 12.45 سے کم ہو کر 5 جون کو 8.25 فیصد رہ گیا ہے لیکن یہ دیکھا گیا ہے کہ اموات کی شرح اب بھی 1.6 فیصد ہے۔ ان نئے احکامات پر عمل درآمد شروع ہوگیا ہے جبکہ ایس او پیز کے مطابق نویں جماعت سے اس سے اوپر کی کلاسز میں تدریس کا آغاز بھی ہوگیا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے حکومت سندھ کے اقدامات بروقت ہیں۔
وزیراعلی سندھ مرادعلی شاہ نے آئندہ مالی سال کے مجوزہ وفاقی بجٹ پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کو خط ارسال کیا ہے۔ انہوں نے خط میں کہا ہے کہ جب سے پی ٹی آئی برسراقتدار آئی ہے سندھ کے ساتھ متعصبانہ رویہ برتا جا رہا ہے،وفاق کے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام میں سندھ کے منصوبے نظر انداز کردئیے گئے ہیں اوروفاقی حکومت کا ادارہ ایس آئی ڈی سی ایل سندھ میں ایسٹ انڈیا طرز کی مداخلت ہے۔
وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنے خط میں اس امر پر افسوس کا اظہارکیا ہے کہ سندھ کے خدشات، تحفظات کو بار بار نظر انداز کیاجا رہا ہے، سندھ کے لوگوں کے ساتھ ناانصافی کی جا رہی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق وفاق اور سندھ کے درمیان مختلف ایشوز پر تاحال ہم آہنگی پیدا نہ ہونا افسوسناک ہے۔ وزیراعظم عمران کو چاہیے کہ وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں اور ان کے تحفظات دور کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ وزیراعلیٰ سندھ کو بھی چاہیے کہ وہ صرف خطوط کے ذریعے اپنے تحفظات کا اظہار نہ کریں بلکہ قابل عمل تجاویز وزیراعظم کے سامنے رکھیں اور اس سلسلے میں وزیراعظم سے ملاقات بھی کرسکتے ہیں۔
سندھ کے شہری علاقوں کے مسائل اور عوام میں پائی جانے والی شدید بے چینی نے ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کو سوچنے پر مجبورکردیا ہے اور اب ایسی آوازیں آنا شروع ہوگئی ہیں کہ مسائل کے حل کے لیے اپنی اپنی جماعتوں کو برقرا ر رکھتے ہوئے ایک پیج پر آیا جائے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان تن تنہا پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اگر وہ واقعی سندھ میں کوئی تبدیلی چاہتی ہے تو اسے ڈاکٹرفاروق ستار اور آفاق احمد کی تعاون کی تجویز پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