خطرات کے بادل کیوں منڈلا رہے ہیں
اس قدر سازگارماحول ہونے کے باوجود حکومت مشکل میں کیوں نظر آرہی ہے؟
پاکستان میں بظا ہر سیاسی سکون ہے۔ حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ حکومت بجٹ پاس کرانے میں بھی کامیاب ہو جائے گی۔ اپوزیشن بھی بجٹ کو پاس ہونے سے روکنے کے لیے خاص حکمت عملی نہیں بنا رہی ہے۔
ادھر اپوزیشن کے اندرونی اختلافات بھی حکومت کے لیے آسانیوں کی نوید ہیں۔ پیپلزپارٹی اور حکومت کے درمیان نورا کشتی جا ری ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جس پیپلزپارٹی نے باپ پارٹی کے ووٹوں سے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف بنایا ہو، وہ پیپلزپارٹی باپ پارٹی کی اتحادی حکومت کے لیے کوئی خطرہ بن سکے۔
اس لیے پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف عوام سے اپنا اتحاد چھپانے کے لیے محاذ آرائی کا جعلی ماحول بنا رہے ہیں۔ اس کھیل میں تحریک انصاف، پیپلزپارٹی کے ساتھ برابر شریک ہے۔ دونوں ملکر یہ کھیل کھیل رہے ہیں تا کہ پیپلز پارٹی حکومت اور اپوزیشن دونوں مزے ایک ہی ٹکٹ میں لے سکے اور حکومت کی بی ٹیم ہی اپوزیشن کی اے ٹیم بن جائے۔ اس لیے محاذ آرائی میں فکر کی کوئی بات نہیں۔ یہ بھی ایک فکس میچ ہی ہے۔ جہاں دونوں ٹیمیں ایمپائر کی مرضی سے ہی کھیل رہی ہیں۔
اس قدر سازگارماحول ہونے کے باوجود حکومت مشکل میں کیوں نظر آرہی ہے؟ جب ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کھیلنے کے لیے تیار ہیں تو پھر اسٹبلشمنٹ بھی مشکل میں کیوں نظر آرہی ہے؟ جب ہر طرف مفاہمت کے گیت گائے جا رہے ہیں، جب ملک کی بڑی جماعتیں رولز آف گیم فالو کرنے کے لیے تیار ہیں تو بغاوت اور محاذآرائی کی دھنیں کیوں سنائی دے رہی ہیں؟ جب ہر طرف چین ہی چین ہے تو طوفان کی بازگشت کیوں سنائی دے رہی ہے؟
جب پی ڈی ایم ٹوٹ گئی ہے، پھر بھی سرگوشیاں ختم کیوں نہیں ہو رہی ہیں؟سوال یہ بھی ہے کہ جب عوام میں بھی کسی بھی احتجاجی تحریک کا کوئی ماحول نہیں تو کیوں چائے کی پیالی میں طوفان لانے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ جب عوام سے بھی خطرہ نہیں تو خطرے کی گھنٹیاں کیوں بجائی جا رہی ہیں۔ کون ہے جو سکون کا ماحول نہیں بننے دے رہا ؟ کون ہے جو ڈرا رہا ہے اور سب کیوں ڈر رہے ہیں؟ کیوں حکومت کی مدت پوری کرنے پر آج بھی سوالیہ نشان ہیں؟ کیوں حکومت کے جانے کی خبریں آج بھی موجود ہیں؟ یہ صورتحال نا قابل فہم ہے۔
کیا سپریم کورٹ کا ماحول لوگوں کو خطرے کی گھنٹیا ں بجانے مجبور کر رہا ہے۔ لیکن جسٹس قاضی عیسیٰ کا معاملہ بھی تقریبا حل ہی نظر آرہا ہے۔ سپریم کورٹ میں عدالتی کاروائی بغیر کسی بحران کے ختم ہوتی نظر آئی ہے۔ حکمت اور دانائی نظر آئی ہے۔ میری رائے میں سپریم کورٹ سے جو فیصلے آئے ہیں ان کو ماننے میں ہی بہتری ہے۔
میں سمجھتا ہوں عدلیہ بھی اسٹبلشمنٹ کا ہی حصہ رہی ہے۔ اس کے بغیر اسٹبلشمنٹ مکمل نہیں ہے۔ اس لیے انھیں حکومت کو زیادہ تیزی نہیں دکھانی چاہیے۔ جسٹس شوکت صدیقی 30جون کو ریٹائر ہوجانا ہے،اس لیے فکر کی کوئی بات نہیں۔ یہ درست ہے کہ جسٹس شوکت صدیقی کی باتوں سے ن لیگ اور بالخصوص نواز شریف کو سیاسی فائدہ ہوا ہے۔
جیسے مرحوم جج ارشد ملک کی ویڈیو سے ہوا تھا۔ لیکن قانون کی عدالت میں انھیں فائدہ ہونے کے امکانات کم ہیں۔ تا ہم یہ ساری صورتحال حکومت کے لیے کسی بھی قسم کے خطرہ کا کوئی باعث نہیں ہو سکتی۔ عمران خان کے اقتدار کے لیے یہ صورتحال کیسے خطرہ بن سکتی ہے۔
