کسبِ حلال
’’اولادِ آدم میں کوئی انسان اس شخص سے بہتر روزی نہیں کھا سکتا جو اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتا ہو۔ ‘‘
اﷲ تعالیٰ ہمارے ''رازق'' ہیں یعنی تمام مخلوقات کو ساری ضروریاتِ زندگی عطا فرمانے والے ہیں۔
اپنے محض فضل و احسان کی وجہ سے اس رزّاق ذات نے تمام مخلوقات کی روزی کا ذمہ خود لے لیا ہے اور ہمیں رزقِ حلال کمانے کا حکم دیا ہے۔ اُس مسبب الاسباب ذات نے رزقِ حلال کو اِس دنیا (دارالاسباب) میں تحت الاسباب رکھا ہے لیکن ان اسباب کو اختیار کرنے میں محض عقل کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا، بل کہ شریعت کی تعلیمات کا مکلف بنا دیا ہے۔ کیوں کہ محض عقل حلال و حرام میں فرق اور تمیز نہیں کر سکتی جب تک کہ شریعت کی تعلیمات کو اس کے ساتھ دل و جان سے تسلیم نہ کر لیا جائے۔
٭ حصولِ رزق کا معتدل اسلامی نظریہ:
اسلام وہ اعتدال والا دین ہے جس میں نہ افراط کی گنجائش ہے اور نہ ہی تفریط کی بل کہ اس کے تمام ارکان میں اعتدال ہی اعتدال ہے۔ نہ تو اسلام رہبانیت کا درس دیتا کہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہو اور نہ ہی نکمے پن اور بھکاری پن کو کسی صورت تسلیم کرتا ہے بل کہ کسبِ حلال کی ناصرف ترغیب بل کہ حکم دیتا ہے۔ اسلام میں واضح طور پر اس کے تمام جائز ذرائع کی حوصلہ افزائی اور اس سے متعلق تفصیلی احکامات موجود ہیں۔
٭ زبانِ فطرت کی صدا:
جس جہان میں ہم آباد ہیں اس جہاں میں انسان کے علاوہ دیگر کئی جان دار و غیر جان دار مخلوقات ہیں: زمین، آسمان، سورج، چاند، ستارے، حجر و شجر، آگ، پانی، مٹی۔ بری، بحری اور فضائی جانور اور چرند و پرند وغیرہ سب کے سب خدا تعالیٰ کے حکم کے پابند ہو کر اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں تو اشرف المخلوقات انسان کیوں عضو معطل کی طرح نکما اور بے کار بیٹھا رہے۔۔۔۔؟
٭ احسانِ خداوندی:
انسان کے سمجھنے کے لیے ارض و سما کا فطری نظام بھی کافی تھا لیکن خدائے بزرگ و برتر کا احسان دیکھیے کہ ان سب کے باوجود حصولِ رزق کے لیے جائز ذرائع اپنانے کا واضح طور پر انسان کو حکم دیا، مفہوم: ''اور اﷲ کے فضل (رزق، روزی) کو کمانے کے لیے شرعاً جائز ذرائع استعمال کرو۔
٭ حصولِ رزق کے جائز ذرائع:
جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ اسلام نے حصول رزق کے معاملے میں انسان کو عقل کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا بل کہ اس کو شریعت کی تعلیمات پر عمل کرنے کا پابند کیا ہے اور شریعت میں حصول رزق کے ذرائع میں ایسی وسعت رکھی ہے کہ ہر طبقے کا انسان اس میں شامل نظر آتا ہے۔ اجمالی طور پر ہم اسے چار حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں: تجارت۔ صنعت۔ زراعت اور مزدوری
٭ تجارت اور تاجر:
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''سچائی اور ایمان داری کے ساتھ کاروبار کرنے والا تاجر (روز محشر) نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔'' (جامع الترمذی)
٭ ذخیرہ اندوز تاجر ملعون ہے:
حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جائز طریقے سے نفع کمانے والے تاجر کو (برکت والا ) رزق ملتا ہے جب کہ ذخیرہ اندوزی کرنے والا اﷲ کی رحمت سے خود کو دور کر نے والا (لعنتی) ہے۔''
