امریکا و گروپ سیون کا مشترکہ تعمیراتی منصوبہ بمقابلہ ون بیلٹ ون روڈ
یہ ایک ایسا ہی منصوبہ ہے جو کسی بھی طرح چین کے بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ سے مسابقت نہیں رکھتا
گزشتہ ماہ آسٹریلیا نے یکطرفہ طور پر چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے علیحدگی اختیار کی تو ایسے کسی منصوبے کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔ گروپ سیون ممالک نے مشترکہ طور پر چائنا بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کے متوازی انفرااسٹرکچر پلان پیش کیا ہے، جسے بلٹ بیک بیٹر ورلڈ built back better world پراجیکٹ کا نام دیا گیا ہے۔ گروپ سیون ممالک میں امریکا، کینیڈا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اٹلی اور جاپان شامل ہیں۔ اس پلان کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں موافق اور ہمنوا درمیانی آمدن والے ممالک میں انفرااسٹرکچر کی تعمیر ہے، جسے ماحولیاتی ہم آہنگی کا اضافی ٹیگ بھی دیا گیا ہے۔
یہ منصوبہ خاصی جلد بازی میں بغیر کسی ہوم ورک کے تیار کیا گیا ہے۔ اس گروپ میں شامل اٹلی جو پہلے ہی چین کے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کا باقاعدہ حصہ ہے اور اس کی مد میں چین اٹلی میں اچھی خاصی انویسٹمنٹ کر چکا ہے۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے بعد فرانس اور جرمنی سے تعلقات پہلے سے گرم جوش نہیں ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ امریکی ایما پر محض چین کے منصوبوں کے خلاف ایک کاغذ کے شیر کو میدان میں اتارا گیا ہے۔
اس منصوبے کو قابل عمل بنانے کےلیے تفصیلات جاری نہیں کی گئیں اور جو بتائی گئی ہیں ان میں سے بہت سی ناقابل عمل ہیں۔ مثال کے طور پر اس کےلیے مالیاتی فراہمی کا اندازہ چالیس ٹریلین ڈالر لگایا گیا ہے، جو امریکا کی جی ڈی پی سے تقریباً دگنا ہے۔ سرمائے کی فراہمی کےلیے سبھی ملکوں کی انویسٹمنٹ کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر سے فنڈز فراہم کرنے کی تجویز بھی شامل ہے، جبکہ امریکا و برطانیہ کئی گروپ سیون ممالک میں معاشی ڈاؤن سائزنگ کا عمل جاری ہے اور بھاری بجٹ کٹوتیاں متوقع ہیں، جن میں صحت جیسے شعبے بھی متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ دوسرا اگر پرائیویٹ سیکٹر سے پیسہ اس پراجیکٹ میں لایا جائے گا تو کن شرائط کی بنا پر اور منافع کی شرح اور قرض کی واپسی کا تخمینہ لگانا بڑھتے ہوئے کساد بازاری کے ماحول میں اسے فی الحال دیوانے کی بڑ سمجھنے پر مجبور کر رہا ہے۔
