سندھ کا 1477 ارب کا بجٹ پیش تنخواہوں میں 20 اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ
سندھ میں مزدور کی کم از کم اجرت 17500سے بڑھا کر 25 ہزار روپے کردی گئی
وزیر اعلیٰ سندھ نے رواں مالی سال کے لیے سندھ کا 1477 ارب کا خسارے کا بجٹ پیش کردیا جس میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جب کہ کم از کم اجرت 25 ہزار روپے مقرر کردی گئی ہے۔
اسپیکر آغا سراج درانی کی زیر صدارت سندھ اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ اپوزیشن اور حکومتی ارکان کی جانب سے شدید نعرے بازی اور شور شرابے کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کیا۔ بجٹ پیش کیے جانے کے دوران پیپلز پارٹی کے اراکین نے وزیراعلیٰ سندھ کو اپنے حفاظتی گھیرے لیے رکھا۔
سالانہ ترقیاتی بجٹ
آئندہ مالی سال کا ترقیاتی بجٹ 3 کھرب 29 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ سالانہ ترقیاتی پروگرامز کے لیے 2 کھرب 22 ارب 50 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ غیر ملکی امداد سے چلنے والے منصوبوں کے لیے 71 ارب 16 کروڑ روپے جبکہ وفاقی امداد سے چلنے والے منصوبوں کے لیے صرف 5 ارب 37 کروڑ روپے مختص ہیں۔ بجٹ میں اضلاع کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس تجویز نہیں کیا گیا
بجٹ تقریر کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ مالی سال 22-2021ء کے لیے صوبے کے بجٹ کا حجم 1477 ارب 90 کروڑ روپے سے زائد ہے، سندھ کی آمدن کا تخمینہ 1452 ارب 16 کروڑ 80 لاکھ روہے ہے، اس طرح بجٹ خسارے کا تخمینہ 25 ارب 73 کروڑ روپے سے زائد ہے، نئے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس تجویز نہیں کررہے۔
تعلیم کے لیے 277 ارب مختص
محکمہ تعلیم کا بجٹ 14.2 فیصد اضافے سے 277.5 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے جس میں ترقیاتی بجٹ کا حجم 26 ارب روپے ہے۔ محکمہ تعلیم کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں اسکول ایجوکیشن کے لیے 14 ارب روپے، کالج ایجوکیشن کے لیے 4 ارب روپے، خصوصی افراد کو بااختیار بنانے کے لیے 80 کروڑ روپے، یونیورسٹیز اینڈ بورڈ کے لیے 6 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں غیر ملکی امداد سے چلنے والے منصوبوں کے لیے 4 ارب 28 کروڑ 50 لاکھ روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
بجٹ دستاویز کے مطابق صوبے کے سرکاری اسکولوں کی تزئین آرائش کے لیے 5 ارب روپے، سندھ ایجوکیشن فائونڈیشن کے لیے 10 ارب 75 کروڑ روپے، مفت کتابوں کے لیے 2 ارب 30 کروڑ روپے، سندھ ٹیکنکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل اتھارٹی کے لیے 1 ارب 88 کروڑ روپے، اسکولوں کے لیے فرنیچر و دیگر ساز و سامان کے لیے 6 ارب 62 کروڑ روپے، اسکولوں کی طالبات کے وظیفے کے لیے 80 کروڑ روپے، خصوصی طلبہ کے وظیفے کے لیے 14 کروڑ روپے، پوزیشن ہولڈرز کی اسکالر شپ کے لیے 1 ارب 20 کروڑ روپے، کالجز کی مرمت کاموں کے لیے 42 کروڑ 50 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔
