عام آدمی پارٹی۔۔۔اروند کچروال زندہ باد
ہندوستان میں ’’عام آدمی پارٹی‘‘ بننے کی وجہ روزمرہ کی غذائی اشیا کی کمر توڑ مہنگائی کو قرار دیا جارہا ہے
اخبار ایکسپریس کے عین ماتھے کے بیچوں بیچ اروند کچروال کی رنگین تصویر شایع ہوئی، تصویر کے ساتھ خبر بھی ہے جس کی سرخی ہے ''پانی مفت' بجلی کی قیمت آدھی' وزیر اعلیٰ دہلی کچروال نے وعدے پورے کرنا شروع کردیے۔'' تفصیل یوں درج ہے عام آدمی پارٹی دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کچروال نے برسر اقتدار آتے ہی وعدے پورے کرنا شروع کردیے ہیں۔ انھوں نے 400 یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے قیمت آدھی کرنے کا اعلان کیا ہے۔اس سے قبل انھوں نے دہلی شہر کے ہر خاندان کو روزانہ 700 لیٹر پانی مفت فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس سے زیادہ پانی استعمال کرنے والوں کے لیے پانی کی قیمت میں 10 فیصد اضافہ کردیا گیا ہے۔ اروند کچروال پہلے وزیر اعلیٰ ہیں جنھوں نے ایک پولیس چھاپے کے دوران شراب مافیا کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے پولیس اہلکار ونودکمار کے خاندان کو ایک کروڑ روپے کی سب سے بڑی امدادی رقم دی ہے۔''
ہندوستان میں ''عام آدمی پارٹی'' بننے کی وجہ روزمرہ کی غذائی اشیا کی کمر توڑ مہنگائی کو قرار دیا جارہا ہے۔ ٹماٹر، آلو ودیگر سبزیاں، دالیں، آٹا، چینی، گھی، غریب آدمی مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہا تھا کہ اروند کچروال نے عام آدمی پارٹی بناکر ایک انقلاب کردیا۔ کچروال کی جماعت کے جو لوگ انتخابی میدان میں کودے۔ وہ سب کے سب اپنی جماعت کے نام کے عین مطابق عام لوگ تھے، جنھیں اکثریت میں موجود عام عام ووٹرز نے جھولیاں بھر بھر کے پارٹی کو ہر مذہب و عقیدے کے لوگوں نے ووٹ دیے۔ غریبوں نے مذہب و عقیدے کو الگ کرتے ہوئے صرف ایک پہچان کے تحت ووٹ ڈالے کہ وہ غریب ہیں۔ الیکشن میں تاریخی و انقلابی فتح حاصل کرنے کے بعد دہلی میں اقتدار حاصل کرنے سے پہلے۔عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کچروال اور ان کے ساتھیوں نے لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوکر۔ اللہ، بھگوان اور رام کا شکر ادا کیا۔
ہمارے 18 کروڑ پاکستانیوں میں آدھے سے زیادہ لوگ غربت و بے روزگاری کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ہمارے پھول سے بچے کچرا کنڈیوں سے روٹی، سالن، گلے سڑے پھل نکال کر کھاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں پیٹ بھرنے کی خاطر ''مجبوریاں'' بکتی ہیں۔ ہمارے غریب لوگ بغیر علاج کے مرجاتے ہیں اور ایدھی ودیگر فلاحی تنظیمیں کفن دفن کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں قانون صرف غریبوں کے لیے ہے۔ سڑکوں پر کھڑے قانون کے باوردی محافظ کھڑے ہی رہ جاتے ہیں اور لاکھوں روپوں مالیت کی قیمتی گاڑیاں قانون کی دھجیاں بکھیر کر فضا میں اڑتی چلی جاتی ہیں اور قانون کے باوردی محافظ کسی غریب رکشے والے کو، ٹیکسی والے کو، موٹرسائیکل سوار کو، چھوٹی کار والوں کو روک روک کر اپنے ''فرائض'' ادا کرتے ہیں۔ غریب ٹھیلے والے قانون کے باوردی محافظوں کو روزانہ بھتہ ادا کرتے ہیں۔ اونچی اونچی پختہ مضبوط دیواروں والے، گھروں کے اندر کیا ہو رہا ہے مجبوریاں کیسے رسوائیاں بن رہی ہیں۔ مجبورکی آہیں، آنسو، فولادی دروازوں کی دہلیزوں پر بہہ جاتے ہیں۔
یہ اروند کچروال کی غریب آدمی پارٹی نے اپنے ملک ہندوستان میں جو رنگ دکھایا ہے۔ یہ ہمارے پڑوس میں جو جوت جگی ہے۔ یہ انقلاب ، یہ سوچ، یہ حوصلہ، یہ ہمت، یہ جرأت محلوں، حویلیوں، ٹریڈنگ ایمپائرز سے نہیں پیدا ہوگی۔ اس کے لیے ہمیں بھی عام آدمیوں کے اندر سے اروند کچروال کو نکال کر آگے لانا ہوگا۔ یہ وسائل پر قابض کھیتوں کھلیانوں پر قابض صنعتوں پر قابض، ملکی خزانوں پر قابض، یہ ''سنہرے لوگ'' کبھی عام آدمی کو اس کا حق نہیں دیں گے۔ اس بار بھی اسمبلیوں میں وہی مامے چاچے، بھانجے، بھتیجے، بیٹے بیٹیاں، بہوئیں، داماد، سب پہنچ گئے ہیں اور سیاست، سیاست کھیل رہے ہیں۔ بلوچستان سے پیدل چلنے والا احتجاجی قافلہ چند دن کراچی میں قیام کے بعد آگے روانہ ہوا تھا۔ خبر چھپی ہے کہ بلوچ مرد اور عورتوں، لڑکیوں پر مشتمل یہ قافلہ سندھ کے شہر قاضی احمد پہنچ گیا ہے۔ کسی لیڈر، کسی رہنما، کسی ممبر قومی ، صوبائی اسمبلی یا سینیٹر نے خبر لی کہ اس بلوچ قافلے کا کیا حال ہے کوئی اس قافلے کے ساتھ چند قدم چلا؟ پورے ملک کو سرد ہواؤں نے گھیر رکھا ہے۔ یہ بلوچ اپنے مغوی بھائیوں، بیٹوں، شوہروں کے لیے پیدل چلتے ہوئے اسلام آباد پہنچیں گے۔ اب یہ بلوچ فیصلہ کن مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ جالب کی چند لائنیں یوں ہی یاد آگئی ہیں:
ملک کٹتا ہے کٹے' کرو تقریر
خون بہتا ہے بہے' کرو تقریر
کوئی کچھ بھی کہے کرو تقریر
سب ہیں خوشحال' ہاتھ اٹھواؤ
یوں تماشا' جہاں کو دکھلاؤ
اروند کچروال کے نام میں کچر سے مجھے اپنے ملک کے کچرے لوگ دھیان میں آجاتے ہیں۔ ارے بھائی! اروند کچروال ذرا پہلی فرصت میں وقت نکال کر ہم کچرے لوگوں سے بھی ملاقات کرلو! سنا ہے مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کو وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے دورہ پاکستان کی دعوت دی ہے اور سنا ہے مما بنرجی نے یہ دعوت قبول بھی کرلی ہے۔ خبر کے ساتھ وزیر اعلیٰ مغربی بنگال کی تصویر بھی شایع ہوئی ہے، تصویر دیکھ کر لگتا ہے جیسے ہمارے ملک کے کسی پسماندہ محلے کی رہائشی خاتون ہوں۔ نہ بال بنے سنورے، نہ بیوٹی پارلر والا چہرہ۔
