نقارخانے میں طُوطی توتا

موصوف نے ایک شاعر کے حوالے سے ’طُوطی/تُوتی بجنا نقل کرتے ہوئے اُس پر طنز کیا ہے۔

موصوف نے ایک شاعر کے حوالے سے ’طُوطی/تُوتی بجنا نقل کرتے ہوئے اُس پر طنز کیا ہے۔ فوٹو: فائل

زباں فہمی 102

گزشتہ دنوں واٹس ایپ بزم زباں فہمی میں یہ بحث چھڑگئی کہ مشہور محاورے ''نقارخانے میں طُوطی کی آواز'' میں طُوطی کون ہے۔ فارسی زبان سے ناواقف، بعض احباب کا خیال تھا کہ یہ ہمارے توتے سے مختلف، کوئی خوش آوازو خوش رنگ، ایرانی پرندہ ہے جو تُوت یعنی شہتوت کھاتا ہے (کیونکہ اُن کے ذہن میں ہَریَل توتے کی ٹیں ٹیں ہی ہوگی، دیگر 402، اقسام کے توتوں کا نہیں سوچا ہوگا۔

ہم یہاں یہ تحقیق دُہراتے ہیں کہ طوطا ہی درحقیقت توتا ہے اور وہی طُوطی بھی۔ اصل لفظ، تے سے توتا ہی ہے جسے اس خطے میں 'عربا' لیا گیا او ر طوطا لکھا جانے لگا۔ یہ کوئی واحد مثال نہیں۔ اسی طرح جیسے ایک شاعر اپنا تخلص تپش کی بجائے طپش لکھتے تھے۔ دیگر مثالیں اس پر مستزاد!)۔ ایک معاصر روزنامے میں شایع ہونے والی (مؤرخہ12 جون2019ء) ہمارے بزرگ ہم عصر ڈاکٹر رؤف پاریکھ صاحب کی ایک تحریر سے پتا چلتا ہے کہ اُنھیں بھی یہی مغالطہ ہوا کہ طُوطی، توتے سے جدا کوئی اور پرندہ ہے۔

لغات سے حوالے

مختصر اردو لغت (اردو لغت بورڈ،کراچی:۲۰۱۹ء) جلد اوّل

توتا (اسم مذکر): ۱۔ ایک سبز رنگ کا پرند جس کی چونچ سُرخ اور گلے میں طوق ہوتا ہے۔ (دیگر معانی سے فی الحال ہمیں سروکار نہیں)۔ توتا چشم: صفت۔ آنکھیں پھیر لینے والا، بے مروت، بے وفا۔ مشہور ہے کہ توتا کتنا ہی قدیم پلا ہوا ہو، اُڑ کر (چلاجائے تو) واپس نہیں آتا، اسی لیے اسے بے وفا کہتے ہیں۔ توتے کی سی آنکھیں پھیرنا (محاورہ): یکایک بے مروتی کا اظہار کرنا، یک لخت بے وفائی کرنا۔

تُوتی (اسم مذکر): طوُطی۔ ایک خوش آواز پرندہ (چڑیا) جو تُوت کے موسم میں دکھائی دیتا ہے اور تُوت بہت رغبت سے کھاتا ہے۔ اہل فارس توتے کو بھی تُوتی کہتے ہیں۔ لاطینی: Loxia rosea، طُوطی، توتا۔ توتی بولنا: محاورہ۔ کسی ہنر، کمال یا خوبی میں مشہور ہوجانا، شہرہ آفاق ہونا، دھاک بیٹھنا، کسی دربار یا سرکار میں بااقبال ہونا، بااثر ہونا ، دوردوزہ ہونا۔ توتی کی آواز (صدا)، نقارخانے میں کون سنتا ہے (کہاوت): بڑوں کے سامنے چھوٹوں کی رائے کی کوئی وقعت نہیں ہوتی ۔یا۔ ادنیٰ آدمیوں کی کوئی سماعت نہیں۔ مختصر اردو لغت، جلد دوم میں کم وبیش یہی سارا مواد، (ماسوائے چند ایک اضافوں کے)، حرف 'ط' کے ذیل میں دُہرایا گیا ہے۔

