افغانستان ایک صدی اور 20 برسوں کی داستان

غلبہ پانے کیلئے افغانوں کی باہم لڑائیوں نے ملک و قوم کو کیا کیا دن دکھائے، ایک آئینہ جو مستقبل کی خبر بھی دیتا ہے۔

ایک دوسرے پر غلبہ پانے کیلئے افغانوں کی باہم لڑائیوں نے ملک و قوم کو کیا کیا دن دکھائے، ایک آئینہ جو مستقبل کی خبر بھی دیتا ہے۔ فوٹو: فائل

گزشتہ ایک صدی اور بیس سالوں کا سبق یہی ہے کہ کابل میں کبھی طویل مدت تک امن قائم رہا نہ ہی یہاں طویل عرصے تک سیاسی استحکام نصیب ہوا۔

امریکا اور طالبان کے درمیان جب فروری2020 ء میں ، افغانستان میں قیام امن کے لئے معاہدہ ہوا تو زیادہ تر لوگوں کو توقع تھی کہ اب یہاں امن کا قیام سالوں کی نہیں، بلکہ مہینوں کی بات ہے۔ بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ 80ء کی دہائی سے قبل افغانستان ایک پرامن اور سیاسی طور پر مستحکم ریاست تھی لیکن جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو صورت حال اس کے برعکس نظر آتی ہے۔

افغانستان کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے لیکن ہم گزشتہ ایک صدی یعنی بیسویںصدی اور رواں صدی یعنی اکیسویں صدی کے 20 برسوں کا جائزہ لیتے ہیں کہ آیا گزشتہ 120 سالوں میں کبھی افغانستان میں طویل مدت تک امن قائم رہا ہے کہ نہیں؟یا کابل کو اس ایک صدی اور بیس سالوں میں سیاسی استحکام نصیب ہوا بھی ہے کہ نہیں؟

افغانستان کی تاریخ صدیوں پرانی ہے لیکن معلوم تاریخ سے پتہ لگ رہا ہے کہ موجودہ ریاست کی بنیاد 1747 ء میں احمد شاہ درانی نے رکھی تھی۔افغانستان کی سرزمین کے سینے میں بڑی بڑی بادشاہتوں کے عروج و زوال کی کہانیاں دفن ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ گزشتہ صدی سے لے کرآج تک اس سرزمین پر کم و بیش 110 جنگیں لڑی گئی ہیں ، جس میں 70 فیصد سے زیادہ لڑائیاں افغانوں کے درمیان ہوئی ہیں ۔ باقی 30 فیصد جنگیں افغانوں نے بیرونی حملہ آوروں کے خلاف لڑی ہیں مگر افسوس کہ تاریخ میں ان 30 فیصد بیرونی حملہ آوروں کے ساتھ مقابلے اور شکست کی تمام تر تفصیلات تو موجود ہے لیکن آپس میں لڑی گئی جنگوں کا تذکرہ نہ تفصیل کے ساتھ موجود ہے اور نہ ہی افغان اس کا زیادہ تذکرہ کرتے ہیں ۔

حبیب اللہ خان نے جب اکتوبر1901ء میں اقتدار سنبھالا تو انھوں نے پہلی جنگ عظیم کے دوران افغانستان کو غیر جانبدار رکھا۔ افغانوں کو ان کی یہ پالیسی پسند نہ آئی اور 20 فروری 1919 ء کو حبیب اللہ خان کو قتل کر دیا ۔ حبیب اللہ خان کے قتل کے بعد ان کے تیسرے بیٹے امان اللہ خان نے حکومت سنبھالی۔

انھوں نے ملک میں اصلاحات کا آغاز کیا۔اس پر اختلافات پیدا ہوئے اور پھر 14 نومبر 1928 ء سے 13 اکتوبر 1929 ء تک افغانستان میں سول وار ہوتی رہی۔ اس دوران حبیب اللہ کلاکانی حکمران رہے۔15 اکتوبر 1929 ء کو امان اللہ خان کے کزن محمد نادر خان نے حبیب اللہ کلاکانی کی حکومت کا خاتمہ کیا اور نومبر1929ء میں اپنی بادشاہت کا اعلان کیا۔ انھوں نے اپنے ایک وزیر کو قتل کیا۔ ڈرکی وجہ سے ان کے خاندان نے کابل سے ننگرہار ہجرت کی ۔ پھر1933 ء میں اس مقتول وزیر کے طالب علم بیٹے نے انتقام میں بادشاہ محمد نادر خان کو قتل کردیا۔

