بجٹ اور قومی دنگل
اسمبلی میں کیا ہوتا رہا ، قوم اس پر اس لیے غم زدہ ہے کہ ان کے مسائل کے پہاڑوں سے یہ ایک پتھر نہ توڑ سکے۔
آج سے 50 سال قبل والدین بچوں کو چڑیا گھر اور سرکس لے جایا کرتے تھے، بچے خوش ہوتے تھے۔
اب یہ منظر آپ اسمبلیوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ آج کل سیاست میں فلم '' افراتفری'' کی شوٹنگ جاری ہے ، سب مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں، ہیرو ، ہیروئن کا تصور نہیں ہے ، یہ بچکانہ کھیل اسپورٹس کے میدانوں سرکسوں اور چڑیا گھروں (Zoo) کو یتیم و یسیر کرکے اسمبلیوں میں سونے کو چاندی اور چاندی کو پتھر بنانے میں مصروف ہے اور عوام اپنے مسائل سے بے یار و مددگار ہو کر اس غیر ذمے دارانہ کھیل کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔
یہ مفلوک الحال بے سروسامان قوم حواس باختہ ہے مخالفین کو اس دفعہ قوم نے متحرک ہوکر جیت کے میدانوں سے باہر نکال دیا اور جنھیں تالیوں کے غیر مقدم میں تبدیلی کی ٹرین میں بٹھایا وہ ناتجربے کار لوگوں کی وجہ سے منزل پر نہ پہنچ سکی۔ اب قوم میدان سے باہر اور میدان سے جیتنے والوں کی حواس باختہ ہوکر سختیاں جھیل رہی ہے مگر یہ قوم کے نمایندے بجٹ کے موقعے پر دنگل کا منظر بغیر کسی ریفری کے پیش کرتے رہے سلجھے ہوئے افراد معاشرے کی طرز زندگی بدل دیتے ہیں۔
اسمبلی میں کیا ہوتا رہا ، قوم اس پر اس لیے غم زدہ ہے کہ ان کے مسائل کے پہاڑوں سے یہ ایک پتھر نہ توڑ سکے ، ایوان میں گالیاں تک دی گئیں چادر اور چاردیواری کا شور مچانے والی ممبر خواتین خاموش تھیں۔ آج بجٹ کے موضوع پر راقم نے بے مقصد تصادم سے ہٹ کر تنقید برائے اصلاح کے لیے ان ارباب اختیار کے لیے قلم کو جنبش دینے کی کوشش کی کہ ہم تو صحافت کے میدانوں میں طیارے نہیں اڑاتے۔
ہم تو قوم کی طرح مفلس اور غریب صحافی ہیں جبھی تو ہر دفعہ عوام کے مسائل کے میدان میں جھاڑو دینے اتر جاتے ہیں اور میں اپنے قارئین کا بہت شکرگزار ہوں کہ وہ میری نہیں روزنامہ ایکسپریس سے محبت کا ثبوت دیتے ہیں اور کالم کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اس دفعہ بجٹ کے موقع پر مخالفین نے پہاڑوں کی مثالیں دیں ، تنخواہوں میں 10 فیصد کا بھی بڑا شور تھا جب کہ ان کے دور میں سالوں بجٹ میں 10 فیصد کا اضافہ کیا گیا تھا اور تبدیلی والے مبارک باد سمیٹ رہے تھے خوردنی تیل، گھی فولاد پر رعایت دی گئی، مٹھائی، نمکین، تعمیرات کے شعبے میں عوام کو وہی ہری جھنڈی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ صرف الفاظ کے کھیل ہیں، شیمپو کتے بلی کی خوراک پر 50 فیصد ڈیوٹی میں اضافہ ہوا ، یہ اضافہ 180 فیصد ہونا چاہیے تھا کیونکہ یہ کھیل تو صاحب حیثیت لوگوں کے ہیں معذرت کے ساتھ غریبوں کا اس سے کیا تعلق؟ ان کے پاس تو خود پیٹ کی دوزخ کے لیے غذا کا ایندھن نہیں ہے۔ قرآن پاک کی اشاعت میں استعمال کاغذ کی درآمد پر چھوٹ دی گئی یہ فیصلہ تاریخی ہے، تین منٹ کی کال پر ایک روپے کا اضافی ٹیکس ہوگا قوم توکولہو کا بیل ہے جتنا چاہے تیل نکالیں اعلیٰ افسران کے ٹیلی فون بل فری ہیں دونوں اسمبلیوں میں رہنے والے بھی کوئی بل نہیں دیتے، ناکام دل گرفتہ قوم ان کے بل بھی دے گی۔
