اسلام بمقابلہ اسکرپٹڈ خرافات
نکاح کے بغیر نامحرم عورت اور مرد کا ہر طرح کا ریلیشن ناجائز اور اللہ کی حددو سے تجاوز ہے۔
حق و باطل، سچ و جھوٹ، نیکی و بدی کی جنگ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی، جیت حق ہی کی ہوگی۔ جھوٹ ہمیشہ سے رسوا ہوتا آیا ہے، ہمیشہ رسوائی ہی اس کا مقدر ٹھہرے گی۔ بدی لاکھ ایڑیاں رگڑ لے غلبہ نیکی کا ہی ہوکر رہے گا، شیطان کا قول کتنا ہی دلفریب کیوں نہ ہو رحمان کا بول ہی بالا رہے گا۔
یہ اللہ رب العزت کا وعدہ ہے۔ جس دن سے اللہ رب العزت نے اس کائنات کو وجود بخشا ہے اور حضرت آدم اور اولاد آدم کو اس کا مہمان بنایا ہے اسی دن سے اس نے اپنے نیک بندوں کو ایک نظام حیات عطا کیا ہے جس پر چل کر وہ حق کے ساتھی بن جاتے ہیں، صادق اور عبادت گزاربن کر اپنے محبوب رب کی دوستی کا اعلیٰ مقام پاتے ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے عطا کردہ نظام کے سامنے کھڑے ہونے کی کوشش کرتے ہیں یا انھیں تیار کرکے کھڑا کردیا جاتا ہے۔
جہاں سے وہ ناعاقبت اندیش اپنے خالق و مالک رب کی قائم کردہ حدود کو چیلنج کرتے نظر آتے ہیں یا ان کے مقابلے میں ایسی توضیحات پیش کرتے جن کا نتیجہ نظام قدرت سے چھیڑ چھاڑ کی صورت نکلتا ہے۔
یوں تو ملالہ یوسفزئی کے بے شمار تنازعات میڈیا و سوشل میڈیا کی زینت بن چکے ہیں، سردست گزشتہ دنوں اس کا برطانیہ کے فیشن میگزین ووگ کی سیرین کیل کو دیے گئے ایک متنازع انٹرویو کی بات کریں گے۔ ووگ میگزین کے آن لائن ایڈیشن میں ملالہ یوسفزئی کا انٹرویو شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے مختلف معاملات سمیت شادی کے موضوع پر بھی بات کی ہے اور یہی وہ موضوع ہے جس پر تنازع پیدا ہوگیا ہے، پاکستان میں یہ معاملہ ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈز میں شامل رہا اور سوشل میڈیا کی زینت بنا رہا، پوری دنیا میں اسلام پسند حلقوں میں شدید غم و غصے کا اظہار بھی کیا گیا۔
تاہم اہل مغرب اور نام نہاد روشن خیالوں نے اس کے بیان کو سراہا۔ سوال یہ ہے کہ آخر ملالہ نے ایسی کیا بات کہی جس پر یہ تقسیم پیدا ہوئی۔ اس انٹرویو کے دوران ملالہ سے جب شادی کے بارے سوال کیا گیا تو اس نے کہا کہ مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ لوگ شادی کیوں کرتے ہیں؟ اگر آپ کسی کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو شادی کے کاغذات پر دستخط کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ ایک پارٹنرشپ کیوں نہیں ہو سکتی؟ یہ ہے ملالہ کا وہ بیان جس پر اسلام پسند حلقے نالاں اور اہل مغرب اور مغرب پرست شاداں ہورہے تھے۔
ملالہ کا یہ بیان اللہ کی قائم کردہ حدود اور ہمارے مضبوط خاندانی نظام پر کھلا حملہ نہیں تو اور کیا ہے؟ اسی قسم کی باتوں کی وجہ سے حقیقت پسندوں کے ہاں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ ملالہ یوسفزئی مغرب کا تیار کردہ وہ ہتھیار ہے جسے وقتاً فوقتاً مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جاتارہا ہے، ورنہ کوئی گیا گزرا مسلمان بھی شادی جیسے مقدس، حلال اور جائز رشتے کی نفی نہیں کر سکتا۔ سوچنے کی بات ہے کہ شادی کب ہوگی، شادی کا کوئی پرپوزل آیا یا نہیں، کیسا پارٹنر پسند کرو گی؟
ایسے سوالات تو کبھی لڑکیوں سے اس مشرقی، اسلامی اور قبائلی معاشرے میں نہیں پوچھے جاتے جہاں سے مبینہ طور پر ملالہ یوسفزئی کا خمیر اٹھایا گیا۔ شادی سے پہلے لڑکیوں سے ایسے اور اسی طرح کے سوالات اہل مغرب یا ان کے زیر اثر رہنے والوں کے ہاں ہی پوچھے جاسکتے ہیں، مگر روایت اور اقدار پسند پختون قبیلے یوسفزئی کی کسی عورت سے بالکل نہیں۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ مبینہ طور اور ظاہری طور پر ملالہ کا بیک گراؤنڈ قبائلی ہے۔ مگر ملالہ کون اور کہاں سے ہے؟ ایک متنازع اور حل طلب سوال ہے، مگر ملالہ کے نظریات کو دیکھ اور سن کر یقین نہیں آتا کہ اس کا سوات جیسے قدامت پسند علاقے اور خصوصاً پختونوں کے معزز ترین قبیلے یوسفزئی سے کوئی تعلق ہے۔