آئندہ مالی سال کالج ایجوکیشن کا بجٹ بھی 11.8 فیصد اضافے 22.8 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے۔ بجٹ دستاویز کے مطابق محکمہ تعلیم کے مجموعی بج میں 67 فیصد تنخواہیں، 24 فیصد نان سیلری اور 9 فیصد ترقیاتی سرگرمیاں شامل ہیں۔
صحت کیلیے 172 ارب روپے مختص
محکمہ صحت کا بجٹ 29.42 فیصد اضافے سے 172 ارب روپے رکھا گیا ہے جن میں سے ترقیاتی بجٹ کا حجم 18 ارب 50 کروڑ روپے ہے۔ آئندہ مالی سال کووڈ 19 کے لیے 24 ارب 73 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں ان میں 17 ارب 22 کروڑ روپے کا ہیلتھ رسک الائونس بھی شامل ہے۔
کووڈ 19 کی ہنگامی خدمات کے لیے 2 ارب روپے، کورونا ویکسین کی خریداری کے لیے 1 ارب 50 کروڑ روپے، پی پی ایز کٹ کی خریداری کے لیے 1 ارب روپے، سندھ انسٹی ٹیوٹ آف چائیلڈ ہیلتھ کے قیام کے لیے 20 کروڑ روپے، ہیلتھ مینجمنٹ ریسرچ اینڈ ریفارمز یونٹ کے لیے 11 کروڑ 68 لاکھ روپے، ہاسپیٹل اینڈ ڈسپینسریز مینجمنٹ بورڈ کے لیے 5 کروڑ روپے، آکسیجن کے لیے 68 کروڑ 24 لاکھ روپے، ہیلتھ سروسز میں کیمیکلز کے استعمال کے لیے 17 کروڑ 75 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔
اسی طرح ایمبولینس سروسز کے لیے 60 کروڑ روپے، نیپا کے انفیکشن ڈیزیز اسپتال کے لیے 1 ارب روپے، گلستان جوہر میں انفیکشن ڈیزیز اسپتال کے لیے 4 کروڑ 50 لاکھ روپے، انڈس اسپتال کراچی کے لیے 5 ارب روپے، ادویات کی خریداری کے لیے 18 ارب 33 کروڑ روپے، ٹی بی کنٹرول پروگرام کے لیے 64 کروڑ 49 لاکھ روپے، لیڈی ہیلتھ ورکر پروگرام کے لیے 1 ارب 40 کروڑ روپے، سندھ میں ہیپاٹائٹس سے بچاؤ اور کنٹرول کے لیے 2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
زچگی اور نوزائیدہ اطفال اور چائلڈ ہیلتھ پروگرام کے لیے 31 کروڑ 59 لاکھ روپے، ملیریا کنٹرول پروگرام کے لیے 30 کروڑ 98 لاکھ روپے، ای پی آئی پروگرام سندھ کے لیے 2 ارب 50 کروڑ روپے، سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے لیے 28 کروڑ 87 لاکھ روپے، ڈینگی سے بچاؤ اور احتیاط پروگرام کے لیے 5 کروڑ 79 لاکھ روپے اور اندھے پن سے بچاؤ اور احتیاط کے پروگرام کے لیے 7 کروڑ 68 لاکھ روپے، شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ٹراما سینٹر کراچی کے لیے 2 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی۔
شہداد پور انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے لیے 30 کروڑ روپے مختص، این آئی بی ڈی کے لیے 50050 کروڑ روپے، چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے لیے 1 ارب 20 کروڑ روپے، انسٹی ٹیوٹ آف فزیکل میڈیسن اینڈ ری ہیبلیٹیشن کراچی کے لیے 30 کروڑ روپے اور ہیلتھ کیئر کمیشن کراچی کے لیے 36 کروڑ 50 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
