کیسا دوست
امریکا نے ہمیں بلین آف ڈالرز دیے تو ہم نے بھی ہزاروں انسانوں کی خون کی ندیاں بہا دیں
امریکا کو پاکستان کا بہت خیال ہے ہم سے بہت ہمدردی ہے۔ وہ ہمارا دشمن نہیں جیساکہ بیشتر لوگوں کا خیال ہے اور ہماری قوم کی غلط سوچ کو صحیح کرنے کے لیے امریکا پچھلے کئی سالوں سے ہر ممکنہ کوشش کر رہا ہے۔ کبھی یو۔ ایس ایڈ کا اشتہار ہمارے لوکل ریڈیو ٹی وی پر چلاکر تو کبھی اپنے ڈپلومیٹس آرٹسٹوں کو پاکستان بھیج کر، دوستی کا ثبوت بار بار دے کر ہر نئے پاکستانی لیڈر کی سیٹ سنبھالنے کے کچھ ہی دنوں میں امریکن آفیشلز کے ساتھ میٹنگس، کانفرنسوں اور ہنستی مسکراتی تصویروں سے امریکا یہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستان کے ہر فیصلے میں وہ ہمارے ساتھ ہے۔
اسامہ بن لادن کے پاکستان میں چھپے ہونے سے امریکا ہم سے کچھ خفا بھی ہوا تب بھی اپنے پیار کو ہمارے لیے کم نہیں ہونے دیا اور بغیر کوئی بڑی خبر بنائے اکتوبر 2013 میں چپ چاپ پاکستان کو مزید 1.6 بلین ڈالرز ملٹری اور اکنامی ایڈس دے دیے۔
امریکا جب ہمارے ساتھ اتنا اچھا ہے تو ہر بار امریکا کے نام پر ہماری بھنویں اونچی کیوں ہوجاتی ہیں؟ صدر بش نے 9/11 کے فوراً بعد کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف امریکا کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ پوری دنیا سے شاید ان کی مراد پاکستان تھی کیونکہ ان کے بیان کے بعد سب سے زیادہ پاکستان ہی دہشت گردی سے لڑتا نظر آیا جو آج تک جاری ہے جیسے پہلے ماں کی مرضی سے بیٹا شادی کرتا ہے اور پھر کچھ ہی دن میں ماں بیٹے سے شکایت کرتی ہے کہ دیکھو تمہاری بیوی نے یہ کیا وہ کیا ویسا ہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوا۔
ہماری رات تھی جب نائن الیون (9/11) کا سانحہ ہوا۔وہ رات جس کی پھر کبھی صبح نہیں ہوئی۔ امریکا نے ماں بن کر ''وار آن ٹیررزم'' سے ہماری شادی کروادی جس کے بعد ہم دہشت گردی کا حساب بھرنے لگے۔
ہم نے نائن الیون کے بعد امریکا کے کہنے پر 689 پاکستانیوں کو پکڑ کر امریکا کے حوالے کردیا جس کے بدلے میں ہمیں ملین آف ڈالرز ملے جب کہ یہ گنتی چھ سو نواسی سے کہیں زیادہ ہے، اب امریکا ہم سے شکوہ کرتا ہے کہ پاکستانی امریکا کے خلاف کیوں ہے تو ہم کیا جواب دیں؟
اپنی ہمدردی کے اظہار کے طور پر 2001 امریکا پاکستان کا دس بلین سے زیادہ کا قرضہ معاف کرچکا ہے ان کے مطابق پاکستان کو وار آف ٹیرر میں شامل کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ طالبان افغانستان میں تھے اور پاکستان کو بیس بنائے بغیر ان کو پکڑنا ناممکن تھا۔
امریکی اعدادوشمار کے مطابق 2002 سے 2007 کے بیچ پاکستان کو دیے ڈالرز میں سے تقریباً ستر (70) فیصد رقم کا کبھی کوئی حساب دیا ہی نہیں گیا اس کے باوجود امریکا نے پاکستان کو ایڈ دینا بند نہیں کیا اور بار بار سمجھاتا رہا کہ امریکا کو پاکستان کا بہت خیال ہے۔ تو چلیے امریکا کے پاکستان کی طرف خیال پر غور کرتے ہیں۔
کچھ دن پہلے ہمارے ایک امریکن دوست نے فون کیا اور کہا کہ نیویارک میں آپرا دیکھنے چلوگے؟ تمہیں دلچسپ لگے گا۔ ہم نے پوچھا موضوع کیا ہے؟ جواب ملا ''مختاراں مائی''۔ یہ سن کر ہم نے شو میں جانے کا فیصلہ کیا۔
