خیبر پختونخوا کا بجٹ پرامن ماحول میں پیش اپوزیشن کا مکمل تعاون
مرکزاورخیبرپختونخوا دونوں ہی جگہوں پر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے اس لیے مرکز یہ کمٹمنٹ پوری کر رہا ہے۔
خیبرپختونخوا حکومت نے اگلے مالی سال 2021-22ء کے لیے بجٹ پیش کردیا ہے جو یقینی طور پر جاندار ہونے کے ساتھ تمام طبقات کی نمائندگی بھی کر رہا ہے اور یقینی طور پر اس کا کریڈٹ وزیراعلیٰ محمودخان اور ان کی پوری ٹیم کو تو جاتا ہی ہے لیکن اس کریڈٹ کے اصل حقدار صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا ہیں جو مالی امور پر عبور اور گرفت رکھنے کی وجہ سے بہتر مینجمنٹ کے ذریعے نہ صرف یہ کہ ایک اچھا بجٹ پیش کرنے میں کامیاب ٹھہرے بلکہ ساتھ ہی وہ پنشن سمیت دیگر مختلف شعبہ جات میں اصلاحات کا عمل بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اگلے مالی سال کے بجٹ میں کئی ٹیکسز کی شرح میں کمی کی گئی ہے اور پھر خصوصی طور پر لینڈ ٹیکس اور پروفیشنل ٹیکس کا خاتمہ عوام کے لیے ریلیف کا باعث بنے گا جبکہ اس کے ساتھ ہی نئی گاڑیوں کی رجسٹریشن صرف ایک روپیہ تک محدود کرنے سے بھی ایک اچھا پیغام گیا ہے ، تاہم اب اصل امتحان یہ ہوگا کہ جو بجٹ دیا گیا ہے اسے سال بھر برقرار بھی رکھا جائے تاکہ مالی سال کے اختتام پر بھی معاملات اسی طرح اچھے رہ سکیں۔ آئندہ مالی سال کا بجٹ قابل تعریف تو ہے لیکن اس میں دو معاملات ایسے ہیں کہ جو بنیادی نوعیت کے حامل ہیں۔
وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے وقت چاروں صوبوں اور مرکز نے اعلان کیا تھا کہ وہ مجموعی قومی وسائل سے ملنے والے اپنے حصہ کا تین فیصد ان قبائلی اضلاع کے لیے دیں گے تاکہ وہاں ترقی کا عمل تیز تر ہو سکے اور یہ علاقہ جات بھی ملک کے دیگر حصوں کے برابر آسکیں تاہم تین سال ہو چکے لیکن صرف مرکز اور خیبرپختونخوا ہی اپنی کمٹمنٹ پوری کر رہا ہے۔
چونکہ مرکزاورخیبرپختونخوا دونوں ہی جگہوں پر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے اس لیے مرکز یہ کمٹمنٹ پوری کر رہا ہے، اگر صوبہ اور مرکز میں الگ جماعتوں کی حکومت ہوتی تو شاید ہی ایسا ہو پاتا اور جہاں تک بات رہی خیبرپختونخوا کی تو اسے تو یہ کٹمنٹ بہرکیف پوری کرنی ہے کیونکہ یہ قبائلی علاقہ جات اب نہ تو مرکز کے زیر انتظام ہیں اور نہ ہی کوئی الگ صوبہ بلکہ یہ خیبرپختونخوا میں شامل اور اس کا حصہ ہیں جس کی ضروریات اسے پوری کرنی ہی ہیں۔
تاہم اس صورت حال کے باوجود خیبرپختونخوا حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں وہ رقم اپنے بجٹ اعدادوشمار میں ظاہر کی ہے جو دیگر صوبوں کے ذمے این ایف سی کے تین فیصد کے حساب سے ان قبائلی اضلاع کے لیے واجب الادا ہے جو 34 ارب سے زائد بنتی ہے، ان میں 21 ارب پنجاب کے ذمے ہیں جہاں کسی اور کی نہیں بلکہ خود پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے لیکن پنجاب بھی یہ رقم دینے کے لیے تیار نہیں حالانکہ بزدار سرکار یہ کام اپنے طور پر بھی اچھا پیغام دینے کے لیے کر سکتی ہے اور وفاقی حکومت بھی ہدایات دیتے ہوئے یہ کام کرا سکتی ہے کیونکہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وزیراعظم عمران خان ہدایات جاری کریں اور پنجاب حکومت ان کی بات نہ مانے تاہم اس سلسلے میں تساہل برتا جا رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے اپنے بجٹ میں یہ رقم ظاہر کی ہے ، گو کہ یہ بھی سمجھا جا رہا ہے کہ کے پی حکومت نے یہ کام دیگر صوبوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے کیا ہے تاہم بقول صوبائی حکومت کے یہ کام دباؤ ڈالنے نہیں بلکہ یاد دہانی کے لیے کیا گیا ہے تاکہ دیگر صوبے یہ رقم ادا کریں ۔ تاہم خیبرپختونخوا حکومت کی مراد برآنے کی امیدیں نہایت ہی کم ہیں کیونکہ سندھ اور بلوچستان کی حکومتیں یہ رقم دینے کے لیے تیار نہیں ہونگی اور بالآخر یہ بوجھ کسی اور نے نہیں بلکہ مرکزی اور خیبرپختونخوا حکومت نے ہی اٹھانا ہوگا جبکہ دوسری جانب خیبرپختونخوا کی حکومت نے اگلے مالی سال کے بجٹ میں ضلعی حکومتوں کے لیے ترقیاتی فنڈز کاحصہ بھی کم کر دیا ہے۔
لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کے تحت اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت نے ترقیاتی فنڈز کا تیس فیصد حصہ ضلعی حکومتوں کے لیے مختص کیا تھا تاہم اب اگلے مالی سال سے یہ حصہ تیس سے کم کرتے ہوئے بیس فیصد کر دیا گیا ہے، اس بارے میں وزیر خزانہ کا موقف یہ ہے کہ چونکہ پہلے ضلعی حکومتیں سہ جہتی تھیں جن میں ضلع، تحصیل اور نچلی سطح پر ویلیج اور نیبر ہڈ کونسلیں ہوا کرتی تھیں تاہم اب یہ سیٹ اپ تین کی بجائے دو جہتی رہ گیا ہے کیونکہ نئے بلدیاتی نظام میں ضلعی نظام ختم ہوگیا ہے اس لیے ترقیاتی فنڈز کا حصہ بھی کم کرتے ہوئے بیس فیصد کر دیا گیا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ ضلعی حکومتیں اپنا تیس فیصد حصہ کسی بھی سال پورا استعمال نہیں کر پائیں جس کی وجہ سے یہ بات زیر غور تھی کہ ان کا حصہ کم کر دیا جائے۔
بجٹ پیش بھی ہوچکا اورپاس بھی ہوجائے گا تاہم بجٹ کے حوالے سے اہم بات یہ رہی کہ پارلیمنٹ اوردیگر تینوں صوبائی اسمبلیوں میں بجٹ پیش ہونے کے موقع پر انتہاء کی ہنگامہ آرائی ہوئی جس کی وجہ سے یقینی طور پر بدنامی ہی سب کے حصہ میں آئی ہے، تاہم خیبرپختونخوا اسمبلی میں ایسا کچھ نہیں ہوا اور بجٹ انتہائی پرامن ماحول میں پیش کیا گیا، یہاں پر بھی اپوزیشن کا احتجاج کرنے کا پروگرام تھا جس کے لیے اپوزیشن جماعتوں کی آپس میں مشاورت بھی جاری تھی تاہم وزیراعلیٰ خود اپوزیشن چیمبر گئے اور اپوزیشن کو یقین دہانی کرائی کہ ان کے تمام تر تحفظات دور کیے جائیں گے۔
اس لیے وہ احتجاج نہ کریں، سپیکر صوبائی اسمبلی مشتاق احمدغنی کا بھی اس سلسلے میں اہم کردار ہے جو انہوں نے حکومت و اپوزیشن کے درمیان پل کے طور پر ادا کیا اور اپوزیشن کو احتجاج کی راہ سے دور رکھا تاہم بجٹ انتہائی پرامن حالات میں پیش ہونے کا اصل کریڈٹ اگر کسی کو جاتا ہے تو وہ اورکوئی نہیں بلکہ خود اپوزیشن ہے کیونکہ اگر اپوزیشن چاہتی تو وہ وزیراعلیٰ اور سپیکر کی استدعا مسترد کرتے ہوئے اپنے ایجنڈے کے مطابق احتجاج کرتے ہوئے خوب ،خوب خبر بناتی لیکن اپوزیشن نے مفاہمت کی راہ اپناتے ہوئے یقینی طور پر مثبت پیغام دیا ہے ۔
چونکہ اپوزیشن نے بجٹ کے موقع پر مفاہمت کی راہ لی ہے اس لیے اب وہ بھی بجاطور پر یہ توقع کر رہے ہیں کہ بجٹ کے حوالے سے ان کی تجاویزکو خوب سکون اور اطمینان کے ساتھ نہ صرف یہ کہ سنا جائے گا بلکہ ان پر عمل درآمد بھی کیا جائے گا اور ترقیاتی فنڈز میں سے بھی انھیں حصہ دیا جائے گا۔