بجٹ دستاویز کے مطابق محکمہ صحت کے مجموعی بجٹ میں تنخواہوں کا حصہ 38 فیصد، نان سیلری 52 فیصد اور ترقیاتی بجٹ 10 فیصد ہے۔ وزیر اعلی سندھ کی تقریر کے مطابق میڈیکل ایجوکیشن کا بجٹ بھی بڑھایا جارہا ہے جبکہ 691 نئی اسامیاں بھی تجویز کی گئی ہیں۔ 12 کالج آف نرسنگ میں 302 اسامیوں کی منتقلی اور 216 نئی اسامیوں کے لیے 46 کروڑ 66 لاکھ روپے کی رقم کی مالی معاونت کی جائے گی۔ 400 پوسٹ گریجویشن کی نئی آسامیاں تخلیق کرتے ہوئے سندھ میں پوسٹ گریجویٹس کی تعداد 1400 سے بڑھاکر 1800 کردی گئی ہیں
ان میں ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، لیاقت یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، شہید محترمہ بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی لاڑکانہ اور پیپلزیونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز برائے خواتین شامل ہیں۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی لاڑکانہ اور پیپلز یونیورسٹی میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز برائے خواتین ضلع بے نظیر آباد کے موجودہ بجٹ میں بالترتیب 10 کروڑ روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔
امن وامان کیلیے 119.97 ارب مختص
آئندہ مالی سال امن و امان کا بجٹ 5.5 فیصد اضافے سے 119.97 ارب روپے رکھا گیا ہے جس میں سے ترقیاتی بجٹ کا حجم 9 ارب روپے ہے۔ محکمہ داخلہ کے مجموعی بجٹ میں سے پولیس کے لیے 106 ارب 91 کروڑ 30 لاکھ روپے، جیل خانہ جات کے لیے 5 ارب 1 60 لاکھ روپے اور داخلی انتظامیہ اور رینجرز کے لیے 8 ارب 4 کروڑ 50 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔
پولیس کے خراب رویے کے خلاف صوبائی پبلک سیفٹی اینڈ پولیس کمپلینٹس سیکریٹریٹ کے لیے 9 کروڑ 90 لاکھ روپے، سندھ پولیس کی گاڑیوں کی خریداری کے لیے 2 ارب روپے، اسلحے کی خریداری کے لیے 1 ارب 10 کروڑ روپے، قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لیے 5 کروڑ 75 لاکھ 78 ہزار روپے، ڈی این اے ٹیسٹ کی جدید سہولتوں کے لیے 10 کروڑ روپے، جیلوں میں سامان کی خریداری کے لیے 7 کروڑ 24 لاکھ روپے، حیدر آباد اور لاڑکانہ میں فارنسک سائنس لیبارٹری کی مشینوں کی خریداری کے لیے 2 کروڑ 50 لاکھ روپے، قانون اور پارلیمانی امور کے لیے 10.31 فیصد اضافے سے 17 ارب 23 کروڑ 20 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔
محکمہ داخلہ کا ترقیاتی بجٹ 9 ارب روپے ہے جس میں پولیس کے 7 ارب 98 کروڑ 90 لاکھ، جیل خانہ جات کے 1 ارب 1 کروڑ 5 لاکھ روپے، سندھ سیف سٹی منصوبے فیز 1 کے تحت کراچی کے لیے 6 ارب 88 کروڑ 40 لاکھ جبکہ قانون اور استغاثہ کے لیے 1 ارب 50 کروڑ روپے رکھے جانے کی تجویز ہے۔
تھانوں اور چوکیوں کے لیے فیول کی رقم میں اضافہ کیا گیا ہے۔ تھانوں کی سطح پر 259 رپورٹنگ روم اور 21 اضلاع میں ویمن پولیس اسٹیشن کے قیام کے اعلان کے علاوہ پولیس پٹرولنگ اور سکیورٹی کے لیے مزید گاڑیاں خریدنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