کیا قوم کے بھیجے ہوئے نمایندوں نے عوام کے لیے میڈیکل الاؤنس، ہاؤس رینٹ الاؤنس، کنوینس الاؤنس کے لیے کوئی بات کی۔ اب ان حضرات کی تعریف و توصیف پر تفصیل سے کیا لکھوں کہ لکھنے کے لیے کچھ بچا نہیں قانون کے حوالے سے کسی ایم این اے نے آواز نہیں اٹھائی۔ کراچی سے لے کر خیبر تک ڈاکوؤں کی جانب سے دی گئی لاشیں اٹھائی جاتی ہیں، بجٹ کے موقع پر ایک دوسرے کو حواس باختہ ہوکر منفی بیانات کے میدانوں میں پراپیگنڈا کے گھوڑے پر سوار تھے۔
سوشل میڈیا نے قوم کو متحرک شخصیات بنادیا ہے ، آج کا انسان آخرت کو فراموش کرچکا وہ زندگی کی رنگین ترجیحات پر تزئین و آرائش کے ساتھ رہنا چاہتا ہے اور یہ اس کی بھول ہے اور یہ سب ناز نخرے ان کے اس ملک میں اٹھائے جاتے ہیں جب یہ نخرے والے لندن جاتے ہیں تو غم زدہ دل کے ساتھ اپنے پروٹوکول کو یاد کرتے ہیں اور کرایہ کی ٹیکسیوں میں پھرتے ہیں ، ان کا وہاں کوئی پرسان حال نہیں اور پھر یہ واپس پاکستان زندہ باد کہتے ہوئے بھاگے بھاگے چلے آتے ہیں۔
کچھ حضرات نے اس قوم کو 35 سالوں سے قومی ترانے کے پیچھے لگا رکھا ہے اور خود قومی خزانے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں قومی اور صوبائی اسمبلی کی مراعات میں کسی قسم کی کمی نہیں کی گئی۔ معاشی پیکیج کا جھنڈا تو قوم کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا ہے ، بحیثیت کالم نویس کے یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی سیاسی طور پر بہت اعزاز و اکرام کی بات ہے بجٹ میں جس شعبے کو بھی رعیت دی جاتی ہے اس کے اثرات بجٹ کے بعد نظر کیوں نہیں آتے ، جس کی مثال پٹرول کی جس دن اخبارات میں پٹرول کی قیمت شایع ہوتی ہے اس کے دو گھنٹے بعد کسی فورس کی ضرورت نہیں دام بڑھا دیے جاتے ہیں۔
اس کے بعد مہنگائی کا ہار قوم کے گلے میں ڈال دیا جاتا ہے مگر یہ وہ ہار ہے جو سدا بہار ہے پٹرول کی قیمت کم ہوجائے تب بھی مہنگائی کا ہار مرجھانے کا نام نہیں لیتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن کو پٹرول وافر مقدار میں ملتا ہے وہ اتحاد و یگانگت کے ساتھ موقع محل دیکھ کر ڈیسک بجا رہے ہوتے ہیں اب بھی وقت ہے کہ یہ کرتا دھرتا رب کے احکامات کو تسلیم کرنے کی کوشش کریں۔