یہ منصوبہ واضح طور پر چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے خلاف ایک کاغذی پلان ہے، جس کےلیے چین ٹریلین ڈالرز نا صرف خرچ کررہا ہے بلکہ 2013 سے لے کر اب تک سو سے زیادہ ممالک اس منصوبے میں شامل ہوچکے ہیں اور بیسیوں ممالک میں یہ منصوبہ باقاعدہ پراجیکٹ کامیابی سے مکمل کرچکا ہے، جس کےلیے سرمایہ و تکنیکی مشاورت چین فراہم کر رہا ہے۔ چین کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ یوریشیا کی نئی سیاسی اختراع تراش رہا ہے اور یورپ و ایشیا کو نئی جغرافیائی اکائی میں پرو رہا ہے۔ افریقی ممالک میں اس منصوبے کے علاوہ کوئی قابل ذکر پراجیکٹ نہیں ہیں، ایسے میں امریکا کی جانب سے اس منصوبے کے متوازی پلان پیش کرنا محض لکیر پیٹنے جیسا ہے۔
سرمائے کی فراہمی سے لے کر قرض کی شرائط و ضوابط تک یہ ایک ناقابل عمل منصوبہ ہے۔ چین کے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے پر قرض کی ناقابل واپسی سیاست پر بہت زیادہ تنقید کی جاتی ہے، جس پر چین نہ ہونے کے برابر انٹریسٹ لے رہا ہے جبکہ جی سیون ممالک کا مجوزہ منصوبہ فنڈز کی شفاف ترسیل کا محض نعرہ بلند کرتا ہے، اس سلسلے میں کوئی ٹھوس لائحہ موجود نہیں ہے۔ اگر پرائیویٹ سیکٹر سے سرمایہ فراہم کیا جاتا ہے تو اس کا فریم ورک اور انٹریسٹ ریٹ کیا ہوگا؟ یہ سب باتیں فی الحال خود امریکی مالیاتی عہدیداروں کے علم میں نہیں ہیں، جنہوں نے سیاسی مقابلہ کرنے کےلیے ایک ناقابل عمل منصوبے کا اعلان کروا دیا ہے۔
امریکا اگرچہ چین سے سیاسی و مالیاتی رقابت رکھتا ہے اور اسے اپنے سب سے بڑے حریف کے طور پر کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں، لیکن فرانس، جرمنی اور برطانیہ چین کے ساتھ کسی بھی قسم کی مخاصمت کےلیے تیار نہیں ہیں۔ ایسے میں اس منصوبے کا مستقبل اس کی تیاری جتنا ہی تابناک نظر آتا ہے اور واضح طور پر یورپی یونین چین سے مخاصمت مول لینے کو تیار نہیں ہے۔
سب سے اہم رکاوٹ جو اسے مزید ناقابل عمل بناتی ہے وہ اس کا کوئی بھی واضح مقصد نہ ہونا ہے، جبکہ چین ون بیلٹ ون روڈ سمیت بندرگاہوں، پلوں، ریلوے اور سڑکوں سے دنیا بھر کو اپنی مصنوعات کی ترسیل کے واضح نظام میں جوڑ رہا ہے۔ یہ منصوبہ اگرچہ انفرااسٹرکچر کی تعمیر کی بابت ہے لیکن کن ممالک اور کن خطوں کے درمیان؟ ایسا کچھ ابھی تک سوچا نہیں گیا ہے۔
اس منصوبے کی سب سے بڑی ہیڈ لائن یہ رکھی گئی ہے کہ یہ منصوبہ ماحول دوست ہوگا، یعنی اس میں زیادہ سے زیادہ ماحولیاتی مطابقت کا خیال رکھا جائے گا۔ جبکہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایسے منصوبے جو بہت بڑے تعمیراتی منصوبے ہوں، جن میں سڑکیں، پل، ریلوے، یا آبی وسائل شامل ہوں، وہ کیسے ماحول دوست بنائے جاسکتے ہیں یا چین کا بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کیسے ماحول دوست نہیں ہے؟ واضح رہے کہ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ دنیا بھر کے علاوہ ورلڈ بینک و یورپی بینکس سے باقاعدہ منظور شدہ ہے جبکہ امریکا 2016 سے لے کر 2020 تک پیرس کے ماحولیاتی معاہدے سے ہی باہر رہا ہے، جو عظیم امریکی سابقہ صدر مسٹر ٹرمپ کا کارنامہ ہے، جسے اب جوبائیڈن نے دوبارہ شمولیت کا اعزاز بخشا ہے۔
