بھارت میں کورونا کا عفریت کیا قیامت ڈھارہا ہے
لاشیں اٹھانے پر مامور ایمبولینس ڈرائیوروں کے ساتھ گزرے دردناک لمحات کی رُوداد
LONDON:
دہلی کے سردار پٹیل کووڈ کیئر سینٹر کے داخلی دروازے کے ساتھ پیدل راہ گزر پر ایک55 سالہ عورت کی لاش رکھی ہے۔
جان لیوا وبائی مرض کووڈ 19 کا پھیلاؤ بڑھنے پر بھارتی دارالحکومت میں کورونا کے مریضوں کے لیے علاج معالجے کے متعدد عارضی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ انھی مراکز میں سے ایک سردار پٹیل کووڈ کیئر سینٹر ہے۔
کورونا کے بے رحم عفریت کا شکار ہونے والی بدقسمت عورت کی 32سالہ بیٹی اور جواں عمر نواسا لاش کے ہاتھ تھامے آنسو بہا رہے تھے۔ ایک گھنٹہ گزرا ہوگا کہ ایک ایمبولینس سائرن بجاتی ہوئی ان کے قریب آکر رک گئی اور اس میں سے تین آدمی اتر کر ان کی طرف بڑھے۔ تینوں نے کورونا سے بچاؤ کا مخصوص حفاظتی لباس پہن رکھا تھا۔
ایمبولینس کے ڈرائیور دیپو کہتے ہیں کہ گذشتہ کچھ ہفتوں سے یہ معمول بن گیا ہے اور ہم روزانہ درجنوں لاشیں دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔
کورونا کے پھیلاؤ سے پہلے دیپو مریضوں کو اسپتال منتقل کیا کرتا تھا مگر آج وہ ان ہزاروں اہلکاروں میں شامل ہے جو لاشیں اٹھانے کا دردناک فریضہ انجام دے رہے ہیں کیوں کہ بھارت میں کورونا کی دوسری لہر کی تباہ کاریاں عروج پر ہیں، اور روزانہ تین ہزار سے زائد اموات ہورہی ہیں۔
دوسری جانب اسپتالوں میں بستروں کی قلت اور آکسیجن ناپید ہے جس کی وجہ سے مریض اور ان کے لواحقین اذیت سے دوچار ہیں۔ اس صورتحال میں بہت سے لوگ اپنے پیاروں کی گھروں پر دیکھ بھال کرنے پر مجبور ہیں۔
بھارت میں کووڈ سے ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے تین لاکھ کے لگ بھگ ہوچکی ہے۔ ہلاکتوں اور متاثرین کی تعداد کے لحاظ سے بھارت امریکا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اعدادوشمار حقیقی نہیں ہیں اور متاثرین اور ہلاکتوں کی تعداد پانچ گنا زیادہ ہوسکتی ہے۔
اسی اثنا میں اسپتال کے باہر زندگی کی بازی ہار جانے والی عورت کے لواحقین کی آہ و بکا میں شدت درآئی تھی۔ آنجہانی خاتون کے نواسے نے بتایا کہ کوئی اسپتال مریضہ کو داخل کرنے کے لیے تیار نہیں تھا اور آج صبح سے تمام تر کوششوں کے باوجود وہ آکسیجن کا سلنڈر حاصل کرنے میں بھی کام یاب نہ ہوسکے تھے۔
اسی دوران بیٹی نے ایک مذہبی رسم پر عمل کرتے ہوئے پتھر سے اپنی آنجہانی ماں کی چوڑیاں توڑ ڈالیں۔ دیپو اور اس کے ساتھی لاش کے لیے مخصوص تھیلا یا بیگ تیار کررہے تھے۔ تینوں اہلکاروں نے لاش پر جراثیم کش محلول کا چھڑکاؤ کرنے کے بعد اسے بیگ میں رکھ کر زپ لگائی اور ایمبولینس میں منتقل کردیا۔
دیپو لاشوں کو کورونا کی تشخیص کے لیے قریب ترین اسپتال لے جاتا ہے۔ مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ہم روزانہ چھے سے سات لاشیں اٹھاتے ہیں، ہمیں گھروں سے بھی مریضوں کے انتقال کی خبر دی جاتی ہے۔ کئی لاشیں کورونا کے مصدقہ مریضوں کی نہیں ہوتیں اور انھیں عام اموات ہی شمار کیا جاتا ہے۔ چوں کہ اس خاتون کی لاش ہمیں اسپتال کے باہر سے ملی ہے لہٰذا اس کا کورونا ٹیسٹ کیا جائے گا، اور اسے کورونا کے باعث ہونے والی ممکنہ اموات میں شمار کیا جائے گا۔ ٹیسٹ کے بعد لاش کی آخری رسومات شمشان گھاٹ میں ادا کی جائیں گی۔
