جمہوریت نو گارنٹی اونلی وارنٹی
سنا ہے پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال ’’وارنٹی‘‘ کا ہوتا ہے اور ’’گارنٹی‘‘ تقریباً آف پاکستان ہو چکی ہے اور تو...
KHUSHHAL GARH:
سنا ہے پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال ''وارنٹی'' کا ہوتا ہے اور ''گارنٹی'' تقریباً آف پاکستان ہو چکی ہے اور تو اور پاکستان میں جو ''جمہوریت'' مارکیٹ میں دستیاب ہے، اس کے ساتھ بھی گارنٹی کے بجائے وارنٹی کا کارڈ لٹکا ہوا ہوتا ہے جس پر لکھا ہوتا ہے کہ
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
ہمیں یاد ہے بہت عرصہ ہوا ہم نے ایک پنکھا خریدا تھا ،گھر لاتے ہی اسے ''کچھ'' ہو گیا، دوسرے دن لے گئے تو دکان دار نے چوں چرا کیے بغیر وہ پنکھا رکھ لیا اور ہمیں دوسرا دے دیا، پھر گرمی کا سیزن تقریباً گزر چکا تھا اور ہم پنکھے کو چار پانچ مہینے بجا چکے تھے کہ پھر اس نے گھومنے سے انکار کر دیا، اس مرتبہ ہم جھجک رہے تھے اس لیے پنکھا لے جانے کے بجائے یونہی اس سے بات کی۔ اس نے کہا، لے آؤ بدل دیں گے۔ ویسا ہی ہوا اور ہم تیسرا پنکھا لے آئے لیکن پھر زمانہ بدل گیا ،گارنٹی کے ساتھ اس کی لاڈلی بہن وارنٹی میدان میں آگئی، اس مرتبہ پنکھا خریدا تو اس نے مہینے بھر بعد انکار کر دیا۔ دکان دار کے پاس لے گئے تو اس نے کہا ،کل آجائیں ہمارا مکینک موجود نہیں ہے لیکن یہ تو ابتدا تھی، اس پنکھے کو ہم لاتے رہے، مکینک ٹھیک کرتا رہا، مرمت کے پیسے بھی لیے جاتے رہے، آخر ہمیں خود شرم آگئی ' اس دوران ہمیں اچھی طرح سمجھا دیا کہ گارنٹی گارنٹی ہوتی ہے اور وارنٹی وارنٹی ہوتی ہے ۔
ہمیں پوری طرح معلوم نہیں کہ یہ ''وارنٹی'' کا لفظ کس نے ایجاد کیا ہے 'اسے ''نوبل پرائز'' دیا گیا ہے یا نہیں ہے، ویسے اتنا اندازہ تو ہمیں ہے کہ اگر اسے نوبل انعام دیا گیا ہو گا تو یہ لفظ یقیناً امریکا میں ایجاد کیا گیا ہو گا اور اگر نہیں تو پھر اس کم بخت موجد کا تعلق یقیناً ایشیاء یا افریقہ سے ہو گا، یوں سمجھئے کہ وارنٹی کا لفظ تجارتی نوسر بازی کی دنیا کا شہزادہ ہے' آج کل کی ''تجارتی نوسر بازی'' میں سب سے زیادہ قابل توجہ اور مقبول ترین لفظ یہی ہیکیونکہ اس سے پہلے تجارتی نوسر بازی کی دنیا میں وہ جو ''گارنٹی'' کا لفظ استعمال ہوتا تھا، اس نے سارے تاجروں اور صنعت کاروں کو ناکوں چنے چبوائے تھے بلکہ بہت سوں کو اس نے ملیا میٹ بھی کیا ہوا تھا لیکن مجبوری تھی، ایک دوسرے کے مقابل میں ''گارنٹی'' تو دینا ہی پڑتی تھی۔
ویسے ہم نے ایک غیر مصدقہ سی روایت یہ بھی سنی ہے کہ لفظ ''وارنٹی'' کی پیدائش پاکستان میں ہوئی ہے کیونکہ یہاں اب تک جتنی بھی ''جمہورتیں'' آئی ہیں، ان کے ساتھ گارنٹی کے بجائے صرف وارنٹی ہوتی تھی، اور یہ تو آپ کو بتانے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ آج تک پاکستان میں جتنی اقسام کی جمہورتیں بوئی گئی ہیں اور کاٹی گئی ہیں اتنی زیادہ اقسام کی جمہوریتیں پوری دنیا میں مل کر بھی نہیں اگائی گئی ہوں گی
یونہی گر روتا رہا غالب تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں
