روس نے پاکستان سے چاول درآمد کرنے پر عائد پابندی اٹھالی
روس نے 2019 میں چاول کی کنسائنمنٹ سے کیڑا نکلنے پر پاکستان سے مزید چاول کی درآمد پر پابندی لگادی تھی
روس نے پاکستان سے چاول درآمد کرنے پر عائد پابندی 11 جون 2021 سے اٹھا لی۔
روس کے پلانٹ پروٹیکشن کے ادارے روزل خوزنادزور نے اپنے خط میں وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کے ماتحت ادارے محکمہ پلانٹ پروٹیکشن کے ڈائریکٹر ٹیکنکل محمد سہیل شہزاد کو پاکستان سے چاول کی درآمد سے باضابطہ پابندی اٹھانے سے متعلق آگاہ کیا۔
ابتدائی طور پر روسی پلانٹ پروٹیکشن ادارے نے پلانٹ پروٹیکشن کے سفارش کردہ چاول پروسیسنگ اور برآمد کرنے والے چار یونٹس سے روس میں چاول درآمد کرنے کی اجازت دی ہے۔ جن میں دو کارخانے کراچی میں واقع ہیں اور ایک لاہور اور ایک چنیوٹ میں ہے جب کہ روس نے دیگر چاول پروسس اور برآمد کرنے یونٹس اور برآمد کنندگان سے روس میں چاول کی درآمدان یونٹس کی پاکستانی پلانٹ پروٹیکشن ادارے کی سفارش اور آن لائن معائنہ اور تصدیق سے مشروط کیا ہے۔
روس کے پلانٹ پروٹیکشن کے ادارے نے 16مئی 2019 کو چاول کی ایک کنسائنمنٹ سے کیڑا نکلنے پر پاکستان سے مزید چاول کی درآمد پر پابندی لگادی تھی جس پر وزارت قومی خوراک اور ان کے ماتحت ادارے محکمہ پلانٹ پروٹیکشن پاکستان نے اس معاملہ کی تحقیق کرکے وجوہات معلوم کی اور ان وجوہات کا روس کے ساتھ تبادلہ کیا، مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کیلئے ایک جامع فائٹو سینٹری رہنمائی پروگرام بنایا اور پھر اس کو چاول پروسیسنگ فیکڑیوں اور یونٹس پر لاگو کردیا۔ پروگرام سے متعلق روس کو بھی آگاہ کیا گیا۔
روس کی جانب سے 5 اگست 2019 کو محکمہ پلانٹ پروٹیکشن کو بتایا گیا کہ وہ پاکستان سے چاول کی درآمد پر پابندی اٹھانے کیلئے تیار ہے اگران ٹیکنکل ایکسپرٹس پاکستان میں آکر پروگرام کی لاگو ہونے کی تصدیق کریں اور پاکستان پلانٹ کوارنٹائین سسٹم کا معائنہ کیا۔
اس پر وزارت قومی تحفظ خوراک اور پلانٹ پروٹیکشن محکمہ نے روس کے ماہرین کو پاکستان باضابطہ مدعو کیا تاکہ وہ جامع پروگرام لاگو ہونے کا خود معائنہ کریں جس پر روس کے چار رکنی وفد نے 22 جنوری 2020 تک پاکستان کا دورہ کیا اور پلانٹ پروٹیکشن محکمہ کی سفارش کردہ چاولوں کے چار پروسسنگ یونٹس کا معائنہ کیا اور عائد فائٹو سینٹری پروگرام کا معائنہ کیا۔ اس کے بعد روس نے پاکستان میں چاول کی کاشت کے علاقے اور کاشتکاروں کے بارے میں معلومات اور فارم سے لے کر پورٹ تک ان کے مکمل سراغ کا طریقہ کار پوچھا جس پر پلانٹ پروٹیکشن نے تمام معلومات روس کے ادارے کو فراہم کی جس پر انہوں نے پاکستان سے چاول سے درآمد کرنے پر پابندی اٹھالی۔
