پاک بھارت وزرائے خارجہ کا مشترکہ اعلامیہ
مشترکہ کمیشن کو دوبارہ فعال بنایا گیا اور یہ عمل بغیر رکاوٹ کے جاری رہے گا
پاکستان اور بھارت نے مشترکہ اعلامیے میں طے کیا ہے کہ وہ ماضی کے ہاتھوں یرغمال نہیں بنیں گے اور ایک نئے جذبے اور امنگ کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو آگے بڑھائیں گے۔
اسلام آباد میں دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی سطح پر ہونے والے مذاکرات میں فریقین نے تمام مسائل پرامن طریقے سے حل کرنے اور باہمی مفاد اور اعتماد پر مبنی تعلقات قائم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور ان کے بھارتی ہم منصب ایس ایم کرشنا کی سربراہی میں ہونے والے مذاکرات میں دونوں وفود نے گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران مختلف سطحوں پر ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لیا۔
پاک بھارت مشترکہ کمیشن بھی بحال کر دیا گیا ہے جس نے مستقبل کے روابط سے متعلق ایک روڈ میپ تیار کرنے کے لیے تجاویز کا تبادلہ کیا۔ مذاکرات میں پاکستان اور بھارت نے بحال شدہ جامع مذاکرات کے تمام8 نکات پر بات چیت آگے بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ وزرائے خارجہ کے آیندہ مذاکرات 2013ء میں نئی دہلی میں ہوں گے۔
مذاکرات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تعلقات کو مکمل تبدیل شدہ سوچ کے ساتھ دیکھ رہا ہے، ہمیں ماضی کی طرح اب مسائل حل کرنے کا موقع نہیں کھونا ہے۔ راجیو گاندھی اور بینظیر بھٹو نے سیاچن پر معاہدے کا موقع کھودیا تھا، گیاری میں100سے زائد پاکستانی سپاہیوں کی موسمی حالات کے ہاتھوں موت کے بعد بھی ہمیں موقع ملا تھاکہ یہ معاملہ حل کرتے لیکن پھر ہم نے موقع کھودیا۔ انھوں نے مذاکراتی عمل کے ناقدین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ایک سال میں ہی کافی پیشرفت ہوئی ہے۔
مشترکہ کمیشن کو دوبارہ فعال بنایا گیا اور یہ عمل بغیر رکاوٹ کے جاری رہے گا۔ پاکستان بھارت کے ساتھ کوئی بھی چیز منفی نظر سے دیکھنے کے بجائے مثبت انداز میں دیکھ رہا ہے، ہم نے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کی40 سالہ سوچ تبدیل کرتے ہوئے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے، دسمبر2012ء کے بعد تجارتی تعلقات بہت تیزی سے آگے بڑھیں گے۔ یہ دونوں اطراف کی ذمے داری ہے کہ جو عناصر مخالفانہ سوچ پیدا کرتے ہیں اس کا تدارک کریں۔ جموں وکشمیر، سیاچن سرکریک سب ایشوز پر پیشرفت کرنا ہوگی، کشمیری عوام کی خواہشات کو مدنظر رکھنا ہوگا اور انھیں مذاکراتی عمل میں شامل کرنا ہوگا۔
بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ دونوں ملک تمام تصفیہ طلب معاملات حل کرنے پر متفق ہیں۔ دہشت گردی خطے کے امن وسلامتی کے لیے ایک خطرہ ہے، اس سے موثر طریقہ سے نمٹنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ منموہن سنگھ نے دورہ پاکستان کے لیے کوئی پیشگی شرط عائد نہیں کی، وہ مناسب ماحول میں پاکستان آئیں گے، میں واپس دہلی جاکر انھیں صورتحال کے بارے میں اپنا تجزیہ بتاؤنگا جس کے بعد وہ دورے کا فیصلہ کریں گے۔
دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ، اس سے عیاں ہوتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں بہتری کا عمل غیر معمولی انداز میں جاری ہے اور انتہا پسند پس منظر میں چلے گئے ہیں۔پاکستان اور بھارت کو تعلقات بہتر بنانے اور متنازعہ امور طے کرنے کے کئی مواقع ملے لیکن ان سے فائدہ نہ اٹھایا جاسکا۔ اب جو خوشگوار صورتحال پیدا ہوئی ہے، اس کا بھر پور فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔
پاک بھارت وزرائے خارجہ مذاکرات کے اختتام پر28 نکات پر مشتمل مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس میں سمجھوتہ ایکسپریس کی تحقیقات سے پاکستان کو آگاہ کرنے سمیت لائن آف کنٹرول کے آرپار سفر اور تجارت اور قیدیوں کے معاملے پر بہت سے فیصلے بھی شامل ہیں۔ خواتین، بوڑھے، بچے اور بیمار قیدیوں کے حوالے سے انسانی ہمدردی کی سوچ سے کام لینے پر زور دیا گیا۔اس ایشو پر مذاکرات امسال دسمبر میں ہوں گے۔