بجٹ پیش ہو چکے جس کے بعد اب پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اپوزیشن جماعتیں ایک مرتبہ پھر حکومت کے ساتھ دو ،دو ہاتھ کرنے کے لیے میدان میں نکلنے کے لیے تیار ہیں اور 4 جولائی کو سوات جلسہ سے اس کا آغاز کیا جا رہا ہے، مولانافضل الرحمٰن کی جماعت سوات جلسہ کو کامیاب بنانے کے لیے کوشاں ہے تاکہ طویل وقفہ کے بعد پی ڈی ایم کے پرچم تلے ہونے والا یہ جلسہ کامیاب ہوسکے۔سوات کے بعدکراچی اور پھر اسلام آباد میں بھی جلسوں کا انعقاد ہونا ہے جس کے لیے پی ڈی ایم جماعتیں تیار ہیں، تاہم صورت حال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے پاس کوئی واضح ڈائریکشن دکھائی نہیں دے رہی کہ جلسوں کے انعقاد سے وہ کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔
اگر جلسوں کے ذریعے حکومت کو کوئی نقصان ہونا ہوتا تو اب تک ہو چکا ہوتا تاہم ایسا نہ تو پہلے ہوا ہے اور نہ ہی اب ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور رہی بات لانگ مارچ یا اسمبلیوں سے استعفوں کی تو یہ مراحل طے کرنا اتنا آسان نہیں اس لیے پی ڈی ایم کی تحریک دوبارہ شروع ہونے کے باوجود فوری طور پر اس سے حکومت کوکسی قسم کا کوئی خطرہ دکھائی نہیں دے رہا۔
دوسری جانب مولانا فضل الرحمٰن نے اے این پی کے ساتھ ٹوٹے تاروں کو ایک مرتبہ پھر جوڑنے کی کوشش کی ہے جس کے لیے انہوں نے کسی اور کے ساتھ نہیں بلکہ اے این پی کے سینئر رہنما حاجی غلام احمد بلور کے ساتھ ملاقات کی اور انھیں خصوصی پیغام دیا تاکہ اے این پی کو پی ڈی ایم میں واپسی لایا جا سکے تاہم یہ کام بھی اب اتنا آسان نہیں کیونکہ اے این پی نے سوچ سمجھ کر پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کی اور پھر اب وہ کسی بھی قسم کا کوئی فیصلہ لینے سے پہلے پیپلزپارٹی کی طرف بھی دیکھے گی جو اپنے وضع کردہ لائن آف ایکشن پر رواں دواں ہے ۔
اگلے مالی سال کے بجٹ میں کئی ٹیکسز کی شرح میں کمی کی گئی ہے اور پھر خصوصی طور پر لینڈ ٹیکس اور پروفیشنل ٹیکس کا خاتمہ عوام کے لیے ریلیف کا باعث بنے گا جبکہ اس کے ساتھ ہی نئی گاڑیوں کی رجسٹریشن صرف ایک روپیہ تک محدود کرنے سے بھی ایک اچھا پیغام گیا ہے ، تاہم اب اصل امتحان یہ ہوگا کہ جو بجٹ دیا گیا ہے اسے سال بھر برقرار بھی رکھا جائے تاکہ مالی سال کے اختتام پر بھی معاملات اسی طرح اچھے رہ سکیں۔ آئندہ مالی سال کا بجٹ قابل تعریف تو ہے لیکن اس میں دو معاملات ایسے ہیں کہ جو بنیادی نوعیت کے حامل ہیں۔
وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے وقت چاروں صوبوں اور مرکز نے اعلان کیا تھا کہ وہ مجموعی قومی وسائل سے ملنے والے اپنے حصہ کا تین فیصد ان قبائلی اضلاع کے لیے دیں گے تاکہ وہاں ترقی کا عمل تیز تر ہو سکے اور یہ علاقہ جات بھی ملک کے دیگر حصوں کے برابر آسکیں تاہم تین سال ہو چکے لیکن صرف مرکز اور خیبرپختونخوا ہی اپنی کمٹمنٹ پوری کر رہا ہے۔
