پی ٹی آئی وزراء اور سندھ حکومت میں سیاسی نوک جھونک عروج پر پہنچ گئی

فواد چوہدری کے مذکورہ بیان پر سندھ حکومت کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔

فواد چوہدری کے مذکورہ بیان پر سندھ حکومت کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کی جانب سے اپنے دورہ کراچی میں سندھ میں آرٹیکل 140اے کے نفاذ کے مطالبے نے ایک نئی بحث کا آغاز کردیا ہے۔

فواد چوہدری نے سندھ کی پیپلزپارٹی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے ہیں سندھ کو جو پیسہ مل رہا ہے اس کی مانیٹرنگ ہونی چاہیے، سندھ میں جمہوریت نہیں، جمہوریت کے نام پر ڈکٹیٹرشپ ہے۔ بدین، لاڑکانہ کے لئے اربوں روپے آئے لیکن پتہ نہیں وہ پیسہ کہاں گیا، سندھ کو ملنے والا پیسہ کبھی جعلی اکاؤنٹس اور کبھی لانچوں کے ذریعے باہر جاتا ہے، جو پیسہ سندھ کے حوالے کرتے ہیں وہ بیرون ملک سے برآمد ہوتا ہے،آخر احتساب کا طریقہ کار تو بنانا پڑے گا۔ حالیہ بجٹ میں 7 سے ساڑھے 7 سو ارب روپے سندھ کے پاس آرہا ہے جس میں گرانٹس شامل نہیں۔

وزیراعلی سندھ سے کہوں گا آرٹیکل 140 اے پر عملدرآمد کرانا لازمی ہے، سپریم کورٹ سندھ میں آرٹیکل 140 اے نافذ کرے ۔ چیف جسٹس کے ریمارکس کے بعد وزیراعلی سندھ کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔ فواد چوہدری کے مذکورہ بیان پر سندھ حکومت کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔

سندھ کے وزیر اطلاعات سید ناصر حسین شاہ کا وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے بیان پر اپنے ردعمل میں کہنا تھا کہ وفاقی وزرا کراچی میں آکر سندھ حکومت کو برا بھلا کہنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ فواد چوہدری سندھ میں آکر وزیراعلی سندھ کے خلاف بیان دے کر اپنی فرسٹریشن نکالتے ہیں۔ فواد چوہدری حلفیہ بتائیں کہ پورے ملک میں کونسا وزیراعلی سب سے بہترہے۔

ناصر شاہ نے کہا کہ فواد چوہدری کو اگر فنڈز کی مانیٹرنگ کرنی ہے تو جاکر کے پی کے میں کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری کہتے ہیں کہ سندھ میں جمہوریت کے نام پر آمریت نافذ ہے۔ اصل میں فواد چوہدری نے عمران خان کی آمریت دیکھی ہے اسی لیے ان کو ہر جگہ آمریت نظر آتی ہے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ وفاق اور سندھ کی صوبائی حکومتوں کے نمائندوں کے درمیان لفظی جنگ کا سلسلہ ختم ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ دونوں جانب سے انتہائی شدت پسندانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے جس سے عوام میں مایوسی پھیلتی ہے۔ وفاقی حکومت کے وزرا ء سندھ میں آکر جب صوبائی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور صوبائی حکومت کے ترجمان ان کے دوبدو جواب دیتے ہیں لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ان کی جماعتوں کو پہنچتا ہے اور نہ ہی عوام اس سے کوئی فیض پا سکتے ہیں۔

ان حلقوں کا کہنا ہے کہ وفاقی وزراء کو چاہیے کہ وہ تنقید برائے تنقید کی بجائے صوبائی حکومت پر مثبت تنقید کریں جس سے عوام کو بھی کوئی ریلیف مل سکے۔ ادھر سندھ حکومت کو بھی اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ صوبے میں 12سال سے زائد حکمرانی کرنے کے بعد عوام ان سے سوال کرنے پر حق بجانب ہیں۔ پیپلز پارٹی کی گورننس کو کسی صورت میں بھی مثالی قرار نہیں دیا جا سکتا ہے اور اس میں بہت بہتری کی گنجائش ہے۔ اگر کوئی وفاقی وزیراس جانب ان کی توجہ مبذول کراتا ہے تو اس کو سنجیدگی کے ساتھ لینا چاہیے اور گورننس میں بہتری لانے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔


وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے مالی سال 2021-22 کے لئے سندھ کا بجٹ پیش کر دیا ہے، جس کا مجموعی حجم 14 کھرب 77 ارب روپے ہے، بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا گیا، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافے اور ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن میں 10 فیصد اضافہ کا اعلان ہوا ہے جبکہ صوبے میں کم از کم اجرت 25 ہزار ماہانہ مقرر کی گئی ہے۔ سندھ کے بجٹ میں بعض ٹیکسوں کی شرح میں کمی کا اعلان کیا گیا ہے۔ دوسری جانب سندھ اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں ایم کیو ایم پاکستان تحریک انصاف اور جی ڈی اے نے صوبائی حکومت کے بجٹ کو مسترد کردیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کا بجٹ حکمران دوست اور سندھ دشمن ہے۔ حکومتی ارکان کی جانب سے صوبائی بجٹ کو تاریخی قرار دیا جا رہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ کوویڈ کی صورت حال اور وفاق کی جانب سے رقم میں کٹوتی کے باوجود سندھ حکومت نے عوام دوست بجٹ پیش کیا ہے۔ غیر جانبدار حلقوں نے صوبائی بجٹ کو مجموعی طور پر متوازن قرار دیا ہے۔ ان حلقوں کی جانب سے تنخواہوںمیں20 فیصد اضافے اور کم ازکم ماہانہ اجرت 25 ہزار روپے کرنے کی ستائش کی گئی ہے۔امید یے کہ حکومت سندھ عوام کے مسائل کو حل کرنے پر مذید توجہ دے گی۔

حکومت سندھ کے اقدامات اور عوام کی جانب سے ایس او پیز پر زیادہ موثرانداز میں عملدرآمد کی وجہ سے صوبے میں وائرس کے پھیلاؤ میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے ، جس کے بعد حکومت نے پابندیوں کو مزید نرم کردیا ہے۔صوبے میں تمام تعلیمی اداروں کو ایس او پیز کے تحت کھول دیا گیا ہے جبکہ امتحانات کی تاریخوں کا بھی اعلان کردیا گیا ہے۔

کورونا کے حوالے سے تشویشناک بات کراچی سمیت صوبے بھر میں ویکسین کی قلت ہے۔ ویکسینیشن سینٹرز میں ویکسین کی دستیاب نہ ہونے کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ شہریوں نے حکومت سندھ سے ویکسینیشن سینٹرز میں کورونا ویکسینیشن کی دستیابی یقینی بنانے اور ویکسینیشن کے نظام کو بہتر بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جب حکومت نے ویکسینیشن کروانا لازمی قرار دیا ہے تو ویکسین کی دستیابی بھی یقینی بنائی جائے۔ ادھر وزیراعلیٰ سندھ نے کورونا ٹاسک فورس کے اجلاس میں ماہ جون کے آخری ہفتے میں ویکسینیشن سینٹرز میں مزید ویکسین کی فراہمی کو یقینی بنانے کا اعلان کیا ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں کی بہتر حکمت عملی کے باعث پاکستان کورونا وبا کی تیسری لہر سے بھی نکلنے میں کامیاب ہو رہا ہے تاہم کورونا وائرس کا ایک چوتھا مرحلہ بھی آسکتا ہے جس کے لیے ابھی تیاری کرنے کی ضرورت ہے ۔عوام کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد ویکسی نیشن کا عمل مکمل کرائیں تاکہ پاکستان کو کورونا فری ملک بنایا جا سکے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی رجسٹری میں تجاوزات کے حوالے سے جو اہم فیصلے سنائے تھے ،اس نے شہرقائد میں ایک ہلچل پیدا کر دی ہے اور اب متاثرین کے ساتھ بزنس کمیونٹی اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے عدالت عظمیٰ سے اپنے فیصلوں پر نظرثانی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

کراچی کی بزنس کمیونٹی نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے اپیل کی ہے کہ نسلہ ٹاور اور الہ دین پارک کے فیصلے پر عمل درآمد سے قبل متاثرین کو سنا جائے، غیرقانونی تعمیرات سے متعلق مقدمات فل بینچ میں سنے جائیں، جن عمارتوں کو غیرقانونی قرار دیا جا رہا ہے انہیں قانون کے مطابق قرار دینے والے افسران اور اداروں کو بھی اس کارروائی کا حصہ بنایا جائے۔
Load Next Story