دہلی کے بازاروں میں ہر طرف مرجھائے ہوئے چہرے نظر آئے

لال قلعہ دہلی اور جامع مسجد کی شان و شوکت لاہور کے قلعے اور بادشاہی مسجد سے کم تر ہے۔

چاندنی چوک میں شراب خریدنے کیلئے خواتین کو قطاروں میں کھڑے دیکھنا عجیب تجربہ تھا، بھارت کی سیاحت کا دلچسپ احوال۔ فوٹو: فائل

ڈاکٹر عرفان احمد خان ناولسٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان کے بانی چیئرمین ہیں۔ ادبی زندگی کا آغاز 1995میں ناول '' غازہ خور'' سے کیا۔ 1997 میں ناول '' آدھی روٹی کافی ہے'' لکھا۔ تراجم میں ''پرنس'' (پارٹ 1,2,3)'' دلی'' ، ''خشونت سنگھ کے لطیفے'' اور اخشونت سنگھ ہی کے ناول ٹرین ٹو پاکستان شامل ہیں۔ 2017 میں انہوں نے یونیورسٹی آف ایجوکیشن سے پی ایچ ڈی کی۔

موصوف نے 1986ء میں بھارت یاترا کی ،جس کا احوال نذر قارئین ہے۔

اُن دنوں PACKAGES میں تھا جب مجھے ہندوستان کے سفر کا موقع ملا۔ اپریل 1986ء کی بات ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ پر ہندوستان اور اسرائیل کا نام پرنٹ نہیں تھا اس لئے ہندوستان جانے اور ویزا لگوانے کیلئے ENDORSEMENT ضروری تھی جو بڑی مشکل سے ممکن ہوئی۔ پھر دوست عثمان نے ہندوستان سے ویزا لگوانے کیلئے ہم دونوں کے مستقل ایڈریس پر ایرو گرام منگوایا جس میں ہمیں ''شادی'' میں آنے کی دعوت دی گئی تھی۔ ہندوستان میں عثمان کے والد نے دوسری شادی کر رکھی تھی۔

خدا خدا کر کے ہمارے ویزے لگے۔ میرا اور عثمان کا معاملہ ایک سا تھا۔ وہ بھی اپنی بیوی اور بچی کے ساتھ جا رہا تھا اور میں بھی۔ ہم لاہور سے بذریعہ ٹرین ہندوستان جا رہے تھے۔ ہمیں ہندوستان جانے والوں نے ماہرانہ مشوروں سے نوازا تھا۔ اُن دنوں ہندوستان میں پاکستانی فلیٹ کریپ کی بڑی ڈیمانڈ تھی۔ واٹر کولر بھی وہاں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔ پاکستانی کرنسی بھی ہندوستان سے اوپر تھی۔ پاکستانی ڈرائی فروٹس اور سگریٹ کے ایک بڑے برانڈ کی بھی بے پناہ مانگ تھی۔ کیمرے کی فلمیں بھی وہاں اُن دنوں اچھے نرخوں پر بک جاتی تھیں۔ بذریعہ ٹرین سامان لے جانے کی خاصی گنجائش اور سہولت تھی۔

ٹرین نے لاہور سے اٹاری پہنچنے میں تو زیادہ وقت نہ لیا لیکن وہاں جو کچھ ہوا وہ بڑا بیزار کُن تھا۔ ٹرین نے جیسے ہی واہگہ کراس کیا ہمیں ہندوستان کا بدلا ہوا ماحول نظر آنے لگا۔ اُن کی طرف کا بارڈر ویران اور سنسان تھا۔ بڑی تعداد میں سکھ کھیتوں میں نیکریں پہن کر گندم کی فصل کاٹ رہے تھے جو عجیب لگتا تھا۔

اٹاری ریلوے اسٹیشن پر کچا ناریل اور انناس خوب کھایا۔ یہی پھل وہاں سستے ہیں۔ باقی پکوڑے، پوڑی حلوہ اور ہلکی پھلکی روٹیاں کھانے کیلئے دستیاب تھیں۔ ڈالرز کو ہندوستانی کرنسی میں تبدیل کروایا اور تقریباً ساری رات سامان کا ''کسٹم'' کرواتے رہے۔ حرام خور سرحد کے دونوں طرف ہی تھے۔ اِدھر مسلمان، اُدھر سکھ۔ ہمارے سامان میں کوئی ایسی غیر معمولی چیز تھی ہی نہیں جو کسٹم والوں کی آنکھوں میں کھٹکتی۔ انہوں نے سب سے فی پاسپورٹ سیدھا سیدھا سو روپیہ پکڑا اور ٹرین کو کلیئر کر دیا۔ رات 3بجے گاڑی نے ایک وسل دی۔ ہم نے سمجھا کہ ٹرین چلنے لگی ہے۔

پھر صبح 5بجے ایک وسل ہوئی۔ ٹرین پھر بھی نہ چلی۔ پھر سات بجے ایک وسل ہوئی اور گاڑی اچانک دِلّی کی طرف چل پڑی۔ صبح کا وقت تھا۔ آدھے مسافر ٹرین سے باہر منہ ہاتھ دھو رہے تھے۔ ناشتہ کر رہے تھے۔ چائے وغیرہ پی رہے تھے۔ ٹرین کے مسافروں نے زنجیریں کھینچ دیں اور ٹرین ایک فرلانگ کی دوری پر رُک گئی۔ کچھ جذباتی لوگ انجن کے پاس گئے۔ انجن کا سکھ ڈرائیور شراب کے نشے میں دکھائی دے رہا تھا۔

اُس نے مسافروں کو سمجھاتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے کہا : ''تِن وسلاں دئی دیتیاں نیں۔ اے ریلوے دا اصول اے۔ آپاں ڈ اک وسل راتی 3وجے دِتی، دوجی 5بجے تے تیجی وسل 7وجے دِتی۔ کی غلط کیتا آپاں؟'' مسافروں نے اُس سے بحث کرنے کے بجائے اپنے اپنے ڈبے میں گُھس جانے ہی میں بہتری سمجھی۔ امرتسر، لدھیانہ، جالندھر اور پھر پانی پت سے گذرے، لیکن اُترنے کی اجازت نہ تھی۔

ٹرین کے اندر بھی بے پناہ شور اور لڑائی جھگڑا تھا۔ ریلوے لائن کے کناروں پر دیکھا تو مرد و زن بے تکلفی سے ٹرین ہی کی طرف منہ کئے رفع حاجت میں مصروف تھے۔ ہندوستانی پنجاب میں بڑی ہریالی تھی، جو پاکستانی پنجاب سے رقبے میں کم مگر زرعی پیداوار میں آگے ہے۔