''کیا آپ اس کی آنکھیں بند کرسکتے ہیں ؟''
دہلی کے سب سے بڑے شمشان گھاٹ کے باہر ایمبولینس ڈرائیور محسن خان اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھڑا سگریٹ نوشی کررہا ہے۔ محسن خان منتظر ہے کہ کب ایمبولینس میں رکھی ہوئی لاش کو نذرآتش کرنے کی باری آتی ہے۔ شمشان گھاٹ لاشوں سے بھرا ہوا ہے اور اسے کم از کم بھی چار سے پانچ گھنٹے انتظار کرنا ہوگا۔ دھویں کے مرغولے فضا میں چھوڑتے ہوئے محسن اپنے رفقا کے ساتھ تبادلۂ خیال بھی کرتا جارہا تھا۔ اسی اثنا میں ایک جوان عورت جس نے مخصوص حفاظتی لباس زیب تن کررکھا تھا، قریب آئی اور لاش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے محسن سے کہا،''کیا آپ اس کی آنکھیں بند کرسکتے ہیں؟''
پایل نامی اس جوان عورت نے بتایا کہ یہ لاش اس کے شوہر کی ہے اور صرف ایک ہفتے قبل وہ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے۔ محسن نے آخری کش لے کر بچ جانے والی سگریٹ ایک طرف اچھالی اور پُرسکون لہجے میں عورت کے استفسار کا جواب دیا،''میڈم یہ ممکن نہیں ہوگا۔ ہمارا اور مُردوں کا روز کا ساتھ ہے۔ اگر آنکھیں موت کے بعد پندرہ منٹ کے اندر بند نہ کی جائیں تو پھر یہ کُھلی ہی رہتی ہیں، بند کرنے پر بھی بند نہیں ہوتیں۔ دوسری بات یہ کہ ہمیں باڈی بیگ کھولنے کی اجازت نہیں ہے۔'' محسن خان اس نوبیاہتا بیوہ کی دکھ بھری داستان سے متاثر دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اس کا جواب سُن کر پایل سسکتی ہوئی دور چلی گئی۔
محسن خان دہلی میں لوک نایک جے پرکاش اسپتال میں سرکاری ایمبولینس ڈرائیوروں کا سربراہ ہے۔ لوک نایک جے پرکاش بھارتی دارالحکومت میں کووڈ 19 کے مریضوں کا سب سے بڑا اسپتال ہے۔ اپنے رفقا کے ساتھ سگریٹ نوشی اور گپ شپ کے دوران اس کا فون مسلسل بج رہا تھا۔ محسن کے تمام ساتھی بھی ایمبولینسوں کے ڈرائیور تھے اور اسی انتظار میں تھے کہ کب ان کی ایمبولینس میں رکھی لاش کی آخری رسومات کی ادائیگی کی باری آتی ہے۔
محسن نے بتایا،''ہر روز یہاں مُردوں کی ایک بڑی تعداد لائی جاتی ہے۔ ایمبولینسوں کی طویل قطار بن جاتی ہے۔ مُردوں کی آخری رسومات کے لیے چار پانچ گھنٹے کا انتظار معمول بن گیا ہے۔ اس انتظار کی صورت میں ہمیں سکون کے کچھ لمحات میسر آجاتے ہیں۔ میں شمشان گھاٹ کے اندر نہیں جاتا، یہیں دروازے کے باہر بیٹھا رہتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں ایک انسان کے آخری لمحات دیکھنا نہیں چاہتا۔''