ویسے محاورے میں ''توتاپالنا'' سے مراد ہے کوئی تکلیف یا بیماری طویل مدت تک لاحِق رہنا۔ مختصر اُردو لغت کی رُو سے علاج سے غافل رہ کر پھوڑے پھنسی کی تکلیف کو ہاتھ میں لینا، سوزاک یا آتشک وغیرہ کی بیماری لگالینا، کوئی ایسا کام ہاتھ میں لینا جس سے آدمی اور کاموں سے بے کار ہوجائے۔

نوراللغات، جلددوم

طوطا: دیکھیے توتا

طُوطی: دیکھیے توتی۔ اس کی تذکیر وتانیث میں اختلاف ہے ؎ صدایہ قُلقُل ِمینا سے مئے خانے میں آتی ہے+کہ بختِ سبز اِک طُوطی ہے مَستوں کے گلستاں کا (امیرؔ مینائی) ؎ وصفِ تصنیف، مصنف کی ہے تاریخ اے منیرؔ+طُوطی ہند معانی شکر افشاں ہوگئی (منیر ؔشکوہ آبادی)۔ زبانوں پر زیادہ تر مذکر ہے۔

نوراللغات، جلداوّل

تُوتی: (ف) مذکر۔ ایک خوش آواز چڑیا کانام جو تُوت کے موسم میں اکثر دکھائی دیتی ہے اور شہتوت کمالِ رغبت سے کھاتی ہے، اسی وجہ سے اس کا نام تُوتی رکھا گیا۔ اہلِ دہلی مذکر بولتے ہیں۔ عرب نے اس کا املا طوطی کرلیا ہے۔ توتی بولنا (فعل لازم): شہرہ آفاق ہونا.............جیسے آج کل گورنر کے یہاں راجہ صاحب کا طوطی بولتا ہے۔ توتی کا پڑھنا، توتی کا چہچہانا، توتی کا سخن سرائی کرنا، توتی کی آواز، نقارخانے میں کون سنتا ہے (مثل) بڑے کارخانوں میں چھوٹوں کی کچھ سماعت نہیں ہوتی۔

بڑے آدمیوں کی رائے کے سامنے، ادنیٰ آدمی کی رائے کوئی نہیں پوچھتا ؎ مِرے نالوں سے چُپ ہیں مُرغِ خوش الحاں زمانے میں+صدا توتی کی سنتا کون ہے نقارخانے میں (ذوقؔ).......توتے اُڑجانا...، توتے کو بولنا سکھانا...، باتیں کرے مَینا کی سی، آنکھیں پھیرے توتے کی سی... توتے کی طرح آنکھ بدل جانا...، توتے کی طرح پڑھنا۔

ہماری مرغوب لغت، فرہنگ آصفیہ کا حوالہ بھی اثنائے بحث شامل ہوا، مگر یہ احتیاط ملحوظِ خاطر نہ رہی کہ پہلے حرف 'ط' کے ذیل میں طُوطی، طوطا اور طوطی نیز دیگر مشتقات دیکھے جاتے، جہاں جابجا لکھا ہے، حرف 'ت' کا باب دیکھیں۔ یوں بھی سید احمد دہلوی کا بیان دیگر سے مختلف نہیں، بغور مطالعہ کیا جائے تو بات واضح ہوجاتی ہے۔