اس کا مذہب بھی اسلام ہے لیکن وہ جن ہاتھوں میں کھیل رہی ہے وہاں یہ دونوں حیثیتیں ثانوی درجے میں جاچکی ہیں۔ اب اسے ایک ٹول کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے تاکہ اس کی زبان سے نکلنے والی اسکرپٹڈ خرافات مسلمان بچیوں کے ذہنوں میں اتاری جائیں اور انھیں مادر پدر آزاد معاشرے کا ایندھن بنایا جاسکے، لیکن اس فلاپ ڈرامے کے کردار، ہدایت کار اور پیش کار سبھی کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا کیونکہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔ اسلام اور اسلام کی تعلیمات قیامت تک پوری آب و تاب کے ساتھ جگمگ جگمگ کریں گے۔
شادی کے رشتے کی اسلام میں کیا اہمیت ہے؟ آئیے اس کا جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے اس روئے زمین کو انسانوں سے آباد کیا، ان کے آپس میں رشتے ناتے قائم کیے، ایک دوسرے کے ساتھ ضرورتیں وابستہ کیں، باہم تعارف کے لیے خاندانوں اور معاشروں کا سلسلہ جاری کیا، اور حقوق وفرائض کاایک کامل نظام عطا فرمایا، یہ سب چیزیں ظاہر کرتی ہیں کہ انسان باہم مربوط بھی ہے اور ان کے درمیان کچھ فاصلے بھی ہیں۔
انسان بہت سی سماجی اقدار و روایات کا پابند بھی ہے اور اپنی پرائیویٹ زندگی میں بہت حد تک آزاد بھی، یہ دونوں چیزیں توازن کے ساتھ ہوں تو گھر اور معاشرہ جنت نظیر بن جاتاہے اور توازن بگڑ جائے تو وہی گھر اور سماج جہنم کا نمونہ بن جاتاہے۔ خاندانوں اور معاشروں کے سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے اللہ رب العزت نے نکاح یا شادی جیسا مقدس بندھن عطا کیا۔
اسلام میں نکاح کی بڑی اہمیت ہے۔ اسلام نے نکاح کے تعلق سے جو فکرِ اعتدال اور نظریہ توازن پیش کیا ہے وہ نہایت جامع اور بے نظیر ہے۔ اسلام کی نظر میں نکاح محض انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین کا نام نہیں ہے۔ انسان کی جس طرح بہت ساری فطری ضروریات ہیں عین اسی طرح نکاح بھی انسان کی ایک اہم فطری ضرورت ہے۔
اس لیے اسلام میں انسان کو اپنی اس فطری ضرورت کو جائزاور مہذب طریقے کے ساتھ پوراکرنے کی اجازت ہے ناکہ نکاح کے بغیر زندگی گزارنے کی اجازت۔ اسلام نے نکاح کو انسانی بقا وتحفظ کے لیے ضروری بتایا ہے۔ اسلام نے تو نکاح کو احساسِ بندگی اور شعورِ زندگی کے لیے عبادت سے تعبیر فرمایا ہے۔ سورۃ النساء میں اللہ رب العزت کا فرمان عالی شان ہے کہ ! اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت پھیلا دیے۔
اسی طرح آقا کریمﷺ کی بے شمار احادیث میں نکاح کرنے کا حکم مذکور ہے، ایک حدیث مبارک میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: اے جوانو کی جماعت! تم میں جو شخص خانہ داری (نان ونفقہ) کا بوجھ اٹھانے کی قدرت رکھتا ہو اس کو نکاح کرلینا چاہیے، کیونکہ نکاح کو نگاہ کے پست ہونے اور شرمگاہ کے محفوظ رہنے میں خاص دخل ہے، اور جو شخص قدرت نہ رکھتا ہو اس کو روزہ رکھنا چاہیے، (مسلم شریف) اور دوسری حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب بندہ نکاح کرلیتا ہے تو آدھا دین مکمل کر لیتا ہے ،اب اس کو چاہیے کہ نصف دین میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے۔