کل ملا کر بات یہ ہے کہ چین کے ایک بہترین ہوم ورک کے ساتھ ایک دہائی سے شروع کیے گئے منصوبے کے خلاف یہ امریکی منصوبہ محض ایک ایسی قرارداد ہے جس پر کبھی عملدرآمد نہیں ہونا۔ کثیرالجہتی سرمایہ کاری ہو، یا بین الاقوامی امریکی بلاک میں شامل ممالک میں انفرااسٹرکچر کی تعمیر کا مجوزہ مقصد، شفاف سرمایہ کاری ہو یا ماحولیاتی فوائد کی بات، یہ ایک ایسا ہی منصوبہ ہے جو کسی بھی طرح چین کے بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ سے مسابقت نہیں رکھتا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ منصوبہ خاصی جلد بازی میں بغیر کسی ہوم ورک کے تیار کیا گیا ہے۔ اس گروپ میں شامل اٹلی جو پہلے ہی چین کے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کا باقاعدہ حصہ ہے اور اس کی مد میں چین اٹلی میں اچھی خاصی انویسٹمنٹ کر چکا ہے۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے بعد فرانس اور جرمنی سے تعلقات پہلے سے گرم جوش نہیں ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ امریکی ایما پر محض چین کے منصوبوں کے خلاف ایک کاغذ کے شیر کو میدان میں اتارا گیا ہے۔
اس منصوبے کو قابل عمل بنانے کےلیے تفصیلات جاری نہیں کی گئیں اور جو بتائی گئی ہیں ان میں سے بہت سی ناقابل عمل ہیں۔ مثال کے طور پر اس کےلیے مالیاتی فراہمی کا اندازہ چالیس ٹریلین ڈالر لگایا گیا ہے، جو امریکا کی جی ڈی پی سے تقریباً دگنا ہے۔ سرمائے کی فراہمی کےلیے سبھی ملکوں کی انویسٹمنٹ کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر سے فنڈز فراہم کرنے کی تجویز بھی شامل ہے، جبکہ امریکا و برطانیہ کئی گروپ سیون ممالک میں معاشی ڈاؤن سائزنگ کا عمل جاری ہے اور بھاری بجٹ کٹوتیاں متوقع ہیں، جن میں صحت جیسے شعبے بھی متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ دوسرا اگر پرائیویٹ سیکٹر سے پیسہ اس پراجیکٹ میں لایا جائے گا تو کن شرائط کی بنا پر اور منافع کی شرح اور قرض کی واپسی کا تخمینہ لگانا بڑھتے ہوئے کساد بازاری کے ماحول میں اسے فی الحال دیوانے کی بڑ سمجھنے پر مجبور کر رہا ہے۔
یہ منصوبہ واضح طور پر چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے خلاف ایک کاغذی پلان ہے، جس کےلیے چین ٹریلین ڈالرز نا صرف خرچ کررہا ہے بلکہ 2013 سے لے کر اب تک سو سے زیادہ ممالک اس منصوبے میں شامل ہوچکے ہیں اور بیسیوں ممالک میں یہ منصوبہ باقاعدہ پراجیکٹ کامیابی سے مکمل کرچکا ہے، جس کےلیے سرمایہ و تکنیکی مشاورت چین فراہم کر رہا ہے۔ چین کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ یوریشیا کی نئی سیاسی اختراع تراش رہا ہے اور یورپ و ایشیا کو نئی جغرافیائی اکائی میں پرو رہا ہے۔ افریقی ممالک میں اس منصوبے کے علاوہ کوئی قابل ذکر پراجیکٹ نہیں ہیں، ایسے میں امریکا کی جانب سے اس منصوبے کے متوازی پلان پیش کرنا محض لکیر پیٹنے جیسا ہے۔