جہانگیر ترین بھی خاموش ہو گئے ہیں۔ ان کے ساتھی بھی خاموش ہو گئے ہیں۔ حکومت بھی خاموش نظرآرہی ہے۔ لیکن پھر بھی جہانگیر ترین کو حکومت کے لیے خطرناک قرار دینے کی بازگشت کم نہیں ہو رہی۔ ایک طرف یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ سب کچھ ٹھنڈا ہو گیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ سے جہانگیر ترین کو ریلیف بھی مل گیا ہے۔ لیکن پھر بھی کہا جا رہا ہے کہ اصل راؤنڈ بجٹ کے بعد کھیلا جائے گا۔ اس بار حکومت کے خلاف کوئی بڑا سکینڈل سامنے آسکتا ہے۔
مریم نواز نے استعفوں کی سیاست کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے۔ انھوں نے کہہ دیا ہے کہ اب ن لیگ استعفیٰ دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ ان کے مطابق استعفوں کا آپشن صرف تب تک قابل عمل تھا اگر پیپلزپارٹی ساتھ دے۔ لیکن اگر پیپلزپارٹی نے استعفیٰ نہیں دینے تو ن لیگ اکیلی استعفیٰ نہیں دے گی۔ صاف ظاہر ہے کہ جب ن لیگ استعفیٰ نہیں دے رہی تو جے یو آئی (ف) بھی نہیں دے رہی۔ جب اپوزیشن کی ساری جماعتیں پارلیمان میں رہنے کے لیے تیار ہیں تو پھر جمہوری نظام کے لیے خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔ جب نظام کے لیے خطرے کی کوئی بات نہیں ہے تو پھر بھی خطرے کے بادل کیوں منڈلا رہے ہیں۔ کیوں پھر بھی کہا جا رہا ہے کہ حکومت خطرہ میں ہے۔
پاکستان کی سیاست میں یہ کوئی نئی صورتحال نہیں ہے۔ حکومتیں ہر وقت مشکل میں نظر آتی ہیں۔ بقا کی جنگ جاری رہتی ہے۔ بے شک حکومتیں اپنی مدت پوری بھی کرتی ہیں۔ لیکن مدت پوری کرنے کے د وران بہت سے نشیب و فراز آتے ہیں۔ شائد تحریک انصاف بھی انھیں نشیب و فراز سے گزر رہی ہے۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو تحریک انصاف اور بالخصوص عمران خان کو ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں ابھی تک بہت کم بحرانوں کا سامنا رہا ہے۔ ان کی وزارت عظمیٰ کو ان چیلنجز کا سامنا نہیں رہا جیسے چیلنجز کا ماضی کے وزر اء اعظم کو سامنا رہا۔
عمران خان کی وزارت عظمیٰ اب تک بہت آسان رہی ہے۔ اس کے باوجود اگر عوام مطمئن نہیں توکیا کیا جاسکتا ہے۔ کیا اکیلی مہنگائی حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے کافی ہے۔نہیں، آج تک کوئی بھی حکومت مہنگائی جیسے ایشوز پر گھر نہیں گئی ہے۔ انتخابات میں تو مہنگائی ایک بڑا ایشو ہو سکتا ہے لیکن قبل از وقت حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے مہنگائی اتنا بڑا ایشو نہیں ہے۔ لوگ اس پر گھروں سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لوگ پریشان ضرور ہیں۔ لیکن ابھی احتجاج کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لیے مہنگائی ایسا خطرہ نہیں ہے کہ حکومت گھر چلی جائے۔
لوڈشیڈنگ کا مسئلہ بھی عارضی ہے۔ جب گرمی کم ہو گی تو لوڈشیڈنگ بھی کم ہو جائے گی۔ ویسے تو ایک دوست کے مطابق مافیاز نے ایک کے بجائے دو دو پنکھے چلانے شروع کر دیے ہیں۔ اس لیے لوڈ شیڈنگ بڑھ گئی ہے۔ حکومت مافیاز کے گھروں سے ایک ایک پنکھا بند کرائے گی تو معاملہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ سارا کچھ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ بظاہر حکومت کے لیے کوئی خطرہ نظر نہیں آرہا ہے۔ لیکن پھر بھی خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ اور حکمران بھی پریشان ہیں۔
