افغان صورتحالامریکا پاکستان کو اعتماد میں لے

امریکہ آج 11 سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی افغانستان سے دہشت گردی کا خاتمہ نہ کر سکا

مریکا نے یہ جنگ جیتنے کے لیے جدید ترین ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کا استعمال کیا اور اپنی قوت میں اضافے کے لیے بڑی تعداد میں افغان فورسز کو بھی تربیت فراہم کی۔ فوٹو: فائل

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہفتے کو نیٹو ہیڈ کوارٹر کے باہر خود کش حملے میں6 بچے ہلاک ہوگئے۔

امریکا اپنے اتحادیوں کے ہمراہ افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے 2001ء میں داخل ہوا اور آج 11 سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی وہ افغانستان میں نہ دہشت گردی کا خاتمہ کر سکا اور نہ ہی وہاں امن قائم کرنے میں کامیاب ہو سکا ہے۔ طالبان بتدریج طاقت پکڑ رہے ہیں۔وہ امریکا اور نیٹو آرمی پر بھی کامیاب حملے کررہے ہیں اور افغانستان کی اہم شخصیات بھی ان کا ٹارگٹ ہیں۔

امریکا کی اس جنگ میں پاکستان نے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کیا اور اسے ہر ممکن معاونت فراہم کی۔ امریکا نے یہ جنگ جیتنے کے لیے جدید ترین ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کا استعمال کیا اور اپنی قوت میں اضافے کے لیے بڑی تعداد میں افغان فورسز کو بھی تربیت فراہم کی جو اس کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہیں۔

امریکا نے اپنی تنصیبات کی حفاظت کے لیے سخت حفاظتی اقدامات کر رکھے ہیں مگر اس کے باوجود عسکریت پسند اس پر خود کش حملے کر کے اسے شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق حالیہ حملہ بھی ایک 14 سالہ لڑکے نے کیا ہے جب کہ دوسری جانب صوبہ ارزگان میں عسکریت پسندوں نے بارودی سرنگ دھماکے میں حکومت کے حامی دو قبائلی رہنمائوں کو ہلاک کر کے واضح عندیہ دے دیا ہے کہ وہ امریکا کے سامنے کسی طور بھی جھکنے کو تیار نہیں اور اپنے کم وسائل کے باوجود گوریلا جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔


امریکا جدید ٹیکنالوجی اور تمام تر وسائل کے استعمال کے باوجود ان حملوں پر قابو پانے میں اپنی ناکامی کا برملا اعتراف کرنے کے بجائے پاکستان پر دبائو بڑھا دیتا ہے کہ وہ اپنے علاقے میں موجود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے۔ دہشت گردی کی آڑ لے کر وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مسلسل ڈرون حملے کر رہا ہے جن میں بہت سی اموات ہورہی ہیں۔قبائلی عوام میں ان حملوں سے شدید ردعمل پیدا ہورہا ہے۔ افغانستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں سے گھبرا کرامریکا نے طالبان سے مذاکرات شروع کر دیے۔

یہ سلسلہ خاصے عرصے سے جاری ہے مگر یہ مذاکرات کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو پا رہے۔ امریکا خود تو عسکریت پسندوں سے مذاکرات کر رہا ہے مگر پاکستان پر دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرے۔ پاکستان نے امریکا کو بارہا پیشکش کی ہے کہ اگر وہ افغان صورتحال میں بہتری چاہتا ہے تو عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ مذاکرات کرنے سے پہلے اسے اعتماد میں لے مگر امریکا پاکستان کی اس پیشکش کو نظر انداز کرتے ہوئے خود ہی خفیہ مذاکرات کا سلسلہ چلائے ہوئے ہے حتیٰ کہ اس نے پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر حقانی گروپ سے بھی مذاکرات کیے۔

لیکن یہ بھی کامیاب نہیں ہوسکے۔ان مذاکرات کی ناکامی پر امریکا نے حقانی گروپ کو دہشت گرد قرار دے دیا اور پاکستان پر دبائو بڑھا دیا کہ وہ حقانی گروپ کے خلاف آپریشن کرے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر امریکی انتظامیہ کے حقانی گروپ سے کسی نہ کسی سطح پر روابط موجود تھے تو اسے پاکستان کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔ امریکا گزشتہ 11 سال سے افغانستان میں موجود ہے مگر اسے یہ معلوم ہی نہیں کہ کن گروپوں سے مذاکرات کرنے ہیں اور کن سے نہیں۔یہی وجہ ہے کہ امریکا کو مذاکرات کے بعد بھی کامیابی کا سرا نہیں مل رہا۔ یہی بات پاکستان اسے سمجھا رہا ہے کہ عسکریت پسندوں کے حقیقی گروپوں سے مذاکرات اور ان کی کامیابی کے لیے وہ پاکستان کو اعتماد میں لے۔

دوسری جانب افغانستان میں بھارتی مداخلت میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور وہ پاکستان کے خلاف کارروائیوں کے لیے دہشت گردوں کو ہر ممکن معاونت فراہم کر رہا ہے۔ کرزئی انتظامیہ بھی افغانستان کی اصل صورتحال اور حقائق کو امریکا سے چھپا رہی اور اسے گمراہ کر رہی ہے۔ امریکا افغانستان کے بگڑتے ہوئے حالات پر قابو پانے کے لیے 3 لاکھ افغان فورسز کو تربیت دے رہا ہے' اس فورس کا مستقبل بھی غیر یقینی ہے، امریکا نے 2014ء کے آخر تک افغانستان سے فورسز کے ایک بڑے حصے کے انخلا کا اعلان کر رکھا ہے۔

اگر امریکا افغانستان میں بہتری کے لیے عسکریت پسندوں سے مذاکرات میں کامیابی چاہتا ہے تو اسے بلاتاخیر پاکستان کو اعتماد میں لینا چاہیے ورنہ وہ اسی طرح اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتا رہے گا جس طرح وہ اب کر رہا ہے۔اس کا نتیجہ اس سارے خطے کے لیے اچھا نہیں ہوسکتا۔ امریکا تو افغانستان سے نکل جائے لیکن یہاں جنگ ختم نہیں ہوگی، یوں افغانستان کے ہمسایہ ممالک بھی عدم استحکام سے دوچار رہیں گے۔
Load Next Story