اے اللہ! ہمیں ایسے رہنما کب ملیں گے؟ آئیے اس کا جواب شاعر عوام حبیب جالب سے لیتے ہیں:
ہم ہی جب آئیں گے تو بنے گی بات میاں
ورنہ رہیں گے دکھ کے یہی حالات میاں
اب نہ بہیں گے آنسو' پیاسی آنکھوں سے
رو رو کر کاٹی ہے' بہت برسات میاں
صبح کی کرنیں ہر آنگن میں ناچیں گی
اور کوئی دم کی ہے' یہ غم کی رات میاں
پھر نہ کرے گا' کوئی بھی شکوہ قسمت کا
باگ ڈور جب آئے گی اپنے ہاتھ میاں
دکھیاروں کا راج اب آنے والا ہے
ہر ظالم کی ہوگی' بازی مات میاں
ہندوستان میں ''عام آدمی پارٹی'' بننے کی وجہ روزمرہ کی غذائی اشیا کی کمر توڑ مہنگائی کو قرار دیا جارہا ہے۔ ٹماٹر، آلو ودیگر سبزیاں، دالیں، آٹا، چینی، گھی، غریب آدمی مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہا تھا کہ اروند کچروال نے عام آدمی پارٹی بناکر ایک انقلاب کردیا۔ کچروال کی جماعت کے جو لوگ انتخابی میدان میں کودے۔ وہ سب کے سب اپنی جماعت کے نام کے عین مطابق عام لوگ تھے، جنھیں اکثریت میں موجود عام عام ووٹرز نے جھولیاں بھر بھر کے پارٹی کو ہر مذہب و عقیدے کے لوگوں نے ووٹ دیے۔ غریبوں نے مذہب و عقیدے کو الگ کرتے ہوئے صرف ایک پہچان کے تحت ووٹ ڈالے کہ وہ غریب ہیں۔ الیکشن میں تاریخی و انقلابی فتح حاصل کرنے کے بعد دہلی میں اقتدار حاصل کرنے سے پہلے۔عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کچروال اور ان کے ساتھیوں نے لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوکر۔ اللہ، بھگوان اور رام کا شکر ادا کیا۔
ہمارے 18 کروڑ پاکستانیوں میں آدھے سے زیادہ لوگ غربت و بے روزگاری کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ہمارے پھول سے بچے کچرا کنڈیوں سے روٹی، سالن، گلے سڑے پھل نکال کر کھاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں پیٹ بھرنے کی خاطر ''مجبوریاں'' بکتی ہیں۔ ہمارے غریب لوگ بغیر علاج کے مرجاتے ہیں اور ایدھی ودیگر فلاحی تنظیمیں کفن دفن کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں قانون صرف غریبوں کے لیے ہے۔ سڑکوں پر کھڑے قانون کے باوردی محافظ کھڑے ہی رہ جاتے ہیں اور لاکھوں روپوں مالیت کی قیمتی گاڑیاں قانون کی دھجیاں بکھیر کر فضا میں اڑتی چلی جاتی ہیں اور قانون کے باوردی محافظ کسی غریب رکشے والے کو، ٹیکسی والے کو، موٹرسائیکل سوار کو، چھوٹی کار والوں کو روک روک کر اپنے ''فرائض'' ادا کرتے ہیں۔ غریب ٹھیلے والے قانون کے باوردی محافظوں کو روزانہ بھتہ ادا کرتے ہیں۔ اونچی اونچی پختہ مضبوط دیواروں والے، گھروں کے اندر کیا ہو رہا ہے مجبوریاں کیسے رسوائیاں بن رہی ہیں۔ مجبورکی آہیں، آنسو، فولادی دروازوں کی دہلیزوں پر بہہ جاتے ہیں۔