پاکستان میں تو زراعت کے نام پر عالمی امداد لینا اور کھا جانا عام چلن ہے لیکن بھارت کی زرعی پالیسیاں تب بہترین تھیں اب تو مدت سے احتجاجی کسان دلیِ میں دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ہم شام 4بجے پرانی دِلّی کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچے۔ ہماری ٹرین سبزی منڈی جیسے گندے ترین اسٹیشن سے گذر کر یہاں پہنچی تھی۔ دِلّی کا ریلوے اسٹیشن اچھا ہے مگر لاہور جیسا نہیں ۔ جان ماسٹرز کے مشہور ناول ''بھوانی جنکشن'' پر مبنی فلم کی شوٹنگ لاہور کے شاندار ریلوے سٹیشن پر ہی ہوئی تھی۔ دِلّی ریلوے سٹیشن پر قلیوں کا نظام لاہور کے مقابلے میں بہتر لگا۔ قُلی نے اسٹیشن پر ہمیں تانگہ بھی کرا دیا جو ہمیں جامع مسجد، دِلّی کے سامنے محلہ مچھلی دالان کے باہر اُتار کر چلا گیا۔

پورے محلے میں مچھلی کی مخصوص بو پھیلی ہوئی تھی۔ مچھلی وہاں کی منڈی میں کلکتہ سے آتی تھی۔ مجھے تو مچھلی کی بو سے کوئی خاص مسئلہ نہیں تھا مگر ہماری بیگمات کو یہ ناگوار گذر رہی تھی۔ عثمان کے والد کا مکان اندرون لاہور کے پرانے مکانوں جیسا تھا۔ سُرخ پتھر کی سیڑھیاں تھیں۔ پہلی منزل پر چھوٹے سے صحن کے بعد ایک لمبا کمرہ تھا۔ بس وہی کمرہ کل کائنات تھی جہاں ہمیں رہنا تھا۔ ایسے گُھٹے ماحول پر ہماری بیویوں کے چہروں پر کوئی اچھا تاثر نہیں تھا۔ گھر کی کھڑکیوں اور باہر منڈیروں پر جنگلی کبوتر غٹرغوں کرتے تھے۔ ہمارے بچوں کو یہ غٹر غوں بڑی پیاری لگتی تھی۔

میں نے غسل کے بعد کمرے میں آکر جب پیسے گنے تو وہ مجھے کم لگے۔ میں سوچ میں پڑ گیا۔ عثمان سے ذکر کیا تو وہ کہنے لگا ''یاد کرو تم نے کہاں کہاں پیسے خرچ کئے تھے؟ ''میں نے کہا صرف تانگے والے کو پچاس روپے دیئے تھے۔ عثمان کاروبار ی بندہ تھا بات کی تہ تک پہنچ گیا۔

دراصل کرنسی سے ناآشنائی کے باعث میں نے تانگے والے کو دس، دس کے بجائے سو، سو کے پانچ نوٹ دے دیے تھے۔ عثمان نے اپنے سوتیلے بھائی کو ساتھ لیا۔ جو میرا ہم نام بھی تھا اور ہم دِلّی ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ عثمان کو قلی کا نمبر 333یاد تھا۔ ہم نے وہاں استقبالیہ پر اُسے بلانے کا اعلان کروایا۔ کچھ دیر بعد وہ آ گیا اور اُس نے ہمیں پہچان بھی لیا۔ ہم نے اُسے اپنا مسئلہ بتایا تو وہ ہمارے ساتھ باہر تانگہ سٹینڈ آیا۔ وہاں وہی تانگے والا تلاش کیا تو وہ نہ ملا۔ پوچھ تاچھ سے اُس کے کسی سنگی ساتھی نے اُس کا پتہ عرفان کو سمجھا دیا۔ اُس کا نام گردھاری تھا اور وہ جمنا پار کے علاقے میں رہتا تھا۔

وہ اپنے گھر شراب پی کر سویا ہوا تھا۔ عرفان نے اُسے جگایا اور اپنا مسئلہ بتایا۔ وہ مان گیا۔ اُس نے ہمیں 415 روپے فوراً واپس کر دیے اور 35روپیوں کیلئے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی جن کی اُس نے شراب کی بوتل خرید لی تھی۔ اُس نے تو ہمیں شراب کی خالی بوتل دینے کی بھی مخلصانہ آفر کی مگر ہم نے 415 روپے کی واپسی کو ہی بہت کافی سمجھا۔ وہ تو ہمیں واپسی پر گھر چھوڑنے کا بھی کہہ رہا تھا مگر ہم اُس سے رخصت ہوئے ۔

عثمان کے ماں، باپ اور بہن، بھائی ہماری آمد سے بہت خوش تھے۔ عثمان اُن کے لئے پاکستان سے اُن کی فرمائش کے بہت سے تحائف لے کر آیا تھا۔ ویسے بھی اُس کی جنرل سٹور کی دکان تھی اُسے اچھی چیزیں خریدنے کی سمجھ تھی۔ صبح ہم ناشتے کے بعد باہر بازار میں نکلے۔ باہر شیوا جی پارک تھا، جامع مسجد تھی اور کچھ دور دکھائی دینے والا لال قلعہ بھی تھا۔ جامع مسجد کے ساتھ ہی پالیکا بازار (انڈر گراؤنڈ) تھا۔ وہاں جا کر ایسے ہی چیزوں کے ریٹ معلوم کرتے رہے۔

اب مجھے اُن چیزوں کا خیال آیا جو میں یہاں فروخت کی نیّت سے لے کر آیا تھا۔ پاکستانی فلیٹ کریپ تو اچھے ریٹ پر گھر ہی میں نکل گئی۔ سگریٹ کے دو ڈنڈے لے کر جامع مسجد کے قریب ہی ایک پان سگریٹ والے کے پاس پہنچا۔ اُس نے بھی اچھا ریٹ آفر کیا۔ اُس نے میرے سامنے ہی سگریٹ کی ڈبیاں (جو ہماری پیکجز ہی میں تیار ہوتی تھیں) پھاڑنی شروع کر دیں۔ مجھے حیرت ہوئی : ''یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟'' بھائی صاحب! MADE IN PAKISTAN یہاں نہیں چلے لگا۔ سگریٹ بیچنا ہمارا کام ہے ہم بیچ لیں گے۔'' اُس نے مجھے ادائیگی کی اور میرا تعلق سگریٹوں سے بھی ختم ہوگیا۔ اُسی دن کیمرہ فلمیں بھی سیل کرنے کیلئے چاندنی چوک اور جامع مسجد کے درمیان واقع فوٹو گرافی کے سامان کی مارکیٹ میں چلا گیا۔