یاد رکھیں توبہ و استغفار بعداز مرگ۔ کاش کہ میری بات تیرے سمجھ میں آجائے بات کچھ یوں ہے کہ دنیا کی مشہور فیشن ڈیزائنر اور کئی کتابوں کی مصنف ''کرسڈ روڈ دیگز '' جب کینسر میں مبتلا ہوئیں تو انھوں نے اپنی شان و شوکت بے انتہا دولت کو مدنظر رکھ کر بہت دکھی ہوکر یہ تحریر لکھی وہ دولت امارت اپنی دیکھ کر زار و قطار روتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ''یہ میرے گیراج میں قیمتی گاڑیوں کی لائن تھی لیکن اب میں وہیل چیئر پر ہوں۔
میرے پاس دنیا کے خوبصورت جوتے بہترین کپڑے تھے، اب میں اسپتال میں ایک چادر میں بیٹھی ہوں میں محل میں رہتی تھی اب ایک سنگل بیڈ کے بستر پر لیٹی ہوئی ہوں میں فائیو اسٹار ہوٹلوں میں گھومتی تھی اب ایک لیب سے دوسری لیب کے چکر وہیل چیئر پر لگاتی ہوں میں لوگوں کو آٹو گراف دیتی تھی آج ڈاکٹر کا نسخہ میرا آٹو گراف ہے میرے بالوں کو سجانے کے لیے بے شمار بیوٹیشنز تھیں آج میرے سر پر ایک بال نہیں ہے۔ نجی طیارے میں دنیا میں سیر کرتی تھی اب اسپتال کے برآمدے میں جانے کے لیے اسٹاف کا انتظار کرتی ہوں۔
دنیا کے لوازمات میرے منتظر ہوتے تھے اب صرف دن میں تین گولیاں اور ہر گولی کے ساتھ گرم پانی کے چند قطرے آخر میں انھوں نے لکھا۔ زندگی میں لوگوں کا سہارا اور ان کے مسائل حل کروں جو دولت مند نامی نام دار ہوتے ہیں اور جب وہ قدرت کے مکافات عمل کا شکار ہوتے ہیں اس کیفیت کو میں بیان نہیں کرسکتی ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سینہ پھٹ جائے گا سب چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ اب میں تنہائی کی ایک مظلوم عورت ہوں کاش میری بات ان بااختیار لوگوں کے دلوں کو بدل دے۔
اب یہ منظر آپ اسمبلیوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ آج کل سیاست میں فلم '' افراتفری'' کی شوٹنگ جاری ہے ، سب مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں، ہیرو ، ہیروئن کا تصور نہیں ہے ، یہ بچکانہ کھیل اسپورٹس کے میدانوں سرکسوں اور چڑیا گھروں (Zoo) کو یتیم و یسیر کرکے اسمبلیوں میں سونے کو چاندی اور چاندی کو پتھر بنانے میں مصروف ہے اور عوام اپنے مسائل سے بے یار و مددگار ہو کر اس غیر ذمے دارانہ کھیل کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔
یہ مفلوک الحال بے سروسامان قوم حواس باختہ ہے مخالفین کو اس دفعہ قوم نے متحرک ہوکر جیت کے میدانوں سے باہر نکال دیا اور جنھیں تالیوں کے غیر مقدم میں تبدیلی کی ٹرین میں بٹھایا وہ ناتجربے کار لوگوں کی وجہ سے منزل پر نہ پہنچ سکی۔ اب قوم میدان سے باہر اور میدان سے جیتنے والوں کی حواس باختہ ہوکر سختیاں جھیل رہی ہے مگر یہ قوم کے نمایندے بجٹ کے موقعے پر دنگل کا منظر بغیر کسی ریفری کے پیش کرتے رہے سلجھے ہوئے افراد معاشرے کی طرز زندگی بدل دیتے ہیں۔