آپرا میں مختاراں مائی کی پوری زندگی کو میوزیکل شو کے انداز میں پیش کیا گیا ہے، اس شو کی تیاری میں کسی بھی پاکستانی کا حصہ نہیں ہے پھر بھی ہندوستانیوں کی مدد سے تیار کیے اس شو میں امریکا کے لوگ یہ دیکھیں گے کہ پاکستان کے لوگ کیسے اپنی ماں بہن اور بیٹیوں کو تعلیم نہیں دیتے نہ ہی ان کے حقوق ان کو ملتے ہیں اور ہم ہر ناانصافی کی حد کو پار کرلیتے ہیں۔ یہ 90 منٹ کا اسٹیج شو جس کا ٹکٹ صرف پچیس ڈالرز ہے بار بار ''ہمت'' کی بات کرتا ہے کہاں سے آئی ہمت مختاراں مائی میں، لیکن اگر اس ہمت والی بات کا دوسرا پہلو دیکھا جائے تو اصل میں یہ کہانی پاکستان کی بری سوسائٹی کو اجاگر کرتی ہے۔
یہ شو دیکھ کر ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ کیسے ہمارا دوست امریکا ہمیں دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے۔
صدر مشرف درجنوں بار امریکا آئے لیکن ان سے سب سے زیادہ انٹرویوز اس وقت لیے گئے جب ان کی کتاب شایع ہوکر منظر عام پر آئی۔ ہر امریکن ٹی وی چینل اور اخبارات کا ایک ہی سوال کہ پاکستان کے مسائل پر بات کریں، وہاں کس طرح ظلم ہو رہا ہے؟ وہاں کس طرح ہر روز ایک نیا دہشت گرد گروپ جنم لیتا ہے؟ جب مشرف پاکستان کی کسی بھی بات پر مثبت بات کرنے کی کوشش کرتے تو امریکن رپورٹر بات پلٹ کر پاکستان کی کسی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیتا اور یہ سلسلہ تقریباً ہر انٹرویو میں جاری رہا۔
مختاراں مائی کے ساتھ بہت غلط ہوا لیکن ایسا ہر سوسائٹی میں ہوتا ہے نیویارک تک میں اس سے زیادہ برے واقعات ہوئے ہیں لیکن مختاراں مائی کو پاکستان سے لاکر پچھلے دس سال میں سیکڑوں بار امریکن کالجوں، سوشل ایونٹس اور چیریٹی فنکشنز میں لایا گیا ہے ان کی کہانی دنیا کے سامنے بار بار دہرانے کے لیے اور اب جب کہ یہ بات گیارہ سال پرانی ہے اس کے باوجود اسے پھر آپرا کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والی بہترین سے بہترین کہانی کو امریکن ٹی وی یا فلم اسٹوڈیوز کبھی فنڈ نہیں کرتے لیکن پی بی ایس نے Saving Faces کو فنڈ کیا۔ وہ ڈاکومنٹری جس نے آسکرز جیتا اور دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔ یہ کہانی ان مجبور عورتوں کی ہے جن کے منہ پر پاکستان میں تیزاب پھینک دیا جاتا ہے جب کہ پاکستان میں یہ ڈاکومنٹری BAN کردی گئی لیکن امریکا کے ذریعے پاکستان کا یہ چہرہ دنیا بھر نے دیکھا۔
آخیر میں ملالہ امریکا کے پبلشر لٹل براؤن کے تعاون سے شایع ہونے والی کتاب "I am Malala" اس مجبور پاکستانی لڑکی کی کہانی سناتی ہے جو اپنی سوسائٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے بنیادی حقوق نہیں رکھتی اور تعلیم کی خواہش کے بدلے اسے گولی کھانی پڑتی ہے۔
کرسمس 2013 میں امریکا میں سب سے زیادہ بکنے والی کتاب I am Malala تھی جس سے دنیا کو پاکستان کی ایک عام لڑکی سے واقفیت ہوئی جو ہر طرح سے مجبور ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے اس وقت تعلیم کا تناسب پاکستان میں بڑھ رہا ہے لیکن اس بات کو ہائی لائٹ کرنے کے لیے امریکا کوئی فلم، ڈاکومنٹری نہیں بناتا نہ کتاب شایع کرتا ہے اگر کوئی پاکستانی کوشش بھی کرتا ہے تو امریکن چینلز اور پبلشرز اس کی بات نہیں سنتے۔