اُس دکاندار نے بھی وہی حرکت کی۔ پیکنگ پھاڑ ڈالی اور اس کی وضاحت کرتے ہوئے بولا : ''آج سے دو ماہ پہلے آپ کے پاکستانی بھائی آئے تھے اور ہمیں 150 فلموں کی جگہ 150 گنڈیریاں دے گئے تھے۔ اس لیے اب ہم اعتبار نہیں کرتے۔ پیکنگ کھول کر دیکھتے ہیں۔ دکاندار نے مجھے فلموں کی ادائیگی کرنے کے بعد اپنے ساتھ چائے پینے کی آفر کی جو میں نے قبول کر لی۔ چائے تو بہت کالی سی تھی مگر اُس کی باتیں بہت مزیدار تھیں۔ چائے پیتے ہوئے میں نے اُس سے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا : ''150 فلموں کی قیمت میں 150گنڈیریاں!!! آپ کا تو بہت نقصان ہوا ہو گا؟'' دکاندار خوش مزاج تھا کہنے لگا : ''کچھ ایسا نقصان بھی نہیں۔ ہم نے پانی کا ایک ٹب منگوایا۔ اُس میں برف ڈالی اور 150پاکستانی گنڈیریاں ہم سب دکانداروں نے ٹھنڈی کر کے مزے سے چوسیں۔''

اب میرے پاس کافی پیسے تھے لیکن اب پاکستانی دوستوں کے لئے خریداری کرنا تھی۔پاکستان میں ہندوستانی ''شوگر کی لکڑی'' کی بڑی ڈیمانڈ تھی۔ اُس کا اصل نام ''وجے سال لکڑی'' ہے۔ اُس کے بنے ہوئے پیالے بھی بکتے ہیں جن میں رات کو پانی بھر کر صبح پی لیا جاتا ہے۔ جو لوگ اس کی افادیت پر یقین رکھتے ہیں وہ اس کی قدر بھی کرتے تھے۔

شوگر کی لکڑی والے پیالے تو زیادہ جگہ گھیرتے ہیں اور مہنگے بھی ہیں تو میں نے وجے سال اور صندل کی لکڑی خام حالت میں لے لی جو بڑی سستی ملی۔ انہیں پاکستان جا کر اپنے حساب سے بیچنا ممکن تھا۔ موٹی کالی مرچ اور چھوٹی الائچی بھی بڑی سستی مل گئی۔ ہندوستان سے زیادہ تر پاکستانی پان کی ٹوکریاں خرید کر لے جاتے تھے اور لاہور میں پان منڈی میں فروخت کر دیتے تھے۔ پان لے جانے والے کسٹم کی نظروں میں اشتہاری مجرم تھے فوراً پکڑے جاتے تھے اس لئے یہ کام نہیں کیا۔ ہندوستانی کافی اور خس کے عطر کی فرمائش سوشل سیکورٹی ڈسپنسری کی ایک مہربان لیڈی ڈاکٹر نے کی تھی۔ سو اُن کے لئے یہ اشیاء بھی خرید لیں۔ ہندوستانی ''کافی'' کافی گھٹیا تھی اس لیے سستی بھی تھی۔ بعد میں لیڈی ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ اُس نے کافی پینی کم تھی مگر اسے بطور ہیئر کلر مکس کر کے استعمال کرنی تھی۔

خواتین گھومنے پھرنے پر اصرار کر رہی تھیں۔ انہیں گھر سے باہر نکالا۔ دِلّی کی جامع مسجد وسعت میں لاہور کی بادشاہی مسجد سے آدھی ہے اور پوری طرح ہر طرف سے مارکیٹوں میں گھری ہوئی ہے۔ اُسے لاہور کی بادشاہی مسجد کی طرح صاف ستھرا اور محفوظ رکھنے کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا۔ صحن جنگی کبوتروں کی بیٹوں سے اَٹا ہوا تھا جو دِلّی کے مسلمانوں کی حالت تھی وہی مسجد کی بھی تھی۔ ہر علاقے کی مسجد وہاں کے لوگوں کی معاشی حالت ظاہر کرنے کا پیمانہ ہوتی ہے۔ یہی معاملہ یہاں بھی نظر آرہا تھا۔

لال قلعہ بھی دیکھا جہاں سیاحوں سے زیادہ گائیڈوں کی بھرمار تھی جو غیر ملکی سیاحوں کو وہاں کی جھوٹی سچی کہانیاں سُنا رہے تھے۔ لال قلعہ لاہور کے شاہی قلعہ کے مقابلے میںبہت چھوٹا ہے۔ جو لوگ دِلّی کی تاریخی عمارات کے بارے میں مبالغہ آرائی کرتے تھے میں لاعلمی کے باعث اُن سے اتفاق کرنے پر مجبور ہوتا تھا مگر خود دیکھنے کے بعد حقیقت سامنے آئی۔

لال قلعہ کے اندر بنی گفٹ شاپس پر ہاتھ کی بنی ہوئی، ہاتھی دانت کی بنی ہوئی کئی خوبصورت اشیاء فروخت ہو رہی تھیں۔ دل تو سب کی سب خریدنے کو چاہ رہا تھا مگر دوستوں کی فرمائشیں فہرست میں سب سے اُوپر تھیں۔ لال قلعہ میں پہلی بار پلاسٹک کی بوتلوں میں پانی بکتا دیکھا۔ شیشے کے بنے ہوئے پرندے اور جانور شو پیس کے طور پر خرید لیے۔ تاج محل کے سنگ مرمر سے بنے ہوئے ماڈلز بھی لیے۔ ہم نے وہاں سائیکل رکشا کی سواری بھی کی جو انسان پر انسان کے ظلم کی شرمناک مثال ہے۔ پاکستان میں سائیکل رکشاصرف احمد پور شرقیہ اور بہاول پور کی حد تک تھا مگر پاکستان نے اس ذلت سے چھٹکارا حاصل کر لیا۔