بجٹ دستاویز کے مطابق آئندہ مالی سال امن و امان کے مجموعی بجٹ میں 77 فیصد تنخواہوں، 15 فیصد نان سیلری اور 7 فیصد ترقیاتی بجٹ شامل ہے۔
کم از کم اجرت 25 ہزار روپے
مراد علی شاہ نے کہا کہ صوبائی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد جب کہ پینشن میں 10 فیصد تک اضافہ کیا جارہا ہے، مزدور کی کم از کم اجرت 17500 سے بڑھا کر 25 ہزار روپے کردی ہے۔ گریڈ ایک سے 5 تک سندھ کے سرکاری ملازمین کے ملازمین کی تنخواہ 25 ہزار روپے ماہانہ ہوگی۔
گریڈ 1 تا 5 کے ملازمین کیلیے پرسنل الاؤنس
وزیر اعلیٰ سندھ نے اپنی بجٹ تقریر میں گریڈ 1 سے 5 تک کے ملازمین کو ماہانہ پرسنل الاؤنس دینے کا اعلان کردیا۔ گریڈ 1 کے ملازمین کو ماہانہ 1900 روپے، گریڈ 2 میں 1500 روپے، گریڈ 3 میں 900 روپے جب کہ گریڈ 4 اور گریڈ 5 کے ملازمین کو ماہانہ 250 روپے دیے جائیں گے۔
50 ہزار ملازمتوں کی فراہمی
وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے آئندہ مالی سال کے دوران پولیس تعلیم اور صحت کے شعبے میں 2600 اسامیاں تخلیق کرکے سرکاری ملازمتیں دینے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نئے مالی سال کے دوران صوبے بھرمیں 50 ہزار سرکاری ملازمتیں فراہم کی جائیں گی۔
بعض ٹیکسوں کی شرح میں کمی
سندھ کے بجٹ میں بعض ٹیکسوں کی شرح میں کمی کا اعلان کیا گیا۔ غیر منقولہ جائیداد کی فروخت پر اسٹامپ ڈیوٹی کی شرح 2 فیصد سے کم کرکے ایک فیصد کردی گئی۔ نئے بجٹ میں پاور آف اٹارنی پر اسٹامپ ڈیوٹی کی شرح اصل قیمت کا ایک فیصد کر دی گئی۔ اسی طرح اسٹینڈ الون ریکروٹنگ ایجنٹس کے لیے شرح 8 فیصد سے کم کرکے 3 فیصد کر دی گئی۔
کورونا سے انتقال پر سرکاری ملازم کے ورثا کو 10 لاکھ معاوضہ
کورونا وائرس سے انتقال کرنے والے سرکاری ملازمین کے ورثا کو 10 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا گیا۔ سندھ سیکرٹریٹ کے ملازمین کی ہیلتھ انشورنس اسکیم کے لیے 55 کروڑ روپے مختص کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
صحافیوں اور وکلا کے لیے گرانٹ
بجٹ میں کراچی پریس کلب کے لیے 5 کروڑ روپے، حیدر آباد پریس کلب کے لیے 2 کروڑ روپے اور مستحق صحافیوں کی امداد کے لیے ڈھائی ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ بار ایسوسی ایشنز کے لیے 25 کروڑ روپے کی گرانٹ، سندھ جوڈیشل اکیڈمی کے لیے 4 کروڑ روپے کی رقم مختص رکھی گئی ہے جبکہ لیگل ایڈ سوسائٹی کے لیے 3 کروڑ 30 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
آئندہ مالی سال کے بجٹ میں مختلف اداروں کے لیے رقومات مختص کی گئی ہیں۔ بجٹ دستاویز کے مطابق بزرگ شہروں کے آزادی کارڈ کے لیے 15 کروڑ روپے، سندھ سینئر سٹیزن ویلفیئر فنڈ کے لیے 5 کروڑ روپے، سندھ چیریٹی رجسٹریشن فنڈ کے لیے 1 کروڑ روپے، کراچی سپر ہائی وے پر دارالسکون کی تعمیر کے لیے 6 کروڑ روپے، منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے لیے 10 کروڑ روپے، صوبے کی غریب خواتین اور بچوں کے لیے 6 کروڑ 40 لاکھ روپے اور سندھ پیپلز سپورٹ پروگرام کے لیے 10 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ دریں اثنا مختلف اداروں کے لیے بجلی کے واجبات کی ادائیگی کے لیے 20 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