ادھر اپوزیشن کے اندرونی اختلافات بھی حکومت کے لیے آسانیوں کی نوید ہیں۔ پیپلزپارٹی اور حکومت کے درمیان نورا کشتی جا ری ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جس پیپلزپارٹی نے باپ پارٹی کے ووٹوں سے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف بنایا ہو، وہ پیپلزپارٹی باپ پارٹی کی اتحادی حکومت کے لیے کوئی خطرہ بن سکے۔
اس لیے پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف عوام سے اپنا اتحاد چھپانے کے لیے محاذ آرائی کا جعلی ماحول بنا رہے ہیں۔ اس کھیل میں تحریک انصاف، پیپلزپارٹی کے ساتھ برابر شریک ہے۔ دونوں ملکر یہ کھیل کھیل رہے ہیں تا کہ پیپلز پارٹی حکومت اور اپوزیشن دونوں مزے ایک ہی ٹکٹ میں لے سکے اور حکومت کی بی ٹیم ہی اپوزیشن کی اے ٹیم بن جائے۔ اس لیے محاذ آرائی میں فکر کی کوئی بات نہیں۔ یہ بھی ایک فکس میچ ہی ہے۔ جہاں دونوں ٹیمیں ایمپائر کی مرضی سے ہی کھیل رہی ہیں۔
اس قدر سازگارماحول ہونے کے باوجود حکومت مشکل میں کیوں نظر آرہی ہے؟ جب ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کھیلنے کے لیے تیار ہیں تو پھر اسٹبلشمنٹ بھی مشکل میں کیوں نظر آرہی ہے؟ جب ہر طرف مفاہمت کے گیت گائے جا رہے ہیں، جب ملک کی بڑی جماعتیں رولز آف گیم فالو کرنے کے لیے تیار ہیں تو بغاوت اور محاذآرائی کی دھنیں کیوں سنائی دے رہی ہیں؟ جب ہر طرف چین ہی چین ہے تو طوفان کی بازگشت کیوں سنائی دے رہی ہے؟
جب پی ڈی ایم ٹوٹ گئی ہے، پھر بھی سرگوشیاں ختم کیوں نہیں ہو رہی ہیں؟سوال یہ بھی ہے کہ جب عوام میں بھی کسی بھی احتجاجی تحریک کا کوئی ماحول نہیں تو کیوں چائے کی پیالی میں طوفان لانے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ جب عوام سے بھی خطرہ نہیں تو خطرے کی گھنٹیاں کیوں بجائی جا رہی ہیں۔ کون ہے جو سکون کا ماحول نہیں بننے دے رہا ؟ کون ہے جو ڈرا رہا ہے اور سب کیوں ڈر رہے ہیں؟ کیوں حکومت کی مدت پوری کرنے پر آج بھی سوالیہ نشان ہیں؟ کیوں حکومت کے جانے کی خبریں آج بھی موجود ہیں؟ یہ صورتحال نا قابل فہم ہے۔
کیا سپریم کورٹ کا ماحول لوگوں کو خطرے کی گھنٹیا ں بجانے مجبور کر رہا ہے۔ لیکن جسٹس قاضی عیسیٰ کا معاملہ بھی تقریبا حل ہی نظر آرہا ہے۔ سپریم کورٹ میں عدالتی کاروائی بغیر کسی بحران کے ختم ہوتی نظر آئی ہے۔ حکمت اور دانائی نظر آئی ہے۔ میری رائے میں سپریم کورٹ سے جو فیصلے آئے ہیں ان کو ماننے میں ہی بہتری ہے۔
میں سمجھتا ہوں عدلیہ بھی اسٹبلشمنٹ کا ہی حصہ رہی ہے۔ اس کے بغیر اسٹبلشمنٹ مکمل نہیں ہے۔ اس لیے انھیں حکومت کو زیادہ تیزی نہیں دکھانی چاہیے۔ جسٹس شوکت صدیقی 30جون کو ریٹائر ہوجانا ہے،اس لیے فکر کی کوئی بات نہیں۔ یہ درست ہے کہ جسٹس شوکت صدیقی کی باتوں سے ن لیگ اور بالخصوص نواز شریف کو سیاسی فائدہ ہوا ہے۔
جیسے مرحوم جج ارشد ملک کی ویڈیو سے ہوا تھا۔ لیکن قانون کی عدالت میں انھیں فائدہ ہونے کے امکانات کم ہیں۔ تا ہم یہ ساری صورتحال حکومت کے لیے کسی بھی قسم کے خطرہ کا کوئی باعث نہیں ہو سکتی۔ عمران خان کے اقتدار کے لیے یہ صورتحال کیسے خطرہ بن سکتی ہے۔