چونکہ مرکزاورخیبرپختونخوا دونوں ہی جگہوں پر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے اس لیے مرکز یہ کمٹمنٹ پوری کر رہا ہے، اگر صوبہ اور مرکز میں الگ جماعتوں کی حکومت ہوتی تو شاید ہی ایسا ہو پاتا اور جہاں تک بات رہی خیبرپختونخوا کی تو اسے تو یہ کٹمنٹ بہرکیف پوری کرنی ہے کیونکہ یہ قبائلی علاقہ جات اب نہ تو مرکز کے زیر انتظام ہیں اور نہ ہی کوئی الگ صوبہ بلکہ یہ خیبرپختونخوا میں شامل اور اس کا حصہ ہیں جس کی ضروریات اسے پوری کرنی ہی ہیں۔
تاہم اس صورت حال کے باوجود خیبرپختونخوا حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں وہ رقم اپنے بجٹ اعدادوشمار میں ظاہر کی ہے جو دیگر صوبوں کے ذمے این ایف سی کے تین فیصد کے حساب سے ان قبائلی اضلاع کے لیے واجب الادا ہے جو 34 ارب سے زائد بنتی ہے، ان میں 21 ارب پنجاب کے ذمے ہیں جہاں کسی اور کی نہیں بلکہ خود پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے لیکن پنجاب بھی یہ رقم دینے کے لیے تیار نہیں حالانکہ بزدار سرکار یہ کام اپنے طور پر بھی اچھا پیغام دینے کے لیے کر سکتی ہے اور وفاقی حکومت بھی ہدایات دیتے ہوئے یہ کام کرا سکتی ہے کیونکہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وزیراعظم عمران خان ہدایات جاری کریں اور پنجاب حکومت ان کی بات نہ مانے تاہم اس سلسلے میں تساہل برتا جا رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے اپنے بجٹ میں یہ رقم ظاہر کی ہے ، گو کہ یہ بھی سمجھا جا رہا ہے کہ کے پی حکومت نے یہ کام دیگر صوبوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے کیا ہے تاہم بقول صوبائی حکومت کے یہ کام دباؤ ڈالنے نہیں بلکہ یاد دہانی کے لیے کیا گیا ہے تاکہ دیگر صوبے یہ رقم ادا کریں ۔ تاہم خیبرپختونخوا حکومت کی مراد برآنے کی امیدیں نہایت ہی کم ہیں کیونکہ سندھ اور بلوچستان کی حکومتیں یہ رقم دینے کے لیے تیار نہیں ہونگی اور بالآخر یہ بوجھ کسی اور نے نہیں بلکہ مرکزی اور خیبرپختونخوا حکومت نے ہی اٹھانا ہوگا جبکہ دوسری جانب خیبرپختونخوا کی حکومت نے اگلے مالی سال کے بجٹ میں ضلعی حکومتوں کے لیے ترقیاتی فنڈز کاحصہ بھی کم کر دیا ہے۔
لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کے تحت اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت نے ترقیاتی فنڈز کا تیس فیصد حصہ ضلعی حکومتوں کے لیے مختص کیا تھا تاہم اب اگلے مالی سال سے یہ حصہ تیس سے کم کرتے ہوئے بیس فیصد کر دیا گیا ہے، اس بارے میں وزیر خزانہ کا موقف یہ ہے کہ چونکہ پہلے ضلعی حکومتیں سہ جہتی تھیں جن میں ضلع، تحصیل اور نچلی سطح پر ویلیج اور نیبر ہڈ کونسلیں ہوا کرتی تھیں تاہم اب یہ سیٹ اپ تین کی بجائے دو جہتی رہ گیا ہے کیونکہ نئے بلدیاتی نظام میں ضلعی نظام ختم ہوگیا ہے اس لیے ترقیاتی فنڈز کا حصہ بھی کم کرتے ہوئے بیس فیصد کر دیا گیا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ ضلعی حکومتیں اپنا تیس فیصد حصہ کسی بھی سال پورا استعمال نہیں کر پائیں جس کی وجہ سے یہ بات زیر غور تھی کہ ان کا حصہ کم کر دیا جائے۔