اسپیکر آغا سراج درانی کی زیر صدارت سندھ اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ اپوزیشن اور حکومتی ارکان کی جانب سے شدید نعرے بازی اور شور شرابے کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کیا۔ بجٹ پیش کیے جانے کے دوران پیپلز پارٹی کے اراکین نے وزیراعلیٰ سندھ کو اپنے حفاظتی گھیرے لیے رکھا۔
سالانہ ترقیاتی بجٹ
آئندہ مالی سال کا ترقیاتی بجٹ 3 کھرب 29 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ سالانہ ترقیاتی پروگرامز کے لیے 2 کھرب 22 ارب 50 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ غیر ملکی امداد سے چلنے والے منصوبوں کے لیے 71 ارب 16 کروڑ روپے جبکہ وفاقی امداد سے چلنے والے منصوبوں کے لیے صرف 5 ارب 37 کروڑ روپے مختص ہیں۔ بجٹ میں اضلاع کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس تجویز نہیں کیا گیا
بجٹ تقریر کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ مالی سال 22-2021ء کے لیے صوبے کے بجٹ کا حجم 1477 ارب 90 کروڑ روپے سے زائد ہے، سندھ کی آمدن کا تخمینہ 1452 ارب 16 کروڑ 80 لاکھ روہے ہے، اس طرح بجٹ خسارے کا تخمینہ 25 ارب 73 کروڑ روپے سے زائد ہے، نئے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس تجویز نہیں کررہے۔
تعلیم کے لیے 277 ارب مختص
محکمہ تعلیم کا بجٹ 14.2 فیصد اضافے سے 277.5 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے جس میں ترقیاتی بجٹ کا حجم 26 ارب روپے ہے۔ محکمہ تعلیم کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں اسکول ایجوکیشن کے لیے 14 ارب روپے، کالج ایجوکیشن کے لیے 4 ارب روپے، خصوصی افراد کو بااختیار بنانے کے لیے 80 کروڑ روپے، یونیورسٹیز اینڈ بورڈ کے لیے 6 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں غیر ملکی امداد سے چلنے والے منصوبوں کے لیے 4 ارب 28 کروڑ 50 لاکھ روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
بجٹ دستاویز کے مطابق صوبے کے سرکاری اسکولوں کی تزئین آرائش کے لیے 5 ارب روپے، سندھ ایجوکیشن فائونڈیشن کے لیے 10 ارب 75 کروڑ روپے، مفت کتابوں کے لیے 2 ارب 30 کروڑ روپے، سندھ ٹیکنکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل اتھارٹی کے لیے 1 ارب 88 کروڑ روپے، اسکولوں کے لیے فرنیچر و دیگر ساز و سامان کے لیے 6 ارب 62 کروڑ روپے، اسکولوں کی طالبات کے وظیفے کے لیے 80 کروڑ روپے، خصوصی طلبہ کے وظیفے کے لیے 14 کروڑ روپے، پوزیشن ہولڈرز کی اسکالر شپ کے لیے 1 ارب 20 کروڑ روپے، کالجز کی مرمت کاموں کے لیے 42 کروڑ 50 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔
آئندہ مالی سال کالج ایجوکیشن کا بجٹ بھی 11.8 فیصد اضافے 22.8 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے۔ بجٹ دستاویز کے مطابق محکمہ تعلیم کے مجموعی بج میں 67 فیصد تنخواہیں، 24 فیصد نان سیلری اور 9 فیصد ترقیاتی سرگرمیاں شامل ہیں۔
صحت کیلیے 172 ارب روپے مختص
محکمہ صحت کا بجٹ 29.42 فیصد اضافے سے 172 ارب روپے رکھا گیا ہے جن میں سے ترقیاتی بجٹ کا حجم 18 ارب 50 کروڑ روپے ہے۔ آئندہ مالی سال کووڈ 19 کے لیے 24 ارب 73 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں ان میں 17 ارب 22 کروڑ روپے کا ہیلتھ رسک الائونس بھی شامل ہے۔
کووڈ 19 کی ہنگامی خدمات کے لیے 2 ارب روپے، کورونا ویکسین کی خریداری کے لیے 1 ارب 50 کروڑ روپے، پی پی ایز کٹ کی خریداری کے لیے 1 ارب روپے، سندھ انسٹی ٹیوٹ آف چائیلڈ ہیلتھ کے قیام کے لیے 20 کروڑ روپے، ہیلتھ مینجمنٹ ریسرچ اینڈ ریفارمز یونٹ کے لیے 11 کروڑ 68 لاکھ روپے، ہاسپیٹل اینڈ ڈسپینسریز مینجمنٹ بورڈ کے لیے 5 کروڑ روپے، آکسیجن کے لیے 68 کروڑ 24 لاکھ روپے، ہیلتھ سروسز میں کیمیکلز کے استعمال کے لیے 17 کروڑ 75 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔
اسی طرح ایمبولینس سروسز کے لیے 60 کروڑ روپے، نیپا کے انفیکشن ڈیزیز اسپتال کے لیے 1 ارب روپے، گلستان جوہر میں انفیکشن ڈیزیز اسپتال کے لیے 4 کروڑ 50 لاکھ روپے، انڈس اسپتال کراچی کے لیے 5 ارب روپے، ادویات کی خریداری کے لیے 18 ارب 33 کروڑ روپے، ٹی بی کنٹرول پروگرام کے لیے 64 کروڑ 49 لاکھ روپے، لیڈی ہیلتھ ورکر پروگرام کے لیے 1 ارب 40 کروڑ روپے، سندھ میں ہیپاٹائٹس سے بچاؤ اور کنٹرول کے لیے 2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
زچگی اور نوزائیدہ اطفال اور چائلڈ ہیلتھ پروگرام کے لیے 31 کروڑ 59 لاکھ روپے، ملیریا کنٹرول پروگرام کے لیے 30 کروڑ 98 لاکھ روپے، ای پی آئی پروگرام سندھ کے لیے 2 ارب 50 کروڑ روپے، سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے لیے 28 کروڑ 87 لاکھ روپے، ڈینگی سے بچاؤ اور احتیاط پروگرام کے لیے 5 کروڑ 79 لاکھ روپے اور اندھے پن سے بچاؤ اور احتیاط کے پروگرام کے لیے 7 کروڑ 68 لاکھ روپے، شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ٹراما سینٹر کراچی کے لیے 2 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی۔
شہداد پور انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے لیے 30 کروڑ روپے مختص، این آئی بی ڈی کے لیے 50050 کروڑ روپے، چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے لیے 1 ارب 20 کروڑ روپے، انسٹی ٹیوٹ آف فزیکل میڈیسن اینڈ ری ہیبلیٹیشن کراچی کے لیے 30 کروڑ روپے اور ہیلتھ کیئر کمیشن کراچی کے لیے 36 کروڑ 50 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
بجٹ دستاویز کے مطابق محکمہ صحت کے مجموعی بجٹ میں تنخواہوں کا حصہ 38 فیصد، نان سیلری 52 فیصد اور ترقیاتی بجٹ 10 فیصد ہے۔ وزیر اعلی سندھ کی تقریر کے مطابق میڈیکل ایجوکیشن کا بجٹ بھی بڑھایا جارہا ہے جبکہ 691 نئی اسامیاں بھی تجویز کی گئی ہیں۔ 12 کالج آف نرسنگ میں 302 اسامیوں کی منتقلی اور 216 نئی اسامیوں کے لیے 46 کروڑ 66 لاکھ روپے کی رقم کی مالی معاونت کی جائے گی۔ 400 پوسٹ گریجویشن کی نئی آسامیاں تخلیق کرتے ہوئے سندھ میں پوسٹ گریجویٹس کی تعداد 1400 سے بڑھاکر 1800 کردی گئی ہیں