پلانٹ پروٹیکشن کے ڈائریکڑ جنرل اللہ دتہ عابد اور ڈائریکر ٹیکنکل کوارنٹائین محمد سہیل شہزاد نے اس پابندی کو اٹھانے کے روس کے ہم منصب ادارے سے مذاکرات کئے اور ان کی تمام ٹیکنیکل سوالات کے جوابات دیے اور ضروری معلومات فراہم کی۔ دوسری جانب چاول کی ایکسپورٹرز کو فائٹو سینٹری پروگرام پر رہنمائی دی جو بالاآخر پابندی اٹھانے کی وجہ بنی۔ پاکستانی پلانٹ پروٹیکشن محکمہ کے ڈائریکڑ ٹیکنکل نے بتایا کہ ان تمام پروسسنگ یونٹس کو روس سے منظور کروایا جائے گا جو پلانٹ پروٹیکشن کی فائٹو سینٹری پروگرام کو اپنے پروسسنگ کارخانوں پر عائد کریں گے۔
پابندی کے خاتمے کی وجہ سے پاکستانی ایکسپورٹرز ڈیڑھ سے دو سو ملین امریکی ڈالر کا تقریبا دو سے ڈھائی لاکھ ٹن چاول کو روس کو برآمد کرسکیں گے یوں پاکستان کو ایک کثیر زر مبادلہ حاصل ہوگا۔ چاول ایکسپورٹر ایسوسی ایشن پاکستان اور کاشتکار تنظیموں نے محکمہ پلانٹ پروٹیکشن اور وزرات قومی تحفظ خوراک کی اس شاندار کامیابی اور شب و روز محنت پر وفاقی وزیر فخر امام، وفاقی سیکریڑی غفران میمن، ڈی جی اللہ دتہ عابد اور ڈائریکڑ ٹیکنکل محمد سہیل شہزاد اور ناصر حمید ٹریڈ منسٹر پاکستانی ایمبسی روس کی کاوشوں کی تعریف کی ہے اور اسے پاکستان کی اہم کامیابی قرار دیا ہے۔
روس کے پلانٹ پروٹیکشن کے ادارے روزل خوزنادزور نے اپنے خط میں وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کے ماتحت ادارے محکمہ پلانٹ پروٹیکشن کے ڈائریکٹر ٹیکنکل محمد سہیل شہزاد کو پاکستان سے چاول کی درآمد سے باضابطہ پابندی اٹھانے سے متعلق آگاہ کیا۔
ابتدائی طور پر روسی پلانٹ پروٹیکشن ادارے نے پلانٹ پروٹیکشن کے سفارش کردہ چاول پروسیسنگ اور برآمد کرنے والے چار یونٹس سے روس میں چاول درآمد کرنے کی اجازت دی ہے۔ جن میں دو کارخانے کراچی میں واقع ہیں اور ایک لاہور اور ایک چنیوٹ میں ہے جب کہ روس نے دیگر چاول پروسس اور برآمد کرنے یونٹس اور برآمد کنندگان سے روس میں چاول کی درآمدان یونٹس کی پاکستانی پلانٹ پروٹیکشن ادارے کی سفارش اور آن لائن معائنہ اور تصدیق سے مشروط کیا ہے۔
روس کے پلانٹ پروٹیکشن کے ادارے نے 16مئی 2019 کو چاول کی ایک کنسائنمنٹ سے کیڑا نکلنے پر پاکستان سے مزید چاول کی درآمد پر پابندی لگادی تھی جس پر وزارت قومی خوراک اور ان کے ماتحت ادارے محکمہ پلانٹ پروٹیکشن پاکستان نے اس معاملہ کی تحقیق کرکے وجوہات معلوم کی اور ان وجوہات کا روس کے ساتھ تبادلہ کیا، مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کیلئے ایک جامع فائٹو سینٹری رہنمائی پروگرام بنایا اور پھر اس کو چاول پروسیسنگ فیکڑیوں اور یونٹس پر لاگو کردیا۔ پروگرام سے متعلق روس کو بھی آگاہ کیا گیا۔