امریکا نے ہمیں بلین آف ڈالرز دیے تو ہم نے بھی ہزاروں انسانوں کی خون کی ندیاں بہا دیں اور جہاں تک خیال کرنے اور دوستی کا سوال ہے تو یہ کیسا دوست ہے جو ہماری عزت اچھالنے کا کوئی بھی موقع جانے نہیں دیتا۔
اسامہ بن لادن کے پاکستان میں چھپے ہونے سے امریکا ہم سے کچھ خفا بھی ہوا تب بھی اپنے پیار کو ہمارے لیے کم نہیں ہونے دیا اور بغیر کوئی بڑی خبر بنائے اکتوبر 2013 میں چپ چاپ پاکستان کو مزید 1.6 بلین ڈالرز ملٹری اور اکنامی ایڈس دے دیے۔
امریکا جب ہمارے ساتھ اتنا اچھا ہے تو ہر بار امریکا کے نام پر ہماری بھنویں اونچی کیوں ہوجاتی ہیں؟ صدر بش نے 9/11 کے فوراً بعد کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف امریکا کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ پوری دنیا سے شاید ان کی مراد پاکستان تھی کیونکہ ان کے بیان کے بعد سب سے زیادہ پاکستان ہی دہشت گردی سے لڑتا نظر آیا جو آج تک جاری ہے جیسے پہلے ماں کی مرضی سے بیٹا شادی کرتا ہے اور پھر کچھ ہی دن میں ماں بیٹے سے شکایت کرتی ہے کہ دیکھو تمہاری بیوی نے یہ کیا وہ کیا ویسا ہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوا۔
ہماری رات تھی جب نائن الیون (9/11) کا سانحہ ہوا۔وہ رات جس کی پھر کبھی صبح نہیں ہوئی۔ امریکا نے ماں بن کر ''وار آن ٹیررزم'' سے ہماری شادی کروادی جس کے بعد ہم دہشت گردی کا حساب بھرنے لگے۔
ہم نے نائن الیون کے بعد امریکا کے کہنے پر 689 پاکستانیوں کو پکڑ کر امریکا کے حوالے کردیا جس کے بدلے میں ہمیں ملین آف ڈالرز ملے جب کہ یہ گنتی چھ سو نواسی سے کہیں زیادہ ہے، اب امریکا ہم سے شکوہ کرتا ہے کہ پاکستانی امریکا کے خلاف کیوں ہے تو ہم کیا جواب دیں؟
اپنی ہمدردی کے اظہار کے طور پر 2001 امریکا پاکستان کا دس بلین سے زیادہ کا قرضہ معاف کرچکا ہے ان کے مطابق پاکستان کو وار آف ٹیرر میں شامل کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ طالبان افغانستان میں تھے اور پاکستان کو بیس بنائے بغیر ان کو پکڑنا ناممکن تھا۔
امریکی اعدادوشمار کے مطابق 2002 سے 2007 کے بیچ پاکستان کو دیے ڈالرز میں سے تقریباً ستر (70) فیصد رقم کا کبھی کوئی حساب دیا ہی نہیں گیا اس کے باوجود امریکا نے پاکستان کو ایڈ دینا بند نہیں کیا اور بار بار سمجھاتا رہا کہ امریکا کو پاکستان کا بہت خیال ہے۔ تو چلیے امریکا کے پاکستان کی طرف خیال پر غور کرتے ہیں۔
کچھ دن پہلے ہمارے ایک امریکن دوست نے فون کیا اور کہا کہ نیویارک میں آپرا دیکھنے چلوگے؟ تمہیں دلچسپ لگے گا۔ ہم نے پوچھا موضوع کیا ہے؟ جواب ملا ''مختاراں مائی''۔ یہ سن کر ہم نے شو میں جانے کا فیصلہ کیا۔