ان میں ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، لیاقت یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، شہید محترمہ بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی لاڑکانہ اور پیپلزیونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز برائے خواتین شامل ہیں۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی لاڑکانہ اور پیپلز یونیورسٹی میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز برائے خواتین ضلع بے نظیر آباد کے موجودہ بجٹ میں بالترتیب 10 کروڑ روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔
امن وامان کیلیے 119.97 ارب مختص
آئندہ مالی سال امن و امان کا بجٹ 5.5 فیصد اضافے سے 119.97 ارب روپے رکھا گیا ہے جس میں سے ترقیاتی بجٹ کا حجم 9 ارب روپے ہے۔ محکمہ داخلہ کے مجموعی بجٹ میں سے پولیس کے لیے 106 ارب 91 کروڑ 30 لاکھ روپے، جیل خانہ جات کے لیے 5 ارب 1 60 لاکھ روپے اور داخلی انتظامیہ اور رینجرز کے لیے 8 ارب 4 کروڑ 50 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔
پولیس کے خراب رویے کے خلاف صوبائی پبلک سیفٹی اینڈ پولیس کمپلینٹس سیکریٹریٹ کے لیے 9 کروڑ 90 لاکھ روپے، سندھ پولیس کی گاڑیوں کی خریداری کے لیے 2 ارب روپے، اسلحے کی خریداری کے لیے 1 ارب 10 کروڑ روپے، قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لیے 5 کروڑ 75 لاکھ 78 ہزار روپے، ڈی این اے ٹیسٹ کی جدید سہولتوں کے لیے 10 کروڑ روپے، جیلوں میں سامان کی خریداری کے لیے 7 کروڑ 24 لاکھ روپے، حیدر آباد اور لاڑکانہ میں فارنسک سائنس لیبارٹری کی مشینوں کی خریداری کے لیے 2 کروڑ 50 لاکھ روپے، قانون اور پارلیمانی امور کے لیے 10.31 فیصد اضافے سے 17 ارب 23 کروڑ 20 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔
محکمہ داخلہ کا ترقیاتی بجٹ 9 ارب روپے ہے جس میں پولیس کے 7 ارب 98 کروڑ 90 لاکھ، جیل خانہ جات کے 1 ارب 1 کروڑ 5 لاکھ روپے، سندھ سیف سٹی منصوبے فیز 1 کے تحت کراچی کے لیے 6 ارب 88 کروڑ 40 لاکھ جبکہ قانون اور استغاثہ کے لیے 1 ارب 50 کروڑ روپے رکھے جانے کی تجویز ہے۔
تھانوں اور چوکیوں کے لیے فیول کی رقم میں اضافہ کیا گیا ہے۔ تھانوں کی سطح پر 259 رپورٹنگ روم اور 21 اضلاع میں ویمن پولیس اسٹیشن کے قیام کے اعلان کے علاوہ پولیس پٹرولنگ اور سکیورٹی کے لیے مزید گاڑیاں خریدنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
بجٹ دستاویز کے مطابق آئندہ مالی سال امن و امان کے مجموعی بجٹ میں 77 فیصد تنخواہوں، 15 فیصد نان سیلری اور 7 فیصد ترقیاتی بجٹ شامل ہے۔
کم از کم اجرت 25 ہزار روپے