رات کو میں نے بیوی کے ساتھ گولچہ سنیما (آنند مارگ روڈ) میں راج کپور کی زیر ہدایت بننے والی مشہور فلم : ''رام تیری گنگا میلی'' دیکھی۔ یہ سنیما اعلیٰ ترین سنیما تھا۔ قالین میں پاؤں دھنستے تھے ۔ ہندوستانی سنیماؤں سے پاکستان سنیماؤں میں مروج BOXکا خاتمہ کر دیا گیا تھا کیونکہ وہاں ان BOXES کا ناجائز استعمال بہت عام ہو گیا تھا۔ گولچہ سنیما ایک کمرشل کمپلیکس کاحصہ ہے۔

فلم کے بعد ہم نے باہر آ کرایک آئس کریم شاپ پر بیرے کو کلفے کا آرڈر دیا۔ ''فل کلفہ؟'' بیرے نے پوچھا۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ اُس نے پھر پوچھا : ''سر فُل کلفہ؟'' جی۔ جی ''اس بار میں نے زور دے کر کہا۔ تو بیرا ہنس کر بولا : ''سر یہاں زیادہ تر لوگ کوارٹر کلفے کا آرڈر دیتے ہیں۔ فل کلفے کا آرڈر دینے والا جوڑا کوئی کوئی ہوتا ہے۔ اس لیے مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔ '' بیرا آرڈر لے کر چلا گیا۔ ہندوستان میں دودھ، دہی اور اُس سے بنی ہوئی دیگر اشیاء پاکستان کے مقابلے میں دُگنی مہنگی تھیں اور اُن کا معیار بھی پاکستان جیسا نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دودھ سے وہاں زیادہ تر پنیر بنا لیا جاتا ہے جو ہندو سالن میں گوشت کی جگہ استعمال کرتے ہیں۔

ہم نے بھی پنیر والا سالن کھایا مگر گوشت جیسا مزہ نہ آیا۔ دِلی کی نہاری کی بڑی شہرت سُنی تھی۔ بڑے شوق سے منگوا کر کھائی تو مرچیں ہی مرچیں۔ جب شکایت کی تو عذر گناہ بدتر از گناہ کے مصداق ہمیں آگرے کی نہاری کا بتا کر ڈرایا گیا کہ اُس میں دِلی کی نسبت دوگنی مرچیں ہوتی ہیں۔ ایک دن ہمارے لیے خصوصی طور پر لمبے چاول ، بریانی کی صورت میں پکائے گئے جو ہندوستان میں دہرہ دون کے چاول کے نام سے مشہور ہیں۔ چاول کی پیدوار کے حساب سے (موٹاچاول) چین دنیا میں نمبر ون ہے اور چاول کی کوالٹی کے حساب سے پاکستان نمبر ون ہے۔

سُپر کرنل چاول نے پاکستان کا نام عالمی منڈی میں ٹاپ پرپہنچا دیا۔ ہندوستان بھی ہمارا چاول خرید کر، دہرہ دون کا چاول کہہ کر دبئی، ایران اور مشرق وسطیٰ میں فروخت کرتا رہا کیونکہ وہ ہم سے بہتر مارکیٹنگ جانتے ہیں۔ اور تو اور امریکہ میں کسی نے ''باسمتی'' کے نام سے نام رجسٹر کروا لیا تھا جبکہ اُن کا باسمتی سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ وہ اس نام کی رائیلٹی کھانا چاہتے تھے۔ پاکستان نے عالمی عدالت میں یہ مقدمہ لڑا اور جیت لیا۔ پاکستانی نمک کے ساتھ ہندوستان آج بھی یہی کام کر رہا ہے۔ وہ پاکستان سے سستا نمک خریدتا ہے اور اسے نئی پیکنگ کر کے TABLE SALT کے نام سے بہت مہنگا فروخت کرتا ہے۔ یہی معاملہ پاکستانی(سندھی) چھوہارے کے ساتھ بھی ہے جو پاکستان سے ہندوستان جا کر ''پرشاد'' بن جاتا ہے اور مندروں میں چڑھایا جاتا ہے۔

ایک دن بستی نظام الدین (حضرت نظام الدین اولیاء ؒکا مزار) بھی گئے۔ تنگ سی ٹیڑھی میڑھی گلیاں تھیں۔ لاہور کے داتا دربار کی طرح وہاں بھی پھولوں کے ہار، پُھل مخانے، بتاشے فروخت ہو رہے تھے۔ مجھے وہاں چمڑے کے بنے ہوئے موزے، سستے اور اچھے لگے، خرید لیے۔ مرزا غالب کے مزار پر بھی گئے۔ کچھ قبریں تھیں احاطے میں، جن میں سے ایک نمایاں قبر مرزا غالب کی ہے، وہاں پاس ''غالب اکیڈمی'' ہے جو خاصی بڑی اور شاندار ہے۔

جمعہ کا دن تھا۔ بادشاہ ہمایوں کے مقبرے پر گئے۔ اُن دنوں مسلمانوں کیلئے مسلم یادگاروں پر جمعہ کے دن داخلہ بغیر ٹکٹ ہوا کرتا تھا۔ مفت میں اندر گئے اور اسے دیکھا۔ دِلّی گئے اور قطب صاحب کی لاٹ نہ دیکھی، یہ کیسے ہو سکتا تھا۔ یہ مینار غلام بادشاہ قطب الدین ایبک نے بنوایا تھا۔ قطب صاحب کی لاٹ یہاں ہے اور خود قطب الدین ایبک کا مزار، لاہور کے مشہور بازار، انار کلی کے اندر ہے۔

قطب مینار واقعی اپنے وقت کا ایک شاہکار ہے جس پر قرآنی آیات کندہ کی گئی ہیں۔ اُن دنوں وہاں مرمت کا کام ہو رہا تھا اس لیے اُس پر چڑھنے سے محروم رہے۔ قطب مینار سے ملحق ایک اچھا باغ تھا وہاں وقت گذارا۔ سُنا ہے قطب مینار کے بالمقابل کسی ہندو راجہ نے بھی ایسا ہی مینار بنانے کی ناکام کوشش کی تھی جس کے آثار وہاں موجود تھے۔

