کامیاب شخصیت کیسے بنیں۔۔۔
زندگی سے امید نکال دی جائے تو یہ ناکارہ ہو جاتی ہے
''جو الفاظ منہ سے نکلتے ہیں، ہمیں ان کے بارے میں محتاط رہنا چاہئے کیوں کہ یہی الفاظ ہمارے لئے حقیقت بن جاتے ہیں'' یہ سچائی ہمیں آگاہ کرتی ہے کہ کامیابی ہو یا ناکامی، یہ اچانک ہمارے حصے میں نہیں لکھ دی جاتی، بلکہ یہ دونوں اپنے آنے کی اطلاع یا خبر دیتی ہیں۔
کامیابی اور ناکامی کی اپنی اپنی علامتیں اور آثار ہوتے ہیں۔ کامیاب ہونے والوں کی چند خوبیاں ہوتی ہیں جو انہیں ناکام ہونے والوں سے مختلف بناتی ہیں۔ یہ خوبیان انہیں اس قابل بناتی ہیں کہ وہ زندگی میں آنے والی رکاوٹوں کا مقابلہ کر سکیں۔ لوگوں سے اچھے تعلقات رکھ سکیں' جذباتی زندگی میں ایک توازان رکھیں، خوش رہیں اور اپنے اہداف (Goals) حاصل کریں۔ ہم جو حاصل کرنا چاہتے ہیں اگر اس کی ایک واضح تصویر ہمارے سامنے ہو تو اسے حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ اگر ہمارا ٹارگٹ یہ ہے کہ ہم نے بہتر بننا ہے یا اپنی اصلاح کرنی ہے تو یہ ایک غیر واضح معاملہ ہے۔ ہمارے سامنے متوازن اور کامیاب شخصیت کا واضح خاکہ ہونا چاہئے۔
ڈاکٹر میکس ویل مالٹز (MAXWELL MALTZ) نے اپنی شہرہ آفاق کتاب سائیکو سائبر نیٹکس میں کامیاب شخصیت کے لئے سات خوبیوں کو ضروری قرار دیا ہے۔ یہ سات خوبیاں ہمارے لئے بھی رہنما بن سکتی ہیں۔
اہداف
کامیاب شخصیت کے لئے پہلی شرط اہداف کا تعین ہے۔ ہماری زندگی' امید' خوابوں اور منصوبوں سے ہی آگے بڑھتی ہے۔ یہ اہداف ایسے ہونے چاہئیں جو ہمارے وقت اور محنت کا صحیح بدل ہوں۔ جو ایک باوقار زندگی کے شایان شان ہو۔ زندگی کا مزا اسی میں ہے کہ ہمارے پاس واضح اہداف ہوں اور پھر ہم انہیں حاصل کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں۔ ہماری ساری صلاحیتیں اسی وقت سامنے آتی ہیں جب ہمارے پاس اعلیٰ مقاصد یا اہداف ہوتے ہیں۔ ایک عام مشاہدہ ہے کہ لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور کچھ جلد ہی زندگی سے بھی ریٹائر ہو جاتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اب ان کے پاس کرنے کے لئے کچھ خاص نہیں ہوتا۔ اسی سے اہداف کی اہمیت کو سمجھا جا سکتا ہے، جن کے پاس کرنے کے لئے ہمیشہ کچھ ہوتا ہے وہ پرامید رہتے ہیں، خواب دیکھتے ہیں، منصوبے بناتے ہیں اور آگے دیکھتے رہتے ہیں۔ اگر زندگی سے امید نکال دی جائے تو وہ ناکارہ ہو جاتی ہے اور مایوسی اور موت کی طرف بڑھنے لگتی ہے۔ زندگی میں ہم طرح طرح کے منصوبے بناتے ہیں۔ زندگی کی بہت سی نعمتیں اور آسانیاں حاصل کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس ایک ہدف (Goal) ایسا بھی ہونا چاہئے جو ہماری ذات کے لئے نہ ہو بلکہ ہم اس کے ذریعے اپنے لوگوں کا کوئی بھلا کر سکیں۔ کسی کو تعلیم میں مدد دینا' کسی کو غربت سے نکالنا' کسی ضرورت مند کی مدد کرنا' سماجی بھلائی کے کاموں میں حصہ ڈالنا اور اسی طرح کے بے شمار اہداف ایسے ہیں، جو ہم دوسروں کی بھلائی کے لئے منتخب کر سکتے ہیں۔
صورتحال کو سمجھنا