روس کی جانب سے 5 اگست 2019 کو محکمہ پلانٹ پروٹیکشن کو بتایا گیا کہ وہ پاکستان سے چاول کی درآمد پر پابندی اٹھانے کیلئے تیار ہے اگران ٹیکنکل ایکسپرٹس پاکستان میں آکر پروگرام کی لاگو ہونے کی تصدیق کریں اور پاکستان پلانٹ کوارنٹائین سسٹم کا معائنہ کیا۔
اس پر وزارت قومی تحفظ خوراک اور پلانٹ پروٹیکشن محکمہ نے روس کے ماہرین کو پاکستان باضابطہ مدعو کیا تاکہ وہ جامع پروگرام لاگو ہونے کا خود معائنہ کریں جس پر روس کے چار رکنی وفد نے 22 جنوری 2020 تک پاکستان کا دورہ کیا اور پلانٹ پروٹیکشن محکمہ کی سفارش کردہ چاولوں کے چار پروسسنگ یونٹس کا معائنہ کیا اور عائد فائٹو سینٹری پروگرام کا معائنہ کیا۔ اس کے بعد روس نے پاکستان میں چاول کی کاشت کے علاقے اور کاشتکاروں کے بارے میں معلومات اور فارم سے لے کر پورٹ تک ان کے مکمل سراغ کا طریقہ کار پوچھا جس پر پلانٹ پروٹیکشن نے تمام معلومات روس کے ادارے کو فراہم کی جس پر انہوں نے پاکستان سے چاول سے درآمد کرنے پر پابندی اٹھالی۔
پلانٹ پروٹیکشن کے ڈائریکڑ جنرل اللہ دتہ عابد اور ڈائریکر ٹیکنکل کوارنٹائین محمد سہیل شہزاد نے اس پابندی کو اٹھانے کے روس کے ہم منصب ادارے سے مذاکرات کئے اور ان کی تمام ٹیکنیکل سوالات کے جوابات دیے اور ضروری معلومات فراہم کی۔ دوسری جانب چاول کی ایکسپورٹرز کو فائٹو سینٹری پروگرام پر رہنمائی دی جو بالاآخر پابندی اٹھانے کی وجہ بنی۔ پاکستانی پلانٹ پروٹیکشن محکمہ کے ڈائریکڑ ٹیکنکل نے بتایا کہ ان تمام پروسسنگ یونٹس کو روس سے منظور کروایا جائے گا جو پلانٹ پروٹیکشن کی فائٹو سینٹری پروگرام کو اپنے پروسسنگ کارخانوں پر عائد کریں گے۔
پابندی کے خاتمے کی وجہ سے پاکستانی ایکسپورٹرز ڈیڑھ سے دو سو ملین امریکی ڈالر کا تقریبا دو سے ڈھائی لاکھ ٹن چاول کو روس کو برآمد کرسکیں گے یوں پاکستان کو ایک کثیر زر مبادلہ حاصل ہوگا۔ چاول ایکسپورٹر ایسوسی ایشن پاکستان اور کاشتکار تنظیموں نے محکمہ پلانٹ پروٹیکشن اور وزرات قومی تحفظ خوراک کی اس شاندار کامیابی اور شب و روز محنت پر وفاقی وزیر فخر امام، وفاقی سیکریڑی غفران میمن، ڈی جی اللہ دتہ عابد اور ڈائریکڑ ٹیکنکل محمد سہیل شہزاد اور ناصر حمید ٹریڈ منسٹر پاکستانی ایمبسی روس کی کاوشوں کی تعریف کی ہے اور اسے پاکستان کی اہم کامیابی قرار دیا ہے۔