شام کے وقت ہم ''انڈیا گیٹ'' گئے جو سو فیصد فرانسیسی ''فتح محراب'' کی کاپی ہے۔ فرانسیسی ''فتح محراب'' کے ساتھ تو روشنیوں میں نہائی شاندار شاہراہ ''شانز الیزے'' ہے اور مشہور زمانہ ''ایفل ٹاور'' بھی مگر ''انڈیا گیٹ'' کے دونوں طرف والے پارک تو اندھیرے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ہندوستان میں صنفِ نازک کے لیے کوئی خاص احترام ہمیں تو نظر نہیں آیا۔ بسوں میں خواتین کے لیے نشستیں مخصوص نہیں۔ جنرل سٹورز میں خواتین سیلز سٹاف اکثر نظر آتا ہے۔ خواتین سائیکلیں اور بائیکس بھی چلاتی ہیں۔

مجھے ہندوستان میں جو چیز سب سے زیادہ پسند آئی وہ وہاں کے Bajaj رکشا تھے جن کی ایمانداری اُن کے Non Tempeared میٹرز سے ظاہر تھی۔ ہمیں دِلّی میں اپنی موجودگی ثابت کرنے کے لیے وزارتِ داخلہ کے دفتر جا کر اپنی حاضری لگوانی پڑتی تھی جہاں جانے کا کرایہ اُس زمانے میں رکشا پر 3روپے پچاس پیسے، 3روپے چالیس پیسے یا 3روپے ساٹھ پیسے بنتا تھا جو بہت مناسب تھا۔

ہندوستانی فلموں نے ہندوستانی عوام کی آنکھوں پر وہ پٹی باندھ رکھی ہے جو وہ اُتارنا نہیں چاہتے۔ فلم اُن کا نشہ بنا دیا گیا ہے۔ فلم کا مقام ایک ہندوستانی کی زندگی میں کیا ہے؟ اس کی وضاحت یہ ہے کہ ہندوستان میں ہر سنیما میں روزانہ 5شو ہوتے ہیں۔ پہلا شو پرانی ہندوستانی فلم کا جس کا ٹیکس معاف ہوتا ہے۔ یہ شو صبح 9 سے 12بجے تک ہوتا ہے۔


جسے زیادہ تر عمر رسیدہ لوگ دیکھتے ہیں۔ نئی انگلش فلم کا شو 12سے 3بجے تک ہوتا ہے۔ باقی 3 شو نئی ہندوستانی فلم کے ہوتے ہیں یعنی 5x3(15گھنٹے) تو اس کام میں گئے۔ فلم آپریٹر نے صرف9گھنٹے آرام کیا۔ ہندوستان کو اپنے ثقافتی محاذ کی بڑی فکر ہے جہاں فلم آپریٹر 15گھنٹے پروجیکٹر روم کے مورچے پر ڈٹا رہتا ہے اور بھوکے، ننگے عوام کو فلم والی افیون پر لگائے رکھتا ہے۔ دور کے ڈھول سہانے کے مصداق جب کوئی پاکستانی، ہندوستان آ کر ہندوستان کا اصل چہرہ دیکھتا ہے تو بڑا مایوس ہوتا ہے۔ یہاں کھانے پینے میں صرف انناس، ناریل اور پنیر سستا اور اچھا معلوم ہوتاہے۔ باقی کچھ بھی لاہور (پاکستان) کے مقابلے میں اچھا نہیں۔

ہندوستانیوں کی صحت کا عمومی معیار بڑا پست ہے۔ بازار میں عموماً بے رونق سے چہرے دکھائی دیں گے اور اگر اتفاقاً کوئی خوش شکل چہرہ دکھائی دے بھی جائے گا تو وہ کوئی پنجابی یا کشمیری ہو گا۔ دِلّی میں اکثر مردوں کو زنانہ سے رنگوں والی شرٹیں پہنے دیکھا جو رنگ کہیں نہ چلے وہ ہندوستان میں مل جاتا ہے۔

چاندنی چوک (بازار)میں خواتین کو شراب خریدنے کے لیے لائن میں لگا دیکھنا بھی ایک عجیب تجربہ تھا۔ وہاں شراب پرمٹ پر ملتی ہے۔ ساڑھی فلموں کی حد تک تو بڑا خوبصورت لباس لگتی ہے مگر ہندوستان میں اپنی آنکھوں سے دیکھنے پر یہ لباس ذلیل ترین لباس لگا۔ ساڑھی کے مقابلے میں خواتین کیلئے شلوار قمیض اور دوپٹہ بڑا پُروقار اور با عزت لباس ہے۔

ایک روز اندرون دِلّی کے بازار میں شاپنگ کرنے گئے وہاں گؤ ماتا صاحبہ مست پھر رہی تھیں، اِدھر اُدھر مونہہ مار رہی تھیں۔ جسمانی حالت اُن کی بھی پتلی تھی۔ پسلیاں نمایاں تھیں۔ آوارہ کتے اور سؤر ماحول کو مزید گندہ کر رہے تھے۔ ایسے میں شاپنگ کرنا ہندوستانیوں ہی کا کمال ہے۔ چاندنی چوک کے تقریباً وسط میں ایک سکھ کی مٹھائی کی دُکان تھی۔ اُس نے میرے حلیے سے ہی اندازہ لگا لیا کہ میں پاکستان سے آیا ہوں۔ میں نے لاہور کا بتایا تو لاہور کی باتیں کرید کرید کر پوچھتا رہا۔ آنکھیں نم ہو گئیں اور اُس نے مجھ سے مٹھائی کے پیسے بھی نہیں لئے۔

جگجیت سنگھ اروڑا جس نے ڈھاکہ میں پاکستانی فوج سے ہتھیار ڈلوائے تھے اپنی آپ بیتی میں لکھتا ہے : ''ڈھاکہ فال کے بعد میرا خیال تھا کہ مجھے فوجی خدمات کے صلے میں کسی اعلیٰ ترین فوجی اعزاز سے نوازا جائے گا مگر مجھے ہندوستانی وزیر اعظم نے طلب ہی نہیں کیا۔

6ماہ بعد بلایا گیا تو مجھے ایسے کمرے میں انتظار کرنے کو کہا گیا جہاں کوئی کرسی ہی نہیں تھی۔ مجھ سے کہا گیا تھا کہ میں سرخ بلب کے گرین میں تبدیل ہونے کا انتظار کروں۔ خاصے انتظار کے بعد سرخ بلب گرین میں تبدیل ہوا تو میں خوش خوش اندرا گاندھی کے کمرے میں گیا۔ خاصی دیر انہوں نے اپنے سامنے موجود فائلوں کے ڈھیر سے سر ہی نہ اُٹھایا نہ ہی مجھے کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔ پھر انہوں نے مجھے توجہ دی مگر ایسے ہی رسمی سی باتوں کے بعد یہ ملاقات ختم ہو گی۔''