شاہ محمد نادرخان کے قتل کے بعد ان کے انیس سالہ بیٹے محمد ظاہر شاہ نے اقتدار سنبھالا۔ اپنے باپ کے قتل کے بعد ظاہر شاہ نے اس کم عمر طالب علم کو اپنے محل کے سامنے پنجرے میں بند کیا اور حکم دیا کہ ہر روز ان کا ایک ایک عضو کاٹا جائے ۔ایک ہفتے تک اسی چوک میں تیرہ سالہ طالب علم کا ایک ایک عضو کاٹا جاتا ۔ لوگ نظارہ کرتے لیکن خوف اور ڈر کی وجہ سے کچھ کر نہیں سکتے۔ ظاہر شاہ 1946 ء تک اپنے چچا سردار محمد ہاشم خان کی زیر سرپرستی حکومتی امور انجام دیتے رہے۔ وہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز تھے۔ 1946 ء میں ظاہر شاہ نے اپنے دوسرے چچا سردار شاہ محمد خان کو وزیر اعظم نامزد کیا،جبکہ 1953 ء میں انھوں نے ان کی جگہ محمد داؤد خان کو وزیر اعظم نامزد کیا۔

سردار داؤد سوویت یونین کے زبر دست حامی جبکہ پاکستان کے شدید مخالف تھے۔ یکم جنوری 1965 ء کو ''پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی آف افغانستان'' قائم کی گئی۔ اس جماعت کے سوویت یونین کے ساتھ قریبی تعلقات تھے لیکن یہ پارٹی بھی زیادہ دیر تک متحد نہ رہ سکی اور دوحصوں '' خلق '' اور '' پرچم '' میں تقسیم ہوئی۔ خلق کی قیادت نور محمد ترکئی اور حفیظ اللہ امین کے ہاتھوں میں تھی جبکہ پرچم کی قیادت ببرک کارمل کر رہے تھے۔ اس دوران ظاہر شاہ خاندان پر بدعنوانی اور خراب معاشی صورت حال کے سنگین الزامات لگائے گئے اور سابق وزیر اعظم سردار داؤد نے 17 جولائی 1973 ء کو اس وقت اقتدار پر قبضہ کیا جب ظاہر شاہ علاج کے لئے ملک سے باہر تھے ۔ سردار داؤد خود وزیر اعظم اور صدر بن گئے۔

1978 ء میں حکومت نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے اہم رہنما میر اکبر خیبر کو قتل کیا جبکہ دیگر کئی رہنماگرفتار ہوئے۔ اس خوف کی وجہ سے 28 اپریل 1978 ء کو پی ڈی پی اے کے رہنماؤں نور محمد ترکئی ، ببرک کارمل اور امین طلحہ نے سردار داؤد حکومت کو ختم کیا جبکہ سردار داؤد اور ان کے خاندان کے دیگر افراد خونی فوجی کارروائی میں قتل کر دئیے گئے۔

اس خون ریز سانحہ کو تاریخ میں ''سرخ انقلاب '' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یکم مئی کو نور محمد ترکئی ملک کے صدر اور وزیر اعظم بن گئے جبکہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل کا عہدہ بھی انھوں نے اپنے پاس رکھا۔ مارچ 1979 ء میں حفیظ اللہ امین وزیر اعطم نامزد کئے گئے جبکہ 14 ستمبر کو حفیظ اللہ امین نے نورمحمد ترکئی کو معزول کیا ۔ وہ قتل کر دیئے گئے اور حفیظ اللہ امین اقتدار پر قابض ہوئے۔