نکاح انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔ نکاح کے بغیر نامحرم عورت اور مرد کا ہر طرح کا ریلیشن ناجائز اور اللہ کی حددو سے تجاوز ہے۔ اسلام کی تعلیمات قیامت تک اپنی اصلی حالت میں یوں ہی رہیں گی البتہ اسکرپٹڈ خرافات رسوا ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی، یہ کبھی اسلام کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔
یہ اللہ رب العزت کا وعدہ ہے۔ جس دن سے اللہ رب العزت نے اس کائنات کو وجود بخشا ہے اور حضرت آدم اور اولاد آدم کو اس کا مہمان بنایا ہے اسی دن سے اس نے اپنے نیک بندوں کو ایک نظام حیات عطا کیا ہے جس پر چل کر وہ حق کے ساتھی بن جاتے ہیں، صادق اور عبادت گزاربن کر اپنے محبوب رب کی دوستی کا اعلیٰ مقام پاتے ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے عطا کردہ نظام کے سامنے کھڑے ہونے کی کوشش کرتے ہیں یا انھیں تیار کرکے کھڑا کردیا جاتا ہے۔
جہاں سے وہ ناعاقبت اندیش اپنے خالق و مالک رب کی قائم کردہ حدود کو چیلنج کرتے نظر آتے ہیں یا ان کے مقابلے میں ایسی توضیحات پیش کرتے جن کا نتیجہ نظام قدرت سے چھیڑ چھاڑ کی صورت نکلتا ہے۔
یوں تو ملالہ یوسفزئی کے بے شمار تنازعات میڈیا و سوشل میڈیا کی زینت بن چکے ہیں، سردست گزشتہ دنوں اس کا برطانیہ کے فیشن میگزین ووگ کی سیرین کیل کو دیے گئے ایک متنازع انٹرویو کی بات کریں گے۔ ووگ میگزین کے آن لائن ایڈیشن میں ملالہ یوسفزئی کا انٹرویو شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے مختلف معاملات سمیت شادی کے موضوع پر بھی بات کی ہے اور یہی وہ موضوع ہے جس پر تنازع پیدا ہوگیا ہے، پاکستان میں یہ معاملہ ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈز میں شامل رہا اور سوشل میڈیا کی زینت بنا رہا، پوری دنیا میں اسلام پسند حلقوں میں شدید غم و غصے کا اظہار بھی کیا گیا۔
تاہم اہل مغرب اور نام نہاد روشن خیالوں نے اس کے بیان کو سراہا۔ سوال یہ ہے کہ آخر ملالہ نے ایسی کیا بات کہی جس پر یہ تقسیم پیدا ہوئی۔ اس انٹرویو کے دوران ملالہ سے جب شادی کے بارے سوال کیا گیا تو اس نے کہا کہ مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ لوگ شادی کیوں کرتے ہیں؟ اگر آپ کسی کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو شادی کے کاغذات پر دستخط کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ ایک پارٹنرشپ کیوں نہیں ہو سکتی؟ یہ ہے ملالہ کا وہ بیان جس پر اسلام پسند حلقے نالاں اور اہل مغرب اور مغرب پرست شاداں ہورہے تھے۔
ملالہ کا یہ بیان اللہ کی قائم کردہ حدود اور ہمارے مضبوط خاندانی نظام پر کھلا حملہ نہیں تو اور کیا ہے؟ اسی قسم کی باتوں کی وجہ سے حقیقت پسندوں کے ہاں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ ملالہ یوسفزئی مغرب کا تیار کردہ وہ ہتھیار ہے جسے وقتاً فوقتاً مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جاتارہا ہے، ورنہ کوئی گیا گزرا مسلمان بھی شادی جیسے مقدس، حلال اور جائز رشتے کی نفی نہیں کر سکتا۔ سوچنے کی بات ہے کہ شادی کب ہوگی، شادی کا کوئی پرپوزل آیا یا نہیں، کیسا پارٹنر پسند کرو گی؟
ایسے سوالات تو کبھی لڑکیوں سے اس مشرقی، اسلامی اور قبائلی معاشرے میں نہیں پوچھے جاتے جہاں سے مبینہ طور پر ملالہ یوسفزئی کا خمیر اٹھایا گیا۔ شادی سے پہلے لڑکیوں سے ایسے اور اسی طرح کے سوالات اہل مغرب یا ان کے زیر اثر رہنے والوں کے ہاں ہی پوچھے جاسکتے ہیں، مگر روایت اور اقدار پسند پختون قبیلے یوسفزئی کی کسی عورت سے بالکل نہیں۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ مبینہ طور اور ظاہری طور پر ملالہ کا بیک گراؤنڈ قبائلی ہے۔ مگر ملالہ کون اور کہاں سے ہے؟ ایک متنازع اور حل طلب سوال ہے، مگر ملالہ کے نظریات کو دیکھ اور سن کر یقین نہیں آتا کہ اس کا سوات جیسے قدامت پسند علاقے اور خصوصاً پختونوں کے معزز ترین قبیلے یوسفزئی سے کوئی تعلق ہے۔