سرمائے کی فراہمی سے لے کر قرض کی شرائط و ضوابط تک یہ ایک ناقابل عمل منصوبہ ہے۔ چین کے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے پر قرض کی ناقابل واپسی سیاست پر بہت زیادہ تنقید کی جاتی ہے، جس پر چین نہ ہونے کے برابر انٹریسٹ لے رہا ہے جبکہ جی سیون ممالک کا مجوزہ منصوبہ فنڈز کی شفاف ترسیل کا محض نعرہ بلند کرتا ہے، اس سلسلے میں کوئی ٹھوس لائحہ موجود نہیں ہے۔ اگر پرائیویٹ سیکٹر سے سرمایہ فراہم کیا جاتا ہے تو اس کا فریم ورک اور انٹریسٹ ریٹ کیا ہوگا؟ یہ سب باتیں فی الحال خود امریکی مالیاتی عہدیداروں کے علم میں نہیں ہیں، جنہوں نے سیاسی مقابلہ کرنے کےلیے ایک ناقابل عمل منصوبے کا اعلان کروا دیا ہے۔
امریکا اگرچہ چین سے سیاسی و مالیاتی رقابت رکھتا ہے اور اسے اپنے سب سے بڑے حریف کے طور پر کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں، لیکن فرانس، جرمنی اور برطانیہ چین کے ساتھ کسی بھی قسم کی مخاصمت کےلیے تیار نہیں ہیں۔ ایسے میں اس منصوبے کا مستقبل اس کی تیاری جتنا ہی تابناک نظر آتا ہے اور واضح طور پر یورپی یونین چین سے مخاصمت مول لینے کو تیار نہیں ہے۔
سب سے اہم رکاوٹ جو اسے مزید ناقابل عمل بناتی ہے وہ اس کا کوئی بھی واضح مقصد نہ ہونا ہے، جبکہ چین ون بیلٹ ون روڈ سمیت بندرگاہوں، پلوں، ریلوے اور سڑکوں سے دنیا بھر کو اپنی مصنوعات کی ترسیل کے واضح نظام میں جوڑ رہا ہے۔ یہ منصوبہ اگرچہ انفرااسٹرکچر کی تعمیر کی بابت ہے لیکن کن ممالک اور کن خطوں کے درمیان؟ ایسا کچھ ابھی تک سوچا نہیں گیا ہے۔
اس منصوبے کی سب سے بڑی ہیڈ لائن یہ رکھی گئی ہے کہ یہ منصوبہ ماحول دوست ہوگا، یعنی اس میں زیادہ سے زیادہ ماحولیاتی مطابقت کا خیال رکھا جائے گا۔ جبکہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایسے منصوبے جو بہت بڑے تعمیراتی منصوبے ہوں، جن میں سڑکیں، پل، ریلوے، یا آبی وسائل شامل ہوں، وہ کیسے ماحول دوست بنائے جاسکتے ہیں یا چین کا بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کیسے ماحول دوست نہیں ہے؟ واضح رہے کہ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ دنیا بھر کے علاوہ ورلڈ بینک و یورپی بینکس سے باقاعدہ منظور شدہ ہے جبکہ امریکا 2016 سے لے کر 2020 تک پیرس کے ماحولیاتی معاہدے سے ہی باہر رہا ہے، جو عظیم امریکی سابقہ صدر مسٹر ٹرمپ کا کارنامہ ہے، جسے اب جوبائیڈن نے دوبارہ شمولیت کا اعزاز بخشا ہے۔
کل ملا کر بات یہ ہے کہ چین کے ایک بہترین ہوم ورک کے ساتھ ایک دہائی سے شروع کیے گئے منصوبے کے خلاف یہ امریکی منصوبہ محض ایک ایسی قرارداد ہے جس پر کبھی عملدرآمد نہیں ہونا۔ کثیرالجہتی سرمایہ کاری ہو، یا بین الاقوامی امریکی بلاک میں شامل ممالک میں انفرااسٹرکچر کی تعمیر کا مجوزہ مقصد، شفاف سرمایہ کاری ہو یا ماحولیاتی فوائد کی بات، یہ ایک ایسا ہی منصوبہ ہے جو کسی بھی طرح چین کے بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ سے مسابقت نہیں رکھتا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