بجٹ پیش بھی ہوچکا اورپاس بھی ہوجائے گا تاہم بجٹ کے حوالے سے اہم بات یہ رہی کہ پارلیمنٹ اوردیگر تینوں صوبائی اسمبلیوں میں بجٹ پیش ہونے کے موقع پر انتہاء کی ہنگامہ آرائی ہوئی جس کی وجہ سے یقینی طور پر بدنامی ہی سب کے حصہ میں آئی ہے، تاہم خیبرپختونخوا اسمبلی میں ایسا کچھ نہیں ہوا اور بجٹ انتہائی پرامن ماحول میں پیش کیا گیا، یہاں پر بھی اپوزیشن کا احتجاج کرنے کا پروگرام تھا جس کے لیے اپوزیشن جماعتوں کی آپس میں مشاورت بھی جاری تھی تاہم وزیراعلیٰ خود اپوزیشن چیمبر گئے اور اپوزیشن کو یقین دہانی کرائی کہ ان کے تمام تر تحفظات دور کیے جائیں گے۔
اس لیے وہ احتجاج نہ کریں، سپیکر صوبائی اسمبلی مشتاق احمدغنی کا بھی اس سلسلے میں اہم کردار ہے جو انہوں نے حکومت و اپوزیشن کے درمیان پل کے طور پر ادا کیا اور اپوزیشن کو احتجاج کی راہ سے دور رکھا تاہم بجٹ انتہائی پرامن حالات میں پیش ہونے کا اصل کریڈٹ اگر کسی کو جاتا ہے تو وہ اورکوئی نہیں بلکہ خود اپوزیشن ہے کیونکہ اگر اپوزیشن چاہتی تو وہ وزیراعلیٰ اور سپیکر کی استدعا مسترد کرتے ہوئے اپنے ایجنڈے کے مطابق احتجاج کرتے ہوئے خوب ،خوب خبر بناتی لیکن اپوزیشن نے مفاہمت کی راہ اپناتے ہوئے یقینی طور پر مثبت پیغام دیا ہے ۔
چونکہ اپوزیشن نے بجٹ کے موقع پر مفاہمت کی راہ لی ہے اس لیے اب وہ بھی بجاطور پر یہ توقع کر رہے ہیں کہ بجٹ کے حوالے سے ان کی تجاویزکو خوب سکون اور اطمینان کے ساتھ نہ صرف یہ کہ سنا جائے گا بلکہ ان پر عمل درآمد بھی کیا جائے گا اور ترقیاتی فنڈز میں سے بھی انھیں حصہ دیا جائے گا۔
بجٹ پیش ہو چکے جس کے بعد اب پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اپوزیشن جماعتیں ایک مرتبہ پھر حکومت کے ساتھ دو ،دو ہاتھ کرنے کے لیے میدان میں نکلنے کے لیے تیار ہیں اور 4 جولائی کو سوات جلسہ سے اس کا آغاز کیا جا رہا ہے، مولانافضل الرحمٰن کی جماعت سوات جلسہ کو کامیاب بنانے کے لیے کوشاں ہے تاکہ طویل وقفہ کے بعد پی ڈی ایم کے پرچم تلے ہونے والا یہ جلسہ کامیاب ہوسکے۔سوات کے بعدکراچی اور پھر اسلام آباد میں بھی جلسوں کا انعقاد ہونا ہے جس کے لیے پی ڈی ایم جماعتیں تیار ہیں، تاہم صورت حال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے پاس کوئی واضح ڈائریکشن دکھائی نہیں دے رہی کہ جلسوں کے انعقاد سے وہ کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔
اگر جلسوں کے ذریعے حکومت کو کوئی نقصان ہونا ہوتا تو اب تک ہو چکا ہوتا تاہم ایسا نہ تو پہلے ہوا ہے اور نہ ہی اب ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور رہی بات لانگ مارچ یا اسمبلیوں سے استعفوں کی تو یہ مراحل طے کرنا اتنا آسان نہیں اس لیے پی ڈی ایم کی تحریک دوبارہ شروع ہونے کے باوجود فوری طور پر اس سے حکومت کوکسی قسم کا کوئی خطرہ دکھائی نہیں دے رہا۔
دوسری جانب مولانا فضل الرحمٰن نے اے این پی کے ساتھ ٹوٹے تاروں کو ایک مرتبہ پھر جوڑنے کی کوشش کی ہے جس کے لیے انہوں نے کسی اور کے ساتھ نہیں بلکہ اے این پی کے سینئر رہنما حاجی غلام احمد بلور کے ساتھ ملاقات کی اور انھیں خصوصی پیغام دیا تاکہ اے این پی کو پی ڈی ایم میں واپسی لایا جا سکے تاہم یہ کام بھی اب اتنا آسان نہیں کیونکہ اے این پی نے سوچ سمجھ کر پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کی اور پھر اب وہ کسی بھی قسم کا کوئی فیصلہ لینے سے پہلے پیپلزپارٹی کی طرف بھی دیکھے گی جو اپنے وضع کردہ لائن آف ایکشن پر رواں دواں ہے ۔