خان کا کہنا ہے کہ اسپتالوں میں بستروں کی کمی کے باعث متعدد مریض گھروں میں موت کا شکار ہورہے ہیں۔ ''اکثر ہمیں مرجانے والوں کے لواحقین کے غصے کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر اور اسپتال کا عملہ ان کی فون کال وصول نہیں کرتا اور تم لوگ وقت پر آجاتے ہو،'' خان نے ہنستے ہوئے کہا۔ پایل کے جانے کے بعد اس نے دوسری سگریٹ سلگا لی تھی اور ہنسی کے ساتھ اس کے چوڑے دہانے اور نتھنوں سے سگریٹ کا دھواں بھی خارج ہورہا تھا۔
محسن خان کا دعویٰ ہے کہ جو لاشیں وہ گھروں سے اٹھاتے ہیں انھیں کورونا سے ہونے والی اموات میں شامل نہیں کیا جاتا باوجود یکہ مرنے سے قبل مریض میں کووڈ سے جُڑی علامات بھی دیکھی گئی ہوں۔
نوجوان بیوہ محسن خان سے کچھ ہی دور بیٹھی آنسو بہارہی تھی۔ اس کڑے وقت میں کوئی اسے دلاسہ دینے کے لیے موجود نہیں تھا۔ شاید وہ اور اس کا آنجہانی شوہر دنیا میں اکیلے رہ گئے تھے۔ بالآخر محسن کو پایل پر رحم آگیا اور اس نے لوک نایک اسپتال کے کسی افسر کو فون کرکے مُردے کی آخری رسومات کی جلد ادائیگی کی درخواست کی۔ محسن کی درخواست کام کرگئی اور پایل کے آنجہانی شوہر کو مقررہ وقت سے کم از کم دو گھنٹے پہلے نذرآتش کردیا گیا۔
رحم دلی کے اس مظاہرے پر محسن خان کا کہنا تھا کہ اس کڑے وقت میں لوگوں کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے۔ ہر ایک اپنا کوئی نہ کوئی پیارا کھو رہا ہے۔ ہم ان کی کم از کم اتنی مدد تو کرسکتے ہیں۔'' انھی لمحات میں لوک نایک جے پرکاش اسپتال کے باہر درمیانی عمر کی ایک عورت ایمبولینس میں بیٹھی ہوئی ہے۔ اس نے اپنی بیمار ماں کا ہاتھ تھام رکھا ہے جسے پانچ روز قبل کووڈ 19 تشخیص کیا گیا تھا۔ بوڑھی مریضہ کے دوران خون میں آکسیجن کی سطح تیزی سے گررہی ہے اور اسے فوری طور پر ایک آکسیجن بیڈ درکار ہے۔ بوڑھی عورت کا بیٹا اسپتال میں آکسیجن بیڈ کی دستیابی کی معلومات کرنے کے لیے گیا ہوا ہے۔ ادھیڑ عمر عورت اطراف موجود لوگوں سے التجا کررہی ہے کہ اس کی مدد کریں۔
اسی وقت مجھے کول کتہ سے چچا کی فون کال موصول ہوئی کہ دادی کا آکسیجن لیول 57 فیصد تک گرگیا ہے۔ دہلی سے چودہ سو کلومیٹر دور کول کتہ میں بھی یہی صورت حال تھی اور وہاں بھی لوگ کورونا سے متاثرہ پیاروں کے لیے اسپتال میں بستر حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کررہے تھے۔
چچا کی کال منقطع ہوجانے کے بعد میں بوڑھی عورت کی حالت کا جائزہ لینے کے لیے واپس ایمبولینس کی جانب بڑھا مگر اس وقت دیر ہوچکی تھی۔ اس کی سانسوں کی ڈور ٹوٹ چکی تھی۔
بدھی راج، محسن خان کی ٹیم کا ایمبولینس ڈرائیور بوڑھی عورت کی لاش لینے کے لیے پہنچ گیا۔ اس نے پرانا طریقہ دہراتے ہوئے لاش کو جراثیم سے پاک کیا، اور پھر بیگ میں بند کرنے کے بعد ایمبولینس میں منتقل کیا اور نگم بودھ گھاٹ کے لیے روانہ ہوگیا۔
بدھی راج نے بتایا کہ آخری رسومات کے لیے عورت کی لاش ایمبولینس سے باہر نکالنے کے لیے اسے کم از کم چھے گھنٹے انتظار کرنا ہوگا۔ اس نے مجھ سے سگریٹ طلب کی۔ اسی لمحے فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ اسکرین پر چچا کا نمبر چمک رہا تھا۔ انھوں نے دادی کے انتقال کی خبر سنائی۔ اسپتال میں آکسیجن بیڈ نہیں مل سکا تھا!