آپرا میں مختاراں مائی کی پوری زندگی کو میوزیکل شو کے انداز میں پیش کیا گیا ہے، اس شو کی تیاری میں کسی بھی پاکستانی کا حصہ نہیں ہے پھر بھی ہندوستانیوں کی مدد سے تیار کیے اس شو میں امریکا کے لوگ یہ دیکھیں گے کہ پاکستان کے لوگ کیسے اپنی ماں بہن اور بیٹیوں کو تعلیم نہیں دیتے نہ ہی ان کے حقوق ان کو ملتے ہیں اور ہم ہر ناانصافی کی حد کو پار کرلیتے ہیں۔ یہ 90 منٹ کا اسٹیج شو جس کا ٹکٹ صرف پچیس ڈالرز ہے بار بار ''ہمت'' کی بات کرتا ہے کہاں سے آئی ہمت مختاراں مائی میں، لیکن اگر اس ہمت والی بات کا دوسرا پہلو دیکھا جائے تو اصل میں یہ کہانی پاکستان کی بری سوسائٹی کو اجاگر کرتی ہے۔
یہ شو دیکھ کر ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ کیسے ہمارا دوست امریکا ہمیں دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے۔
صدر مشرف درجنوں بار امریکا آئے لیکن ان سے سب سے زیادہ انٹرویوز اس وقت لیے گئے جب ان کی کتاب شایع ہوکر منظر عام پر آئی۔ ہر امریکن ٹی وی چینل اور اخبارات کا ایک ہی سوال کہ پاکستان کے مسائل پر بات کریں، وہاں کس طرح ظلم ہو رہا ہے؟ وہاں کس طرح ہر روز ایک نیا دہشت گرد گروپ جنم لیتا ہے؟ جب مشرف پاکستان کی کسی بھی بات پر مثبت بات کرنے کی کوشش کرتے تو امریکن رپورٹر بات پلٹ کر پاکستان کی کسی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیتا اور یہ سلسلہ تقریباً ہر انٹرویو میں جاری رہا۔
مختاراں مائی کے ساتھ بہت غلط ہوا لیکن ایسا ہر سوسائٹی میں ہوتا ہے نیویارک تک میں اس سے زیادہ برے واقعات ہوئے ہیں لیکن مختاراں مائی کو پاکستان سے لاکر پچھلے دس سال میں سیکڑوں بار امریکن کالجوں، سوشل ایونٹس اور چیریٹی فنکشنز میں لایا گیا ہے ان کی کہانی دنیا کے سامنے بار بار دہرانے کے لیے اور اب جب کہ یہ بات گیارہ سال پرانی ہے اس کے باوجود اسے پھر آپرا کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والی بہترین سے بہترین کہانی کو امریکن ٹی وی یا فلم اسٹوڈیوز کبھی فنڈ نہیں کرتے لیکن پی بی ایس نے Saving Faces کو فنڈ کیا۔ وہ ڈاکومنٹری جس نے آسکرز جیتا اور دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔ یہ کہانی ان مجبور عورتوں کی ہے جن کے منہ پر پاکستان میں تیزاب پھینک دیا جاتا ہے جب کہ پاکستان میں یہ ڈاکومنٹری BAN کردی گئی لیکن امریکا کے ذریعے پاکستان کا یہ چہرہ دنیا بھر نے دیکھا۔
آخیر میں ملالہ امریکا کے پبلشر لٹل براؤن کے تعاون سے شایع ہونے والی کتاب "I am Malala" اس مجبور پاکستانی لڑکی کی کہانی سناتی ہے جو اپنی سوسائٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے بنیادی حقوق نہیں رکھتی اور تعلیم کی خواہش کے بدلے اسے گولی کھانی پڑتی ہے۔
کرسمس 2013 میں امریکا میں سب سے زیادہ بکنے والی کتاب I am Malala تھی جس سے دنیا کو پاکستان کی ایک عام لڑکی سے واقفیت ہوئی جو ہر طرح سے مجبور ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے اس وقت تعلیم کا تناسب پاکستان میں بڑھ رہا ہے لیکن اس بات کو ہائی لائٹ کرنے کے لیے امریکا کوئی فلم، ڈاکومنٹری نہیں بناتا نہ کتاب شایع کرتا ہے اگر کوئی پاکستانی کوشش بھی کرتا ہے تو امریکن چینلز اور پبلشرز اس کی بات نہیں سنتے۔
امریکا نے ہمیں بلین آف ڈالرز دیے تو ہم نے بھی ہزاروں انسانوں کی خون کی ندیاں بہا دیں اور جہاں تک خیال کرنے اور دوستی کا سوال ہے تو یہ کیسا دوست ہے جو ہماری عزت اچھالنے کا کوئی بھی موقع جانے نہیں دیتا۔