نئے مالی سال کیلیے 8 ہزار ارب روپے کا وفاقی بجٹ آج پیش کیا جائے گا
تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے کا امکان، دفاع کے لیے 1330 ارب، ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5829 ارب روپے رکھنے کی تجویز
حکومت نئے مالی سال کے لیے 8 ہزار ارب روپے کے لگ بھگ مالیت کا بجٹ آج پارلیمنٹ میں پیش کرے گی جس میں تنخواہوں میں 25 فیصد تک اضافے کا امکان ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے نئے مالی سال 2020-21ء کے لیے 8 ہزار ارب روپے کے قریب مالیت کا بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کیا جارہا ہے تاہم پیش کرنے سے قبل وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں بجٹ کی منظوری دی جائے گی اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کا بھی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
توقع ہے کہ تنخواہوں میں مجموعی طور پر 25 فیصد اضافہ کیا جائے گا جس میں 10 سے 15 فیصد بنیادی تنخواہ اضافہ کیا جائے گا باقی ایڈہاک ریلیف کی مد میں دیا جائے گا۔
وزارت خزانہ ذرائع کے مطابق وفاقی بجٹ کا حجم 8 ہزارارب روپے سے زائد ہے جس میں سود کی مد میں ادائیگیوں کے لیے 3105 ارب روپے، دفاع کے لیے 1330 ارب، ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5829 ارب روپے رکھنے، برآمدات کا ہدف 26 ارب 80 کروڑ ڈالر رکھنے کی تجاویزات ہیں جب کہ درآمدات کا ہدف 55 ارب 30 کروڑ ڈالر کا رکھا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق کرنٹ اکاوٴنٹ خسارے کا ہدف دو ارب 30 کروڑ ڈالر رکھنے کی تجویز ہے، ترسیلات زر کا ہدف 31 ارب 30 کروڑ ڈالرمقرر ہو سکتا ہے، گرانٹس کی مد میں 994 ارب روپے ، سبسڈیز کی مد میں 501 ارب روپے، جی ڈی پی کا ہدف 4.8 فیصد رکھنے، افراط زرکا ہدف 8 فیصد رکھنے، صنعتی شعبہ کی ترقی کا ہدف 6.8 فیصد رکھنے، مینوفیکچرنگ شعبہ کی ترقی کا ہدف 6.2 فیصد رکھنے کی تجویز ہے۔
اسی طرح مجموعی سرمایہ کاری کا ہدف 16 فیصد، نیشنل سیونگز کا ہدف 15.3 فیصد، زراعت میں اضافے کا ہدف 3.5 فیصد، انڈسٹریل سیکٹر 6.5 فیصد جبکہ سروسز سیکٹر میں 4.8 فیصد ہدف رکھنے کی تجویز ہے۔
ترقیاتی بجٹ 2100 ارب روپے، پی ایس ڈی پی کا حجم 900 ارب روپے ہوگا ان میں سے 244 ارب ٹرانسپورٹ اینڈ کمیونی کیشن، 118 ارب روپے توانائی، 91 ارب روپے آبی وسائل، 113 ارب روپے سوشل سیکٹر، 100 ارب روپے علاقائی مساوات، 31 ارب روپے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور آئی ٹی سیکٹر۔ 68 ارب روپے ایس ڈی جیز جبکہ 17 ارب روپے پروڈوکشن سیکٹر پر خرچ کیے جانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
انضمام شدہ علاقوں کے لیے 54 ارب روپے کے فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ سوشل سیکٹرز میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے 42 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔
آ ئندہ بجٹ میں ٹیکس آمدن 5829 ارب روپے اور نان ٹیکس آمدن 1420 ارب روپے ہوسکتی ہے۔ تعمیراتی شعبے کے لیے ایمنسٹی کی مدت میں توسیع کا امکان ہے۔
آئی ایم ایف کی رضا مندی سے کنسٹرکشن ایمنسٹی اسکیم کی مدت ستمبر یا دسمبر 2021ء تک بڑھنے کا امکان ہے۔ آرڈی ننس کے تحت مدت میں 3 یا 6 ماہ کی توسیع ہو سکتی ہے۔ تعمیراتی شعبے کے لیے دی گئی اسکیم کے تحت 140 ارب کے 350 منصوبے رجسٹرڈ ہوئے اور اس اسکیم کی ڈیڈ لائن جون 2021 ہے آئندہ مالی سال 2021-22 کے وفاقی بجٹ میں خالص ٹیکس وصولیوں کا ہدف24 فیصد گروتھ کے ساتھ 5829 ارب روپے مقرر کرنے کی تجویز ہے۔