اور اس کا سارا کریڈٹ یہاں کے لیڈروں کو جاتا ہے جو ہر بار کسی نئی ترقی دادہ قسم کی جمہوریت کے بیج لاتے ہیں اور اس کی خر خیز، سوری زرخیز زمین میں بکھیر دیتے ہیں چنانچہ خدا کے فضل سے آج تک کسی بھی قسم کی جمہوریت یہاں ناکام نہیں ہوئی ہے کم از کم اس جمہوریت کے کاشت کرنے والے ''ماہرین'' تو کبھی ناکام نہیں ہوئے ہیں بل کہ ڈھیر ساری پیداوار حاصل کر کے سوئٹزر لینڈ وغیرہ بھجواتے رہے ہیں، ایک اندازے کے مطابق ایک دانے سے کم از کم ایک لاکھ دانے اٹھانے کا اوسط تو رہا ہی ہو گا، ہمت مرداں مدد خدا ۔۔۔ چنانچہ یہاں کے کاشت کار عرف لیڈروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ
کچھ لوگ تو آخری مصرے میں ''رقم دیکھتے ہیں'' پڑھ لیتے ہیں، ظاہر ہے کہ فصلوں، زمینوں اور کاشت و برداشت سے تعلق رکھنے والی جمہورتوں کی ''گارنٹی'' تو دی نہیں جا سکتی اس لیے ''وارنٹی'' سے کام چلایا جاتا ہے، ہوتا یوں ہے کہ ایک جمہوریت آتی ہے جو ہر طرح کی وارنٹی کے ساتھ ہوتی ہے لیکن جب نہیں چلتی تو ''وارنٹی'' کے مطابق دوسری پارٹی کو ٹھیکہ دے دیا جاتا ہے، وہ بھی بغیر وارنٹی کے اپنی جمہوریت لانچ کر دیتی ہے، چار پانچ چھ سال کے بعد وارنٹی کے مطابق اس کی مرمت وغیرہ کر دی جاتی ہے، یوں وہی کمپنیاں ہیں وہی لوگ ہیں لیکن ہر مرتبہ نئی ''وارنٹی'' کے ساتھ آتی ہیں اور اپنی جمہوریت بیچتی ہیں، دراصل اس میں کچھ گڑ بڑ آسمان کی طرف سے بھی ہو جاتی ہے اس لیے اب لوگ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ
خوشی کیا کھیت پر میرے، اگر سو بار ابر آئے
سمجھتا ہوں کہ ڈھونڈے ہے ابھی سے برق خرمن کو
لیکن آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس طرح تو یہ خسارے کا سودا ہے اور بے چارے کا شت کار کمپنیوں کو تو نقصان ہوتا ہو گا تو آپ غلط سمجھ رہے ہیں کیوں کہ آپ نہ تو ان کاشت کاروں کی چالاکی سے واقف ہیں اور نہ ''زمین'' کی خر خیزی ۔۔۔ معاف کرنا زرخیزی سے، چلیے ایک قصہ سنا کر آپ کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ دو آدمیوں نے شراکت کی بنیاد پر کاشت کاری شروع کی جس طرح آج کل بینکوں میں شراکت کی بنیاد پر ''بلا سود'' کی بینکاری ہوتی ہے بلا سود کی بینکاری اور ان دونوں آدمیوں کی کاشت کاری میں ''شراکت'' کا اصل مطلب آخر میں واضح ہو گا، ان میں ایک تو پاکستان کے لیڈروں کی طرح ہوشیار تھا اور دوسرا ہو بہو پاکستان کے عوام پر گیا تھا، چالاک شخص نے دوسرے سے پوچھا کہ تم فصل کا کون سا حصہ لو گے چوٹی کا یا نیچے والا ۔۔۔ عوام نے کہا اوپری حصہ ۔۔۔ اس مرتبہ لیڈر شراکت دار نے آلو بوئے اور عوام شراکت دار کو پتے پکڑا کر اس نے نیچے کے آلو لیے، اس مرتبہ سادہ دل نے ہوشیاری دکھاتے ہوئے کہا کہ میں جڑ کے طرف کا حصہ لوں گا، اب کے لیڈر کاشت کار نے گندم بوئی دانے خود لیے اور نیچے کا بھوسہ دوسرے کو دیا، تیسری مرتبہ عوام کاشت کار نے کہا کہ میں چوٹی بھی لوں گا اور جڑ بھی ۔۔۔ جانتا نہیں تھا کہ دوسرا کوئی یونہی تو لیڈر شراکت دار نہیں کہلاتا تھا چنانچہ اس نے مکئی کی فصل بوئی ۔۔۔ اسے کہتے ہیں شراکت ۔۔۔ اور رہی جمہوریت تو وہ وارنٹی کے ساتھ ہے، اس لیے ناکام ہونے پر کمپنی اس کی مرمت اور رنگ و روغن کر کے دوبارہ لے آتی ہے، لہٰذا ہمارا بھی اس روایت پر کچھ کچھ یقین ہونے لگا ہے کہ ضرور یہ ''وارنٹی'' کا خیال دنیا بھر کی تجارتی کمپنیوں نے پاکستان ہی سے لیا ہو گا۔