جموں وکشمیر پر بھی بات چیت کی گئی اور مذاکراتی عمل کو بامقصد اور پیشرفت پر مبنی بناتے ہوئے اسے پرامن حل تک جاری رکھنے پر اتفاق ہوا۔ لائن آف کنٹرول سے تجارت کے لیے سڑکوں اور پلوں کی حالت بہتر بنائی جائے گی۔ دونوں اطراف نے دوستانہ تبادلوں کی ضرورت پر زور دیا اور مختلف شعبوں بشمول زائرین، میڈیا تبادلوں، کھیلوں کے مقابلوں کے لیے سہولتیں فراہم کرنے اور ایک دوسرے کے خلاف پراپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات کا بھی جائزہ لیا۔ مشترکہ اعلامیے میں جو ترجیحات طے کی گئی ہیں ، ان پر عمل ہوجائے تو انقلابی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔
تنازعہ کشمیر خاصا پیچیدہ ہے لیکن دوسرے معاملات کو جلد طے کیا جاسکتا ہے، اگر سیاچن ، سرکریک اور پانی کا مسئلہ طے پا جاتا ہے تو آگے بڑھنا آسان ہوجاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ آمد ورفت کا سلسلہ بڑھنا چاہیے، دونوں ملکوں کی جیلوں میں جو قیدی ہیں، ان کو جلد رہا کیا جانا چاہیے۔ادھر اگلے روز بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے پاکستان کے عسکریت پسندوں کی طرف سے مبینہ دراندازی کی کوششوں کا ذکر کر کے ماحول میں پھر کشیدگی پیدا کر دی ہے۔
دہلی میں پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں سے خطاب میں منموہن سنگھ نے کہا کہ دہشت گردوں سے بدستور خطرہ لاحق ہے اور وہ حملوں کے لیے (ممبئی حملوں کی طرح) دوبارہ سمندر کا راستہ استعمال کر سکتے ہیںلہٰذا ہمیں زمینی راستوں پر ہی نہیں سمندر میں بھی مکمل چوکس رہنا چاہیے۔ منموہن سنگھ نے مزید کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں ہم لائن آف کنٹرول اور یہاں تک کہ بین الاقوامی سرحد کے راستے دراندازی کی کوششوں میں اضافہ دیکھ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی مشترکہ کوششوں سے دہشت گردوں اور دہشت گردی کے واقعات میں کافی کمی آئی ہے۔ زیادہ بہتر یہ ہوتا کہ بھارتی وزیراعظم اس موقع پر یہ باتیں نہ کرتے، اس موقع پر اچھی بات کی جاتی تو اس کا پاک بھارت وزرائے خارجہ مذاکرات کے نتائج پر خوشگوار اثر پڑتا۔
اسلام آباد میں دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی سطح پر ہونے والے مذاکرات میں فریقین نے تمام مسائل پرامن طریقے سے حل کرنے اور باہمی مفاد اور اعتماد پر مبنی تعلقات قائم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور ان کے بھارتی ہم منصب ایس ایم کرشنا کی سربراہی میں ہونے والے مذاکرات میں دونوں وفود نے گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران مختلف سطحوں پر ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لیا۔
پاک بھارت مشترکہ کمیشن بھی بحال کر دیا گیا ہے جس نے مستقبل کے روابط سے متعلق ایک روڈ میپ تیار کرنے کے لیے تجاویز کا تبادلہ کیا۔ مذاکرات میں پاکستان اور بھارت نے بحال شدہ جامع مذاکرات کے تمام8 نکات پر بات چیت آگے بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ وزرائے خارجہ کے آیندہ مذاکرات 2013ء میں نئی دہلی میں ہوں گے۔
مذاکرات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تعلقات کو مکمل تبدیل شدہ سوچ کے ساتھ دیکھ رہا ہے، ہمیں ماضی کی طرح اب مسائل حل کرنے کا موقع نہیں کھونا ہے۔ راجیو گاندھی اور بینظیر بھٹو نے سیاچن پر معاہدے کا موقع کھودیا تھا، گیاری میں100سے زائد پاکستانی سپاہیوں کی موسمی حالات کے ہاتھوں موت کے بعد بھی ہمیں موقع ملا تھاکہ یہ معاملہ حل کرتے لیکن پھر ہم نے موقع کھودیا۔ انھوں نے مذاکراتی عمل کے ناقدین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ایک سال میں ہی کافی پیشرفت ہوئی ہے۔