کامیاب شخصیت کی دوسری خوبی کسی معاملے کو جانچنے کے بارے میں ہے۔ کسی دوسرے کے نقطۂ نظر سمجھنے کی کوشش کے متعلق ہے۔ اس خوبی کی انسانی تعلقات میں بڑی اہمیت ہے۔ بعض اوقات ہمیں دوسروں کے رویے برے لگتے ہیں۔ ہم ان کی نظر سے صورت حال یا معاملے کو نہیں دیکھتے۔ ہم یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ دوسرے بغض یا عناد کی وجہ سے یہ رویہ اپنا رہے ہیں اور ہمیں ستانے اور آزار پہنچانے کے لئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ اسی طرح اپنی غلطی کو تسلیم نہ کرنا بھی معاملات کو الجھا دیتا ہے۔ ہم میں سے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں اپنی غلطی نظر ہی نہیں آتی، انہیں اپنی غلطی اپنی کوتاہی تسلیم کرنا اچھا نہیں لگتا۔ انسانی تعلقات میں رہنما اصول یہ ہونا چاہئے کہ یہ اہم نہیں کہ ہم میں سے کون صحیح ہے بلکہ یہ اہم ہے کہ کیا صحیح ہے؟کامیاب لوگوں میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنی غلطی' اپنا قصور تسلیم کر لیتے ہیں، اصلاح کرتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔
حوصلہ
محض اہداف طے کر لینا کافی نہیں بلکہ ہم میں جرأت اور حوصلہ بھی ہونا چاہئے کیوںکہ عمل کے ذریعے ہی خوابوں اور منصوبوں کو حقیقت بنایا جا سکتا ہے۔ رکاوٹیں اور مسائل ہمیں خوفزدہ کر دیتے ہیں، اگر ان سے مقابلہ شروع کر دیا جائے تو یہ پسپائی اختیار کر لیتے ہیں۔ کامیاب اور ناکام لوگوں میں صلاحیتوں کا فرق نہیں ہوتا بلکہ حوصلے اور جرأت کا فرق ہوتا ہے۔ حوصلہ اور جرأت کا مطلب محض میدان جنگ میں ہیرو جیسے کارنامے دکھانا نہیں بلکہ عام زندگی کو بااثر بنانے کے لئے بھی حوصلہ اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ اپنے منصوبے پر کام کا آغاز نہیں کرتے تو آپ اپنے خوف میں اضافہ ہی کرتے رہیں گے۔ بہترین حکمت عملی یہی ہے کہ صورت حال کا تجزیہ کریں اور جس بات پر اطمینان ہو جائے اس راستے کا انتخات کر لیا جائے۔ آپ کوئی بھی راستہ اختیار کرلیں لیکن اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ آپ غلطیاں بھی کریں گے۔ ناکامیوں سے بھی واسطہ پڑے گا۔ غلط سمت میں قدم اٹھ جانا بہتر ہے بجائے اس کے کہ آپ اپنی جگہ پر رکے رہیں۔ دنیا میں کسی بھی منزل کے بارے میں مکمل یقین دہانی نہیں کرائی جا سکتی۔ چھوٹی بڑی کامیابیاں اس طرح رسک لینے سے ہی حاصل ہوتیں ہیں۔ بڑے بڑے بہادر لوگ اپنی ساری زندگی شک اور بے یقینی میں گزاردیتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے مسائل سے شکست کھا جاتے ہیں۔
دوسروں کا احترام
کامیاب لوگ دوسروں کا احترام کرتے ہیں۔ وہ دوسروں کو اپنی طرح انسان ہی سمجھتے ہیں۔ انہیں محض اپنے فائدے کے لئے استعمال نہیں کرتے بلکہ ان کی ضروریات اور مسائل کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔ کامیاب لوگ ہر انسان کو خدا کی مخلوق ہونے کی حیثیت سے عزت کا حقدار سمجھتے ہیں۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ ہمارے اپنے بارے میں بھی وہ احساسات ہوں گے جو ہم دوسروں کے بارے میں رکھتے ہیں۔ اگر آپ دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں تو آپ کی قدر و قیمت آپ کی اپنی نظروں میں کم ہونے لگے گی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آپ ایک لمبے عرصے تک لوگوں کو اپنے خود غرضانہ مقاصد کے لئے استعمال نہیں کر سکتے۔ بہترین صورت یہی ہے کہ ہم لوگوں کی واقعتا قدر کریں۔ اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ تمام انسان خدا ہی کی مخلوق ہیں۔ کامیاب لوگ اکثر رک کر سوچتے ہیں کہ دوسروں کے احساسات کیا ہیں؟ ان کا نقطہ نظر کیا ہے؟ ان کی ضرورت اور خواہش کیا ہے وہ کیا چاہتے ہیں؟
عزتِ نفس
زندگی میں ہم اپنے لئے ایک مشکل پھندا یا گڑھا اس وقت تیار کرتے ہیں، جب خود کو غیر اہم سمجھ لیتے ہیں۔ اپنے بارے میں منفی رائے قائم کر لینا ایک سنگین غلطی ہے۔ خود اپنی نظروں میں معزز بننے کے لئے ہمیں اپنے ذہن سے شکست خوردہ اور بے حیثیت انسان ہونے کا تصور نکالنا ہو گا۔ ہم اسی خدا کی مخلوق ہیں جس نے سورج چاند ستارے بنائے ہیں، یہ عظیم کائنات بنائی ہے۔ اس نے ہمیں تمام مخلوقات میں سب سے اعلیٰ بنایا ہے۔ اس خالق نے ہمیں ایک قیمتی اور کار آمد شے بنایاہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری حیثیت اپنی نظروں میں اسی وقت بڑھتی ہے جب ہم دوسروں کی قدر کرتے ہیں انہیں انسان ہونے کی حیثیت سے قابل احترام سمجھتے ہیں۔
خود اعتمادی
جب انسان کسی کام میں کچھ کامیابی حاصل کر لیتا ہے تو اس میں اعتماد آنا شروع ہو جاتا ہے اور وہ زیادہ آسانی سے وہ کام مکمل کرنے لگتا ہے۔ سائیکل چلانا، تقریر کرنا یا کوئی بھی اور کام، ہمیں ان سب میں اعتماد اسی طرح ملتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی کامیابیاں بڑی کامیابیوں کی بنیاد بنتی ہیں۔ خود اعتمادی پیدا کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ کوئی بھی کام پہلے چھوٹے پیمانے پر ہو، اس میں کچھ کامیابی ملے تو آگے بڑھا جائے۔ خود اعتمادی کے لئے ایک اہم تکنیک یہ ہے کہ ماضی میں ہونے والی کامیابیوں کو یاد رکھا جائے اور ناکامیوں کو بھلا دیا جائے۔ لیکن ہم اس کا الٹ کرتے ہیں اور اپنی خود اعتمادی تباہ کر لیتے ہیں۔ ہم ماضی کی ناکامیاں یاد رکھتے ہیں اور کامیابیاں بھلا دیتے ہیں۔ ہم نہ صرف ناکامیاں یاد رکھتے ہیں بلکہ انہیں مضبوطی سے اپنے ذہن پر نقش بھی کرتے رہتے ہیں۔ اسے جذباتی رنگ بھی دیتے ہیں اور خود اپنی ملامت کرنے لگتے ہیں۔ تنقید کرتے کرتے خود کو ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ ماضی میں آپ کتنی دفعہ ناکام ہوئے ہیں، یہ یاد رکھنے کے بجائے یہ سوچیں کہ آپ کتنی دفعہ کامیاب ہوئے ہیں۔ اسی پر توجہ دیں اسی پر سوچیں۔ سائنسدان ایک کامیابی حاصل کرنے سے پہلے 99 بار ناکامی کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہتا ہے اور کسی ناکامی کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ اسے بے عزت کرنے یا اس کی انا کو مجروح کرے۔ مناسب رویہ یہی کہ غلطیوں سے سیکھا جائے اور انہیں ذہن سے نکال دیا جائے۔ خصوصاً جب آپ کوئی نیا کام شروع کرنے لگیں تو ماضی میں حاصل ہونے والی کسی کامیابی کو یاد کریں اپنے اس وقت کے احساسات یاد کریں یہ ضروری نہیں کہ یہ کامیابی کوئی بڑی کامیابی ہی ہو۔ اپنے بہادری کے لمحات کو یاد کرنا اعتماد بحال کرنے کا بہت اچھا طریقہ ہے۔ بہت سے لوگ اپنی چند ناکامیوں کی وجہ سے اپنی ساری اچھی یادوں کو بھلا دیتے ہیں۔ یاداشت میں موجود اچھے لمحات کو تازہ کرتے رہنے سے ہمارے حوصلہ اور ہمت میں بہت اضافہ ہوتا ہے۔ نفسیات دان اس پریکٹس پر زور دیتے ہیں کہ ماضی کی کامیابیوں اور بہادری کے لمحات کو ایسے یاد کیا جائے کہ آپ کے سامنے ایک جاندار زندگی سے بھرپور تصویر روشن ہو جائے۔ ایسا کرنا اس وقت بہت اہم ہے جب آپ خود اعتمادی میں کمی کا سامنا کر رہے ہوں۔
خود اپنی ذات کو قبول کرنا
حقیقی کامیابی یا خوشی کے لئے خود اپنی ذات کو قبول کرنا بھی ضروری ہے۔ ہمارے ذہن میں اپنا ایک مناسب اور حقیقت پسندانہ سلیف امیج (Self Image) ہونا ضروری ہے۔ اس سے ہمیں حیرت انگیز نتائج ملتے ہیں۔ خود کو قبول نے کا مطلب اپنی تمام خوبیوں اور مضبوط پہلوؤں کو تسلیم کرنا ہے اور اسی طرح اپنی خامیاں' کمزوریاں' غلطیاں تسلیم کرنا ہے۔ یاد رکھیں کوئی بھی شخص اپنی زندگی میں اپنی ساری صلاحیتیوں کو پوری طرح استعمال نہیں کر پاتا۔ ہمیشہ مزید سیکھنے' مزید اچھی کارکردگی دکھانے یا اپنا رویہ مزید بہتر کرنے کی گنجائش موجود رہتی ہے۔ انسانوں میں کاملیت (Perfection) نہیں ہوتی لیکن ناکام لوگ اس بات کا ادراک نہیں رکھتے اور خود سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ خود کو قبول کیجئے جیسا کہ ابھی اس وقت ہیں اور اب اپنا سفر شروع کیجئے۔ اپنے ناقص اور ادھورے ہونے کو جذباتی طور پر برداشت کرنا سیکھیں۔ اگر آپ ایک دفعہ ناکام ہو جاتے ہیں غلطی کر بیٹھتے ہیں اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ مکمل طور پر بے حیثیت (Worthless) ہیں۔ بہت سے لوگ اپنی ذات سے اس لئے نفرت کرنے لگتے ہیں اور اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں کیونکہ وہ کسی مروجہ روش یا وضع پر پورے نہیں اتر رہے ہوتے یا ان کی جسمانی ساخت مروجہ معیار سے مطابقت نہیں رکھتی۔ بعض لوگ خود سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ وہ دبلے ہیں موٹے ہیں' پست قامت ہیں یا جھوٹے ہیں اسی لئے وہ ادنیٰ اور بے قیمت ہیں۔
کوئی بھی شخص کامل (Perfect) نہیں ہوتا، سب میں عیب اور کمزوریاں ہوتی ہیں۔ کامیاب شخص خود سے کہتا ہے کہ میری قدر و قیمت ہے اور میرے پاس جو کچھ ہے میں نے اسی سے کام لینا ہے۔ اُن لوگوں کا یقین کم ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ہم کچھ بھی نہیں، کامیاب لوگ خود کو بڑا سمجھتے ہیں اور پھر اسے ثابت کرتے ہیں، وہ مغرور نہیں ہوتے بلکہ وہ یقین، بھروسے اور اعتماد سے کام لیتے ہیں اور خدا کی دی گئی صلاحیتوں کو استعمال کرنے میں پوری توانائی صرف کرتے ہیں۔ کامیاب لوگ خود کو قبول کرتے ہیں اور زندگی میں آگے بڑھتے ہیں۔ کامیاب شخصیت کے اس تصور سے یہ بات واضح ہے کہ اگر کوئی اپنے اندر یہ کامل یقین پیدا کر لے کہ اسے خدا نے بہترین مخلوق کا شرف بخشا ہے اور اس نے خدا کی دی ہوئی صلاحیتوں کا بھرپور طریقے سے استعمال کرنا ہے تو اس کے ہاتھ قوت اور طاقت کا نیا منبع (Source) ضرور آ جاتا ہے۔