اسمبلی میں کیا ہوتا رہا ، قوم اس پر اس لیے غم زدہ ہے کہ ان کے مسائل کے پہاڑوں سے یہ ایک پتھر نہ توڑ سکے ، ایوان میں گالیاں تک دی گئیں چادر اور چاردیواری کا شور مچانے والی ممبر خواتین خاموش تھیں۔ آج بجٹ کے موضوع پر راقم نے بے مقصد تصادم سے ہٹ کر تنقید برائے اصلاح کے لیے ان ارباب اختیار کے لیے قلم کو جنبش دینے کی کوشش کی کہ ہم تو صحافت کے میدانوں میں طیارے نہیں اڑاتے۔
ہم تو قوم کی طرح مفلس اور غریب صحافی ہیں جبھی تو ہر دفعہ عوام کے مسائل کے میدان میں جھاڑو دینے اتر جاتے ہیں اور میں اپنے قارئین کا بہت شکرگزار ہوں کہ وہ میری نہیں روزنامہ ایکسپریس سے محبت کا ثبوت دیتے ہیں اور کالم کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اس دفعہ بجٹ کے موقع پر مخالفین نے پہاڑوں کی مثالیں دیں ، تنخواہوں میں 10 فیصد کا بھی بڑا شور تھا جب کہ ان کے دور میں سالوں بجٹ میں 10 فیصد کا اضافہ کیا گیا تھا اور تبدیلی والے مبارک باد سمیٹ رہے تھے خوردنی تیل، گھی فولاد پر رعایت دی گئی، مٹھائی، نمکین، تعمیرات کے شعبے میں عوام کو وہی ہری جھنڈی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ صرف الفاظ کے کھیل ہیں، شیمپو کتے بلی کی خوراک پر 50 فیصد ڈیوٹی میں اضافہ ہوا ، یہ اضافہ 180 فیصد ہونا چاہیے تھا کیونکہ یہ کھیل تو صاحب حیثیت لوگوں کے ہیں معذرت کے ساتھ غریبوں کا اس سے کیا تعلق؟ ان کے پاس تو خود پیٹ کی دوزخ کے لیے غذا کا ایندھن نہیں ہے۔ قرآن پاک کی اشاعت میں استعمال کاغذ کی درآمد پر چھوٹ دی گئی یہ فیصلہ تاریخی ہے، تین منٹ کی کال پر ایک روپے کا اضافی ٹیکس ہوگا قوم توکولہو کا بیل ہے جتنا چاہے تیل نکالیں اعلیٰ افسران کے ٹیلی فون بل فری ہیں دونوں اسمبلیوں میں رہنے والے بھی کوئی بل نہیں دیتے، ناکام دل گرفتہ قوم ان کے بل بھی دے گی۔
کیا قوم کے بھیجے ہوئے نمایندوں نے عوام کے لیے میڈیکل الاؤنس، ہاؤس رینٹ الاؤنس، کنوینس الاؤنس کے لیے کوئی بات کی۔ اب ان حضرات کی تعریف و توصیف پر تفصیل سے کیا لکھوں کہ لکھنے کے لیے کچھ بچا نہیں قانون کے حوالے سے کسی ایم این اے نے آواز نہیں اٹھائی۔ کراچی سے لے کر خیبر تک ڈاکوؤں کی جانب سے دی گئی لاشیں اٹھائی جاتی ہیں، بجٹ کے موقع پر ایک دوسرے کو حواس باختہ ہوکر منفی بیانات کے میدانوں میں پراپیگنڈا کے گھوڑے پر سوار تھے۔
سوشل میڈیا نے قوم کو متحرک شخصیات بنادیا ہے ، آج کا انسان آخرت کو فراموش کرچکا وہ زندگی کی رنگین ترجیحات پر تزئین و آرائش کے ساتھ رہنا چاہتا ہے اور یہ اس کی بھول ہے اور یہ سب ناز نخرے ان کے اس ملک میں اٹھائے جاتے ہیں جب یہ نخرے والے لندن جاتے ہیں تو غم زدہ دل کے ساتھ اپنے پروٹوکول کو یاد کرتے ہیں اور کرایہ کی ٹیکسیوں میں پھرتے ہیں ، ان کا وہاں کوئی پرسان حال نہیں اور پھر یہ واپس پاکستان زندہ باد کہتے ہوئے بھاگے بھاگے چلے آتے ہیں۔