دادی کے انتقال کی اطلاع نے افسردہ کردیا تھا۔ چند لمحے کے سکوت کے بعد، میری کیفیت سے بے خبر بدھی راج کہنے لگا،''یہ بڑا مشکل کام ہے، مجھے لوگوں کو پریشانی اور دکھ میں مبتلا دیکھنا اچھا نہیں لگتا، مگر دکھ کی ان گھڑیوں میں کسی نہ کسی انداز میں لوگوں کی مدد کرکے مجھے دلی راحت بھی ملتی ہے۔''
دہلی کے سردار پٹیل کووڈ کیئر سینٹر کے داخلی دروازے کے ساتھ پیدل راہ گزر پر ایک55 سالہ عورت کی لاش رکھی ہے۔
جان لیوا وبائی مرض کووڈ 19 کا پھیلاؤ بڑھنے پر بھارتی دارالحکومت میں کورونا کے مریضوں کے لیے علاج معالجے کے متعدد عارضی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ انھی مراکز میں سے ایک سردار پٹیل کووڈ کیئر سینٹر ہے۔
کورونا کے بے رحم عفریت کا شکار ہونے والی بدقسمت عورت کی 32سالہ بیٹی اور جواں عمر نواسا لاش کے ہاتھ تھامے آنسو بہا رہے تھے۔ ایک گھنٹہ گزرا ہوگا کہ ایک ایمبولینس سائرن بجاتی ہوئی ان کے قریب آکر رک گئی اور اس میں سے تین آدمی اتر کر ان کی طرف بڑھے۔ تینوں نے کورونا سے بچاؤ کا مخصوص حفاظتی لباس پہن رکھا تھا۔
ایمبولینس کے ڈرائیور دیپو کہتے ہیں کہ گذشتہ کچھ ہفتوں سے یہ معمول بن گیا ہے اور ہم روزانہ درجنوں لاشیں دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔
کورونا کے پھیلاؤ سے پہلے دیپو مریضوں کو اسپتال منتقل کیا کرتا تھا مگر آج وہ ان ہزاروں اہلکاروں میں شامل ہے جو لاشیں اٹھانے کا دردناک فریضہ انجام دے رہے ہیں کیوں کہ بھارت میں کورونا کی دوسری لہر کی تباہ کاریاں عروج پر ہیں، اور روزانہ تین ہزار سے زائد اموات ہورہی ہیں۔
دوسری جانب اسپتالوں میں بستروں کی قلت اور آکسیجن ناپید ہے جس کی وجہ سے مریض اور ان کے لواحقین اذیت سے دوچار ہیں۔ اس صورتحال میں بہت سے لوگ اپنے پیاروں کی گھروں پر دیکھ بھال کرنے پر مجبور ہیں۔
بھارت میں کووڈ سے ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے تین لاکھ کے لگ بھگ ہوچکی ہے۔ ہلاکتوں اور متاثرین کی تعداد کے لحاظ سے بھارت امریکا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اعدادوشمار حقیقی نہیں ہیں اور متاثرین اور ہلاکتوں کی تعداد پانچ گنا زیادہ ہوسکتی ہے۔
اسی اثنا میں اسپتال کے باہر زندگی کی بازی ہار جانے والی عورت کے لواحقین کی آہ و بکا میں شدت درآئی تھی۔ آنجہانی خاتون کے نواسے نے بتایا کہ کوئی اسپتال مریضہ کو داخل کرنے کے لیے تیار نہیں تھا اور آج صبح سے تمام تر کوششوں کے باوجود وہ آکسیجن کا سلنڈر حاصل کرنے میں بھی کام یاب نہ ہوسکے تھے۔
اسی دوران بیٹی نے ایک مذہبی رسم پر عمل کرتے ہوئے پتھر سے اپنی آنجہانی ماں کی چوڑیاں توڑ ڈالیں۔ دیپو اور اس کے ساتھی لاش کے لیے مخصوص تھیلا یا بیگ تیار کررہے تھے۔ تینوں اہلکاروں نے لاش پر جراثیم کش محلول کا چھڑکاؤ کرنے کے بعد اسے بیگ میں رکھ کر زپ لگائی اور ایمبولینس میں منتقل کردیا۔