یہ اروند کچروال کی غریب آدمی پارٹی نے اپنے ملک ہندوستان میں جو رنگ دکھایا ہے۔ یہ ہمارے پڑوس میں جو جوت جگی ہے۔ یہ انقلاب ، یہ سوچ، یہ حوصلہ، یہ ہمت، یہ جرأت محلوں، حویلیوں، ٹریڈنگ ایمپائرز سے نہیں پیدا ہوگی۔ اس کے لیے ہمیں بھی عام آدمیوں کے اندر سے اروند کچروال کو نکال کر آگے لانا ہوگا۔ یہ وسائل پر قابض کھیتوں کھلیانوں پر قابض صنعتوں پر قابض، ملکی خزانوں پر قابض، یہ ''سنہرے لوگ'' کبھی عام آدمی کو اس کا حق نہیں دیں گے۔ اس بار بھی اسمبلیوں میں وہی مامے چاچے، بھانجے، بھتیجے، بیٹے بیٹیاں، بہوئیں، داماد، سب پہنچ گئے ہیں اور سیاست، سیاست کھیل رہے ہیں۔ بلوچستان سے پیدل چلنے والا احتجاجی قافلہ چند دن کراچی میں قیام کے بعد آگے روانہ ہوا تھا۔ خبر چھپی ہے کہ بلوچ مرد اور عورتوں، لڑکیوں پر مشتمل یہ قافلہ سندھ کے شہر قاضی احمد پہنچ گیا ہے۔ کسی لیڈر، کسی رہنما، کسی ممبر قومی ، صوبائی اسمبلی یا سینیٹر نے خبر لی کہ اس بلوچ قافلے کا کیا حال ہے کوئی اس قافلے کے ساتھ چند قدم چلا؟ پورے ملک کو سرد ہواؤں نے گھیر رکھا ہے۔ یہ بلوچ اپنے مغوی بھائیوں، بیٹوں، شوہروں کے لیے پیدل چلتے ہوئے اسلام آباد پہنچیں گے۔ اب یہ بلوچ فیصلہ کن مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ جالب کی چند لائنیں یوں ہی یاد آگئی ہیں:
ملک کٹتا ہے کٹے' کرو تقریر
خون بہتا ہے بہے' کرو تقریر
کوئی کچھ بھی کہے کرو تقریر
سب ہیں خوشحال' ہاتھ اٹھواؤ
یوں تماشا' جہاں کو دکھلاؤ
اروند کچروال کے نام میں کچر سے مجھے اپنے ملک کے کچرے لوگ دھیان میں آجاتے ہیں۔ ارے بھائی! اروند کچروال ذرا پہلی فرصت میں وقت نکال کر ہم کچرے لوگوں سے بھی ملاقات کرلو! سنا ہے مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کو وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے دورہ پاکستان کی دعوت دی ہے اور سنا ہے مما بنرجی نے یہ دعوت قبول بھی کرلی ہے۔ خبر کے ساتھ وزیر اعلیٰ مغربی بنگال کی تصویر بھی شایع ہوئی ہے، تصویر دیکھ کر لگتا ہے جیسے ہمارے ملک کے کسی پسماندہ محلے کی رہائشی خاتون ہوں۔ نہ بال بنے سنورے، نہ بیوٹی پارلر والا چہرہ۔
اے اللہ! ہمیں ایسے رہنما کب ملیں گے؟ آئیے اس کا جواب شاعر عوام حبیب جالب سے لیتے ہیں:
ہم ہی جب آئیں گے تو بنے گی بات میاں
ورنہ رہیں گے دکھ کے یہی حالات میاں
اب نہ بہیں گے آنسو' پیاسی آنکھوں سے
رو رو کر کاٹی ہے' بہت برسات میاں
صبح کی کرنیں ہر آنگن میں ناچیں گی
اور کوئی دم کی ہے' یہ غم کی رات میاں
پھر نہ کرے گا' کوئی بھی شکوہ قسمت کا
باگ ڈور جب آئے گی اپنے ہاتھ میاں
دکھیاروں کا راج اب آنے والا ہے
ہر ظالم کی ہوگی' بازی مات میاں