مشترکہ کمیشن کو دوبارہ فعال بنایا گیا اور یہ عمل بغیر رکاوٹ کے جاری رہے گا۔ پاکستان بھارت کے ساتھ کوئی بھی چیز منفی نظر سے دیکھنے کے بجائے مثبت انداز میں دیکھ رہا ہے، ہم نے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کی40 سالہ سوچ تبدیل کرتے ہوئے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے، دسمبر2012ء کے بعد تجارتی تعلقات بہت تیزی سے آگے بڑھیں گے۔ یہ دونوں اطراف کی ذمے داری ہے کہ جو عناصر مخالفانہ سوچ پیدا کرتے ہیں اس کا تدارک کریں۔ جموں وکشمیر، سیاچن سرکریک سب ایشوز پر پیشرفت کرنا ہوگی، کشمیری عوام کی خواہشات کو مدنظر رکھنا ہوگا اور انھیں مذاکراتی عمل میں شامل کرنا ہوگا۔
بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ دونوں ملک تمام تصفیہ طلب معاملات حل کرنے پر متفق ہیں۔ دہشت گردی خطے کے امن وسلامتی کے لیے ایک خطرہ ہے، اس سے موثر طریقہ سے نمٹنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ منموہن سنگھ نے دورہ پاکستان کے لیے کوئی پیشگی شرط عائد نہیں کی، وہ مناسب ماحول میں پاکستان آئیں گے، میں واپس دہلی جاکر انھیں صورتحال کے بارے میں اپنا تجزیہ بتاؤنگا جس کے بعد وہ دورے کا فیصلہ کریں گے۔
دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ، اس سے عیاں ہوتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں بہتری کا عمل غیر معمولی انداز میں جاری ہے اور انتہا پسند پس منظر میں چلے گئے ہیں۔پاکستان اور بھارت کو تعلقات بہتر بنانے اور متنازعہ امور طے کرنے کے کئی مواقع ملے لیکن ان سے فائدہ نہ اٹھایا جاسکا۔ اب جو خوشگوار صورتحال پیدا ہوئی ہے، اس کا بھر پور فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔
پاک بھارت وزرائے خارجہ مذاکرات کے اختتام پر28 نکات پر مشتمل مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس میں سمجھوتہ ایکسپریس کی تحقیقات سے پاکستان کو آگاہ کرنے سمیت لائن آف کنٹرول کے آرپار سفر اور تجارت اور قیدیوں کے معاملے پر بہت سے فیصلے بھی شامل ہیں۔ خواتین، بوڑھے، بچے اور بیمار قیدیوں کے حوالے سے انسانی ہمدردی کی سوچ سے کام لینے پر زور دیا گیا۔اس ایشو پر مذاکرات امسال دسمبر میں ہوں گے۔
جموں وکشمیر پر بھی بات چیت کی گئی اور مذاکراتی عمل کو بامقصد اور پیشرفت پر مبنی بناتے ہوئے اسے پرامن حل تک جاری رکھنے پر اتفاق ہوا۔ لائن آف کنٹرول سے تجارت کے لیے سڑکوں اور پلوں کی حالت بہتر بنائی جائے گی۔ دونوں اطراف نے دوستانہ تبادلوں کی ضرورت پر زور دیا اور مختلف شعبوں بشمول زائرین، میڈیا تبادلوں، کھیلوں کے مقابلوں کے لیے سہولتیں فراہم کرنے اور ایک دوسرے کے خلاف پراپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات کا بھی جائزہ لیا۔ مشترکہ اعلامیے میں جو ترجیحات طے کی گئی ہیں ، ان پر عمل ہوجائے تو انقلابی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔
تنازعہ کشمیر خاصا پیچیدہ ہے لیکن دوسرے معاملات کو جلد طے کیا جاسکتا ہے، اگر سیاچن ، سرکریک اور پانی کا مسئلہ طے پا جاتا ہے تو آگے بڑھنا آسان ہوجاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ آمد ورفت کا سلسلہ بڑھنا چاہیے، دونوں ملکوں کی جیلوں میں جو قیدی ہیں، ان کو جلد رہا کیا جانا چاہیے۔ادھر اگلے روز بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے پاکستان کے عسکریت پسندوں کی طرف سے مبینہ دراندازی کی کوششوں کا ذکر کر کے ماحول میں پھر کشیدگی پیدا کر دی ہے۔
دہلی میں پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں سے خطاب میں منموہن سنگھ نے کہا کہ دہشت گردوں سے بدستور خطرہ لاحق ہے اور وہ حملوں کے لیے (ممبئی حملوں کی طرح) دوبارہ سمندر کا راستہ استعمال کر سکتے ہیںلہٰذا ہمیں زمینی راستوں پر ہی نہیں سمندر میں بھی مکمل چوکس رہنا چاہیے۔ منموہن سنگھ نے مزید کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں ہم لائن آف کنٹرول اور یہاں تک کہ بین الاقوامی سرحد کے راستے دراندازی کی کوششوں میں اضافہ دیکھ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی مشترکہ کوششوں سے دہشت گردوں اور دہشت گردی کے واقعات میں کافی کمی آئی ہے۔ زیادہ بہتر یہ ہوتا کہ بھارتی وزیراعظم اس موقع پر یہ باتیں نہ کرتے، اس موقع پر اچھی بات کی جاتی تو اس کا پاک بھارت وزرائے خارجہ مذاکرات کے نتائج پر خوشگوار اثر پڑتا۔