جہانگیر ترین بھی خاموش ہو گئے ہیں۔ ان کے ساتھی بھی خاموش ہو گئے ہیں۔ حکومت بھی خاموش نظرآرہی ہے۔ لیکن پھر بھی جہانگیر ترین کو حکومت کے لیے خطرناک قرار دینے کی بازگشت کم نہیں ہو رہی۔ ایک طرف یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ سب کچھ ٹھنڈا ہو گیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ سے جہانگیر ترین کو ریلیف بھی مل گیا ہے۔ لیکن پھر بھی کہا جا رہا ہے کہ اصل راؤنڈ بجٹ کے بعد کھیلا جائے گا۔ اس بار حکومت کے خلاف کوئی بڑا سکینڈل سامنے آسکتا ہے۔
مریم نواز نے استعفوں کی سیاست کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے۔ انھوں نے کہہ دیا ہے کہ اب ن لیگ استعفیٰ دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ ان کے مطابق استعفوں کا آپشن صرف تب تک قابل عمل تھا اگر پیپلزپارٹی ساتھ دے۔ لیکن اگر پیپلزپارٹی نے استعفیٰ نہیں دینے تو ن لیگ اکیلی استعفیٰ نہیں دے گی۔ صاف ظاہر ہے کہ جب ن لیگ استعفیٰ نہیں دے رہی تو جے یو آئی (ف) بھی نہیں دے رہی۔ جب اپوزیشن کی ساری جماعتیں پارلیمان میں رہنے کے لیے تیار ہیں تو پھر جمہوری نظام کے لیے خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔ جب نظام کے لیے خطرے کی کوئی بات نہیں ہے تو پھر بھی خطرے کے بادل کیوں منڈلا رہے ہیں۔ کیوں پھر بھی کہا جا رہا ہے کہ حکومت خطرہ میں ہے۔
پاکستان کی سیاست میں یہ کوئی نئی صورتحال نہیں ہے۔ حکومتیں ہر وقت مشکل میں نظر آتی ہیں۔ بقا کی جنگ جاری رہتی ہے۔ بے شک حکومتیں اپنی مدت پوری بھی کرتی ہیں۔ لیکن مدت پوری کرنے کے د وران بہت سے نشیب و فراز آتے ہیں۔ شائد تحریک انصاف بھی انھیں نشیب و فراز سے گزر رہی ہے۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو تحریک انصاف اور بالخصوص عمران خان کو ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں ابھی تک بہت کم بحرانوں کا سامنا رہا ہے۔ ان کی وزارت عظمیٰ کو ان چیلنجز کا سامنا نہیں رہا جیسے چیلنجز کا ماضی کے وزر اء اعظم کو سامنا رہا۔
عمران خان کی وزارت عظمیٰ اب تک بہت آسان رہی ہے۔ اس کے باوجود اگر عوام مطمئن نہیں توکیا کیا جاسکتا ہے۔ کیا اکیلی مہنگائی حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے کافی ہے۔نہیں، آج تک کوئی بھی حکومت مہنگائی جیسے ایشوز پر گھر نہیں گئی ہے۔ انتخابات میں تو مہنگائی ایک بڑا ایشو ہو سکتا ہے لیکن قبل از وقت حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے مہنگائی اتنا بڑا ایشو نہیں ہے۔ لوگ اس پر گھروں سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لوگ پریشان ضرور ہیں۔ لیکن ابھی احتجاج کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لیے مہنگائی ایسا خطرہ نہیں ہے کہ حکومت گھر چلی جائے۔
لوڈشیڈنگ کا مسئلہ بھی عارضی ہے۔ جب گرمی کم ہو گی تو لوڈشیڈنگ بھی کم ہو جائے گی۔ ویسے تو ایک دوست کے مطابق مافیاز نے ایک کے بجائے دو دو پنکھے چلانے شروع کر دیے ہیں۔ اس لیے لوڈ شیڈنگ بڑھ گئی ہے۔ حکومت مافیاز کے گھروں سے ایک ایک پنکھا بند کرائے گی تو معاملہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ سارا کچھ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ بظاہر حکومت کے لیے کوئی خطرہ نظر نہیں آرہا ہے۔ لیکن پھر بھی خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ اور حکمران بھی پریشان ہیں۔