لاپتہ افراد کیساب وزیر اعظم وزیر اعلیٰ پختونخوا کو بلائیں گےسپریم کورٹ
حکومت بتائے وزارت دفاع اس کی باس ہے یا ماتحت؟ حراستی مرکز سے بندے فوج لے گئی، ہمارے پاس بندوق نہیں قانون ہے،جسٹس جواد
سپریم کورٹ نے ملاکنڈ حراستی مرکز سے اٹھائے گئے 35 قیدیوں کے بارے میں وزارت دفاع کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر10دسمبرکے حکم پر عمل نہ ہوا تو وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سے براہ راست وضاحت طلب کی جا سکتی ہے۔
جسٹس جواد خواجہ کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ آئے روز دہشتگردی کے واقعات ہو رہے ہیں جن کا تعلق لاپتہ افراد کی عدم بازیابی سے ہے، سرکار ہی جب قانون کی پابند نہ ہو تو اس طرح کے واقعات تو ہوں گے، اٹارنی جنرل نے کہاکہ 35لاپتہ افراد کے بارے میں تفصیلی رپورٹ جمع کرا دی ہے، جسٹس جواد نے کہاکہ اس پر ہمیں اعتراض ہے، صرف 14 افراد کا معلوم ہو سکا، باقی میں سے آپکے مطابق کچھ مر گئے، کچھ افغانستان میں ہیں، یہ باتیں درست ہیں یا نہیں ہمیں معلوم نہیں،حکومت انکی بازیابی میں سنجیدہ ہی نہیں۔ ہم نے فوج سے نہیں حکومت سے پوچھنا ہے، فصیح اللہ کے ماں باپ ملاقات کی حسرت دل میں لیے دنیا سے چلے گئے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت بھی وفاق کی طرح ہی اس معاملے کو لے رہی ہے ، اب عدالت اپنے اختیارات استعمال کرے گی اور حکومت سے پوچھے گی کہ وہ وزارت دفاع کے ماتحت ہیں یا باس، ایک ہی طریقہ بچا ہے کہ وفاق اور خیبر پختونخوا کے چیف ایگزیکٹوز سے براہ راست پوچھیں کہ ان افراد کو لے جانے والوں کیخلاف کیا ایکشن ہوا' ہمارے آرڈر پر عمل نہ ہوا تو توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔
آن لائن کے مطابق سپریم کورٹ نے کہاعدالتی حکم پر عمل نہ ہوا تو وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ پختونخوا کو طلب کرینگے، ہمارے پاس بندوق یا چھڑی نہیں مگر قانون ہے، این این آئی کے مطابق جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے فوج سے نہیں،وزیراعظم اور وزیراعلی خیبرپختونخوا سے پوچھیں گے' لاپتہ افراد کو بازیاب کرانا وزیر اعظم کی ذمہ داری ہے' ہر صورت آئین پر عمل کروائیں گے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 27 جنوری سے شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں جبری حراست سے متعلق قانون کا مسودہ منظوری کیلئے پیش کر دیا جائیگا، عدالت نے مزید سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ حکومت سے ہدایات لیکر آگاہ کریں اس کے بعد مزید کارروائی کا فیصلہ کریں گے۔جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے لاپتہ حافظ محمد جمیل اور حماد عامرکیس میں وزارت دفاع کے ڈائریکٹر لیگل محمد عرفان کو 3 فروری کو وضاحت کے ساتھ طلب کیا ہے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ حکومت احساس کرے، کہیں یہ الزام ان پر نہ لگ جائے، زیادہ دیر یہ ٹال مٹول کی پالیسی نہیں چلے گی۔
جسٹس جواد خواجہ کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ آئے روز دہشتگردی کے واقعات ہو رہے ہیں جن کا تعلق لاپتہ افراد کی عدم بازیابی سے ہے، سرکار ہی جب قانون کی پابند نہ ہو تو اس طرح کے واقعات تو ہوں گے، اٹارنی جنرل نے کہاکہ 35لاپتہ افراد کے بارے میں تفصیلی رپورٹ جمع کرا دی ہے، جسٹس جواد نے کہاکہ اس پر ہمیں اعتراض ہے، صرف 14 افراد کا معلوم ہو سکا، باقی میں سے آپکے مطابق کچھ مر گئے، کچھ افغانستان میں ہیں، یہ باتیں درست ہیں یا نہیں ہمیں معلوم نہیں،حکومت انکی بازیابی میں سنجیدہ ہی نہیں۔ ہم نے فوج سے نہیں حکومت سے پوچھنا ہے، فصیح اللہ کے ماں باپ ملاقات کی حسرت دل میں لیے دنیا سے چلے گئے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت بھی وفاق کی طرح ہی اس معاملے کو لے رہی ہے ، اب عدالت اپنے اختیارات استعمال کرے گی اور حکومت سے پوچھے گی کہ وہ وزارت دفاع کے ماتحت ہیں یا باس، ایک ہی طریقہ بچا ہے کہ وفاق اور خیبر پختونخوا کے چیف ایگزیکٹوز سے براہ راست پوچھیں کہ ان افراد کو لے جانے والوں کیخلاف کیا ایکشن ہوا' ہمارے آرڈر پر عمل نہ ہوا تو توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔
آن لائن کے مطابق سپریم کورٹ نے کہاعدالتی حکم پر عمل نہ ہوا تو وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ پختونخوا کو طلب کرینگے، ہمارے پاس بندوق یا چھڑی نہیں مگر قانون ہے، این این آئی کے مطابق جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے فوج سے نہیں،وزیراعظم اور وزیراعلی خیبرپختونخوا سے پوچھیں گے' لاپتہ افراد کو بازیاب کرانا وزیر اعظم کی ذمہ داری ہے' ہر صورت آئین پر عمل کروائیں گے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 27 جنوری سے شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں جبری حراست سے متعلق قانون کا مسودہ منظوری کیلئے پیش کر دیا جائیگا، عدالت نے مزید سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ حکومت سے ہدایات لیکر آگاہ کریں اس کے بعد مزید کارروائی کا فیصلہ کریں گے۔جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے لاپتہ حافظ محمد جمیل اور حماد عامرکیس میں وزارت دفاع کے ڈائریکٹر لیگل محمد عرفان کو 3 فروری کو وضاحت کے ساتھ طلب کیا ہے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ حکومت احساس کرے، کہیں یہ الزام ان پر نہ لگ جائے، زیادہ دیر یہ ٹال مٹول کی پالیسی نہیں چلے گی۔