افغانستان میں اقتدار کے لئے جنگ جاری تھی۔ حالات زیادہ خراب تھے۔ خراب سیاسی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سوویت یونین نے 24 دسمبر 1979 کو افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کی ۔27 دسمبر 1979 ء کو حفیظ اللہ امین بھی قتل کر دیئے گئے جبکہ سوویت یونین نے اقتدار ببرک کارمل کے حوالے کیا۔ سوویت یونین نے کوشش کی کہ ببرک کارمل کو مضبوط کریں لیکن بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے انھوں نے 15 مئی 1988 ء کو افغانستان سے فوجیں نکالنا شروع کیں اور15 فروری 1989ء تک اپنی فوجیں افغانستان سے نکال دیں۔ افغانستان میں ناکامی کا تمام تر ملبہ سوویت یونین نے ببرک کارمل پر ڈال دیا۔

سوویت یونین نے ان کی جگہ ستمبر 1987 ء میں اقتدار ڈاکٹر نجیب اللہ کے حوالے کیا۔ مارچ 1990ء میں شاہ نواز تنائی نے کوشش کی کہ نجیب حکومت کا تختہ الٹ دے لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ سیاسی حالات انتہا ئی خراب تھے۔ اپریل 1992 ء میں ڈاکٹر نجیب اللہ سے زبردستی استعفیٰ لے لیا گیا۔ عبدالرحیم ھاتف ملک کے نئے عبوری سربراہ نامزد کئے گئے ۔ انھوں نے 16 اپریل 1992 کو عبوری صدر کا حلف لیا اور 28 اپریل تک وہ اس عہدے پر رہے۔

26 اپریل 1992 کو معاہدہ پشاور ہوا ،جس میں صبغت اللہ مجددی کو عبوری صدر نامزد کیا گیا۔ صبغت اللہ مجددی دو مہینے تک صدر رہے ۔ اس کے بعد جون1992ء میں برہان الدین ربانی نے منصب صدارت سنبھال لیا ۔ وہ دسمبر2001 ء تک اس عہدے پر فائز رہے لیکن جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو انھوں نے ستمبر 1996 ء میں جلاوطنی اختیار کی اور پھر نو مبر2001 ء میں واپس افغانستان آگئے۔ سوویت یونین کے انخلا کے بعد مجاہدین کے درمیان حکومت سازی کے لئے صلا ح و مشورے جاری تھے ۔

گلبدین حکمتیار جون 1993 ء میں وزیر اعظم منتخب کئے گئے وہ جون 1994 ء تک اس عہدے پر فائز رہے ۔ جون 1996ء میں وہ دوبارہ وزیر اعظم نامزد کئے گئے، اس مرتبہ وہ اگست1997ء تک اس منصب پر فائز رہے۔ نو سال تک مجاہدین سوویت یونین کے خلاف لڑتے رہے جس کی ایک طویل داستان ہے۔اس دوران مختلف ممالک نے کوشش کی کہ افغانوں کے درمیان صلح ہو لیکن وہ آپس میں لڑتے رہے۔

حکمت یار ، احمد شاہ مسعود ، برہان الدین ربانی ، صبغت اللہ مجددی، عبدالرب سیاف ، رشید دوستم سب کی کوشش تھی کہ تخت کابل پر قبضہ کریں ۔ مجاہدین کی آپس کی نا اتفاقی کی وجہ سے ملا محمد عمر نے تحریک طالبان کو منظم کیا۔ انھوں نے ستمبر 1996 میں کابل پر قبضہ کیا ۔ مجاہدین رہنماؤں کی اکثریت روپوش ہوگئی یا انھوں نے جلا وطنی اختیار کی ۔کابل پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان نے '' امارات اسلامی '' کا اعلان کیا۔ ڈاکٹر نجیب کی لاش کے ساتھ جو کچھ کیا گیا ، وہ افغانستان کی تاریخ کا ایک کربناک باب ہے۔ احمد شاہ مسعود اور رشید دوستم نے '' شمالی اتحاد '' کے نام سے فوجی اتحاد قائم کر کے طالبان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ پاکستان ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے طالبان کی حکومت کو تسلیم بھی کیا۔ دنیا کو ان کے طرز حکمرانی پر شدید ترین تحفظات تھے ۔