(سنن ابن ماجہ)
٭ صنعت اور صنعت کار:
حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''اﷲ تعالیٰ صنعت والے (مومن) کو پسند فرماتے ہیں۔''
(المعجم الکبیر للطبرانی)
٭ جانشین رسول کریمؐ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا طرزِ عمل:
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ جب حضرت ابوبکرؓ کو نبی کریم ﷺ کا جانشین اور خلیفہ منتخب کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: میری قوم یہ بات جانتی ہے کہ میرا تجارتی کاروبار ہے جو میرے اہل و عیال کی گزران کے لیے کافی ہے لیکن اب میں مسلمانوں کے انتظامی معاملات میں مشغول ہو رہا ہوں (اس وجہ سے خود کما نہیں سکتا) اس لیے میرے گھر والے بیت المال سے کھائیں گے اور میں مسلمانوں کا مالِ تجارت بڑھاتا رہوں گا۔
(صحیح البخاری)
٭ زراعت اور کاشت کار:
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جو مسلمان شجر کاری یا کھیتی باڑی کرتا ہے۔ اس سے پرندے، انسان اور جانور اپنی غذا حاصل کرتے ہیں تو یہ اس کے لیے صدقہ بن جاتا ہے۔'' (صحیح البخاری)
اسلام کے معاشی نظام میں زراعت کو جن اصولوں کی روشنی میں ذکر کیا گیا ہے ان میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زراعت سے صرف کاشت کار ہی فائدہ نہیں اٹھاتا بل کہ عشر کی وجہ سے غریبوں کو بھی اس فائدہ پہنچتا ہے۔
٭ مزدوری اور مزدور:
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور آپؐ سے مالی امداد کی درخواست کی۔ آپؐ نے ان کا مالی تعاون کرنے کے بہ جائے انہی سے سوال کیا کہ آپ کے گھر میں کچھ سامان وغیرہ ہے؟ انصاری نے عرض کی: جی ہاں۔ ایک ٹاٹ ہے جس کے آدھے حصے کو میں نیچے بچھاتا ہوں اور دوسرے آدھے حصے کو اوپر لیتا ہوں۔ اس کے علاوہ ایک پیالہ ہے جس میں پانی پیتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ۔ وہ گھر گئے اور دونوں چیزیں لا کر رسول اﷲ ﷺ کے سامنے پیش کر دیں۔
آپ ﷺ نے ان چیزوں کو اپنے ہاتھ مبارک میں لیا اور حاضرینِ مجلس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: یہ دونوں چیزیں خریدنے کے لیے کون تیار ہے؟ ایک شخص نے عرض کی: میں یہ دونوں چیزیں ایک درہم میں خریدنے کو تیار ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کوئی اس سے زیادہ قیمت میں خریدنے والا ہو تو بتائے؟ آپ ﷺ نے یہ بات دو تین بار دہرائی۔ ایک دوسرے شخص کہنے لگے: میں یہ چیزیں دو درہم میں خریدتا ہوں اور آپ ﷺ کی خدمت میں دو درہم پیش کیے۔
چناں چہ آپ ﷺ نے یہ دونوں چیزیں دو درہم کے عوض اس کو بیچ دیں اور وہ دو درہم اس انصاری کو دیتے ہوئے فرمایا: آپ ایک درہم سے اپنے اہل خانہ کے لیے کھانے پینے کا سامان خرید لو اور دوسرے درہم سے بازار سے ایک کلہاڑی خرید کر میرے پاس لاؤ۔ وہ انصاری صحابی گئے اور آپ ﷺ کے حکم کی تعمیل میں ایک درہم کا سودا سلف لے کر گھر دیا اور دوسرے درہم کی کلہاڑی خرید کر آپؐ کے پاس لائے۔
آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے کلہاڑی میں لکڑی کا دستہ ڈالا اور ان سے فرمایا: یہ کلہاڑی لو اور جنگل کی طرف چلے جاؤ، وہاں سے لکڑیاں کاٹو اور انہیں بیچو! مجھے پندرہ دن تک یہاں نظر نہ آؤ۔ وہ انصاری صحابیؓ چلے گئے اور لکڑیاں کاٹ کاٹ کر بیچتے رہے جب ان کے پاس دس درہم جمع ہو گئے تو انہوں نے اپنے گھر والوں کے لیے کپڑے اور کھانے پینے کی اشیاء خریدیں۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: یہ اپنے ہاتھوں سے محنت مزدوری کر کے کمانا دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور قیامت کے دن چہرے پر اس بھیک کا داغ ہونے سے بہتر ہے۔ (سنن ابی داؤد)
٭ ہاتھ کی کمائی بہترین روزی:
حضرت مقدامؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''اولادِ آدم میں کوئی انسان اس شخص سے بہتر روزی نہیں کھا سکتا جو اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتا ہو۔ اﷲ کے نبی حضرت داؤدؑ بھی اپنے ہاتھ سے کام کر کے روزی کمایا کرتے تھے۔'' (صحیح البخاری)
٭ مزدور کی فضیلت:
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے آزاد کردہ غلام ابوعُبید کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جو لکڑیوں کا گھٹا اپنی کمر پر لاد کر لائے (محنت والا کام کرے) یہ شخص اُس سے بہتر ہے جو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔ جس کے سامنے اس نے ہاتھ پھیلائے ہیں چاہے وہ اسے کچھ دے دے یا نہ دے۔'' (صحیح البخاری)
٭ صحابہ کرامؓ کا طرزِعمل:
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کے صحابہ اپنے کام خود کیا کرتے تھے اور زیادہ محنت و مشقت کی وجہ سے ان کے جسم سے پسینہ بہتا جس کی وجہ سے ان سے کہا گیا کہ اگر تم غسل کر لیا کرو تو بہتر ہوگا۔ (صحیح البخاری)
اﷲ تعالیٰ ہماری حرام لقمے سے حفاظت فرمائے، وسیع رزق حلال نصیب فرمائے اور اپنے در کا محتاج بنا کر غیروں سے غنی فرما دے۔ آمین
اپنے محض فضل و احسان کی وجہ سے اس رزّاق ذات نے تمام مخلوقات کی روزی کا ذمہ خود لے لیا ہے اور ہمیں رزقِ حلال کمانے کا حکم دیا ہے۔ اُس مسبب الاسباب ذات نے رزقِ حلال کو اِس دنیا (دارالاسباب) میں تحت الاسباب رکھا ہے لیکن ان اسباب کو اختیار کرنے میں محض عقل کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا، بل کہ شریعت کی تعلیمات کا مکلف بنا دیا ہے۔ کیوں کہ محض عقل حلال و حرام میں فرق اور تمیز نہیں کر سکتی جب تک کہ شریعت کی تعلیمات کو اس کے ساتھ دل و جان سے تسلیم نہ کر لیا جائے۔
٭ حصولِ رزق کا معتدل اسلامی نظریہ:
اسلام وہ اعتدال والا دین ہے جس میں نہ افراط کی گنجائش ہے اور نہ ہی تفریط کی بل کہ اس کے تمام ارکان میں اعتدال ہی اعتدال ہے۔ نہ تو اسلام رہبانیت کا درس دیتا کہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہو اور نہ ہی نکمے پن اور بھکاری پن کو کسی صورت تسلیم کرتا ہے بل کہ کسبِ حلال کی ناصرف ترغیب بل کہ حکم دیتا ہے۔ اسلام میں واضح طور پر اس کے تمام جائز ذرائع کی حوصلہ افزائی اور اس سے متعلق تفصیلی احکامات موجود ہیں۔
٭ زبانِ فطرت کی صدا:
جس جہان میں ہم آباد ہیں اس جہاں میں انسان کے علاوہ دیگر کئی جان دار و غیر جان دار مخلوقات ہیں: زمین، آسمان، سورج، چاند، ستارے، حجر و شجر، آگ، پانی، مٹی۔ بری، بحری اور فضائی جانور اور چرند و پرند وغیرہ سب کے سب خدا تعالیٰ کے حکم کے پابند ہو کر اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں تو اشرف المخلوقات انسان کیوں عضو معطل کی طرح نکما اور بے کار بیٹھا رہے۔۔۔۔؟
