لواحقین بنا ’’شوکت‘‘ کا جنازہ
ہماری صحافتی اقدار کیسے بچیں گی جب نئے صحافی دوستوں کو قیمتی زیاں کا خیال نہ ہو۔
پابند صحافت کی زنجیریں توڑنے میں سرگرم عمل،کراچی پریس کلب کے تقدس کو اصول و ضوابط کے مطابق چلانے اور ہر صحافت دشمن پر عقابی نگاہ رکھنے سپاٹ لہجے اور سخت گیر مزاج کی نرم دل رکھنے والی ش فرخ بھی اجل کی جانب چل دی،عطیہ داؤد اور خدابخش ابڑو کی دن رات کی سنگی انھیں تنہا کرکے اپنی یادوں میں ایسا لپیٹ گئی کہ خدابخش ابڑو خلائوں میں اسے تلاش کرتا ہوا محسوس ہوتا رہا تو عطیہ دکھ کے پہاڑ جھیلتی ہوئی بہادرانہ انداز سے ش فرخ کے دوست احباب جمع کرتی رہی اور ان کو اپنے غم کی ساتھی بناتی رہی۔
یہی نہیں بلکہ صحافتی جدوجہد کے مرد آہنگ احفاظ الرحمن کی نظریاتی شریک زندگی مہناز رحمن شہناز احد کے ساتھ نزہت شیریں پریشان تو تھیں مگر اس وقت ہمتوں کا ایسا جوالا لگیں جنھوں نے فوری طور سے ش فرخ کے رخت سفر کے انتظامات کو مل بانٹ کر نہ صرف اشتراکی انداز سے حل کیا بلکہ گاہے گاہے ممکنہ حد تک صحافتی دوستوں اور تنظیم کے رہنمائوں کو ش فرخ کی رخصتی کی اطلاعات فراہم کیں،مجھے مہناز کی فون پر جاں بلب رندھی ہوئی آواز اب تک رنجیدہ کیے ہوئے ہے جو کہہ رہی تھی کہ''بس ابھی ہم تمام ساتھی شین کے گھر پہنچ کر طے کرتے ہیں کہ شین کی تدفین کب اور کہاں کی جائے گی''مہناز کے آخری جملے کہ ''آپ لوگ ایک گھنٹے بعد پہنچیں تاکہ شین کے آخری سفر میں اس کے ہم رکاب ہو سکیں۔''
اس افسوسناک خبر کے فوری بعد میں نے ممکنہ طور پر پی ایف یوجے اور کراچی یونین آف جرنلٹس کے ساتھیوں اور رہنمائوں کو مطلع کیا،فوری طور سے اپنے سینیئر صحافی حبیب غوری کے گھر پہنچا اور اس طرح ہم مہناز رحمن،شہناز احد،عطیہ دائود،نزہت شیریں،اور خدا بخش ابڑو کے علاوہ شین کے عزیز خالد صاحب کے ہم رکاب ہوگئے اور ابتدائی معاملات کے بعد عصر ہونے تک کرامت حسین،ناصر منصور،ڈاکٹر جعفر حسن،انسانی حقوق کے حمزہ قاضی اور عبدالحئی اور دیگر احباب بھی ہم سے آن ملے، اور یوں ہم سب نے مل کر شین فرخ کے جسد خاکی کو کاندھوں کا سہارا دیا کہ اس لمحے ڈاکٹر جعفر،حمزہ اور ناصر منصور اور دیگر دوست بھاگم بھاگ اس خوف سے جنازے کو مسجد تک پہنچانے میں فکر مند تھے کہ کہیں دوست تھک نہ جائیں یا ان کی تعداد مزید کم نہ ہو جائے،جنازہ نکلتے وقت تک جسٹس ماجدہ رضوی، رضیہ فرید،حمیرا اطہر اور ملکہ خان کے علاوہ فیصل مجیب بھی شین کے آخری سفر کے ہم رکاب بن چکے تھے۔
جب سے میں شین فرخ کے جسد خاکی کو خاک کے سپرد کرکے آیا ہوں،میرے اعصاب چیخنا چاہتے ہیں چنگھاڑنا چاہتے ہیں، میرے حواس مجھے صحافی برادری کے ملامتی کردار کا مجرم ٹہرانے پر مصر ہیں،مجھ پر میرا وجدان تابڑ توڑ حملے کیے جا رہا ہے،وہ مجھے صحافتی اظہار بیان کرنے پر تلا ہوا ہے،وہ مجھ سے سوال کر رہا ہے کہ اٹک کے حویلی گائوں سے تربیت پانے والی شوکت فرخ(شین فرخ)اور صحافتی دنیا میں خواتین صحافیوں کی ہمت و جرات کا استعار بننے والی