اس اسکیم سے براہ راست ٹیکس (انکم ٹیکس) کی وصولیوں کا ہدف 2182 ارب روپے اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں میں سے سیلز ٹیکس کی مد میں وصولیوں کا ہدف 2506 ارب روپے، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں وصولیوں کا ہدف 356 ارب روپے جبکہ کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں وصولیوں کا ہدف785 ارب روپے مقرر کرنے کی تجویز ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے نئے مالی سال 2020-21ء کے لیے 8 ہزار ارب روپے کے قریب مالیت کا بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کیا جارہا ہے تاہم پیش کرنے سے قبل وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں بجٹ کی منظوری دی جائے گی اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کا بھی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
توقع ہے کہ تنخواہوں میں مجموعی طور پر 25 فیصد اضافہ کیا جائے گا جس میں 10 سے 15 فیصد بنیادی تنخواہ اضافہ کیا جائے گا باقی ایڈہاک ریلیف کی مد میں دیا جائے گا۔
وزارت خزانہ ذرائع کے مطابق وفاقی بجٹ کا حجم 8 ہزارارب روپے سے زائد ہے جس میں سود کی مد میں ادائیگیوں کے لیے 3105 ارب روپے، دفاع کے لیے 1330 ارب، ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5829 ارب روپے رکھنے، برآمدات کا ہدف 26 ارب 80 کروڑ ڈالر رکھنے کی تجاویزات ہیں جب کہ درآمدات کا ہدف 55 ارب 30 کروڑ ڈالر کا رکھا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق کرنٹ اکاوٴنٹ خسارے کا ہدف دو ارب 30 کروڑ ڈالر رکھنے کی تجویز ہے، ترسیلات زر کا ہدف 31 ارب 30 کروڑ ڈالرمقرر ہو سکتا ہے، گرانٹس کی مد میں 994 ارب روپے ، سبسڈیز کی مد میں 501 ارب روپے، جی ڈی پی کا ہدف 4.8 فیصد رکھنے، افراط زرکا ہدف 8 فیصد رکھنے، صنعتی شعبہ کی ترقی کا ہدف 6.8 فیصد رکھنے، مینوفیکچرنگ شعبہ کی ترقی کا ہدف 6.2 فیصد رکھنے کی تجویز ہے۔
اسی طرح مجموعی سرمایہ کاری کا ہدف 16 فیصد، نیشنل سیونگز کا ہدف 15.3 فیصد، زراعت میں اضافے کا ہدف 3.5 فیصد، انڈسٹریل سیکٹر 6.5 فیصد جبکہ سروسز سیکٹر میں 4.8 فیصد ہدف رکھنے کی تجویز ہے۔
ترقیاتی بجٹ 2100 ارب روپے، پی ایس ڈی پی کا حجم 900 ارب روپے ہوگا ان میں سے 244 ارب ٹرانسپورٹ اینڈ کمیونی کیشن، 118 ارب روپے توانائی، 91 ارب روپے آبی وسائل، 113 ارب روپے سوشل سیکٹر، 100 ارب روپے علاقائی مساوات، 31 ارب روپے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور آئی ٹی سیکٹر۔ 68 ارب روپے ایس ڈی جیز جبکہ 17 ارب روپے پروڈوکشن سیکٹر پر خرچ کیے جانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
انضمام شدہ علاقوں کے لیے 54 ارب روپے کے فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ سوشل سیکٹرز میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے 42 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔
آ ئندہ بجٹ میں ٹیکس آمدن 5829 ارب روپے اور نان ٹیکس آمدن 1420 ارب روپے ہوسکتی ہے۔ تعمیراتی شعبے کے لیے ایمنسٹی کی مدت میں توسیع کا امکان ہے۔
آئی ایم ایف کی رضا مندی سے کنسٹرکشن ایمنسٹی اسکیم کی مدت ستمبر یا دسمبر 2021ء تک بڑھنے کا امکان ہے۔ آرڈی ننس کے تحت مدت میں 3 یا 6 ماہ کی توسیع ہو سکتی ہے۔ تعمیراتی شعبے کے لیے دی گئی اسکیم کے تحت 140 ارب کے 350 منصوبے رجسٹرڈ ہوئے اور اس اسکیم کی ڈیڈ لائن جون 2021 ہے آئندہ مالی سال 2021-22 کے وفاقی بجٹ میں خالص ٹیکس وصولیوں کا ہدف24 فیصد گروتھ کے ساتھ 5829 ارب روپے مقرر کرنے کی تجویز ہے۔
اس اسکیم سے براہ راست ٹیکس (انکم ٹیکس) کی وصولیوں کا ہدف 2182 ارب روپے اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں میں سے سیلز ٹیکس کی مد میں وصولیوں کا ہدف 2506 ارب روپے، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں وصولیوں کا ہدف 356 ارب روپے جبکہ کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں وصولیوں کا ہدف785 ارب روپے مقرر کرنے کی تجویز ہے۔