کچھ حضرات نے اس قوم کو 35 سالوں سے قومی ترانے کے پیچھے لگا رکھا ہے اور خود قومی خزانے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں قومی اور صوبائی اسمبلی کی مراعات میں کسی قسم کی کمی نہیں کی گئی۔ معاشی پیکیج کا جھنڈا تو قوم کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا ہے ، بحیثیت کالم نویس کے یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی سیاسی طور پر بہت اعزاز و اکرام کی بات ہے بجٹ میں جس شعبے کو بھی رعیت دی جاتی ہے اس کے اثرات بجٹ کے بعد نظر کیوں نہیں آتے ، جس کی مثال پٹرول کی جس دن اخبارات میں پٹرول کی قیمت شایع ہوتی ہے اس کے دو گھنٹے بعد کسی فورس کی ضرورت نہیں دام بڑھا دیے جاتے ہیں۔
اس کے بعد مہنگائی کا ہار قوم کے گلے میں ڈال دیا جاتا ہے مگر یہ وہ ہار ہے جو سدا بہار ہے پٹرول کی قیمت کم ہوجائے تب بھی مہنگائی کا ہار مرجھانے کا نام نہیں لیتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن کو پٹرول وافر مقدار میں ملتا ہے وہ اتحاد و یگانگت کے ساتھ موقع محل دیکھ کر ڈیسک بجا رہے ہوتے ہیں اب بھی وقت ہے کہ یہ کرتا دھرتا رب کے احکامات کو تسلیم کرنے کی کوشش کریں۔
یاد رکھیں توبہ و استغفار بعداز مرگ۔ کاش کہ میری بات تیرے سمجھ میں آجائے بات کچھ یوں ہے کہ دنیا کی مشہور فیشن ڈیزائنر اور کئی کتابوں کی مصنف ''کرسڈ روڈ دیگز '' جب کینسر میں مبتلا ہوئیں تو انھوں نے اپنی شان و شوکت بے انتہا دولت کو مدنظر رکھ کر بہت دکھی ہوکر یہ تحریر لکھی وہ دولت امارت اپنی دیکھ کر زار و قطار روتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ''یہ میرے گیراج میں قیمتی گاڑیوں کی لائن تھی لیکن اب میں وہیل چیئر پر ہوں۔
میرے پاس دنیا کے خوبصورت جوتے بہترین کپڑے تھے، اب میں اسپتال میں ایک چادر میں بیٹھی ہوں میں محل میں رہتی تھی اب ایک سنگل بیڈ کے بستر پر لیٹی ہوئی ہوں میں فائیو اسٹار ہوٹلوں میں گھومتی تھی اب ایک لیب سے دوسری لیب کے چکر وہیل چیئر پر لگاتی ہوں میں لوگوں کو آٹو گراف دیتی تھی آج ڈاکٹر کا نسخہ میرا آٹو گراف ہے میرے بالوں کو سجانے کے لیے بے شمار بیوٹیشنز تھیں آج میرے سر پر ایک بال نہیں ہے۔ نجی طیارے میں دنیا میں سیر کرتی تھی اب اسپتال کے برآمدے میں جانے کے لیے اسٹاف کا انتظار کرتی ہوں۔
دنیا کے لوازمات میرے منتظر ہوتے تھے اب صرف دن میں تین گولیاں اور ہر گولی کے ساتھ گرم پانی کے چند قطرے آخر میں انھوں نے لکھا۔ زندگی میں لوگوں کا سہارا اور ان کے مسائل حل کروں جو دولت مند نامی نام دار ہوتے ہیں اور جب وہ قدرت کے مکافات عمل کا شکار ہوتے ہیں اس کیفیت کو میں بیان نہیں کرسکتی ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سینہ پھٹ جائے گا سب چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ اب میں تنہائی کی ایک مظلوم عورت ہوں کاش میری بات ان بااختیار لوگوں کے دلوں کو بدل دے۔