شعر وادب کے محاسن سے آگاہی رکھنے والی اور جبر کے سامنے صحافتی آزادی کے لیے سینہ سپر ہونے اور نعرے لگانے والی کا کیا قصور تھا کہ شین کی موت کی خبر پاکر بھی گاڑیوں کی پر آسائش سہولت کے باوجود ،خود کو شین کی جدوجہد کے ساتھی سمجھنے والے صحافی چند میل کا فاصلہ طے کرکے شین کے اکیلے پن میں ساتھاری کا کردار ادا نہ کرسکے، وہی تمام صحافی ہی تو شین کے لواحقین تھے،کہ جس شین نے صحافت کی آزادی کا سر بلند رکھنے کی خاطر اپنوں کو تج کیا،میں اس دم کیوں اور کس لیے کی تکرار کے ساتھ صحافی احباب کی بے حسی وہاں موجود افراد میں حیرت و استعجاب لیے ہوئے ایکدوسرے سے سوال کر رہی تھی،صحافت میں ہمارے اساتذہ تو یہ بتا گئے تھے کہ صحافی سماج کے افراد کا سب سے زیادہ درد رکھنے والا حساس فرد ہوتا ہے...پھر...کراچی میں بسنے والے صحافیوں کی شین کے جنازے میں عدم شرکت کو کیا نام دیا جائے...بلکہ سماج کے شکست و ریخت یا صحافت میں چمک کے آگے بے حس و لاچار ہونے کا درد آمیز دکھ،جو سماج سے اظہار کی طاقت کے زخموں میں بے حسی اور خودغرضی شامل کرکے صحافت کو یتیم و بے سہارا کر رہا ہے وہ المیہ۔
شین فرخ کے گھر کے لائونج میں بیٹھے،الماریوں میں کتابوں کے ابنار تلے جب میری نگاہ اینٹوں سے مزین آرٹ کے مجسموں اور ان تین بانسریوں پر پڑی تو مجھے نجانے کیوں ان بانسریوں کی مدھر میں مست و مگن شین ایک موسیقی کے احساس کے ساتھ نظر آئی،مجھے لگا کہ شین مٹی کے سپرد ہوکے بھی ساز راگ اور سروں کے آہنگ میں مست اپنے احساس کو ہم زندہ افراد سے بانٹنا چاہتی ہے اپنے صحافتی لواحقین کی خیریت دریافت کرنا چاہتی ہے،اس لمحے ایسا کیوں لگا کہ وہ وفا کے موتی اپنے پلے ہوئے کتوں ہی میں تلاش کر رہی ہے،گو عطیہ سمیت اس کی لاہور سے آئی ہوئی رشتے کی بھتیجی ان کتوں کی سیوا اور تحفظ کے لیے فکرمند تھیں کہ جس کا انتظام حمزہ قاضی اور ناصر منصور پہلے ہی فیصل ایدھی سے مل کر کرچکے تھے۔
سوچتا ہوں کہ جس شین فرخ کا میلان شاعری ادب اور آرٹ رہا ہو، مگر اس کے باوجود جو صحافت کی آزادی اور اظہار کی جدوجہد سے خود کو جوڑے رکھے،صحافت کی بقا کی خاطر جس نے زندگی میں اپنوں کو تج کردیا ہو،اس شین فرخ کے صحافتی لواحقین جب ایسے بے حس و بے پرواہ ہوجائیں کہ وہ اس کے آخری سفر میں بھی شرکت سے خود کو محروم یا معزول کرلیں،شین فرخ کی رحلت پر جب چینل میں ایک ٹکر نہ چل سکے تو وہ افراد کیسے توقع کرتے ہیں کہ یہ بے حس کی جانے والی صحافت ان کی توقیر کا مان رکھے گی، بس اس موقع پر یہی فکر میرے سود زیاں کا تاریک پہلو عیاں کرنے پر مصر ہے کہ زمانے کے رنگوں اور صحافتی بے حسی میں وہ افراد خود کو کیسے بچا پائیں گے جو آج شین فرخ کے جسد خاکی کو کاندھا نہ دے سکے ہوں۔
