شام کا بحران

ایران، عراق جنگ ہو یا افغانستان پر امریکا کا قبضہ دہشت گردی کی جنگ نے اس پورے خطے کو تباہی و بربادی سے دوچار کر دیا ہے

زمرد نقوی

لاہور:
حال ہی میں غیر وابستہ ممالک کی تنظیم ''نام'' کا دو روزہ اجلاس ایران کے دارالحکومت تہران میں منعقد ہوا۔ امریکا کے واحد سپر پاور بننے کے بعد اس نے جس طرح دھونس سے اپنی پالیسیاں دنیا پر مسلط کی ہیں، اس نے غیر وابستہ ممالک کی تنظیم میں یہ سوچ راسخ کی ہے کہ امریکا کی دراز دستی کو روکنے کے لیے خود اس تنظیم کو مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا، اگر ایسا نہ ہوا تو دنیا میں امن ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔

ایران، عراق جنگ ہو یا افغانستان پر امریکا کا قبضہ دہشت گردی کی جنگ نے اس پورے خطے کو تباہی و بربادی سے دوچار کر دیا ہے جب کہ سلامتی کونسل اس حوالے سے امریکا کا مؤثر ہتھیار ہے۔ ایران میں اس کانفرنس کا انعقاد تاریخ کے اس موڑ پر، جب پوری دنیا امریکا کی من مانی اور طاقت کے بے پناہ اور ظالمانہ استعمال سے تنگ آئی ہوئی ہے جس میں روس اور چین جیسے ملک بھی شامل ہیں، تاریخی واقعہ ہے۔

جب سے ایران میں امریکی مفادات کا خاتمہ ہوا ہے، امریکا اور اس کے اتحادیوں کی پچھلے تیس سال سے سر توڑ کوشش ہے کہ ایران کو عالمی محاذ پر تنہا کر دیا جائے۔ اس کے پُر امن ایٹمی پروگرام سے دنیا خاص طور پر عرب ممالک کو ڈرایا جاتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک اس وقت عدم تحفظ کا شکار ہیں، اس میں اور تو اور خود روس اور چین بھی شامل ہیں۔ غیر وابستہ ممالک کی تنظیم نے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ایک بڑا سبق یہ سیکھا ہے کہ اب خاموش تماشائی بنے رہنے کا وقت نہیں رہا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد روس ایک بڑے بحران سے باہر آ چکا ہے۔ چینی معیشت مستحکم ہو چکی ہے۔ چنانچہ اب وقت آ چکا ہے روس اور چین مل کر امریکی مذموم عزائم کو لگام دیں ۔

''ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ماضی میں سرد جنگ کے دور کی پالیسیوں کے شاہد رہے ہیں اور دنیا اس تاریخی تجربے سے ''عبرت'' حاصل کرتے ہوئے ایک ''بین الاقوامی نظام'' کی طرف حرکت کر رہی ہے اور غیر وابستہ تحریک ان حالات میں ایک نیا کردار ادا کر سکتی ہے لہذا اسے ایسا ضرور کرنا چاہیے۔

انھوں نے تجویز پیش کی کہ یہ نیا نظام عمومی شراکت اور قوموں کے مساوی حقوق کی بنیاد پر تشکیل دیا جانا چاہیے لیکن انھوں نے اس حقیقت پر بھی زور دیا کہ یہ جدید نظام صرف اس صورت میں ہی تشکیل پا سکتا ہے کہ غیر وابستہ تحریک کے رکن ممالک عصری تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ''متحد'' ہوں۔ رہبر ایران نے کہا کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ دنیا کے افق پر عالمی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جس کے نتیجے میں ایک سے زائد طاقت کے مراکز مستقبل میں وجود میں آنے والے ہیں۔''

یہی وجہ ہے کہ امریکا اس وقت سے پہلے ہی جب دنیا پر اس کی بالادستی چیلنج کر دی جائے، دنیا اور خاص طور مشرق وسطیٰ کے قدرتی اور تیل کے ذخائر پر بلا شرکت غیرے مکمل قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ شام میں امریکا، اسرائیل، قطر، ترکی اور سعودی عرب کی سرپرستی میں اس وقت جو اسلامی جہاد ہو رہا ہے، وہ اسی سامراجی مقصد کے حصول کے لیے ہو رہا ہے کیونکہ شام اس مقصد کے حصول میں آخری رکاوٹ ہے۔ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔

کوشش امریکا اور اس کے اتحادی (ایجنٹ) مندرجہ بالا ملکوں کی یہ ہے کہ شام پر راتوں رات امریکی حمایت یافتہ جہادیوں اور اسلامک گروپوں کا قبضہ ہو جائے۔ امریکی ذرایع ابلاغ کے مطابق صدر اوباما ایک خفیہ معاہدے کے ذریعے شام کے جہادیوں کی ہر طرح کی جنگی اور اسلحی مدد کی منظوری دے چکے ہیں۔ اور ہیلری کلنٹن کو مغربی میڈیا شامی باغیوں کی کمانڈ انچیف کا خطاب دے چکا ہے۔