٭ احسانِ خداوندی:
انسان کے سمجھنے کے لیے ارض و سما کا فطری نظام بھی کافی تھا لیکن خدائے بزرگ و برتر کا احسان دیکھیے کہ ان سب کے باوجود حصولِ رزق کے لیے جائز ذرائع اپنانے کا واضح طور پر انسان کو حکم دیا، مفہوم: ''اور اﷲ کے فضل (رزق، روزی) کو کمانے کے لیے شرعاً جائز ذرائع استعمال کرو۔
٭ حصولِ رزق کے جائز ذرائع:
جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ اسلام نے حصول رزق کے معاملے میں انسان کو عقل کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا بل کہ اس کو شریعت کی تعلیمات پر عمل کرنے کا پابند کیا ہے اور شریعت میں حصول رزق کے ذرائع میں ایسی وسعت رکھی ہے کہ ہر طبقے کا انسان اس میں شامل نظر آتا ہے۔ اجمالی طور پر ہم اسے چار حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں: تجارت۔ صنعت۔ زراعت اور مزدوری
٭ تجارت اور تاجر:
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''سچائی اور ایمان داری کے ساتھ کاروبار کرنے والا تاجر (روز محشر) نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔'' (جامع الترمذی)
٭ ذخیرہ اندوز تاجر ملعون ہے:
حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جائز طریقے سے نفع کمانے والے تاجر کو (برکت والا ) رزق ملتا ہے جب کہ ذخیرہ اندوزی کرنے والا اﷲ کی رحمت سے خود کو دور کر نے والا (لعنتی) ہے۔''
(سنن ابن ماجہ)
٭ صنعت اور صنعت کار:
حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''اﷲ تعالیٰ صنعت والے (مومن) کو پسند فرماتے ہیں۔''
(المعجم الکبیر للطبرانی)
٭ جانشین رسول کریمؐ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا طرزِ عمل:
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ جب حضرت ابوبکرؓ کو نبی کریم ﷺ کا جانشین اور خلیفہ منتخب کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: میری قوم یہ بات جانتی ہے کہ میرا تجارتی کاروبار ہے جو میرے اہل و عیال کی گزران کے لیے کافی ہے لیکن اب میں مسلمانوں کے انتظامی معاملات میں مشغول ہو رہا ہوں (اس وجہ سے خود کما نہیں سکتا) اس لیے میرے گھر والے بیت المال سے کھائیں گے اور میں مسلمانوں کا مالِ تجارت بڑھاتا رہوں گا۔
(صحیح البخاری)
٭ زراعت اور کاشت کار:
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جو مسلمان شجر کاری یا کھیتی باڑی کرتا ہے۔ اس سے پرندے، انسان اور جانور اپنی غذا حاصل کرتے ہیں تو یہ اس کے لیے صدقہ بن جاتا ہے۔'' (صحیح البخاری)
اسلام کے معاشی نظام میں زراعت کو جن اصولوں کی روشنی میں ذکر کیا گیا ہے ان میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زراعت سے صرف کاشت کار ہی فائدہ نہیں اٹھاتا بل کہ عشر کی وجہ سے غریبوں کو بھی اس فائدہ پہنچتا ہے۔
٭ مزدوری اور مزدور:
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور آپؐ سے مالی امداد کی درخواست کی۔ آپؐ نے ان کا مالی تعاون کرنے کے بہ جائے انہی سے سوال کیا کہ آپ کے گھر میں کچھ سامان وغیرہ ہے؟ انصاری نے عرض کی: جی ہاں۔ ایک ٹاٹ ہے جس کے آدھے حصے کو میں نیچے بچھاتا ہوں اور دوسرے آدھے حصے کو اوپر لیتا ہوں۔ اس کے علاوہ ایک پیالہ ہے جس میں پانی پیتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ۔ وہ گھر گئے اور دونوں چیزیں لا کر رسول اﷲ ﷺ کے سامنے پیش کر دیں۔