ایک بات البتہ یہاں نقل کرنا لازم ہے اور وہ یہ کہ موصوف نے ایک شاعر کے حوالے سے 'طُوطی/تُوتی بجنا نقل کرتے ہوئے اُس پر طنز کیا ہے جس سے اندازہ ہوا کہ پرندے کی آواز کو سیٹی یا ساز سے تشبیہ دینا، اُن کے نزدیک فصیح نہیں۔ فرہنگ عامرہ (از محمد عبداللہ خان خویشگی) میں طُوطی اور طوطی دونوں یک جا لکھ کر معانی بتائے گئے ہیں: توتی، ایک ہری چڑیا۔ یار لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ شاید یہ کوئی اور ہی پرندہ ہے۔ آن لائن دستیاب،John T Platts کی لغت A Dictionary of Urdu, Classical Hindi & English میں بھی یہی معانی درج ہیں۔

(حیرت انگیز طور پر S.W.Fallon کی مشہور لغتHindustani-English Law & Commercial Dictionaryمیں توتا ہے نا طُوطی)۔ یہاں لغات کشوری از مولوی تصدق حسین رضوی کا حوالہ دیا جاتا ہے جنھوں نے یہ عبارت لکھی: طُوطی۔ مُعَرّب، توتی کا۔ ایک پرند ہے سبز رنگ جس کو طوطا کہتے ہیں اور توتی ایک چھوٹا پرند اور بھی ہے جو شہتوت کو بڑی رغبت سے کھاتا ہے اور شہتوت کی فصل میں بہت دکھائی دیتا ہے۔ پس یہ منسوب ہے، طرفِ تُوت یعنی شہتوت کے۔ (بابائے اردو مولوی عبدالحق کی مرتبہ اور فیروزسنز کی شایع کردہ، اردو۔ انگریزی لغات میں بھی توتی/طُوطی کا مواد، دیگر لغات سے مختلف نہیں)۔ بہت آسان سی بات ہے کہ اگر یہ ابہام دور کرنا ہو کہ توتے کی چارسو دو اقسام کے علاوہ یا اُن کے سوا بھی کوئی پرندہ ایسا ہے جو یہ پھل کھاتا ہے تو کتابی یا آن لائن مواد کھنگالیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ توتوں کی (کسی خاص قسم کے تعین کے بغیر) خوراک کا ایک مرغوب جُز، شہتوت ہے، مگر فقط یہی پھل نہیں۔ اب ہم آپ کو ایک آن لائن لغت [https://www.urduinc.com/] ہی سے مواد نقل کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جب اکثر لوگ غلطی کررہے ہوں تو یہ ضروری نہیں کہ سب ہی غلط سلط مواد ، انٹرنیٹ پر پیش کردیں۔

یہ لغت بالکل صحیح مواد، اس موضوع پر پیش کررہی ہے۔ حوالے کے طور پر مندرج اشعار بغور دیکھ کر خود ہی اندازہ لگائیں کہ طُوطی کون ہے:''کہاوت، محاورے اور ضرب المثل:...(کا) طوطی بولنا، آئینہ سامنے رکھ کر طوطی پڑھانا، بغل میں طوطی کا پنجرہ -نبی جی بھیجو، طوطی بلوالینا یا بلوانا، طوطی بولنا، طوطی چگے تو اونچ جگ نیچ چگن مت جا، کلے لجاوے اپنے کہیں اکبر شاہ، طوطی را بازاغے ہم قفس کردند، طوطی کے سے ہونٹ مل ڈالنا نقارخانے میں طوطی کی آواز کون (سنتا ہے) سنے، نقارخانہ میں طوطی کی آواز''۔ یہاں جو اشعار مرتبین نے نقل کیے ہیں، اُنھیں بھی ملاحظہ فرمائیں کہ کہیں طُوطی کے کچھ اور معانی تو مراد نہیں۔ طُوطی ہی کی بات ہورہی ہے تو استاد ذوقؔ کا مشہور شعر ملاحظہ فرمائیں: ہے قفس سے شور اِک گلشن تلک فریاد کا+خوب طُوطی بولتاہے۔