امریکی اور یہودی میڈیا شام کے ''اسلامی باغیوں'' کی حمایت کے لیے بھر پور طور پر میدان میں آ چکا ہے تا کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو برین واش کرتے ہوئے یہ یقین دلایا جا سکے کہ شام میں بھی مصر کے اخوان المسلمون کی طرح بس ''اسلامی حکومت'' آنے ہی والی ہے۔ مصر میں اخوان المسلمون کے صدر نے بھی اس کانفرنس میں شام کو جارح قرار دیا۔ جب کہ امریکا اسرائیل بھی شام کو جارح قرار دے رہے ہیں۔ پھر فرق کیا ہوا۔ مصر کے صدر بھی امریکا اور اسرائیل کی زبان ہی بول رہے ہیں۔

بہت جلد اخوان المسلمون نے اپنا پول خود ہی کھول دیا اور بہار عرب کی ''حقیقت'' بھی دنیا کے سامنے آ گئی ہے کہ امریکا کو مصر سمیت عرب ملکوں میں آمریت کی جگہ ''جمہوریت'' لانے کی کیا آفت پڑی ہوئی تھی۔ ترکی کی اسلام پسند حکومت تو بڑی دیر سے امریکا کی نمک حلالی کر رہی ہے لیکن مصر کے اخوان المسلمون کے صدر کو کیا ہوا کہ جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے انھوں نے بھی امریکا کی نمک حلالی شروع کردی۔

کچھ دیر اپنا بھرم ہی رکھ لیتے۔ دنیا کے مسلمانوں کی نظروں میں۔ جو آزادی اور اقتدار امریکا کے طفیل میں ملے اس کا انجام یہی ہوتا ہے، چاہے وہ ترکی کے ''اسلام پسند'' حکمران ہوں یا مصر کی برسراقتدار اخوان المسلمون۔ اس وقت شام میں جو قتل و غارت ہو رہی ہے، اس کے ذمے دار صرف اور صرف امریکا اسرائیل ترکی اور عرب ممالک ہیں۔ شام میں امن قائم کرنے کے بجائے وہ امریکی حمایت یافتہ جہادیوں کو انتہائی جدید اسلحہ مہیا کر رہے ہیں جس طرح ماضی میں امریکیوں نے اپنے دشمن سوویت یونین کے خاتمے کے لیے افغان جہادیوں کو سٹنگر میزائل دیے اور تمام دنیا کی اسلام پسند جماعتوں اور مذہبی لیڈروں کی مدد اور سادہ لوح مذہب پسند مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے سوویت یونین کے خلاف امریکی جہاد کو اسلامی جہاد قرار دے دیا۔

یہی ڈرامہ آج کل شام میں امریکی کر رہے ہیں۔ طریقہ واردات پرانا ہے ،کچھ بھی مختلف نہیں۔ اس سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ امریکی اتنے بھی عقلمند نہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں لیکن سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان ایک سوراخ سے بار بار کیوں ڈسے جاتے ہیں۔ ہماری عقلوں پر پردہ کیوں پڑ جاتا ہے اور امریکا سمیت مسلمان ملکوں میں اس کے آلہ کار مسلمان ایجنٹ مذہب کے نام پر ہمیں بے وقوف بنانے میں کیوں کامیاب ہو جاتے ہیں؟ موجودہ شامی حکومت کے خاتمے کے بعد امریکا اور اسرائیل کا مشرق وسطیٰ پر قبضہ مکمل ہو جائے گا۔

رہ گئیں عرب بادشاہتیں تو ان کا اقتدار ہی پچھلے سو پچاس سال سے امریکی خیرات اور بھیک پر قائم ہے۔ حماس اور حزب اللہ کی طاقت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ وہ اسرائیل جس نے تمام عرب ملکوں کی فوجوں کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا تھا اسی اسرائیل کو حزب اللہ نے تاریخ میں پہلی مرتبہ چند ہزار سرفروشوں کے ذریعہ رسوا کن شکست سے دوچار کیا۔ آخری نتیجے میں فلسطین کی وہ لولی لنگڑی نہام نہاد ریاست قائم ہو گی جس کی لگامیں اسرائیل کے کنٹرول میں ہوں گی اور اس وقت اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ حماس، حزب اللہ، شام اور ایران ہیں۔ اس طرح شامی حکومت کے خاتمے سے امریکا اور اسرائیل کے اصل مقصد کا حصول ممکن ہو سکے گا۔

غیر وابستہ ممالک کی تنظیم ایران کی سربراہی میں 2013ء اور 2014ء کے دوران دنیا میں طاقت کا توازن ''بحال'' کرنے میں تاریخی کردار ادا کرے گی۔

ایک ضروری وضاحت:۔محترم قارئین! اگر کسی دن اتفاق سے آپ کا مجھ سے رابطہ نہ ہو سکے تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ میں انتہائی حساس معاملات میں مصروف ہوں۔ اس صورت میں آپ اگلے روز رابطہ کریں۔ شکریہ

اوقات رابطہ:۔ پیر تا جمعہ دوپہر دو تا شام 6 بجے
سیل فون نمبر:۔ 0346-4527997
Load Next Story