دیپو لاشوں کو کورونا کی تشخیص کے لیے قریب ترین اسپتال لے جاتا ہے۔ مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ہم روزانہ چھے سے سات لاشیں اٹھاتے ہیں، ہمیں گھروں سے بھی مریضوں کے انتقال کی خبر دی جاتی ہے۔ کئی لاشیں کورونا کے مصدقہ مریضوں کی نہیں ہوتیں اور انھیں عام اموات ہی شمار کیا جاتا ہے۔ چوں کہ اس خاتون کی لاش ہمیں اسپتال کے باہر سے ملی ہے لہٰذا اس کا کورونا ٹیسٹ کیا جائے گا، اور اسے کورونا کے باعث ہونے والی ممکنہ اموات میں شمار کیا جائے گا۔ ٹیسٹ کے بعد لاش کی آخری رسومات شمشان گھاٹ میں ادا کی جائیں گی۔
''کیا آپ اس کی آنکھیں بند کرسکتے ہیں ؟''
دہلی کے سب سے بڑے شمشان گھاٹ کے باہر ایمبولینس ڈرائیور محسن خان اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھڑا سگریٹ نوشی کررہا ہے۔ محسن خان منتظر ہے کہ کب ایمبولینس میں رکھی ہوئی لاش کو نذرآتش کرنے کی باری آتی ہے۔ شمشان گھاٹ لاشوں سے بھرا ہوا ہے اور اسے کم از کم بھی چار سے پانچ گھنٹے انتظار کرنا ہوگا۔ دھویں کے مرغولے فضا میں چھوڑتے ہوئے محسن اپنے رفقا کے ساتھ تبادلۂ خیال بھی کرتا جارہا تھا۔ اسی اثنا میں ایک جوان عورت جس نے مخصوص حفاظتی لباس زیب تن کررکھا تھا، قریب آئی اور لاش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے محسن سے کہا،''کیا آپ اس کی آنکھیں بند کرسکتے ہیں؟''
پایل نامی اس جوان عورت نے بتایا کہ یہ لاش اس کے شوہر کی ہے اور صرف ایک ہفتے قبل وہ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے۔ محسن نے آخری کش لے کر بچ جانے والی سگریٹ ایک طرف اچھالی اور پُرسکون لہجے میں عورت کے استفسار کا جواب دیا،''میڈم یہ ممکن نہیں ہوگا۔ ہمارا اور مُردوں کا روز کا ساتھ ہے۔ اگر آنکھیں موت کے بعد پندرہ منٹ کے اندر بند نہ کی جائیں تو پھر یہ کُھلی ہی رہتی ہیں، بند کرنے پر بھی بند نہیں ہوتیں۔ دوسری بات یہ کہ ہمیں باڈی بیگ کھولنے کی اجازت نہیں ہے۔'' محسن خان اس نوبیاہتا بیوہ کی دکھ بھری داستان سے متاثر دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اس کا جواب سُن کر پایل سسکتی ہوئی دور چلی گئی۔
محسن خان دہلی میں لوک نایک جے پرکاش اسپتال میں سرکاری ایمبولینس ڈرائیوروں کا سربراہ ہے۔ لوک نایک جے پرکاش بھارتی دارالحکومت میں کووڈ 19 کے مریضوں کا سب سے بڑا اسپتال ہے۔ اپنے رفقا کے ساتھ سگریٹ نوشی اور گپ شپ کے دوران اس کا فون مسلسل بج رہا تھا۔ محسن کے تمام ساتھی بھی ایمبولینسوں کے ڈرائیور تھے اور اسی انتظار میں تھے کہ کب ان کی ایمبولینس میں رکھی لاش کی آخری رسومات کی ادائیگی کی باری آتی ہے۔
محسن نے بتایا،''ہر روز یہاں مُردوں کی ایک بڑی تعداد لائی جاتی ہے۔ ایمبولینسوں کی طویل قطار بن جاتی ہے۔ مُردوں کی آخری رسومات کے لیے چار پانچ گھنٹے کا انتظار معمول بن گیا ہے۔ اس انتظار کی صورت میں ہمیں سکون کے کچھ لمحات میسر آجاتے ہیں۔ میں شمشان گھاٹ کے اندر نہیں جاتا، یہیں دروازے کے باہر بیٹھا رہتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں ایک انسان کے آخری لمحات دیکھنا نہیں چاہتا۔''
خان کا کہنا ہے کہ اسپتالوں میں بستروں کی کمی کے باعث متعدد مریض گھروں میں موت کا شکار ہورہے ہیں۔ ''اکثر ہمیں مرجانے والوں کے لواحقین کے غصے کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر اور اسپتال کا عملہ ان کی فون کال وصول نہیں کرتا اور تم لوگ وقت پر آجاتے ہو،'' خان نے ہنستے ہوئے کہا۔ پایل کے جانے کے بعد اس نے دوسری سگریٹ سلگا لی تھی اور ہنسی کے ساتھ اس کے چوڑے دہانے اور نتھنوں سے سگریٹ کا دھواں بھی خارج ہورہا تھا۔