Facebook.com/atif.mirza.56
کامیابی اور ناکامی کی اپنی اپنی علامتیں اور آثار ہوتے ہیں۔ کامیاب ہونے والوں کی چند خوبیاں ہوتی ہیں جو انہیں ناکام ہونے والوں سے مختلف بناتی ہیں۔ یہ خوبیان انہیں اس قابل بناتی ہیں کہ وہ زندگی میں آنے والی رکاوٹوں کا مقابلہ کر سکیں۔ لوگوں سے اچھے تعلقات رکھ سکیں' جذباتی زندگی میں ایک توازان رکھیں، خوش رہیں اور اپنے اہداف (Goals) حاصل کریں۔ ہم جو حاصل کرنا چاہتے ہیں اگر اس کی ایک واضح تصویر ہمارے سامنے ہو تو اسے حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ اگر ہمارا ٹارگٹ یہ ہے کہ ہم نے بہتر بننا ہے یا اپنی اصلاح کرنی ہے تو یہ ایک غیر واضح معاملہ ہے۔ ہمارے سامنے متوازن اور کامیاب شخصیت کا واضح خاکہ ہونا چاہئے۔
ڈاکٹر میکس ویل مالٹز (MAXWELL MALTZ) نے اپنی شہرہ آفاق کتاب سائیکو سائبر نیٹکس میں کامیاب شخصیت کے لئے سات خوبیوں کو ضروری قرار دیا ہے۔ یہ سات خوبیاں ہمارے لئے بھی رہنما بن سکتی ہیں۔
اہداف
کامیاب شخصیت کے لئے پہلی شرط اہداف کا تعین ہے۔ ہماری زندگی' امید' خوابوں اور منصوبوں سے ہی آگے بڑھتی ہے۔ یہ اہداف ایسے ہونے چاہئیں جو ہمارے وقت اور محنت کا صحیح بدل ہوں۔ جو ایک باوقار زندگی کے شایان شان ہو۔ زندگی کا مزا اسی میں ہے کہ ہمارے پاس واضح اہداف ہوں اور پھر ہم انہیں حاصل کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں۔ ہماری ساری صلاحیتیں اسی وقت سامنے آتی ہیں جب ہمارے پاس اعلیٰ مقاصد یا اہداف ہوتے ہیں۔ ایک عام مشاہدہ ہے کہ لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور کچھ جلد ہی زندگی سے بھی ریٹائر ہو جاتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اب ان کے پاس کرنے کے لئے کچھ خاص نہیں ہوتا۔ اسی سے اہداف کی اہمیت کو سمجھا جا سکتا ہے، جن کے پاس کرنے کے لئے ہمیشہ کچھ ہوتا ہے وہ پرامید رہتے ہیں، خواب دیکھتے ہیں، منصوبے بناتے ہیں اور آگے دیکھتے رہتے ہیں۔ اگر زندگی سے امید نکال دی جائے تو وہ ناکارہ ہو جاتی ہے اور مایوسی اور موت کی طرف بڑھنے لگتی ہے۔ زندگی میں ہم طرح طرح کے منصوبے بناتے ہیں۔ زندگی کی بہت سی نعمتیں اور آسانیاں حاصل کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس ایک ہدف (Goal) ایسا بھی ہونا چاہئے جو ہماری ذات کے لئے نہ ہو بلکہ ہم اس کے ذریعے اپنے لوگوں کا کوئی بھلا کر سکیں۔ کسی کو تعلیم میں مدد دینا' کسی کو غربت سے نکالنا' کسی ضرورت مند کی مدد کرنا' سماجی بھلائی کے کاموں میں حصہ ڈالنا اور اسی طرح کے بے شمار اہداف ایسے ہیں، جو ہم دوسروں کی بھلائی کے لئے منتخب کر سکتے ہیں۔
صورتحال کو سمجھنا
