سندھ بجٹ برائے سال 202122
وزیر اعلیٰ سندھ نے جو بجٹ پیش کیا ہے وہ صوبے کی اقتصادی صورتحال کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سندھ کے مالی سال 22-2021 کا 1477 ارب 90 کروڑ 37 لاکھ روپے کا بجٹ پیش کر دیا جس میں خسارے کا تخمینہ 25 ارب 73 کروڑ 52 لاکھ روپے لگایا گیا ہے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد اور پنشن میں 10 فیصد اضافے جب کہ کم از اجرت 25ہزار کرنے کی تجویز دی گئی ہے، 50 ہزار ملازمتیں بھی فراہم کی جائیں گی۔
مجموعی ترقیاتی بجٹ کے لیے 329 ارب 3 کروڑ 28 لاکھ روپے، امن و امان کے لیے 119.97 ارب روپے، صحت کے لیے 172 ارب روپے، تعلیم کے لیے 277.5 ارب روپے، آبپاشی کے لیے 17 ارب روپے اور زراعت کے لیے 15 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بجٹ تقریر میں کہا کہ بجٹ میں 19.1 فیصد اضافہ ہوا ہے، رواں مالی سال کے مقابلے میں آیندہ مالی سال کے دوران ترقیاتی اخراجات میں 41.3 فیصد، صوبائی اے ڈی پی میں 43.5 فیصد اور ضلعی اے ڈی پی میں 100 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
صوبے کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، کم سے کم اجرت 17500 روپے سے بڑھا کر 25000 روپے کردی گئی ہے جب کہ مجموعی تنخواہوں اور کم سے کم اجرت یعنی 25000 روپے کے درمیانی فرق کو ختم کرنے کیلیے سندھ حکومت نے اپنے ملازمین کیلیے (ماسوائے پولیس کانسٹیبلز، گریڈ 01 سے گریڈ 05 تک) ذاتی الاؤنس متعارف کرایا ہے، زراعت کے شعبے کی بحالی کیلیے3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، شہریوں کی فلاح و بہبود کیلیے 16 ارب روپے رکھے گئے ہیں، آئی ٹی سیکٹر کی بحالی کیلیے 1.70ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
ایس ایم ایز کے توسط سے صنعتی ترقی کے لیے 3 ارب روپے رکھے گئے ہیں، کم لاگت کی ہاؤسنگ کیلیے 2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، لائیو اسٹاک اینڈ فشریز کی معاونت کیلیے ایک ارب روپے رکھے گئے ہیں، زراعت سے وابستہ خواتین کیلیے 50 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں، اسپیشل چلڈرن فنڈ کیلیے 50 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ٹرانسپورٹ اینڈ ماس ٹرانزٹ کے لیے 8.2 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے کٹوتی اور کورونا (کووڈ 19) کے باعث صوبائی وصولیوں میں شدید کمی کا سامنا رہا۔
مختلف مشکلات کے باوجود متعلقہ محکمے مالی سال 2020-21 کے دوران تقریباً 4460 منصوبے مکمل کریں گے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے بجٹ تقریر میں کہا کہ کورونا کی وجہ سے معاشی تباہ کاریوں کا سامنا ہے، ان میں کاروبار کی بندش اور ملازمتوں کے نہ ہونے کی وجہ سے جو صورت پیدا ہوئی اس کی تلافی کرنے کے لیے حکومت نے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے بھی اہم اقدامات کیے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سندھ میں خط غربت سے نیچے گرنے کی رفتار انتہائی ہولناک ہے، مہنگائی، بیروزگاری اور افلاس کی کثیر جہتی شکلیں افسردہ کر دیتی ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے جو بجٹ پیش کیا ہے وہ صوبے کی اقتصادی صورتحال کی مکمل عکاسی کرتا ہے، یہ سوال اہم ہے کیونکہ صوبہ کو معاشی و سماجی حالات کے سنگین دھچکوں کا سامنا ہے، کراچی کی طرز فغاں چمن والوں نے چھین لی ہے، شہر قائد رنجیدہ ہے، صوبائی حکومت کوکئی محاذوں پر چومکھی لڑائی لڑنے کا سامنا ہے۔
وفاق سے پانی کی تقسیم کا تنازع، حکمرانی پر نئی بحث شروع ہے، میڈیا نے سندھ کے انتظامی معاملات پر مخالفانہ مہم پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاق اور سندھ کے مابین ترقیاتی، اور اہم تعلقات کار کے تسلسل میں مشکلات پیدا ہوئیں تو اس کا اثر وفاق پر بھی پڑیگا، محاذ آرائی غیر معمولی رہی ہے اور وزیراعلیٰ کی تقریر میں صوبے کی معاشی صورتحال منعکس ہوتی رہے، یہ سنگین حالات کی غمازی کرتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کا استدلال ہے کہ کورونا تنازعات اور سندھ کے خلاف غیر ضروری مہم جوئی قومی یک جہتی کے لیے نیک شگون نہیں، ارباب اختیار اور اسٹیک ہولڈرز کو ادراک کرنا چاہیے کہ کورونا سے نمٹنا ایک بڑا ٹاسک تھا جس میں سندھ کے مطابق حکومت کی حکمت عملی صائب تھی تاہم وفاقی حکومت کی مسلسل مخاصمت کے باعث صوبائی حکومت کو اپنے بجٹ اہداف تک رسائی میں مشکل پیش آئیگی۔
وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ عوام کو تعلیم، صحت، روزگار اور معاشی ثمرات کی فراہمی میں جتنا ممکن ہو آسودگی مہیا کی جائے، انفراسٹرکچر سے متعلق منصوبوں پر کام مقررہ وقت پر مکمل ہو، ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ جمہوری عمل، عوامی امنگوں کی ترجمانی اور صوبے میں اچھی حکمرانی کا مجموعی خوشگوار تاثر ابھرے، خوبصورت کراچی کا حسن دوبالا ہو اور عوام کو مصائب و بدامنی سے ریلیف مل جائے۔
مجموعی ترقیاتی بجٹ کے لیے 329 ارب 3 کروڑ 28 لاکھ روپے، امن و امان کے لیے 119.97 ارب روپے، صحت کے لیے 172 ارب روپے، تعلیم کے لیے 277.5 ارب روپے، آبپاشی کے لیے 17 ارب روپے اور زراعت کے لیے 15 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بجٹ تقریر میں کہا کہ بجٹ میں 19.1 فیصد اضافہ ہوا ہے، رواں مالی سال کے مقابلے میں آیندہ مالی سال کے دوران ترقیاتی اخراجات میں 41.3 فیصد، صوبائی اے ڈی پی میں 43.5 فیصد اور ضلعی اے ڈی پی میں 100 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
صوبے کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، کم سے کم اجرت 17500 روپے سے بڑھا کر 25000 روپے کردی گئی ہے جب کہ مجموعی تنخواہوں اور کم سے کم اجرت یعنی 25000 روپے کے درمیانی فرق کو ختم کرنے کیلیے سندھ حکومت نے اپنے ملازمین کیلیے (ماسوائے پولیس کانسٹیبلز، گریڈ 01 سے گریڈ 05 تک) ذاتی الاؤنس متعارف کرایا ہے، زراعت کے شعبے کی بحالی کیلیے3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، شہریوں کی فلاح و بہبود کیلیے 16 ارب روپے رکھے گئے ہیں، آئی ٹی سیکٹر کی بحالی کیلیے 1.70ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
ایس ایم ایز کے توسط سے صنعتی ترقی کے لیے 3 ارب روپے رکھے گئے ہیں، کم لاگت کی ہاؤسنگ کیلیے 2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، لائیو اسٹاک اینڈ فشریز کی معاونت کیلیے ایک ارب روپے رکھے گئے ہیں، زراعت سے وابستہ خواتین کیلیے 50 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں، اسپیشل چلڈرن فنڈ کیلیے 50 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ٹرانسپورٹ اینڈ ماس ٹرانزٹ کے لیے 8.2 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے کٹوتی اور کورونا (کووڈ 19) کے باعث صوبائی وصولیوں میں شدید کمی کا سامنا رہا۔
مختلف مشکلات کے باوجود متعلقہ محکمے مالی سال 2020-21 کے دوران تقریباً 4460 منصوبے مکمل کریں گے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے بجٹ تقریر میں کہا کہ کورونا کی وجہ سے معاشی تباہ کاریوں کا سامنا ہے، ان میں کاروبار کی بندش اور ملازمتوں کے نہ ہونے کی وجہ سے جو صورت پیدا ہوئی اس کی تلافی کرنے کے لیے حکومت نے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے بھی اہم اقدامات کیے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سندھ میں خط غربت سے نیچے گرنے کی رفتار انتہائی ہولناک ہے، مہنگائی، بیروزگاری اور افلاس کی کثیر جہتی شکلیں افسردہ کر دیتی ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے جو بجٹ پیش کیا ہے وہ صوبے کی اقتصادی صورتحال کی مکمل عکاسی کرتا ہے، یہ سوال اہم ہے کیونکہ صوبہ کو معاشی و سماجی حالات کے سنگین دھچکوں کا سامنا ہے، کراچی کی طرز فغاں چمن والوں نے چھین لی ہے، شہر قائد رنجیدہ ہے، صوبائی حکومت کوکئی محاذوں پر چومکھی لڑائی لڑنے کا سامنا ہے۔
وفاق سے پانی کی تقسیم کا تنازع، حکمرانی پر نئی بحث شروع ہے، میڈیا نے سندھ کے انتظامی معاملات پر مخالفانہ مہم پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاق اور سندھ کے مابین ترقیاتی، اور اہم تعلقات کار کے تسلسل میں مشکلات پیدا ہوئیں تو اس کا اثر وفاق پر بھی پڑیگا، محاذ آرائی غیر معمولی رہی ہے اور وزیراعلیٰ کی تقریر میں صوبے کی معاشی صورتحال منعکس ہوتی رہے، یہ سنگین حالات کی غمازی کرتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کا استدلال ہے کہ کورونا تنازعات اور سندھ کے خلاف غیر ضروری مہم جوئی قومی یک جہتی کے لیے نیک شگون نہیں، ارباب اختیار اور اسٹیک ہولڈرز کو ادراک کرنا چاہیے کہ کورونا سے نمٹنا ایک بڑا ٹاسک تھا جس میں سندھ کے مطابق حکومت کی حکمت عملی صائب تھی تاہم وفاقی حکومت کی مسلسل مخاصمت کے باعث صوبائی حکومت کو اپنے بجٹ اہداف تک رسائی میں مشکل پیش آئیگی۔
وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ عوام کو تعلیم، صحت، روزگار اور معاشی ثمرات کی فراہمی میں جتنا ممکن ہو آسودگی مہیا کی جائے، انفراسٹرکچر سے متعلق منصوبوں پر کام مقررہ وقت پر مکمل ہو، ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ جمہوری عمل، عوامی امنگوں کی ترجمانی اور صوبے میں اچھی حکمرانی کا مجموعی خوشگوار تاثر ابھرے، خوبصورت کراچی کا حسن دوبالا ہو اور عوام کو مصائب و بدامنی سے ریلیف مل جائے۔