آپ ﷺ نے ان چیزوں کو اپنے ہاتھ مبارک میں لیا اور حاضرینِ مجلس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: یہ دونوں چیزیں خریدنے کے لیے کون تیار ہے؟ ایک شخص نے عرض کی: میں یہ دونوں چیزیں ایک درہم میں خریدنے کو تیار ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کوئی اس سے زیادہ قیمت میں خریدنے والا ہو تو بتائے؟ آپ ﷺ نے یہ بات دو تین بار دہرائی۔ ایک دوسرے شخص کہنے لگے: میں یہ چیزیں دو درہم میں خریدتا ہوں اور آپ ﷺ کی خدمت میں دو درہم پیش کیے۔
چناں چہ آپ ﷺ نے یہ دونوں چیزیں دو درہم کے عوض اس کو بیچ دیں اور وہ دو درہم اس انصاری کو دیتے ہوئے فرمایا: آپ ایک درہم سے اپنے اہل خانہ کے لیے کھانے پینے کا سامان خرید لو اور دوسرے درہم سے بازار سے ایک کلہاڑی خرید کر میرے پاس لاؤ۔ وہ انصاری صحابی گئے اور آپ ﷺ کے حکم کی تعمیل میں ایک درہم کا سودا سلف لے کر گھر دیا اور دوسرے درہم کی کلہاڑی خرید کر آپؐ کے پاس لائے۔
آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے کلہاڑی میں لکڑی کا دستہ ڈالا اور ان سے فرمایا: یہ کلہاڑی لو اور جنگل کی طرف چلے جاؤ، وہاں سے لکڑیاں کاٹو اور انہیں بیچو! مجھے پندرہ دن تک یہاں نظر نہ آؤ۔ وہ انصاری صحابیؓ چلے گئے اور لکڑیاں کاٹ کاٹ کر بیچتے رہے جب ان کے پاس دس درہم جمع ہو گئے تو انہوں نے اپنے گھر والوں کے لیے کپڑے اور کھانے پینے کی اشیاء خریدیں۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: یہ اپنے ہاتھوں سے محنت مزدوری کر کے کمانا دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور قیامت کے دن چہرے پر اس بھیک کا داغ ہونے سے بہتر ہے۔ (سنن ابی داؤد)
٭ ہاتھ کی کمائی بہترین روزی:
حضرت مقدامؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''اولادِ آدم میں کوئی انسان اس شخص سے بہتر روزی نہیں کھا سکتا جو اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتا ہو۔ اﷲ کے نبی حضرت داؤدؑ بھی اپنے ہاتھ سے کام کر کے روزی کمایا کرتے تھے۔'' (صحیح البخاری)
٭ مزدور کی فضیلت:
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے آزاد کردہ غلام ابوعُبید کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جو لکڑیوں کا گھٹا اپنی کمر پر لاد کر لائے (محنت والا کام کرے) یہ شخص اُس سے بہتر ہے جو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔ جس کے سامنے اس نے ہاتھ پھیلائے ہیں چاہے وہ اسے کچھ دے دے یا نہ دے۔'' (صحیح البخاری)
٭ صحابہ کرامؓ کا طرزِعمل:
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کے صحابہ اپنے کام خود کیا کرتے تھے اور زیادہ محنت و مشقت کی وجہ سے ان کے جسم سے پسینہ بہتا جس کی وجہ سے ان سے کہا گیا کہ اگر تم غسل کر لیا کرو تو بہتر ہوگا۔ (صحیح البخاری)
اﷲ تعالیٰ ہماری حرام لقمے سے حفاظت فرمائے، وسیع رزق حلال نصیب فرمائے اور اپنے در کا محتاج بنا کر غیروں سے غنی فرما دے۔ آمین