اس کا مذہب بھی اسلام ہے لیکن وہ جن ہاتھوں میں کھیل رہی ہے وہاں یہ دونوں حیثیتیں ثانوی درجے میں جاچکی ہیں۔ اب اسے ایک ٹول کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے تاکہ اس کی زبان سے نکلنے والی اسکرپٹڈ خرافات مسلمان بچیوں کے ذہنوں میں اتاری جائیں اور انھیں مادر پدر آزاد معاشرے کا ایندھن بنایا جاسکے، لیکن اس فلاپ ڈرامے کے کردار، ہدایت کار اور پیش کار سبھی کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا کیونکہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔ اسلام اور اسلام کی تعلیمات قیامت تک پوری آب و تاب کے ساتھ جگمگ جگمگ کریں گے۔
شادی کے رشتے کی اسلام میں کیا اہمیت ہے؟ آئیے اس کا جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے اس روئے زمین کو انسانوں سے آباد کیا، ان کے آپس میں رشتے ناتے قائم کیے، ایک دوسرے کے ساتھ ضرورتیں وابستہ کیں، باہم تعارف کے لیے خاندانوں اور معاشروں کا سلسلہ جاری کیا، اور حقوق وفرائض کاایک کامل نظام عطا فرمایا، یہ سب چیزیں ظاہر کرتی ہیں کہ انسان باہم مربوط بھی ہے اور ان کے درمیان کچھ فاصلے بھی ہیں۔
انسان بہت سی سماجی اقدار و روایات کا پابند بھی ہے اور اپنی پرائیویٹ زندگی میں بہت حد تک آزاد بھی، یہ دونوں چیزیں توازن کے ساتھ ہوں تو گھر اور معاشرہ جنت نظیر بن جاتاہے اور توازن بگڑ جائے تو وہی گھر اور سماج جہنم کا نمونہ بن جاتاہے۔ خاندانوں اور معاشروں کے سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے اللہ رب العزت نے نکاح یا شادی جیسا مقدس بندھن عطا کیا۔
اسلام میں نکاح کی بڑی اہمیت ہے۔ اسلام نے نکاح کے تعلق سے جو فکرِ اعتدال اور نظریہ توازن پیش کیا ہے وہ نہایت جامع اور بے نظیر ہے۔ اسلام کی نظر میں نکاح محض انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین کا نام نہیں ہے۔ انسان کی جس طرح بہت ساری فطری ضروریات ہیں عین اسی طرح نکاح بھی انسان کی ایک اہم فطری ضرورت ہے۔
اس لیے اسلام میں انسان کو اپنی اس فطری ضرورت کو جائزاور مہذب طریقے کے ساتھ پوراکرنے کی اجازت ہے ناکہ نکاح کے بغیر زندگی گزارنے کی اجازت۔ اسلام نے نکاح کو انسانی بقا وتحفظ کے لیے ضروری بتایا ہے۔ اسلام نے تو نکاح کو احساسِ بندگی اور شعورِ زندگی کے لیے عبادت سے تعبیر فرمایا ہے۔ سورۃ النساء میں اللہ رب العزت کا فرمان عالی شان ہے کہ ! اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت پھیلا دیے۔
اسی طرح آقا کریمﷺ کی بے شمار احادیث میں نکاح کرنے کا حکم مذکور ہے، ایک حدیث مبارک میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: اے جوانو کی جماعت! تم میں جو شخص خانہ داری (نان ونفقہ) کا بوجھ اٹھانے کی قدرت رکھتا ہو اس کو نکاح کرلینا چاہیے، کیونکہ نکاح کو نگاہ کے پست ہونے اور شرمگاہ کے محفوظ رہنے میں خاص دخل ہے، اور جو شخص قدرت نہ رکھتا ہو اس کو روزہ رکھنا چاہیے، (مسلم شریف) اور دوسری حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب بندہ نکاح کرلیتا ہے تو آدھا دین مکمل کر لیتا ہے ،اب اس کو چاہیے کہ نصف دین میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے۔
نکاح انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔ نکاح کے بغیر نامحرم عورت اور مرد کا ہر طرح کا ریلیشن ناجائز اور اللہ کی حددو سے تجاوز ہے۔ اسلام کی تعلیمات قیامت تک اپنی اصلی حالت میں یوں ہی رہیں گی البتہ اسکرپٹڈ خرافات رسوا ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی، یہ کبھی اسلام کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