سنا ہے پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال ''وارنٹی'' کا ہوتا ہے اور ''گارنٹی'' تقریباً آف پاکستان ہو چکی ہے اور تو اور پاکستان میں جو ''جمہوریت'' مارکیٹ میں دستیاب ہے، اس کے ساتھ بھی گارنٹی کے بجائے وارنٹی کا کارڈ لٹکا ہوا ہوتا ہے جس پر لکھا ہوتا ہے کہ
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
ہمیں یاد ہے بہت عرصہ ہوا ہم نے ایک پنکھا خریدا تھا ،گھر لاتے ہی اسے ''کچھ'' ہو گیا، دوسرے دن لے گئے تو دکان دار نے چوں چرا کیے بغیر وہ پنکھا رکھ لیا اور ہمیں دوسرا دے دیا، پھر گرمی کا سیزن تقریباً گزر چکا تھا اور ہم پنکھے کو چار پانچ مہینے بجا چکے تھے کہ پھر اس نے گھومنے سے انکار کر دیا، اس مرتبہ ہم جھجک رہے تھے اس لیے پنکھا لے جانے کے بجائے یونہی اس سے بات کی۔ اس نے کہا، لے آؤ بدل دیں گے۔ ویسا ہی ہوا اور ہم تیسرا پنکھا لے آئے لیکن پھر زمانہ بدل گیا ،گارنٹی کے ساتھ اس کی لاڈلی بہن وارنٹی میدان میں آگئی، اس مرتبہ پنکھا خریدا تو اس نے مہینے بھر بعد انکار کر دیا۔ دکان دار کے پاس لے گئے تو اس نے کہا ،کل آجائیں ہمارا مکینک موجود نہیں ہے لیکن یہ تو ابتدا تھی، اس پنکھے کو ہم لاتے رہے، مکینک ٹھیک کرتا رہا، مرمت کے پیسے بھی لیے جاتے رہے، آخر ہمیں خود شرم آگئی ' اس دوران ہمیں اچھی طرح سمجھا دیا کہ گارنٹی گارنٹی ہوتی ہے اور وارنٹی وارنٹی ہوتی ہے ۔
ہمیں پوری طرح معلوم نہیں کہ یہ ''وارنٹی'' کا لفظ کس نے ایجاد کیا ہے 'اسے ''نوبل پرائز'' دیا گیا ہے یا نہیں ہے، ویسے اتنا اندازہ تو ہمیں ہے کہ اگر اسے نوبل انعام دیا گیا ہو گا تو یہ لفظ یقیناً امریکا میں ایجاد کیا گیا ہو گا اور اگر نہیں تو پھر اس کم بخت موجد کا تعلق یقیناً ایشیاء یا افریقہ سے ہو گا، یوں سمجھئے کہ وارنٹی کا لفظ تجارتی نوسر بازی کی دنیا کا شہزادہ ہے' آج کل کی ''تجارتی نوسر بازی'' میں سب سے زیادہ قابل توجہ اور مقبول ترین لفظ یہی ہیکیونکہ اس سے پہلے تجارتی نوسر بازی کی دنیا میں وہ جو ''گارنٹی'' کا لفظ استعمال ہوتا تھا، اس نے سارے تاجروں اور صنعت کاروں کو ناکوں چنے چبوائے تھے بلکہ بہت سوں کو اس نے ملیا میٹ بھی کیا ہوا تھا لیکن مجبوری تھی، ایک دوسرے کے مقابل میں ''گارنٹی'' تو دینا ہی پڑتی تھی۔
ویسے ہم نے ایک غیر مصدقہ سی روایت یہ بھی سنی ہے کہ لفظ ''وارنٹی'' کی پیدائش پاکستان میں ہوئی ہے کیونکہ یہاں اب تک جتنی بھی ''جمہورتیں'' آئی ہیں، ان کے ساتھ گارنٹی کے بجائے صرف وارنٹی ہوتی تھی، اور یہ تو آپ کو بتانے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ آج تک پاکستان میں جتنی اقسام کی جمہورتیں بوئی گئی ہیں اور کاٹی گئی ہیں اتنی زیادہ اقسام کی جمہوریتیں پوری دنیا میں مل کر بھی نہیں اگائی گئی ہوں گی
یونہی گر روتا رہا غالب تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں
اور اس کا سارا کریڈٹ یہاں کے لیڈروں کو جاتا ہے جو ہر بار کسی نئی ترقی دادہ قسم کی جمہوریت کے بیج لاتے ہیں اور اس کی خر خیز، سوری زرخیز زمین میں بکھیر دیتے ہیں چنانچہ خدا کے فضل سے آج تک کسی بھی قسم کی جمہوریت یہاں ناکام نہیں ہوئی ہے کم از کم اس جمہوریت کے کاشت کرنے والے ''ماہرین'' تو کبھی ناکام نہیں ہوئے ہیں بل کہ ڈھیر ساری پیداوار حاصل کر کے سوئٹزر لینڈ وغیرہ بھجواتے رہے ہیں، ایک اندازے کے مطابق ایک دانے سے کم از کم ایک لاکھ دانے اٹھانے کا اوسط تو رہا ہی ہو گا، ہمت مرداں مدد خدا ۔۔۔ چنانچہ یہاں کے کاشت کار عرف لیڈروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ
کچھ لوگ تو آخری مصرے میں ''رقم دیکھتے ہیں'' پڑھ لیتے ہیں، ظاہر ہے کہ فصلوں، زمینوں اور کاشت و برداشت سے تعلق رکھنے والی جمہورتوں کی ''گارنٹی'' تو دی نہیں جا سکتی اس لیے ''وارنٹی'' سے کام چلایا جاتا ہے، ہوتا یوں ہے کہ ایک جمہوریت آتی ہے جو ہر طرح کی وارنٹی کے ساتھ ہوتی ہے لیکن جب نہیں چلتی تو ''وارنٹی'' کے مطابق دوسری پارٹی کو ٹھیکہ دے دیا جاتا ہے، وہ بھی بغیر وارنٹی کے اپنی جمہوریت لانچ کر دیتی ہے، چار پانچ چھ سال کے بعد وارنٹی کے مطابق اس کی مرمت وغیرہ کر دی جاتی ہے، یوں وہی کمپنیاں ہیں وہی لوگ ہیں لیکن ہر مرتبہ نئی ''وارنٹی'' کے ساتھ آتی ہیں اور اپنی جمہوریت بیچتی ہیں، دراصل اس میں کچھ گڑ بڑ آسمان کی طرف سے بھی ہو جاتی ہے اس لیے اب لوگ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ
خوشی کیا کھیت پر میرے، اگر سو بار ابر آئے
سمجھتا ہوں کہ ڈھونڈے ہے ابھی سے برق خرمن کو
لیکن آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس طرح تو یہ خسارے کا سودا ہے اور بے چارے کا شت کار کمپنیوں کو تو نقصان ہوتا ہو گا تو آپ غلط سمجھ رہے ہیں کیوں کہ آپ نہ تو ان کاشت کاروں کی چالاکی سے واقف ہیں اور نہ ''زمین'' کی خر خیزی ۔۔۔ معاف کرنا زرخیزی سے، چلیے ایک قصہ سنا کر آپ کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ دو آدمیوں نے شراکت کی بنیاد پر کاشت کاری شروع کی جس طرح آج کل بینکوں میں شراکت کی بنیاد پر ''بلا سود'' کی بینکاری ہوتی ہے بلا سود کی بینکاری اور ان دونوں آدمیوں کی کاشت کاری میں ''شراکت'' کا اصل مطلب آخر میں واضح ہو گا، ان میں ایک تو پاکستان کے لیڈروں کی طرح ہوشیار تھا اور دوسرا ہو بہو پاکستان کے عوام پر گیا تھا، چالاک شخص نے دوسرے سے پوچھا کہ تم فصل کا کون سا حصہ لو گے چوٹی کا یا نیچے والا ۔۔۔ عوام نے کہا اوپری حصہ ۔۔۔ اس مرتبہ لیڈر شراکت دار نے آلو بوئے اور عوام شراکت دار کو پتے پکڑا کر اس نے نیچے کے آلو لیے، اس مرتبہ سادہ دل نے ہوشیاری دکھاتے ہوئے کہا کہ میں جڑ کے طرف کا حصہ لوں گا، اب کے لیڈر کاشت کار نے گندم بوئی دانے خود لیے اور نیچے کا بھوسہ دوسرے کو دیا، تیسری مرتبہ عوام کاشت کار نے کہا کہ میں چوٹی بھی لوں گا اور جڑ بھی ۔۔۔ جانتا نہیں تھا کہ دوسرا کوئی یونہی تو لیڈر شراکت دار نہیں کہلاتا تھا چنانچہ اس نے مکئی کی فصل بوئی ۔۔۔ اسے کہتے ہیں شراکت ۔۔۔ اور رہی جمہوریت تو وہ وارنٹی کے ساتھ ہے، اس لیے ناکام ہونے پر کمپنی اس کی مرمت اور رنگ و روغن کر کے دوبارہ لے آتی ہے، لہٰذا ہمارا بھی اس روایت پر کچھ کچھ یقین ہونے لگا ہے کہ ضرور یہ ''وارنٹی'' کا خیال دنیا بھر کی تجارتی کمپنیوں نے پاکستان ہی سے لیا ہو گا۔