اِن دنوں صیّاد کا۔ مقام حیرت ہے کہ ہمارے یہاں چربہ ہونے والی، ہندوستا ن کے فاضل ادیب پروفیسر محمد حسن کی فرہنگ اردو محاورات میں طُوطی شامل نہیں، طوطا البتہ ہے۔ توتا پالنے کے علاوہ، توتے کو بول چال سکھانا بھی حضرتِ انسان کا پرانا شوق ہے۔ اس بارے میں ذوقؔ کا ضرب المثل شعر بھی یاد رہے: آدمیت اَور شئے ہے، علم ہے کچھ اور چیز+کتنا توتے کو پڑھایا، پَر وہ حیواں ہی رہا۔

دوسرے مصرع میں ''لاکھ توتے کو پڑھایا'' غلط مشہور ہے۔ (بحوالہ ''اردو کے ضرب المثل اشعار۔ تحقیق کی روشنی میں'' از محمد شمس الحق: ۲۰۱۰ء)۔ ویسے مثل مشہور ہے کہ 'بُڈھے توتے بھی کبھی پڑھے ہیں، یعنی جب عمر بہت زیادہ ہوجائے تو کوئی بات سکھانا سمجھانا محال ہے۔ توتوں کی متعدد اقسام بلا کی نقال ہوتی ہیں۔ {۲۰۰۵ء میں خاکسار نے کراچی چڑیا گھر اور سفاری پارک کے جانوروں اور پرندوں کے متعلق اپنی دولِسانی [Bi-lingual] کتاب کی تحقیق وتحریر کے دوران میں، ایک امریکی ماہر کا یہ انکشاف دیکھا کہ نیویارک کے چڑیا گھر میں ایک مخصوص قسم کا توتا دن بھر میں آنے والے پچیس ہزار افراد کی نقل اُتارنے میں مہارت دکھا چکا تھا۔ یہ ترکیب ذولسانی لکھنا غلط ہے}۔

ایک مشہورِِزمانہ مثنوی کا نام بھی طُوطی نامہ ہے (ناشر: مجلس اشاعت دکنی مخطوطات، سن اشاعت:1938) جو آن لائن دستیاب ہے۔


گولکنڈہ (دکن) کے معروف حکمراں عبداللہ قطب شاہ کے دربار سے وابستہ، مَلِک الشُعَراء، ملا غواصی نے بطور مثنوی گو شہرت پائی، قصیدہ گوئی میں نام پیدا کیا اور غزلیات کا کُلّیات بھی یادگار چھوڑا، مگر ایک تحقیق یہ ہے کہ اُس کی تین مثنویاں مینا ستونتی، سیف الملوک وبدیع الجمال اور طُوطی نامہ (سن نظم : ۱۶۳۸ء ) درحقیقت طبع زاد نہیں، بلکہ فارسی وہندی سے مترجمہ کلام ہے ، مگر اِن مثنویات کے تمہیدی حصص بشمول حمد ونعت اور خاتمہ، اُس کی اپنی شاعری ہے۔ اس قدیم اردو شاعر کا تعارف اور اُس کی شاعری پر تبصرہ ممتاز محقق ڈاکٹر سید یحیٰ نشیط کی کتاب 'اردو میںحمد ومناجات' میں موجود ہے۔ (اشاعت: مارچ ۲۰۰۰ء از کراچی، ناشر : فضلی اینڈ سنز)۔ مثنوی طُوطی نامہ میں اصل فارسی کتاب طُوطی نامہ ازقلم ضیاء الدین نخشبی سے کچھ حصہ لیا گیاہے۔

{کلیات غواصی۔ ملک الشعرائے گولکنڈہ، مرتبہ پروفیسرمحمدبن عمر، مع مقدمہ ازقلم ڈاکٹرسیدمحی الدین زورؔقادری، معتمد اعزازی ادارہ ادبیات اردو، نیشنل فائن پرنٹنگ پریس، حیدرآباد، دکن سے 1959ء میں شایع ہوا اور ریختہ ڈاٹ آرگ پر دستیاب ہے}۔ اب آئیے دیکھتے ہیں کہ فارسی لغات اور قاموس اس بابت کیا کہتے ہیں:

English-Persian Dictionary, by Abbas Aryanpur Kashani & ManoocherAryanpur Kashani , Tehran (Iran): 1989:-

Parrot (-ed, -ing): طُوطی، ہدف، طُوطی وارگفتن (یعنی اردو کے محاورے میں توتے/رَٹّوتوتے کی طرح ، فر فر، بے سوچے سمجھے بولنا ۔س ا ص)

حسن اللغات (فارسی اردو):

طُوطی (عربی) توتی کا معرب، ایک مشہور پرندے کا نام جو شہتوت کی فصل میں بہت جمع ہوجاتا ہے اور شہتوت کھاتا ہے۔

طُوطی مقال: فصیح

طُوطی وار: توتے کی مانند، بے سوچے سمجھے رَٹ لینا۔

فرہنگ فارسی یعنی جدید لغات فارسی از ڈاکٹر محمد عبداللطیف (لاہور):

طُوطی مقال: فصیح

طُوطی وار: بے سوچے سمجھے رَٹ لینا طوطے (توتے) کی طرح

فرہنگ عصریہ (اردو سے فارسی لغات) از حافظ نذراحمد، پرنسپل ، شبلی کالج (لاہور)، ص ۳۲۸:

طوطا(توتا): طُوطی

آن لائن ایرانی فارسی مآخذ کی ایک جھلک:

مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی نامی ایرانی فارسی انسائیکلوپیڈیا [https://www.cgie.org.ir/] میں طُوطی کا تعارف اس طرح کرایا گیا ہے:''طوطی، پرندہ ای سبزرنگ، بومی نواحی گرم و رطوبی ہند و آفریقا، و دارای نقش فراوان در فرہنگ مردم ایران۔ این پرندہ بہ سبب توانایی اش در تقلید آواز آدمی، مورد توجہ است و ازہمین روی، شکرشکن، شکرفشان، شکرمقال، شکرین مقال، شیرین زبان، شیرین سخن، شیرین تکلم، شیرین گفتار، خوش نوا و خوش حرف خواندہ شدہ است (لغت نامہ...)۔ ترجمہ: توتا، سبز رنگ کا پرندہ، ہندوستان اور افریقہ کے گرم ومرطوب علاقوں کا رہنے والا ہے اور ایرانی ثقافت میں اہم کردار کا حامل ہے۔

اس پرندے کو انسانی آوازوں کی نقل کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے پُرکشش سمجھا جاتا ہے، اور اسی وجہ سے اسے شکرشکن، شکرفشان، شکرمقال، شکرین مقال، شیرین زبان، شیرین سخن، شیرین تکلم، شیرین گفتار، خوش نوا و خوش حرف جیسے القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ (نوٹ: اردو کے اولین اہم سخنور، امیر خسرو کو بھی 'طُوطی شکر مقال' کہا جاتا ہے۔ س ا ص)۔ آگے دی گئی تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ توتے کا نام مختلف مآخد میں باغبہ، توتک، توتہ، توتی، توتا، طوطہ، دارے، اور شارک بھی درج کیا گیا ہے اور اس پرندے کے نام اور اس کی وجہ کے بارے میں مختلف آراء دی گئی ہیں۔