9 ستمبر 2001 کو احمد شاہ مسعود کو قتل کیا گیا اور پھر گیارہ ستمبر 2001 ء کو امریکا میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا خون ریزہ سانحہ ہوا۔ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے اس کی ذمہ داری القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن اور خالد شیخ محمد پر ڈال دی ۔ انھوں نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ اسامہ بن لادن کو ان کے حوالے کر دیں ۔ طالبان نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ ثبوت ہمیں دیے جائیں ہم خود ان کے خلاف کارروائی کریں گے لیکن امریکا نے ان کا یہ مطالبہ مسترد کردیا اور پھر اکتوبر 2001 ء میں انھوں نے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ طالبان نے مزاحمت ضرور کی لیکن آخر کار انھیں پسپائی اختیار کرنا پڑی ۔

امریکا نے دسمبر 2001ء میں جرمنی میں ایک بین الاقوامی کانفر نس کاانعقاد کیا جس میں حامد کر زئی کو عبوری انتظامیہ کا سربراہ نامزد کیا گیا۔ وہ 22 دسمبر 2001ء سے جولائی 2002 تک اس منصب پر فائز رہے۔2004 ء اور 2009 کے صدارتی انتخابات میں انھوں نے کامیابی حاصل کی اور 2014 ء تک افغانستان کے حکمران رہے۔

حامد کرزئی کے پورے دور حکومت میں امریکا اور طالبان کے درمیان لڑائی جاری رہی۔ پورا ملک شدید ترین بدامنی ، دہشت گردی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ۔2014 ء کے صدارتی انتخابات میں ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ مدمقابل تھے ۔ ڈاکٹر عبداللہ نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کیا لیکن امریکی مداخلت پر نئی حکومت تشکیل دی گئی ۔ ڈاکٹر اشرف غنی صدر جبکہ ڈاکٹر عبداللہ چیف ایگزیکٹیو منتخب ہوئے ۔2018 ء میں امریکا نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے ہامی بھری، جس کی وجہ سے اپریل 2019ء میں صدارتی انتخابات کو دو مرتبہ ملتوی کرنا پڑا ۔ پھر جب انتخابات ہوئے تو نتائج میں کئی مہینے کی تاخیر کی گئی۔

جب نتائج کا اعلان کیا گیا تو ڈاکٹر عبداللہ نے ایک مرتبہ پھر نتائج ماننے سے انکار کیا۔ 29 فروری 2020 ء کو امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہو ا لیکن اس کے چند روز بعد 9 مارچ کو ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ دونوں نے الگ الگ صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا جبکہ طالبان نے بھی اعلان کیا کہ ان کی اسلامی امارات قائم ہے اس لئے ملا ہیبت اللہ اب بھی امیر المومینن ہے یعنی یہ وہ وقت تھا جب افغانستان پر دو صدر اور ایک امیر المومنین حکمران تھے ۔

امریکا نے رواں برس ستمبر تک افغانستان سے افواج کے انخلا کا وعدہ کر رکھا ہے ۔ قطر کے دارالحکومت دوحا میں کئی مہینوں سے طالبان اور افغانستان حکومت کے درمیان بات چیت جاری ہے لیکن تاحال کوئی پیش رفت ہو نہیں رہی ہے ، جبکہ کابل میں بھی افغانستان کے سرکردہ سیاسی رہنماؤں میں مستقبل کے لئے کسی مجوزہ نظام پر اتفاق ہونے کا امکان کم ہی دکھائی دے رہا ہے ۔

گزشتہ ایک سو بیس سالوں کا سبق یہی ہے کہ افغانستان میں طویل مدت کے لئے نہ کبھی امن قائم ہوا ہے اور نہ وہاں سیاسی استحکام کا قیام ممکن ہو سکا بلکہ زیادہ تر افغان آپس میں حکمرانی کے لئے لڑتے رہے ہیں جبکہ دومرتبہ بیرونی حملہ آوروں سوویت یونین اور امریکا کے ساتھ بھی وہ لڑتے رہے ۔
Load Next Story