بامقصد مذاکرات سے انکار نہیں حکومت جنگ بندی کرے ہم بھی نظرثانی کرینگے طالبان

پہلے انکار کی وجہ حکیم اللہ محسودنہیں بلکہ حکومت کا بااختیاراور مخلص نہ ہونا تھا،شاہداللہ شاہد

تحریک طالبان کے شاہد اللہ شاہد اور اعظم طارق میڈیا سے گفتگو کررہے ہیں۔ فوٹو: فائل

کالعدم تحریک طالبان نے کہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان بامعنی، بامقصد، پائیدار مذاکرات کے لیے سنجیدہ اورتیار ہے۔ ہم مذاکرات کی افادیت پر یقین رکھتے ہیں اس لیے کبھی انکارنہیں کیا۔

پہلے مذاکرات کو صرف اس لیے مسترد کیا تھاکہ حکومت اس میں مخلص نظرآتی تھی نہ بااختیار تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان شاہداللہ شاہداور سنیئررہنما اعظم طارق نے نامعلوم مقام پرمیڈیا سے بات چیت میںکہا کہ اگرحکومت مذاکرات کے لیے ماحول کو پرامن اور بااعتماد بنانا چاہتی ہے تو اسے جنگ بندی کا اعلان کرنا ہوگا۔ ایسی صورت میں ہم بھی اپنی کارروائیوں پر نظرثانی کرسکتے ہیں۔ اعظم طارق نے کہا کہ حکومت میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈے کو جنگ کا حصہ سمجھتی ہے جبکہ ہم میڈیا پر نہیں حقائق اور سچ پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم نے باوقار، سنجیدہ اور بامقصد مذاکرات سے پہلے کبھی انکار کیا نہ اس مذاکراتی عمل کے افادیت سے مستقبل میں انکار کرتے ہیں۔ حکومت نے کبھی مذاکرات کے لیے سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ شاہد اللہ شاہد نے اس سوال پرکہ حکیم اللہ محسودکے ڈرون حملے میںمارے جانے کے بعدتحریک طالبان نے مذاکرات سے انکارکیوں کیا تھا، کہاکہ ہم نے کبھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا بلکہ ہم نے وہی بات کہی جو بات ہم پہلے کرتے تھے لیکن اسے میڈیا والوں نے اور کچھ بنادیا۔

پہلے بھی ہم نے یہ بات کہی تھی کہ حکومت اگر مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنے آپ کو مخلص اور با اختیار ثابت کرنا ہوگا اور ڈرون حملے کے اس واقعے کے بعد ہم نے مذاکرات کو مسترد اس بنا پر نہیں کیا تھا کہ ہمارے امیر کو ماراگیا۔ حکومت اور ہمارے درمیان جنگ ہے۔ ہمیںان کومارنا تھا، انھیںہم کومارنا تھا۔ ہم نے مذاکرات کو اس لیے مسترد کیاکہ یہ واقعہ مذاکرات کا عمل برباد کرنے کے لیے کیا گیا اور یہ بات ثابت ہوگئی کہ حکومت مذاکرات میں مخلص نہیں۔ اعظم طارق نے کہا کہ جنگ بندی کا انحصار حکومت وقت پر ہے۔ جنگ ہم نے نہیں بلکہ حکومت پاکستان نے شروع کی تھی۔ حکومت ہی نے امریکاکے کہنے پر قبائلی علاقہ جات میںآکر جنگ شروع کی اوراب جنگ بندی کا اعلان بھی حکومت کو ہی کرنا چاہیے کیونکہ حکومت ہی نے مذاکرات کے لیے ماحول کو پرامن اور بااعتماد بنانا ہے۔ جب حکومت ماحول پر امن اور بااعتماد بنانے کے لیے پیشقدمی کرے گی تو ہم بھی اپنی کارروائیوں پر نظرثانی کرسکتے ہیں۔ شاہد اللہ شاہد نے کہا کہ جہاں تک چوہدری اسلم پر حملے کا تعلق ہے تو وہ اپنے منطقی انجام کو پہنچا ہے۔

اس کی مجاہدین اور جہاد سے دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اگر اسکے قتل کا مقدمہ ہمارے اوپر درج کیا گیا ہے تواس پر ہمیں فخر ہے لیکن ہم تبلیغی بھائیوں کے مرکز پر دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ اگر ہم ان پر حملہ کریںگے تو اس سے ہماری تحریک کی بہت بڑی بدنامی ہے۔ ہم اپنے آپ کو بدنام کرنے کے لیے ایسی کارروائیاں کیسے کرسکتے ہیں؟ خفیہ ایجنسیاں ہماری تحریک اور مجاہدین کو بدنام کرنے کے لیے ایسی کارروائیاں کرتی ہیں۔ دوسری طرف ایک تحریری بیان میں کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہا کہ حکومت اپنا اختیار اور اخلاص ثابت کر ے تو مذاکرات کے لیے تیار ہیں ۔ بنوں حملہ تحریک طالبان کے رہنما ولی الرحمن اور حکیم اللہ محسود کے قتل کا انتقام کا ہے۔ امریکی ڈرون حملے مذاکرات کی آڑ میں کیے گئے۔ ولی الرحمن اور حکیم اللہ محسودکو مذاکرات کی آڑمیں امریکاکی مدد سے نشانہ بنایا گیا۔