مراد علی شاہ نے کہا کہ صوبائی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد جب کہ پینشن میں 10 فیصد تک اضافہ کیا جارہا ہے، مزدور کی کم از کم اجرت 17500 سے بڑھا کر 25 ہزار روپے کردی ہے۔ گریڈ ایک سے 5 تک سندھ کے سرکاری ملازمین کے ملازمین کی تنخواہ 25 ہزار روپے ماہانہ ہوگی۔
گریڈ 1 تا 5 کے ملازمین کیلیے پرسنل الاؤنس
وزیر اعلیٰ سندھ نے اپنی بجٹ تقریر میں گریڈ 1 سے 5 تک کے ملازمین کو ماہانہ پرسنل الاؤنس دینے کا اعلان کردیا۔ گریڈ 1 کے ملازمین کو ماہانہ 1900 روپے، گریڈ 2 میں 1500 روپے، گریڈ 3 میں 900 روپے جب کہ گریڈ 4 اور گریڈ 5 کے ملازمین کو ماہانہ 250 روپے دیے جائیں گے۔
50 ہزار ملازمتوں کی فراہمی
وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے آئندہ مالی سال کے دوران پولیس تعلیم اور صحت کے شعبے میں 2600 اسامیاں تخلیق کرکے سرکاری ملازمتیں دینے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نئے مالی سال کے دوران صوبے بھرمیں 50 ہزار سرکاری ملازمتیں فراہم کی جائیں گی۔
بعض ٹیکسوں کی شرح میں کمی
سندھ کے بجٹ میں بعض ٹیکسوں کی شرح میں کمی کا اعلان کیا گیا۔ غیر منقولہ جائیداد کی فروخت پر اسٹامپ ڈیوٹی کی شرح 2 فیصد سے کم کرکے ایک فیصد کردی گئی۔ نئے بجٹ میں پاور آف اٹارنی پر اسٹامپ ڈیوٹی کی شرح اصل قیمت کا ایک فیصد کر دی گئی۔ اسی طرح اسٹینڈ الون ریکروٹنگ ایجنٹس کے لیے شرح 8 فیصد سے کم کرکے 3 فیصد کر دی گئی۔
کورونا سے انتقال پر سرکاری ملازم کے ورثا کو 10 لاکھ معاوضہ
کورونا وائرس سے انتقال کرنے والے سرکاری ملازمین کے ورثا کو 10 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا گیا۔ سندھ سیکرٹریٹ کے ملازمین کی ہیلتھ انشورنس اسکیم کے لیے 55 کروڑ روپے مختص کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
صحافیوں اور وکلا کے لیے گرانٹ
بجٹ میں کراچی پریس کلب کے لیے 5 کروڑ روپے، حیدر آباد پریس کلب کے لیے 2 کروڑ روپے اور مستحق صحافیوں کی امداد کے لیے ڈھائی ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ بار ایسوسی ایشنز کے لیے 25 کروڑ روپے کی گرانٹ، سندھ جوڈیشل اکیڈمی کے لیے 4 کروڑ روپے کی رقم مختص رکھی گئی ہے جبکہ لیگل ایڈ سوسائٹی کے لیے 3 کروڑ 30 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
آئندہ مالی سال کے بجٹ میں مختلف اداروں کے لیے رقومات مختص کی گئی ہیں۔ بجٹ دستاویز کے مطابق بزرگ شہروں کے آزادی کارڈ کے لیے 15 کروڑ روپے، سندھ سینئر سٹیزن ویلفیئر فنڈ کے لیے 5 کروڑ روپے، سندھ چیریٹی رجسٹریشن فنڈ کے لیے 1 کروڑ روپے، کراچی سپر ہائی وے پر دارالسکون کی تعمیر کے لیے 6 کروڑ روپے، منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے لیے 10 کروڑ روپے، صوبے کی غریب خواتین اور بچوں کے لیے 6 کروڑ 40 لاکھ روپے اور سندھ پیپلز سپورٹ پروگرام کے لیے 10 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ دریں اثنا مختلف اداروں کے لیے بجلی کے واجبات کی ادائیگی کے لیے 20 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