کامیاب شخصیت کی دوسری خوبی کسی معاملے کو جانچنے کے بارے میں ہے۔ کسی دوسرے کے نقطۂ نظر سمجھنے کی کوشش کے متعلق ہے۔ اس خوبی کی انسانی تعلقات میں بڑی اہمیت ہے۔ بعض اوقات ہمیں دوسروں کے رویے برے لگتے ہیں۔ ہم ان کی نظر سے صورت حال یا معاملے کو نہیں دیکھتے۔ ہم یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ دوسرے بغض یا عناد کی وجہ سے یہ رویہ اپنا رہے ہیں اور ہمیں ستانے اور آزار پہنچانے کے لئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ اسی طرح اپنی غلطی کو تسلیم نہ کرنا بھی معاملات کو الجھا دیتا ہے۔ ہم میں سے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں اپنی غلطی نظر ہی نہیں آتی، انہیں اپنی غلطی اپنی کوتاہی تسلیم کرنا اچھا نہیں لگتا۔ انسانی تعلقات میں رہنما اصول یہ ہونا چاہئے کہ یہ اہم نہیں کہ ہم میں سے کون صحیح ہے بلکہ یہ اہم ہے کہ کیا صحیح ہے؟کامیاب لوگوں میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنی غلطی' اپنا قصور تسلیم کر لیتے ہیں، اصلاح کرتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔
حوصلہ
محض اہداف طے کر لینا کافی نہیں بلکہ ہم میں جرأت اور حوصلہ بھی ہونا چاہئے کیوںکہ عمل کے ذریعے ہی خوابوں اور منصوبوں کو حقیقت بنایا جا سکتا ہے۔ رکاوٹیں اور مسائل ہمیں خوفزدہ کر دیتے ہیں، اگر ان سے مقابلہ شروع کر دیا جائے تو یہ پسپائی اختیار کر لیتے ہیں۔ کامیاب اور ناکام لوگوں میں صلاحیتوں کا فرق نہیں ہوتا بلکہ حوصلے اور جرأت کا فرق ہوتا ہے۔ حوصلہ اور جرأت کا مطلب محض میدان جنگ میں ہیرو جیسے کارنامے دکھانا نہیں بلکہ عام زندگی کو بااثر بنانے کے لئے بھی حوصلہ اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ اپنے منصوبے پر کام کا آغاز نہیں کرتے تو آپ اپنے خوف میں اضافہ ہی کرتے رہیں گے۔ بہترین حکمت عملی یہی ہے کہ صورت حال کا تجزیہ کریں اور جس بات پر اطمینان ہو جائے اس راستے کا انتخات کر لیا جائے۔ آپ کوئی بھی راستہ اختیار کرلیں لیکن اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ آپ غلطیاں بھی کریں گے۔ ناکامیوں سے بھی واسطہ پڑے گا۔ غلط سمت میں قدم اٹھ جانا بہتر ہے بجائے اس کے کہ آپ اپنی جگہ پر رکے رہیں۔ دنیا میں کسی بھی منزل کے بارے میں مکمل یقین دہانی نہیں کرائی جا سکتی۔ چھوٹی بڑی کامیابیاں اس طرح رسک لینے سے ہی حاصل ہوتیں ہیں۔ بڑے بڑے بہادر لوگ اپنی ساری زندگی شک اور بے یقینی میں گزاردیتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے مسائل سے شکست کھا جاتے ہیں۔
دوسروں کا احترام
کامیاب لوگ دوسروں کا احترام کرتے ہیں۔ وہ دوسروں کو اپنی طرح انسان ہی سمجھتے ہیں۔ انہیں محض اپنے فائدے کے لئے استعمال نہیں کرتے بلکہ ان کی ضروریات اور مسائل کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔ کامیاب لوگ ہر انسان کو خدا کی مخلوق ہونے کی حیثیت سے عزت کا حقدار سمجھتے ہیں۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ ہمارے اپنے بارے میں بھی وہ احساسات ہوں گے جو ہم دوسروں کے بارے میں رکھتے ہیں۔ اگر آپ دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں تو آپ کی قدر و قیمت آپ کی اپنی نظروں میں کم ہونے لگے گی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آپ ایک لمبے عرصے تک لوگوں کو اپنے خود غرضانہ مقاصد کے لئے استعمال نہیں کر سکتے۔ بہترین صورت یہی ہے کہ ہم لوگوں کی واقعتا قدر کریں۔ اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ تمام انسان خدا ہی کی مخلوق ہیں۔ کامیاب لوگ اکثر رک کر سوچتے ہیں کہ دوسروں کے احساسات کیا ہیں؟ ان کا نقطہ نظر کیا ہے؟ ان کی ضرورت اور خواہش کیا ہے وہ کیا چاہتے ہیں؟