ہندوستان میں اُس زمانے میں ہندوستانی اپنی شناخت کیلئے راشن کارڈ دکھایا کرتے تھے جبکہ پاکستانیوں کو قومی شناختی کارڈ جیسی باعزت، باوقار سہولت حاصل تھی۔ ہندوستانی کرنسی بھی خوبصورت نہیں تھی۔ اُن کے ڈاک ٹکٹ بھی کنجوسی اور کفایت شعاری کی مثال تھے۔ ہندوستان میں سو روپے کا چینج تلاش کرنا بھی ہمارے لئے اکثر مسئلہ بن جاتا تھا۔ لوگوں کے پاس پیسہ تھا ہی نہیں۔

ہمارے پاس آگرہ کا ویزا نہیں تھا، مگر ہم تاج محل دیکھے بغیر واپس جانا نہیں چاہتے تھے۔ ہم نے عثمان کے والد صاحب سے بات کی اور اُن کے مشورے کے مطابق عرفان کا پینٹ شرٹ پہن لیا، صرف ایک دن ہی کی تو بات تھی۔

صبح ساڑھے چھ بجے کی ٹرین سے ہماری دِلّی سے آگرہ کی سیٹیں بک ہوگئیں۔ ہندوستانی ریلوے دنیا کا سب سے زیادہ ملازم رکھنے والا محکمہ ہے اور بڑا منظم بھی ہے۔ ٹرین پورے ساڑھے چھ بجے چلی اور ساڑھے دس بجے آگرہ پہنچ گئی۔ وہاں سے ہم نے فتح پور سیکری دیکھنے کیلئے ٹیکسی کی۔ تاج محل ہم نے وہاں سے واپسی پر دیکھنا تھا۔

فتح پور سیکری زمین سے اونچائی پر نیم پہاڑی علاقہ ہے، پاکستان کے جہلم جیسا۔ راستے میں ایک مور نے ناچتے ہوئے ہمیں مسحور کر دیا اور ہم نے اُس کا رقص دیکھنے کیلئے ٹیکسی رکوا لی۔ فتح پور سیکری ہی میں حضرت سلیم چشتیؒ کا مزار ہے وہاں فاتحہ پڑھی۔ وہیں پر زندگی میں پہلی بار باؤلی دیکھی۔ یہ ایک بڑے قطر والا کنواں تھا جس کے کنارے گھومتی ہوئی سیڑھیاں اندر پانی تک جاتی تھیں۔ دیکھ کر ہی خوف آتا تھا مگر لڑکے بالے اس کے اندر نہا رہے تھے، سیاح اُن بچوں کو خوش کرنے کے لئے سکے پھینکتے تھے جو وہ اُچک لیتے اور دن بھر اکٹھے ہونے والے سکوں سے اپنے گھر کی کفالت کرتے تھے۔

ٹیکسی میں واپس تاج محل کی طرف جاتے ہوئے ہمیں رستے میں ایک ہوٹل پر ''پشاوری ہوٹل'' لکھا ہوا نظر آیا۔ بہت بھوک لگی تھی۔ نام سے مرعوب ہو کر ہوٹل میں چلے گئے۔ ہمیں جو سالن دیا گیا وہ مونگ ثابت اور پنیر تھا۔ کچھ خاص مزہ نہ آیا۔ روٹیاں بھی چھوٹی چھوٹی سی، چائے کی طشتری جتنی تھیں۔ اس پر مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں کاؤنٹر پربیٹھے مالک کی طرف گیا اور کہا : ''نام آپ نے پشاوری ہوٹل رکھا ہے کبھی پشاوری روٹی دیکھی ہے آپ نے ؟ مالک میرا غصہ سمجھ گیا۔ ''میرے دادا بھی پشاور کے تھے اس لیے انہیں کے نام پر ہوٹل کا نام رکھا ہے۔ آپ درست کہتے ہیں وہاں کی روٹی تو واقعی بہت بڑی ہوتی ہے مگر یہاں یہی روٹی چلتی اور بکتی ہے۔ آپ خفا نہ ہوں ہم آپ سے زیادہ پیسے نہیں لیں گے۔ آپ ہمارے مہمان ہیں۔'' میں اپنی ٹیبل پر آ گیا۔

تاج محل کی ENTRANCE مجھے مقبرہ جہانگیر جیسی لگی۔ مقبرہ جہانگیر میں داخل ہوں تو اصل مقبرہ دائیں جانب آتا ہے اور تاج محل داخلے کے بعد بائیں جانب تھا۔ ایک پتھریلے سے خشک شہر میں سفید سنگ مرمر کی دودھ جیسی عمارت واقعی آنکھوں کو سکون بخشتی ہے۔ تاج محل کے ایک طرف جمنا بہہ نہیں رہا تھا گھسٹ اور سسک رہا تھا۔ سبزہ اور پھل دار درخت صرف تاج محل کے اندر ہی تھے باقی سارا شہر آگرہ ایک خشک سا منظر پیش کر رہا تھا۔

جس روز ہم تاریخی تاج محل دیکھنے آئے وہ بھی ایک تاریخی دن تھا، یعنی جمعہ 18اپریل1986ء جس روز ہندوستان اور پاکستان کا شارجہ میں آسٹریشیا کپ کا فائنل میچ تھا۔ ہمیں اس میچ کا کچھ پتہ نہ تھا۔

ہندوستان کے اس ٹور میں مجھے بے نظیر بھٹو کی لاہور تاریخی واپسی کا لمحہ مس کر جانے کا بھی افسوس تھا جو پاکستانی عوام کیلئے تبدیلی کی ہوا بن کر آئی تھی۔ ہم نے سارا دن تاج محل ہی کو دیکھتے ہوئے گذار دیا۔ شام کو واپسی دِلّی جانے کیلئے آگرہ سٹیشن پہنچے تو سٹیشن سنسان پڑا تھا۔ ہمیں حیرت ہوئی۔ ٹرین میں بیٹھ گئے تو پتہ چلا کہ جاوید میانداد نے پورے ہندوستان کو اُداس کردیا ہے، اُن سے جیتا ہوا میچ چھین کر۔ ہم پاکستان میں ہوتے تو اس تاریخی فتح کی خوشی مناتے مگر اب ہم ایسی حالت میں یہ سب کچھ نہیں کر سکتے تھے اس لیے گھر پہنچنے تک ہم خاموش رہے۔