ہماری صحافتی اقدار کیسے بچیں گی جب نئے صحافی دوستوں کو قیمتی زیاں کا خیال نہ ہو،اور پھر بے حس و جبر کی حکومت سے صحافتی تنظیمیں کس طرح اپنے پیروں میں پڑی پڑی زنجیروں سے آزادی پا سکیں گی...یہ سوال میرے حواس کی وہ چنگھاڑ بنتا جا رہا ہے کہ شاید کسی طور شین کے بے سمت چلے جانے والے دوستوں میں فکر اور احساس کی جوت جگا سکیں،شایدکہ صحافت احساس کے تار شین فرخ کی بنا لواحقین کی سپردخاک کی گئی موت جگاسکے ، یہ نہ نوحہ ہے نہ کسی کے غم میں ٹپکتے آنسو،یہ تو بس اظہار رائے کا ایک احساس ہے جو گر شاید فکر کی کوئی جوت جگا جائے۔
یہی نہیں بلکہ صحافتی جدوجہد کے مرد آہنگ احفاظ الرحمن کی نظریاتی شریک زندگی مہناز رحمن شہناز احد کے ساتھ نزہت شیریں پریشان تو تھیں مگر اس وقت ہمتوں کا ایسا جوالا لگیں جنھوں نے فوری طور سے ش فرخ کے رخت سفر کے انتظامات کو مل بانٹ کر نہ صرف اشتراکی انداز سے حل کیا بلکہ گاہے گاہے ممکنہ حد تک صحافتی دوستوں اور تنظیم کے رہنمائوں کو ش فرخ کی رخصتی کی اطلاعات فراہم کیں،مجھے مہناز کی فون پر جاں بلب رندھی ہوئی آواز اب تک رنجیدہ کیے ہوئے ہے جو کہہ رہی تھی کہ''بس ابھی ہم تمام ساتھی شین کے گھر پہنچ کر طے کرتے ہیں کہ شین کی تدفین کب اور کہاں کی جائے گی''مہناز کے آخری جملے کہ ''آپ لوگ ایک گھنٹے بعد پہنچیں تاکہ شین کے آخری سفر میں اس کے ہم رکاب ہو سکیں۔''
اس افسوسناک خبر کے فوری بعد میں نے ممکنہ طور پر پی ایف یوجے اور کراچی یونین آف جرنلٹس کے ساتھیوں اور رہنمائوں کو مطلع کیا،فوری طور سے اپنے سینیئر صحافی حبیب غوری کے گھر پہنچا اور اس طرح ہم مہناز رحمن،شہناز احد،عطیہ دائود،نزہت شیریں،اور خدا بخش ابڑو کے علاوہ شین کے عزیز خالد صاحب کے ہم رکاب ہوگئے اور ابتدائی معاملات کے بعد عصر ہونے تک کرامت حسین،ناصر منصور،ڈاکٹر جعفر حسن،انسانی حقوق کے حمزہ قاضی اور عبدالحئی اور دیگر احباب بھی ہم سے آن ملے، اور یوں ہم سب نے مل کر شین فرخ کے جسد خاکی کو کاندھوں کا سہارا دیا کہ اس لمحے ڈاکٹر جعفر،حمزہ اور ناصر منصور اور دیگر دوست بھاگم بھاگ اس خوف سے جنازے کو مسجد تک پہنچانے میں فکر مند تھے کہ کہیں دوست تھک نہ جائیں یا ان کی تعداد مزید کم نہ ہو جائے،جنازہ نکلتے وقت تک جسٹس ماجدہ رضوی، رضیہ فرید،حمیرا اطہر اور ملکہ خان کے علاوہ فیصل مجیب بھی شین کے آخری سفر کے ہم رکاب بن چکے تھے۔
جب سے میں شین فرخ کے جسد خاکی کو خاک کے سپرد کرکے آیا ہوں،میرے اعصاب چیخنا چاہتے ہیں چنگھاڑنا چاہتے ہیں، میرے حواس مجھے صحافی برادری کے ملامتی کردار کا مجرم ٹہرانے پر مصر ہیں،مجھ پر میرا وجدان تابڑ توڑ حملے کیے جا رہا ہے،وہ مجھے صحافتی اظہار بیان کرنے پر تلا ہوا ہے،وہ مجھ سے سوال کر رہا ہے کہ اٹک کے حویلی گائوں سے تربیت پانے والی شوکت فرخ(شین فرخ)اور صحافتی دنیا میں خواتین صحافیوں کی ہمت و جرات کا استعار بننے والی شعر وادب کے محاسن سے آگاہی رکھنے والی اور جبر کے سامنے صحافتی آزادی کے لیے سینہ سپر ہونے اور نعرے لگانے والی کا کیا قصور تھا کہ شین کی موت کی خبر پاکر بھی گاڑیوں کی پر آسائش سہولت کے باوجود ،خود کو شین کی جدوجہد کے ساتھی سمجھنے والے صحافی چند میل کا فاصلہ طے کرکے شین کے اکیلے پن میں ساتھاری کا