’’نیلا ستارہ‘‘ ابھی غروب نہیں ہُوا

مودی حکومت بھارتی سکھ کسانوں کا کوئی مطالبہ بھی نہ تسلیم کرکے بھارت کے خلاف نئی نفرت کو جنم دے رہی ہے۔

tanveer.qaisar@express.com.pk

ہمارے ہاں 6جون کا دن آیا اور خاموشی سے گزر گیا۔ کسی کو یاد ہی نہیں رہا کہ 37سال قبل یہ دن بھارتی پنجاب، میں یوں طلوع ہُوا تھا کہ سکھ مذہب کے مقدس ترین مقام میں بھارتی فوج نے خون کی ندیاں بہا دی تھیں۔

امرتسر میں گولڈن ٹیمپل (شری ہرمندر صاحب) پر انڈین آرمی کے حملے نے بھارت اور سکھ قوم کے دل و دماغ اور رُوحوں پر ایسا گہرا گھاؤ لگایا جسے ساڑھے تین عشرے سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود فراموش نہیں کیا جا سکا ہے۔

6جون کو بھارتی غالب سیاستدانوں، بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور بھارتی فوج نے بھارتی سکھوںکو ایسا زخم لگایا جسے کبھی مندمل نہیں کیا جا سکے گا۔ ہمارے ہاں تو 6جون کا دن خاموشی سے گزر گیا لیکن بھارت اور دُنیا بھر میں بسنے والے سکھوں نے خالصتان تحریک کے رُوحِ رواں سنت جرنیل سنگھ بھندڑانوالے کی عظیم قربانی کو یاد کرکے گزارا ہے۔

سکھوں اور نہنگوں نے 6جون 2021 کو گولڈن ٹیمپل امرتسر میں ''خالصتان زندہ باد'' کے نعرے لگا کر بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا سینہ دہلا دیا ہے۔37سال پہلے بھارتی پنجاب میں خالصتان کا نام لینا شجرِ ممنوعہ اور قابلِ گرفت جرم تھا لیکن آج بھارت بھر میں خالصتان کے نعرے سرِ عام سنائی دے رہے ہیں اور خالصتان کا مخصوصی رنگا جھنڈا بھی کہیں کہیں لہرا دیا جاتا ہے ۔ ابھی ایک ماہ قبل ایک سکھ نوجوان نے دِلّی کے لال قلعہ پر خالصتان کا پرچم لہرا دیا تھا اور بھارتی پولیس دیکھتی رہ گئی تھی ۔

6جون 2021 کو امریکا، کینیڈا ، جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں لاکھوں سکھوں نے خالصتان اور سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے کو بھی نئی عقیدتوں اور محبتوں سے یاد کیا ہے اور ایک بار پھر اس عہد کو دہرایا ہے کہ خالصتان بن کر رہے گا۔ 6جون1984 کو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے گولڈن ٹیمپل پر حملہ کرنے کا حکم دے ڈالا تھا۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ اُن تاریخی لمحات میں بھارت کا صدر بھی سکھ تھا، بھارتی فوج کا سربراہ بھی سکھ تھا اور جس بھارتی جنرل کی کمان میں گولڈن ٹیمپل پر یلغار کی گئی ، وہ بھی سکھ پنتھی تھا۔

اس خونریز اور وحشیانہ حملے کو انڈین آرمی نے ''آپریشن بلیو اسٹار'' کا نام دیا تھا۔ بھارتی پنجاب کے آسمان پر خوں آشام نیلے ستارے کے طلوع ہونے سے کئی ماہ قبل بابا جی سنت جرنیل سنگھ بھندرانوالے نے متعدد قومی اور بین الاقوامی میڈیا سے مکالمہ کرتے ہُوئے بار بار یہ تاریخی الفاظ کہے تھے:'' اگر بھارتی فوجوں نے باہمنی (وزیر اعظم مسز اندراگاندھی)کے حکم کی تعمیل میں گولڈن ٹیمپل کا فوجی محاصرہ کیا اور میرے خالصوں اور سنگھوں پر ایک بھی گولی چلائی تو سمجھئے اُسی دن خالصتان کی باقاعدہ بنیاد رکھ دی جائے گی۔''

سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے نے یہ بھی کہا تھا:''ضمیر نہیں مرنا چاہیے ، بدن کی موت کوئی معنیٰ نہیں رکھتی''۔سنت جی نے اپنی اور اپنے سیکڑوں پیارے نوجوان اور ضعیف سنگھوں کی قربانی دے کر اپنے کہے الفاظ کی لاج رکھ لی مگر برہمن وزیر اعظم اور اُس کے لاتعداد حملہ آور لشکروں کے سامنے ہتھیار پھینکے نہ جان بخشی کی بھیک مانگی ۔