عثمان کے گھر والوں کو میں نے مٹھائی کیلئے پیسے دیے اور پھر سب نے مل کر مٹھائی کھائی۔ گھر والے ٹی۔ وی پر میچ کی خبریں سُنیں مگر دل کو تسلی نہ ہوئی۔ اگلے دن صبح باہر سٹال پر دستیاب تمام اُردو اور کچھ انگلش اخبارات بھی میانداد کا کارنامہ پڑھنے کیلئے خرید لیے جن کے تراشے آج بھی میرے پاس محفوظ ہیں۔یہاں مجھے ہندوستان والوں کی ایک اور خوبی نظر آئی۔ ا

نہوں نے میانداد کے کارنامے کو دل کھول کر سراہا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ کسی ملک کی ہار جیت نہیں ہوئی اصل فتح کرکٹ کی ہوئی ہے۔ اُن کا یہ اندازِ فکر مثبت اور درست تھا۔ آنے والے دنوں میں پاک ہند کرکٹ پر اس میچ کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔ یہ میچ پاک ہند کرکٹ کا گیم چینجر ثابت ہوا تھا۔

ایک روز عرفان مجھے میری فرمائش پر آل انڈیا ریڈیو لے گیا۔ وہاں جا کر پاکستانی بھائیوں کی فرمائش پر چلنے والے ہندوستانی فلمی گانوں کا راز بھی کھل گیا۔ جس سٹوڈیو میں یہ فرمائشی پروگرام ہوتا تھا وہاں کبوتروں کے کابک جیسے 31خانے بنے ہوئے تھے۔ ہر خانے میں سائیکلو سٹائل شدہ پاکستانی ناموں پر مشتمل کاغذوں کے موٹے سوتی دھاگے میں پروئے ہوئے کاغذوں کے بنڈل ترتیب سے رکھے ہوئے تھے۔

روزانہ کوئی مردانہ یا زنانہ آواز رٹے کے انداز میں یہ نام تاریخ کی ترتیب کے ساتھ پڑھتی اور ہندوستانی پروپیگنڈے کا فرض ادا ہو جاتا۔ میں نے آل انڈیا ریڈیو والوں سے پوچھا کہ کون پاگل ہے جو انہیں ایک گانے کیلئے اتنا مہنگا خط لکھتا ہے؟ تو وہ شرمندہ شرمندہ سا ہنسا : ''چھوڑیں یہ بات۔ دونوں ممالک کی حکومتیں اپنے اپنے عوام کو احمق بنا رہی ہیں۔ فوجی اور جمہوری سطح پر دونوں ملکوں کے درمیان لاحاصل مذاکرات ہوتے ہی رہتے ہیں۔ دونوں طرف کے اعلیٰ افسران مذاکرات کے نام پر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آتے جاتے ہیں۔

سیر سپاٹا کرتے ہیں۔ شاپنگ کرتے ہیں۔ جی بھر کے شرابیں پیتے ہیں اور بس'' میں نے آل انڈیا ریڈیو کی پوری عمارت کا دورہ کیا جو بہت بڑی تھی۔ وہاں سے تمام مقامی زبانوں اور بہت سی عالمی زبانوں کی نشریات کی جاتی تھیں۔ اُس وقت تک ہندوستان میں T.V. پاکستان جتنا پاپولر نہیں تھا۔ لوگوں میں T.V.خریدنے کی سکت ہی نہیں تھی۔

مجھ سے ہندوستانی کاٹن کے کرتے لانے کی فرمائش بھی کی گئی تھی۔ ایک دن بازار وہ خریدنے چلا گیا۔ پورے بازار میں کھمبوں کے ساتھ لائوڈ سپیکر لگے تھے جن پر صبح کی شروعات کے حوالے سے بھجن لگے ہوئے تھے۔

بھجن اور بھوجن میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔ اس بات کا یہاں آکر پتہ چلا۔ قریب قریب ہر دکان پر : ''شبھ لابھ'' (جائز منافع) کا سائن لگا تھا۔ مارکیٹ کا آپس میں ایکا تھا، یہ راز تو میں جان چکا تھا نہ وہ خود خراب ہوتے تھے نہ ہی گاہک کو خراب کرتے تھے۔ میں نے کُرتے کے تھان (چار کُرتے) کی قیمت پوچھی تو سب نے 72روپے بتائی۔ ایک دکاندار نے قیمت 71روپے بتائی اور اُس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ایک روپیہ وہ ہے جو ہمیں وہ لکڑی فروخت کر کے ملے گا جس پر تھان لپیٹا جاتا ہے۔ میںسناٹے میں آ گیا کہ یہ لوگ اتنے کم مارجن پر کام کرتے ہیں۔

کُرتے کے دو، تین تھان میں نے لے لیے۔ پھر اُسے زنانہ سوٹ دکھانے کو کہا مگر وہ مجھے بھڑکیلے رنگوں کی وجہ سے پسند نہیں آئے۔ میں واپس نکلنے لگا تو دکاندار نے کہا : ''جناب! ساری دکان ہی آپ کی ہے۔ بہت ورائٹی ہے ہمارے پاس'' میں نے وضاحت کی : ''بچہ مجھے کپڑے دکھا دکھا کر نڈھال ہو رہا ہے۔ مجھے پسند نہیں آرہے۔ مجھے بڑی شرمندگی ہے۔'' دکاندار بھڑک اُٹھا : ''جناب! ملازم کے نڈھال ہونے کی کیا بات کری آپ نے؟ یہ ہمارا ملازم ہے۔ صبح سے شام تک تھان کھولنا، تھان لپیٹنا اس کی ڈیوٹی ہے۔ بگار ملتی ہے اُسے اس کا م کی۔ آپ بھلے نہ خریدیں مگر دیکھنے میں حرج ہی کیا ہے۔

مجھے رُکنا پڑ گیا۔ ہندو حساب کتاب کے معاملے میں مسلمان سے بہت آگے ہے۔ آخر مجھے کچھ لیڈیز سوٹ خریدنے ہی پڑے جن پر ہندوستانی سٹائل کی چھاپ تھی ورنہ پاکستان میں تو یہ بھی ہوتے دیکھا تھا کہ دوست حج تو سعودی عرب سے واقعی کر کے آتے تھے مگر تبرک کے طور پر دی جانے والی کھجوریں پاکستان سے ہی خرید کر، سعودی عرب کی کہہ کر بانٹ دیتے تھے۔ یہی معاملہ آبِ زم زم کے ساتھ بھی ہوتا تھا۔ لے کر ایک کین آتے تھے اور پاکستان میں آکر اس کے 10کین بن جاتے تھے۔