حکیم اللہ محسود نے نفاذشریعت کی جنگ کو قبائل سے شہری علاقوں کی طرف منتقل کرنے پر خصوصی توجہ دی اور اس پالیسی کے مطابق کراچی سی آئی ڈی ہیڈکوارٹر اور مہران بیس جیسی کارروائیوں میں آپ کی رہنمائی اور سرپرستی نے اہم کردار ادا کیا۔ تحریک طالبان پاکستان کے مسلمانوں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ ہماری جنگ صرف نفاذ شریعت کے لیے ہے۔ اس مقصد کے لیے ہم شرعی اصولوں سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ بااختیار اور مخلص نہیں ہے، ورنہ عین مذاکرات کی پیشکش کے دوران صف اول کے رہنمائوں کو کبھی نشانہ نہ بناتی۔ وزیرداخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ جو کام مختلف حکومتیں13 سال نہیں کرپائیں وہ موجودہ حکومت نے 6ماہ میں کردیاہے اور مجوزہ سیکیورٹی پالیسی کو حتمی شکل دیدی ہے جو آج(پیرکو) کابینہ کے خصوصی اجلاس میں پیش کی جائے گی۔ ملک میں سویلین اورآرمی کی مجموعی طور پر26انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں، انفارمیشن شئیرنگ ناگزیرہے۔ پنجاب ہائوس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ مجوزہ قومی سلامتی پالیسی کے4 نکات ہیںجس میں ایک نکتہ خفیہ رکھاجائے گا جبکہ باقی نکات میں اسٹریٹجک، ملٹری آپریشن، مذاکرات اور ملکی دفاع کومضبوط بنانا شامل ہے۔ چوہدری نثار نے کہا کہ ملکی دفاع اور امن و امان کے قیام کے لیے پوری قوم کو متحد ہوکر فیصلہ کرنا ہوگا کہ طالبان سے مذاکرات کرنے ہیں یا فوجی آپریشن سے مسائل حل کرنا ہیں۔

پاکستان امریکاکے بعد دوسرا بڑا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ 26سول اور عسکری خفیہ ایجنسیاں کام کر رہی ہیں مگر بدقسمتی سے ان کے درمیان رابطے کے بارے میں آج تک کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ صرف 10ہفتوں میں طالبان سے مذاکرات کے لیے کافی پیشرفت ہوچکی تھی مگر ڈرون حملے کی وجہ سے سارا عمل متاثر ہوا اور نئی قیادت ابھی تک مذاکرات کے لیے تیار نہیں۔ تمام صوبوں کو 65بم پروف گاڑیاں تقسیم کی جائیں گی۔ نئی اندرونی سیکیورٹی پالیسی کے تحت جوائنٹ انٹلیجنس ڈائریکٹوریٹ کا ون پوائنٹ ایجنڈا شامل کیا گیا ہے جس کے تحت وفاق سمیت چاروں صوبوں کے لیے ریپڈ رسپانس فورس بنائی جائے گی۔ جوائنٹ انٹلیجنس ڈائریکٹوریٹ نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی نیکٹا کے کنٹرول میں کام کرے گی۔ یہ فورس500سے شروع ہوکر200کے لگ بھگ ہوگی، 24 گھنٹوں کی بنیاد پر کام کریگی اور کسی بھی غیر یقینی صورتحال میں کوئیک رسپانس کے طور پر منٹوں میں ا یکشن کرے گی اور اگر اچانک واقعہ ہوگیا تو ریپڈ رسپانس فورس اس واقعے کو سب سے پہلے قابو پانے کی کوشش کرے گی۔ انھوں نے بتایا کہ نے سابق چیئرمین نادرا طارق ملک کی بیٹی کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے والے ملزم کو گرفتارکرلیاگیا ہے۔

اس کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے اوروہ پشتو بولتا ہے۔ ملزم نے کہاکہ وہ اپنے بھائی کو فون ملانا چاہتا تھا تاہم غلطی سے طارق ملک کی بیٹی کو مل گیا۔ طارق ملک نے لکھ کردیا ہے کہ یہ واقعہ غلط فہمی کا نتیجہ تھا۔ بنوں کا واقعہ افسوسناک ہے۔ فوجی انکوائری کرائی جائے گی۔ بنوں دھماکے میں بارود کی بڑی مقدار استعمال کی گئی۔ انھوںنے کہا کہ ملک میں تمام مکاتب فکر کے لوگ ایک نکتے پر اکٹھے ہوگئے۔ دہشت گردوں کے خلاف روایتی طریقے کارگر نہیں رہے ۔ آئی این پی کے مطابق چوہدری نثار نے کہاکہ ملک میں شیعہ سنی کی کوئی لڑائی نہیں، دونوں مکاتب فکر پر حملے کرنے والا ایک ہی دشمن ہے ، تبلیغی جماعت پر حملہ کرنے والوں کا نام لے لیا تو پھر نیا مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔ دونوں مکاتب فکر پر حملے کرنے والے ایک ہی طرح کے لوگ ہیں اور ایک ہی طرح کا طریقہ اخیتار کیا جارہا ہے۔ طالبان کے ساتھ حکمت عملی کے تحت مذاکرات میں آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ ڈھائی ماہ سے جاری عمل کے بعد اس شخص (حکیم اللہ محسود) کو مار دیا گیا جس سے بات چیت ہو رہی تھی۔
Load Next Story