گولڈن ٹیمپل میں محصور سنت جرنیل سنگھ کی قیادت میں بھارتی فوج سے بھِڑ جانے والے مسلح سنگھوں کی تعداد چند سو ہی تھی لیکن اُن کا جذبہ بے کنار اور بے اماں تھا۔ بھلا جدید اسلحے سے لَیس پوری ریاستی فوج سے محدود ہتھیاروںسے سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اور اُن کے ساتھی مقابلہ کر سکتے تھے؟ نہیں، ہر گز نہیں ۔ انھیں خوب معلوم تھا کہ اُن کی موت نوشتہ دیوار ہے لیکن پھر بھی ممولے جی جان سے قاہر فوج سے لڑے اور امر ہو گئے ۔

ان سب سنگھ یودھأوں اور مہا سرفروشوں کو آج بھارتی پنجاب ہی نہیں ، پوری دُنیا کے سکھ فخرسے یاد کرتے نظر آتے ہیں۔انڈین اسٹیبلشمنٹ کا دعویٰ ہے کہ ''آپریشن بلیو اسٹار'' میں صرف دو، چار سو سکھ قتل ہُوئے لیکن حملے کے تین خونی اور خونریز ایام میں گولڈن ٹیمپل کے اندر جو سکھ یاتری موجود تھے، آپریشن کے بعد ان سب نے عدالتوں اور میڈیا کے سامنے شہادتیں دیں کہ انڈین آرمی کے ہاتھوں قتل ہونے والے بے گناہ سکھوں کی تعداد 7ہزار سے کسی طرح بھی کم نہیں تھی۔

پانچ، چھ اور سات جون 1984 کو آسمان سے سورج بے پناہ گرمی کے گولے پھینک رہا تھا اور نیچے سے بھارتی فوج ٹینکوں، توپوں اور جدید مشین گنوں سے مقدس ترین گولڈن ٹیمپل پر آتش و آہن برسا رہی تھی ۔ بے گناہ سکھ یاتریوں کو بھی بھون ڈالا گیا ۔

دو بھارتی بہادر سکھ نوجوانوں نے گولڈن ٹیمپل کی توہین اور بے حرمتی کا بدلہ یوں لیا کہ اندرا گاندھی کی جان ہی لے لی۔ ہزاروں سکھوں کے بہیمانہ بہائے گئے خون کا نتیجہ اِسی سنگین سانحہ کی شکل میں نکلنا تھا۔ اندرا گاندھی کے قتل پر بپھرے بھارتی ہندوؤں نے بھارت میں بسنے والے سکھوں کے خون کی ہولی دل کھول کر کھیلی۔

اس قتل کے بعد نئے نئے بننے والے بھارتی وزیر اعظم، راجیو گاندھی، نے ہزاروں مقتول سکھوں کے خلاف ایسا دل آزار بیان دیا تھا جو آج بھی سکھوں کے دلوں پر نقش ہے اور دن رات سکھوں کو اپنی بے بسی کا احساس دلاتا ہے ۔مجھے جاری جون کے اِن ایام میں یو ٹیوب پر پڑی عظیم سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے کی کئی تقاریر سننے کے مواقع ملے ہیں۔

حیرت سے انسان سوچتا ہے کہ سنت جی کس جذبے اور جرأت سے بھارتی اسٹیبلشمنٹ، بھارتی فوج اور بھارتی وزیر اعظم کو للکارتے رہے ! مجھے سنت جرنیل سنگھ جی کے دونوں صاحبزادگان ( ایشر سنگھ اور اندر جیت سنگھ) کے ولولہ انگیز انٹرویوز بھی سننے کا موقع ملا ہے۔

مَیں نے سنت جی کے ساتھ جان دینے والے اُن کے دونوں قریب ترین ساتھیوں ( بھائی امریک سنگھ اور بھائی تھارا سنگھ) کے بیٹوں اور بیٹیوں کی باتیں بھی حالیہ ایام میں سُنی ہیں ۔ سب کی آنکھوں میں ''نیلے ستارے'' اور اسے آپریٹ کرنے والوں کے خلاف شعلوں کی لپک دکھائی دی ہے۔ ان شعلوں کی حدت مدہم اور ماند پڑنے والی نہیں ہے۔ اس کی ایک انوکھی اور نئی جھلک ہم گزشتہ کئی ماہ سے نئی دہلی میں جاری حکومت مخالف بھارتی کسانوں کی طاقتور تحریک میں مسلسل دیکھ رہے ہیں ۔

اس کسان تحریک میں بھارتی پنجاب کے محنت کش سکھ کسان مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں ۔ مودی حکومت بھارتی سکھ کسانوں کا کوئی مطالبہ بھی نہ تسلیم کرکے بھارت کے خلاف نئی نفرت کو جنم دے رہی ہے ۔ نریندر مودی کی یہ ضد بھی اپنی زبان سے اعلان کررہی ہے کہ خوں آشام ''نیلا ستارہ'' ابھی غروب نہیں ہُوا ہے ۔ یہ ہنوذ بھارتی سکھوں، بھارتی مسلمانوںاور بھارتی مسیحیوں سمیت مظلوم کشمیریوں کا مزید خون پینا چاہتا ہے ۔
Load Next Story