دِلّی سے آگرہ جاتے ہوئے رستے میں مَتھرا (ہندوئوں کا مذہبی مقام) بھی آیا جہاں کے پیڑے (کھوئے کے) بڑے مشہو ر تھے۔ ہمارے میزبان عثمان کے والد احسان صاحب نے ہمیں مَتھرا کے بارے میں بتایا : ''متھرا کے پیڑے بڑے مشہور ہیں اس لیے وہاں مٹھائیوں کے بہت سی دکانیں ہیں۔ مذہبی لوگوں نے پیڑوں کے نام پر لوگوں کو لوٹنے کیلئے پیڑے کھانے والی ایک مخلوق تیار کی ہے جنہیں : ''چوبے'' کہتے ہیں۔ یہ ننگ دھڑنگ سے پندرہ، بیس سالہ موٹے موٹے ہوتے ہیں۔ یہ رہڑیوں میں بیٹھے رہنے سے مزید موٹے ہو جاتے ہیں۔

انہیں مذہبی رسم اور بھگوان کی خوشنودی کے طور پر دکان سے پیڑے خرید کر کھلائے جاتے ہیں جیسے چڑیا گھر میں بندروں کو بُھنے ہوئے چنے ڈالے جاتے ہیں۔ یہ چوے متھرا میں، متھرا کے گرد و نواح میں درجنوں، سینکڑوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔

ان کی بس ایک ہی خوراک ہے : ''متھرا کے پیڑے'' چوبے مسلسل یہ میٹھی خوراک کھا کر، جلد ہی شوگر کے مریض بن جاتے ہیں۔ لمبی عمر نہیں پاتے۔ چھوٹی عمر ہی میں مر جاتے ہیں۔ ایک چوبا مرتا ہے تو اُس کی جگہ (رہڑی) سنبھالنے ایک اور چوبا آ جاتا ہے۔ یہ سلسلہ جانے کب سے آج بھی جاری ہے۔ یہ ہے مذہب کے نام پر انسان کا انسان پر ظلم۔'' میں نے انہیں بتایا کہ پاکستان میں بھی بھیک مانگنے کے لئے دولا شاہ کے چوہوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔

جگت سنیما میں دلیپ کمار کی نئی فلم ''دھرم ادھیکاری'' لگی تھی۔ شوق شوق سے دیکھنے گئے مگر فلم ڈبہ نکلی۔ اتنی خوبصورت اور سٹائلش اُردو بولنے والا دلیپ کمار اَدق ہندی یعنی سنسکرت بول بول کر پھاوا ہو رہا تھا۔

جگت سنیما ایک تیسرے درجہ کا سنیما تھا۔ لوہے کی کرسیاں اور بنچ تھے۔ مرد، عورت مکس بیٹھے تھے۔ سنیما ہندوستان میں غریبوں کے ڈرائنگ روم کا درجہ رکھتا ہے۔ لوگ اپنے دوستوں کو سنیما میں ملاقات کا وقت دے دیتے تھے۔ وہیں چائے پانی، آئس کریم سب کچھ چلتا تھا اور 3گھنٹے بھی ہنستے کھیلتے، گپیں مارتے گذر جاتے تھے۔

ہندوستان میں فلم بینی کا شوق لڑکے، لڑکیوں میں یکساں ہے۔ سنیما ہال سے باہر لڑکوں میں لڑکیوں کے لیے ایک مخصوص کوڈ ورڈ چلتا ہے ''دو ٹکٹیں ہیں میرے پاس'' جس کا مطلب ہوتا ہے کہ ایک ٹکٹ میری اور دوسری تمہاری۔ یعنی میں تمہیں مفت میں فلم دکھائوں گا۔ جس لڑکی کو لڑکا 3گھنٹے کیلئے پسند آ جائے وہ ''ہاں'' کر دیتی ہے اور لڑکے کا ہاتھ تھام کر سنیما ہال میں چلی جاتی ہے۔

ہم نے اگلی رات ٹرین سے واپس پاکستان روانہ ہونا تھا۔ میں اپنا سازوسامان پیک کر رہا تھا۔ ہم نے چاندی کے گولڈ پاش زیورات خریدے تھے جو قیمتی تھے اور پاکستانی کسٹم کی نظر میں آسکتے تھے۔ میں نے انہیں موٹے پلاسٹک کے لفافوں میں ڈالا اور ایک طرف رکھا۔ املی کو بہت بڑے پتیلے میں بڑی مشکل سے کھولا۔ اُس کے درمیان چاندی کے زیورات والا لفافہ رکھا۔

کالی مرچیں اور چھوٹی الائچی بھی اسی طرح پلاسٹک کے موٹے لفافوں میں پیک کر کے درمیان میں رکھی اور پھر انہیں چاروں طرف سے املی کی مدد سے پیک کر دیا اور املی کو ایک گندے مندے سے پلاسٹک کے توڑے میں ڈال دیا۔ باقی سامان ایسا نہیں تھا کہ کسی کی نظر میں آتا۔احسان صاحب اور عرفان ہمیں رات 10بجے والی ٹرین میں سوار کرا گئے اور ہم اگلے دن صبح لاہور ریلوے سٹیشن پہنچ گئے۔ سامان بہت زیادہ تھا اس لیے عثمان ایک ٹیکسی میں گیا اور ہم دوسری ٹیکسی میں۔

گھر پہنچے تو ایسی رونق لگی جیسی کبھی عید پر بھی دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔ تقریباً سب ہی کی فرمائشیں ہم نے پوری کر دی تھیں۔ سب خوش تھے جو مال برائے فروخت تھا وہ بھی کچھ ہی دن میں اچھے منافع پر نکل گیا۔ ہندوستان سے آیا ہوا تمام مال ٹھکانے لگ گیا۔ پیسہ بھی کما لیا، سیر بھی کر لی۔ ہندوستان کے دورے نے مجھے جو ذہنی وسعت دی میرے لیے اصل اثاثہ وہی ہے۔ اب میں ہندوستان کے جھوٹے ڈھول پیٹنے والوں کے ساتھ اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں زیادہ اعتماد کے ساتھ معقول بات کر سکتا ہوں۔ ایک سفر اگر آپ کو اتنا کچھ دے جائے تو پھر اس کے کامیاب ہونے پر کسی کوکوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔
Load Next Story