اس کا نام طوطی تحریر کرنا درحقیقت، ایران میں عرب اقتدار کی نشانی ہے۔ ہندی کے توتا توتی دونوں ہی کو فارسی میں توتی کہا جاتا ہے، کیونکہ کہ فارسی میں مذکر مؤنث کے مابین کوئی فرق نہیں۔ یہاں مرتبین نے غیاث اللغات (فارسی۔فارسی) کا مستند حوالہ بھی برائے وضاحت درج کیا ہے۔ میں بصد احترام عرض کروں کہ اگر ہمارے قارئین کرام بشمول معترضین میں کسی کو فارسی نہیں بھی آتی تو فقط لفظ طوطی ٹائپ کرکے، انٹرنیٹ پر تلاش کے گھوڑے دوڑائیں۔ بالکل شروع ہی میں نظر آنے والا فارسی تصویری، فلمی اور تحریری مواد (گوگل ٹرانسلیٹ یا بِنگ ٹرانسلیٹ کی مدد سے ترجمہ کرکے) آپ کو یہ بخوبی سمجھادے گا کہ طوطی، توتے ہی کا نام ہے، خواہ کسی نوع /قسم کا ہو۔ {ہمارے ایک فاضل بزرگ معاصر، اردو، پشتو اور فارسی پر عمدہ دسترس کے حامل، محترم سعد اللہ جان برقؔ کی ایک تحریر بھی خاصّے کی چیز ہے: طوطی کو نقارخانے میں بولنے کی ضرورت کیا ہے؟ (مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، مؤرخہ بدھ 17 اکتوبر 2018) از سعد اللہ جان برق :barq@email.com۔https://www.express.pk

/story/1382022/268/۔ اس پُرمغز نگارش میں دو باتیں کام کی ہیں: ایک تو یہ کہ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں (یا تھے) کہ توتی /طوطی کوئی ساز ہے یا ہوسکتا ہے تو اِس کی تردید ہوتی ہے نیز توتاچشمی کی کہاوت کے پیچھے یہ مشہور کہانی ہے}۔ یہاں البتہ ایک غیرمتعلق انکشاف یہ بھی ہے کہ فرہنگ عامرہ، لغات کشوری، نوراللغات اور حسن اللغات کے بیان کے مطابق طُوطک ایک ساز ہے جو درحقیقت الغوزے کا دوسرا نام ہے۔

{چلتے چلتے دو دل چسپ، مگر غیرمتعلق انکشافات اور کردوں:۱۔ ایران کے ضلع خسف(Khusf ) میں ایک گاؤں کا نا م بھی طوطی ہے جس کی آبادی، وکی پیڈیا کی رُو سے (2006 کی مردم شماری کے مطابق) کُل 137افراد پر مشتمل ہے۔ ۲۔انیس سونوے کی دہائی میں قائداعظم کی آخری قیام گاہ ، زیارت ریزیڈنسی کے چوکیدار کا طویل عمر میں انتقال ہوا۔ اُن کا نام بھی طُوطی خان تھا اور اُنھوں نے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھاکہ قائداعظم کا انتقال تو دس ستمبر سن انیس سو اڑتالیس کی رات ہی ہوگیا تھا}۔

آخرش یہ خاکسار بصد احترام دو باتیں عرض کرتا ہے:۱۔ کسی بھی لفظ، ترکیب، محاورے ، کہاوت اور اصطلاح کے لیے محض لغات ہی کافی سند نہیں، اہل علم اور اہل زبان کا رواج، ان کا برتنا اور استعمال کرنا بھی اہم ہے، بلکہ بعض کے نزدیک لغات سے زیادہ اہم سند ہے۔ لہٰذا اگر کوئی اہل قلم اچھی اردو لکھنے بولنے اور پڑھانے کا اہل بھی ہو تب بھی، اہل زبان کی سند، فائق رہے گی۔ ایسی بے شمار مثالیں ہیں کہ کسی موقع پر، لغات میں موجود کسی لفظ کی وضاحت کے لیے اہل علم کو بیان دینا ناگزیر ہوگیا، کیونکہ لغات تو امکانی طور پر مترادفات بتاتی ہیں۔

۲۔ فارسی سے نابلد کوئی بھی اہل قلم کسی ایسی بحث میں اپنی رائے قطعیت سے دینے کا مجاز نہیں اور اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ سکوت اختیار کرے، ورنہ تقلیدِمحض میں معاملات متأثر ہوتے ہیں۔ لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ فُلاں صاحب /صاحبہ نے ایسا لکھا، کہا اور نقل کیا تو بس;اُن کا کہا ہوا تو حَرفِ آخر ہے۔
Load Next Story