محسن خان کا دعویٰ ہے کہ جو لاشیں وہ گھروں سے اٹھاتے ہیں انھیں کورونا سے ہونے والی اموات میں شامل نہیں کیا جاتا باوجود یکہ مرنے سے قبل مریض میں کووڈ سے جُڑی علامات بھی دیکھی گئی ہوں۔
نوجوان بیوہ محسن خان سے کچھ ہی دور بیٹھی آنسو بہارہی تھی۔ اس کڑے وقت میں کوئی اسے دلاسہ دینے کے لیے موجود نہیں تھا۔ شاید وہ اور اس کا آنجہانی شوہر دنیا میں اکیلے رہ گئے تھے۔ بالآخر محسن کو پایل پر رحم آگیا اور اس نے لوک نایک اسپتال کے کسی افسر کو فون کرکے مُردے کی آخری رسومات کی جلد ادائیگی کی درخواست کی۔ محسن کی درخواست کام کرگئی اور پایل کے آنجہانی شوہر کو مقررہ وقت سے کم از کم دو گھنٹے پہلے نذرآتش کردیا گیا۔
رحم دلی کے اس مظاہرے پر محسن خان کا کہنا تھا کہ اس کڑے وقت میں لوگوں کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے۔ ہر ایک اپنا کوئی نہ کوئی پیارا کھو رہا ہے۔ ہم ان کی کم از کم اتنی مدد تو کرسکتے ہیں۔'' انھی لمحات میں لوک نایک جے پرکاش اسپتال کے باہر درمیانی عمر کی ایک عورت ایمبولینس میں بیٹھی ہوئی ہے۔ اس نے اپنی بیمار ماں کا ہاتھ تھام رکھا ہے جسے پانچ روز قبل کووڈ 19 تشخیص کیا گیا تھا۔ بوڑھی مریضہ کے دوران خون میں آکسیجن کی سطح تیزی سے گررہی ہے اور اسے فوری طور پر ایک آکسیجن بیڈ درکار ہے۔ بوڑھی عورت کا بیٹا اسپتال میں آکسیجن بیڈ کی دستیابی کی معلومات کرنے کے لیے گیا ہوا ہے۔ ادھیڑ عمر عورت اطراف موجود لوگوں سے التجا کررہی ہے کہ اس کی مدد کریں۔
اسی وقت مجھے کول کتہ سے چچا کی فون کال موصول ہوئی کہ دادی کا آکسیجن لیول 57 فیصد تک گرگیا ہے۔ دہلی سے چودہ سو کلومیٹر دور کول کتہ میں بھی یہی صورت حال تھی اور وہاں بھی لوگ کورونا سے متاثرہ پیاروں کے لیے اسپتال میں بستر حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کررہے تھے۔
چچا کی کال منقطع ہوجانے کے بعد میں بوڑھی عورت کی حالت کا جائزہ لینے کے لیے واپس ایمبولینس کی جانب بڑھا مگر اس وقت دیر ہوچکی تھی۔ اس کی سانسوں کی ڈور ٹوٹ چکی تھی۔
بدھی راج، محسن خان کی ٹیم کا ایمبولینس ڈرائیور بوڑھی عورت کی لاش لینے کے لیے پہنچ گیا۔ اس نے پرانا طریقہ دہراتے ہوئے لاش کو جراثیم سے پاک کیا، اور پھر بیگ میں بند کرنے کے بعد ایمبولینس میں منتقل کیا اور نگم بودھ گھاٹ کے لیے روانہ ہوگیا۔
بدھی راج نے بتایا کہ آخری رسومات کے لیے عورت کی لاش ایمبولینس سے باہر نکالنے کے لیے اسے کم از کم چھے گھنٹے انتظار کرنا ہوگا۔ اس نے مجھ سے سگریٹ طلب کی۔ اسی لمحے فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ اسکرین پر چچا کا نمبر چمک رہا تھا۔ انھوں نے دادی کے انتقال کی خبر سنائی۔ اسپتال میں آکسیجن بیڈ نہیں مل سکا تھا!
دادی کے انتقال کی اطلاع نے افسردہ کردیا تھا۔ چند لمحے کے سکوت کے بعد، میری کیفیت سے بے خبر بدھی راج کہنے لگا،''یہ بڑا مشکل کام ہے، مجھے لوگوں کو پریشانی اور دکھ میں مبتلا دیکھنا اچھا نہیں لگتا، مگر دکھ کی ان گھڑیوں میں کسی نہ کسی انداز میں لوگوں کی مدد کرکے مجھے دلی راحت بھی ملتی ہے۔''