عزتِ نفس
زندگی میں ہم اپنے لئے ایک مشکل پھندا یا گڑھا اس وقت تیار کرتے ہیں، جب خود کو غیر اہم سمجھ لیتے ہیں۔ اپنے بارے میں منفی رائے قائم کر لینا ایک سنگین غلطی ہے۔ خود اپنی نظروں میں معزز بننے کے لئے ہمیں اپنے ذہن سے شکست خوردہ اور بے حیثیت انسان ہونے کا تصور نکالنا ہو گا۔ ہم اسی خدا کی مخلوق ہیں جس نے سورج چاند ستارے بنائے ہیں، یہ عظیم کائنات بنائی ہے۔ اس نے ہمیں تمام مخلوقات میں سب سے اعلیٰ بنایا ہے۔ اس خالق نے ہمیں ایک قیمتی اور کار آمد شے بنایاہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری حیثیت اپنی نظروں میں اسی وقت بڑھتی ہے جب ہم دوسروں کی قدر کرتے ہیں انہیں انسان ہونے کی حیثیت سے قابل احترام سمجھتے ہیں۔
خود اعتمادی
جب انسان کسی کام میں کچھ کامیابی حاصل کر لیتا ہے تو اس میں اعتماد آنا شروع ہو جاتا ہے اور وہ زیادہ آسانی سے وہ کام مکمل کرنے لگتا ہے۔ سائیکل چلانا، تقریر کرنا یا کوئی بھی اور کام، ہمیں ان سب میں اعتماد اسی طرح ملتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی کامیابیاں بڑی کامیابیوں کی بنیاد بنتی ہیں۔ خود اعتمادی پیدا کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ کوئی بھی کام پہلے چھوٹے پیمانے پر ہو، اس میں کچھ کامیابی ملے تو آگے بڑھا جائے۔ خود اعتمادی کے لئے ایک اہم تکنیک یہ ہے کہ ماضی میں ہونے والی کامیابیوں کو یاد رکھا جائے اور ناکامیوں کو بھلا دیا جائے۔ لیکن ہم اس کا الٹ کرتے ہیں اور اپنی خود اعتمادی تباہ کر لیتے ہیں۔ ہم ماضی کی ناکامیاں یاد رکھتے ہیں اور کامیابیاں بھلا دیتے ہیں۔ ہم نہ صرف ناکامیاں یاد رکھتے ہیں بلکہ انہیں مضبوطی سے اپنے ذہن پر نقش بھی کرتے رہتے ہیں۔ اسے جذباتی رنگ بھی دیتے ہیں اور خود اپنی ملامت کرنے لگتے ہیں۔ تنقید کرتے کرتے خود کو ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ ماضی میں آپ کتنی دفعہ ناکام ہوئے ہیں، یہ یاد رکھنے کے بجائے یہ سوچیں کہ آپ کتنی دفعہ کامیاب ہوئے ہیں۔ اسی پر توجہ دیں اسی پر سوچیں۔ سائنسدان ایک کامیابی حاصل کرنے سے پہلے 99 بار ناکامی کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہتا ہے اور کسی ناکامی کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ اسے بے عزت کرنے یا اس کی انا کو مجروح کرے۔ مناسب رویہ یہی کہ غلطیوں سے سیکھا جائے اور انہیں ذہن سے نکال دیا جائے۔ خصوصاً جب آپ کوئی نیا کام شروع کرنے لگیں تو ماضی میں حاصل ہونے والی کسی کامیابی کو یاد کریں اپنے اس وقت کے احساسات یاد کریں یہ ضروری نہیں کہ یہ کامیابی کوئی بڑی کامیابی ہی ہو۔ اپنے بہادری کے لمحات کو یاد کرنا اعتماد بحال کرنے کا بہت اچھا طریقہ ہے۔ بہت سے لوگ اپنی چند ناکامیوں کی وجہ سے اپنی ساری اچھی یادوں کو بھلا دیتے ہیں۔ یاداشت میں موجود اچھے لمحات کو تازہ کرتے رہنے سے ہمارے حوصلہ اور ہمت میں بہت اضافہ ہوتا ہے۔ نفسیات دان اس پریکٹس پر زور دیتے ہیں کہ ماضی کی کامیابیوں اور بہادری کے لمحات کو ایسے یاد کیا جائے کہ آپ کے سامنے ایک جاندار زندگی سے بھرپور تصویر روشن ہو جائے۔ ایسا کرنا اس وقت بہت اہم ہے جب آپ خود اعتمادی میں کمی کا سامنا کر رہے ہوں۔
خود اپنی ذات کو قبول کرنا
حقیقی کامیابی یا خوشی کے لئے خود اپنی ذات کو قبول کرنا بھی ضروری ہے۔ ہمارے ذہن میں اپنا ایک مناسب اور حقیقت پسندانہ سلیف امیج (Self Image) ہونا ضروری ہے۔ اس سے ہمیں حیرت انگیز نتائج ملتے ہیں۔ خود کو قبول نے کا مطلب اپنی تمام خوبیوں اور مضبوط پہلوؤں کو تسلیم کرنا ہے اور اسی طرح اپنی خامیاں' کمزوریاں' غلطیاں تسلیم کرنا ہے۔ یاد رکھیں کوئی بھی شخص اپنی زندگی میں اپنی ساری صلاحیتیوں کو پوری طرح استعمال نہیں کر پاتا۔ ہمیشہ مزید سیکھنے' مزید اچھی کارکردگی دکھانے یا اپنا رویہ مزید بہتر کرنے کی گنجائش موجود رہتی ہے۔ انسانوں میں کاملیت (Perfection) نہیں ہوتی لیکن ناکام لوگ اس بات کا ادراک نہیں رکھتے اور خود سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ خود کو قبول کیجئے جیسا کہ ابھی اس وقت ہیں اور اب اپنا سفر شروع کیجئے۔ اپنے ناقص اور ادھورے ہونے کو جذباتی طور پر برداشت کرنا سیکھیں۔ اگر آپ ایک دفعہ ناکام ہو جاتے ہیں غلطی کر بیٹھتے ہیں اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ مکمل طور پر بے حیثیت (Worthless) ہیں۔ بہت سے لوگ اپنی ذات سے اس لئے نفرت کرنے لگتے ہیں اور اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں کیونکہ وہ کسی مروجہ روش یا وضع پر پورے نہیں اتر رہے ہوتے یا ان کی جسمانی ساخت مروجہ معیار سے مطابقت نہیں رکھتی۔ بعض لوگ خود سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ وہ دبلے ہیں موٹے ہیں' پست قامت ہیں یا جھوٹے ہیں اسی لئے وہ ادنیٰ اور بے قیمت ہیں۔
کوئی بھی شخص کامل (Perfect) نہیں ہوتا، سب میں عیب اور کمزوریاں ہوتی ہیں۔ کامیاب شخص خود سے کہتا ہے کہ میری قدر و قیمت ہے اور میرے پاس جو کچھ ہے میں نے اسی سے کام لینا ہے۔ اُن لوگوں کا یقین کم ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ہم کچھ بھی نہیں، کامیاب لوگ خود کو بڑا سمجھتے ہیں اور پھر اسے ثابت کرتے ہیں، وہ مغرور نہیں ہوتے بلکہ وہ یقین، بھروسے اور اعتماد سے کام لیتے ہیں اور خدا کی دی گئی صلاحیتوں کو استعمال کرنے میں پوری توانائی صرف کرتے ہیں۔ کامیاب لوگ خود کو قبول کرتے ہیں اور زندگی میں آگے بڑھتے ہیں۔ کامیاب شخصیت کے اس تصور سے یہ بات واضح ہے کہ اگر کوئی اپنے اندر یہ کامل یقین پیدا کر لے کہ اسے خدا نے بہترین مخلوق کا شرف بخشا ہے اور اس نے خدا کی دی ہوئی صلاحیتوں کا بھرپور طریقے سے استعمال کرنا ہے تو اس کے ہاتھ قوت اور طاقت کا نیا منبع (Source) ضرور آ جاتا ہے۔
Facebook.com/atif.mirza.56