سپریم کورٹ کا کراچی میں کثیر المنزلہ نسلہ ٹاور کو فوری گرانے کا حکم
کراچی میں ساری چائنہ کٹنگ اسی طرح ہو رہی ہے، چیف جسٹس
نسلہ ٹاور کیس میں سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ، عدالت عظمی نے پرتعیش اپارٹمنٹس والے نسلہ ٹاور کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے فوری گرانے کا حکم دیدیا۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے روبرو نسلہ ٹاور بلڈر کے وکیل کی متفرق درخواست کی سماعت ہوئی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کے ایم سی رپورٹ میں کچھ ایریا غیر قانونی استعمال ہونے کی نشاندہی ہوئی۔ سروس روڈ کو عمارت کا حصہ بنایا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے نہ صرف سروس روڈ بلکہ شاہراہ فیصل بھی عمارت کا حصہ ہے۔ آپ کا منصوبہ فٹ پاتھ سے جا کر ملتا ہے۔ بتائیں، شاہراہ قائدین کا سروس روڈ کہاں گیا؟ شاہراہ قائدین سے سروس روڈ شاہراہ فیصل تک جا ملتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کمشنر کو کراچی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہاں سے امپورٹ کیا؟، چیف جسٹس
ٹاور کے وکیل صلاح الدین نے کہا کہ ہماری عمارت سروس روڈ پر ہرگز نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا نسلہ ٹاور کا اوریجنل پلان کہاں ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا تصاویر دیکھیں، نسلہ ٹاور سروس روڈ سے ملا ہوا ہے۔ صلاح الدین احمد نے کہا کہ سروس روڈ ہمارے پلاٹ سے ہی لے کر بنایا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے بس آپ اپنی لیز دکھا دیں۔
صلاح الدین احمد نے موقف اپنایا کہ کے ایم سی نے سندھی مسلم سوسائٹی کو زمین دی۔ سندھی مسلم سوسائٹی سے بلڈر نے زمین خریدی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے سندھی مسلم نے اگر آپ کو سروس روڈ بھی بیچا تو وہ قانونی نہیں ہوگا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے 341 اسکوائر یارڈ پر قبضہ کیا۔ سندھی مسلم کے پاس تو ٹائٹل ہی نہیں تھا انہوں نے کیسے دے دی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے فرنٹ مین کون ہے ان سب کے پیچھے؟ کراچی میں ساری چائنہ کٹنگ اسی طرح ہو رہی ہے۔ زمین کچھ ہوتی ہے، قبضہ اس سے زیادہ کر لیا جاتا ہے۔
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ عمارت غیر قانونی ہے، جو گرائی جائے۔ عدالت نے بلڈر اور رہائشیوں کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے نسلہ ٹاور کو غیر قانونی قرار دے دیا اور فوری گرانے کا حکم دیا۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے روبرو نسلہ ٹاور بلڈر کے وکیل کی متفرق درخواست کی سماعت ہوئی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کے ایم سی رپورٹ میں کچھ ایریا غیر قانونی استعمال ہونے کی نشاندہی ہوئی۔ سروس روڈ کو عمارت کا حصہ بنایا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے نہ صرف سروس روڈ بلکہ شاہراہ فیصل بھی عمارت کا حصہ ہے۔ آپ کا منصوبہ فٹ پاتھ سے جا کر ملتا ہے۔ بتائیں، شاہراہ قائدین کا سروس روڈ کہاں گیا؟ شاہراہ قائدین سے سروس روڈ شاہراہ فیصل تک جا ملتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کمشنر کو کراچی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہاں سے امپورٹ کیا؟، چیف جسٹس
ٹاور کے وکیل صلاح الدین نے کہا کہ ہماری عمارت سروس روڈ پر ہرگز نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا نسلہ ٹاور کا اوریجنل پلان کہاں ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا تصاویر دیکھیں، نسلہ ٹاور سروس روڈ سے ملا ہوا ہے۔ صلاح الدین احمد نے کہا کہ سروس روڈ ہمارے پلاٹ سے ہی لے کر بنایا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے بس آپ اپنی لیز دکھا دیں۔
صلاح الدین احمد نے موقف اپنایا کہ کے ایم سی نے سندھی مسلم سوسائٹی کو زمین دی۔ سندھی مسلم سوسائٹی سے بلڈر نے زمین خریدی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے سندھی مسلم نے اگر آپ کو سروس روڈ بھی بیچا تو وہ قانونی نہیں ہوگا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے 341 اسکوائر یارڈ پر قبضہ کیا۔ سندھی مسلم کے پاس تو ٹائٹل ہی نہیں تھا انہوں نے کیسے دے دی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے فرنٹ مین کون ہے ان سب کے پیچھے؟ کراچی میں ساری چائنہ کٹنگ اسی طرح ہو رہی ہے۔ زمین کچھ ہوتی ہے، قبضہ اس سے زیادہ کر لیا جاتا ہے۔
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ عمارت غیر قانونی ہے، جو گرائی جائے۔ عدالت نے بلڈر اور رہائشیوں کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے نسلہ ٹاور کو غیر قانونی قرار دے دیا اور فوری گرانے کا حکم دیا۔