ماحول کی تباہی اور قدرت کا انتقام

جنگل کے کٹاؤ اور موسم میں تبدیلی کے بعد قدرت نے بھی انسانوں سے حساب لینا شروع کردیا ہے

ماحول کو خود تباہ کرنے والے گرمی کے بڑھتے پارے کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

فیض آباد سے مری جانے والے اس روڈ پر تقریباً یہ تیسرا گول چکر ہے۔ میں نے ہوش سنبھالا تو اس جگہ کا نام ڈھوکری پایا۔ جوں جوں آبادی کے حجم میں اضافہ ہوا، نام بھی تبدیل کردیا گیا۔ اب یہ جگہ کشمیر چوک کے نام سے جانی جاتی ہے۔ جی ہاں! وہی کشمیر چوک جس کے عین بغل میں کنونشن سینٹر واقع ہے۔

بھلے دنوں میں موسم گرما کے دوران یہاں سے گزرتے ہوئے گرمی کا زور ٹوٹ جاتا تھا۔ انتہائی خوشگوار ٹھنڈک محسوس ہونے لگتی۔ ٹھنڈک کے احساس کے ساتھ ہی سڑک بھی اچھی لگنا شروع ہوجاتی۔ میں اسے ٹھنڈی سڑک کہتا تھا، کیونکہ یہاں پہنچتے ہی آنکھوں کو عجیب سی راحت محسوس ہوتی، گویا یوں لگتا جیسے ہوا کی ٹھنڈک خوشبو کی شکل میں نظر آرہی ہو۔

جاڑے کے دنوں میں یہاں ٹھٹھرنا معمولی بات تھی. اس کی کئی وجوہ میں سے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سڑک کے دونوں اطراف گھنے درخت تھے، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گھنا جنگل تھا۔ جنگل سے تقریباً تین کلومیٹر کے بعد آبادی شروع ہوجاتی تھی۔ آبادی میں رہنے والوں کا رہن سہن گاؤں جیسا تھا۔ گمان ہے کہ یہاں رہنے والوں میں کثیر تعداد ان لوگوں کی ہے جو مضافات کے گاؤں سے آکر یہاں مستقل سکونت اختیار کیے ہوئے تھے۔ گھروں میں مویشی رکھنے کا سلسلہ بھی تھا۔

علاقے میں بجلی کی سہولت میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے کی موجود تھی، البتہ گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے مختلف لوگوں کو سلنڈر گیس استعمال کرنا پڑتی۔ جو لوگ استطاعت رکھتے وہ سلنڈر گیس استعمال کرتے، باقی جنگل کا رخ کرتے اور لکڑیاں کاٹ کر بطورِ ایندھن استعمال کرتے تھے۔

علاقے میں دو عدد برساتی نالے بھی تھے، جن میں سے ایک تو بس ختم ہوچکا ہے اور اب اس میں سیوریج کی لائنز گرتی ہیں اور آنے والے دنوں میں دوسرے کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہونا ہے۔ رفتہ رفتہ وقت گزرتا چلا گیا۔ جدت آنا شروع ہوگئی۔ گلیاں پکی ہوگئیں۔ پرائیویٹ اسکولوں کی بھرمار ہوگئی۔ سیوریج لائنز بچھا دی گئیں، حتیٰ کہ گیس کی سہولت بھی میسر آگئی۔ اسی دوران ڈھوکری چوک کے گرد بھی اونچی عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

اب یہاں سے گزرتے ہوئے لوگ اس اونچی عمارت کی منزلیں گننے کی ناکام کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ترقی اس علاقے میں مکمل آباد ہوچکی ہے۔ یہاں بلند عمارتیں اور بنیادی تمام سہولیات موجود ہیں۔ لیکن افسوس کہ وہ ٹھنڈی سڑک اب ٹھنڈی نہیں رہی۔ یہاں رہنے والے اب شہری کہلواتے ہیں اور بڑے فخر سے علاقے کو دارالخلافہ میں شمار کرتے ہیں۔ موجودہ حکومت اربوں درخت لگانے کا دعویٰ تو کرتی ہے اور شاید خواہش بھی رکھتی ہے، مگر کشمیر چوک میں کھڑی بلند عمارت جس کے حوالے سے قیاس آرائیاں مشہور ہیں کہ یہاں بڑی بڑی شخصیات کے فلیٹ موجود ہیں، انہیں اسی عمارت کے سامنے کٹتے ہوئے بے شمار درخت نظر کیوں نہیں آتے؟


پارلیمنٹ، وزیراعظم سیکریٹریٹ، ایوانِ صدر اور ریڈ زون سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر کٹتے درخت کیوں دکھائی نہیں دیتے؟

کلین اور گرین پاکستان منصوبے کے تحت نئے درخت لگانے والے کیا پہلے سے موجود درختوں کی حفاظت کے ذمے دار نہیں ہیں؟

کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) آخر کس مرض کی دوا ہے؟

حیران کن طور پر یہاں کے وہ باسی بھی جو ازخود جنگل سے لکڑیاں کاٹتے تھے، اب گرمی کے بڑھتے ہوئے پارے کا شکوہ کرتے ہیں۔ وہی ٹھنڈی سڑک اب گرمی کے موسم میں آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کرتی ہے۔ دو تین سال قبل جب شہرِ اقتدار میں ہیٹ اسٹروک کی اطلاع ملی تو قیامت خیز گرمی اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی اور ساتھ ہی شہر کے مضافاتی جنگل میں آگ لگ گئی۔ یوں ستیاناس کئ بجائے سوا ستیاناس ہوا۔ اب کے برس بھی سورج پورے زور کے ساتھ اسلام آباد پر گرمی برسانے میں کامیاب رہا اور ساتھ ساتھ مارگلہ کی پہاڑیوں میں ایک بار پھر کسی نے آگ لگا دی۔ بیچارے چرند پرند سب جل گئے۔ مگر آگ لگانے والے یہ بھول گئے کہ انہی درختوں کی وجہ سے یہاں کا موسم خوشگوار ہوتا تھا۔ جنگل کے کٹاؤ اور موسم میں تبدیلی کے بعد قدرت نے بھی واپس حساب لینا شروع کردیا ہے۔ چند روز قبل ہی خبروں میں سنا کہ بالکل اسی ٹھنڈی سڑک پر چند کلومیٹر دور نواحی علاقے میں گرمی کی وجہ سے سرکاری اسکول کے بیس سے زائد بچے بے ہوش ہونے کے بعد قریبی اسپتال منتقل کیے گئے۔

یہاں عرض یہ ہے کہ جب انسان چرند پرند، درختوں اور قدرت کا خیال رکھنا چھوڑ دیتے ہیں تو قدرت بھی انسانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتی ہے۔ ابھی بھی وقت گزرا نہیں، حکومت اور عوام ہوش کے ناخن لیں اور جنگل کی بحالی اور حفاظت کےلیے مل کر اقدامات کریں۔ ورنہ آنے والی نسلیں بے ہوش ہوکر خبروں کی زینت بنتی رہیں گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story