کردار ادا نہ کرسکے، وہی تمام صحافی ہی تو شین کے لواحقین تھے،کہ جس شین نے صحافت کی آزادی کا سر بلند رکھنے کی خاطر اپنوں کو تج کیا،میں اس دم کیوں اور کس لیے کی تکرار کے ساتھ صحافی احباب کی بے حسی وہاں موجود افراد میں حیرت و استعجاب لیے ہوئے ایکدوسرے سے سوال کر رہی تھی،صحافت میں ہمارے اساتذہ تو یہ بتا گئے تھے کہ صحافی سماج کے افراد کا سب سے زیادہ درد رکھنے والا حساس فرد ہوتا ہے...پھر...کراچی میں بسنے والے صحافیوں کی شین کے جنازے میں عدم شرکت کو کیا نام دیا جائے...بلکہ سماج کے شکست و ریخت یا صحافت میں چمک کے آگے بے حس و لاچار ہونے کا درد آمیز دکھ،جو سماج سے اظہار کی طاقت کے زخموں میں بے حسی اور خودغرضی شامل کرکے صحافت کو یتیم و بے سہارا کر رہا ہے وہ المیہ۔
شین فرخ کے گھر کے لائونج میں بیٹھے،الماریوں میں کتابوں کے ابنار تلے جب میری نگاہ اینٹوں سے مزین آرٹ کے مجسموں اور ان تین بانسریوں پر پڑی تو مجھے نجانے کیوں ان بانسریوں کی مدھر میں مست و مگن شین ایک موسیقی کے احساس کے ساتھ نظر آئی،مجھے لگا کہ شین مٹی کے سپرد ہوکے بھی ساز راگ اور سروں کے آہنگ میں مست اپنے احساس کو ہم زندہ افراد سے بانٹنا چاہتی ہے اپنے صحافتی لواحقین کی خیریت دریافت کرنا چاہتی ہے،اس لمحے ایسا کیوں لگا کہ وہ وفا کے موتی اپنے پلے ہوئے کتوں ہی میں تلاش کر رہی ہے،گو عطیہ سمیت اس کی لاہور سے آئی ہوئی رشتے کی بھتیجی ان کتوں کی سیوا اور تحفظ کے لیے فکرمند تھیں کہ جس کا انتظام حمزہ قاضی اور ناصر منصور پہلے ہی فیصل ایدھی سے مل کر کرچکے تھے۔
سوچتا ہوں کہ جس شین فرخ کا میلان شاعری ادب اور آرٹ رہا ہو، مگر اس کے باوجود جو صحافت کی آزادی اور اظہار کی جدوجہد سے خود کو جوڑے رکھے،صحافت کی بقا کی خاطر جس نے زندگی میں اپنوں کو تج کردیا ہو،اس شین فرخ کے صحافتی لواحقین جب ایسے بے حس و بے پرواہ ہوجائیں کہ وہ اس کے آخری سفر میں بھی شرکت سے خود کو محروم یا معزول کرلیں،شین فرخ کی رحلت پر جب چینل میں ایک ٹکر نہ چل سکے تو وہ افراد کیسے توقع کرتے ہیں کہ یہ بے حس کی جانے والی صحافت ان کی توقیر کا مان رکھے گی، بس اس موقع پر یہی فکر میرے سود زیاں کا تاریک پہلو عیاں کرنے پر مصر ہے کہ زمانے کے رنگوں اور صحافتی بے حسی میں وہ افراد خود کو کیسے بچا پائیں گے جو آج شین فرخ کے جسد خاکی کو کاندھا نہ دے سکے ہوں۔
ہماری صحافتی اقدار کیسے بچیں گی جب نئے صحافی دوستوں کو قیمتی زیاں کا خیال نہ ہو،اور پھر بے حس و جبر کی حکومت سے صحافتی تنظیمیں کس طرح اپنے پیروں میں پڑی پڑی زنجیروں سے آزادی پا سکیں گی...یہ سوال میرے حواس کی وہ چنگھاڑ بنتا جا رہا ہے کہ شاید کسی طور شین کے بے سمت چلے جانے والے دوستوں میں فکر اور احساس کی جوت جگا سکیں،شایدکہ صحافت احساس کے تار شین فرخ کی بنا لواحقین کی سپردخاک کی گئی موت جگاسکے ، یہ نہ نوحہ ہے نہ کسی کے غم میں ٹپکتے آنسو،یہ تو بس اظہار رائے کا ایک احساس ہے جو گر شاید فکر کی کوئی جوت جگا جائے۔