ماحول کو پلاسٹک کے جن سے بچائیے
ہمیں بچپن کے وہ دن اب تک یاد ہیں جب مہمانوں کی آمد پر ہم کولا ڈرنک کی شیشے والی بوتل دکان دار کے پاس لینے جاتے تھے اور وہ کہتا تھا کہ بقایا پیسے جب بوتل واپس لاؤ گے تب ملیں گے۔ اکثر دکاندار رقم پیشگی لے کر بوتل دیا کرتے تھے اور بوتل واپس ملنے پر رقم واپس کیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں بوتل دس روپے کی اور اس کی پیشگی پانچ روپے تک ہوا کرتی تھی۔ مگر جیسے جیسے وقت بدلتا گیا زندگی کے اطوار بھی بدلتے گئے۔
شروع شروع میں جب پلاسٹک کی بوتلیں آنا شروع ہوئیں تو ہم ان کو جمع کیا کرتے تھے اور گھر کے دیگر کاموں میں بروئے کار لایا کرتے تھے، مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ ہونے لگا اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ کچرے میں سب سے نمایاں پلاسٹک کی بوتلیں ہی نظر آنے لگیں۔ بھانت بھانت کی پلاسٹک کی بوتلیں، کسی میں کیچپ ہوتا تھا تو کسی میں شربت، تو کسی میں پانی۔ ابتدا میں تو ان خالی بوتلوں کو کباڑ والا بھی نہیں خریدتا تھا، اس لیے یہ کچرے میں اضافے کا باعث بننے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے کراچی کو کچرے کا ڈھیر بنانے میں اہم کردار ادا کرنے لگیں۔ اسی کچرے کے باعث لوگ کراچی کو کچراچی بھی کہنے لگے، جو باعث تاسف ہے۔
کراچی میں لاکھوں ٹن کچرا روزانہ کی بنیاد پر نکلتا ہے۔ اور کچرے میں بھی سب سے خطرناک پلاسٹک کا کچرا مانا جاتا ہے۔ پلاسٹک کے کچرے کو ''عالمی خطرہ'' قرار دیا جاچکا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق ہر منٹ میں 15 ٹن پلاسٹک دنیا کے سمندروں میں پھینک دیا جاتا ہے، جو سمندری حیات کےلیے خطرے کا باعث ہے اور اسی وجہ سے کئی قسم کی سمندری حیات ناپید ہوتی جارہی ہیں۔
بڑھتے ہوئے اس خطرے کی وجہ سے عالمی برادری پلاسٹک کی ری سائیکلنگ یا دوبارہ سے قابل استعمال بنانے کے منصوبوں کی حوصلہ افزائی کررہی ہے۔ یورپی کمیشن نے پلاسٹک سے بنی بوتلوں کو ری سائیکلنگ کی شرح 90 فیصد تک کرنے کےلیے 2029 کی تاریخ مقرر کی ہے، جبکہ ناروے میں پلاسٹک کی بوتلوں کی ری سائیکلنگ کی شرح 97 فیصد ہے۔ یعنی ناروے مقررہ تاریخ سے 10 سال قبل یہ ہدف حاصل کرچکا ہے۔ کیونکہ ناروے میں سافٹ ڈرنک خریدنے کے بعد بوتل واپس وینڈنگ میشن میں ڈالنے پر اس عمل کی حوصلہ افزائی کےلیے لاٹری کا ٹکٹ بطور انعام صارف کو دیا جاتا ہے۔ ناروے کے بعد فرانس اور برطانیہ کا نمبر ہے، جہاں 60 فیصد پلاسٹک بوتلیں ری سائیکل ہوتی ہیں۔ جبکہ امریکا کی کچھ ریاستوں میں پلاسٹک کی خالی بوتلیں اور سافٹ ڈرنکس کے کینز مشین میں واپس جمع کرانے پر پیسے ملتے ہیں۔ امریکا میں یہ نظام 1970 کی دہائی میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اس وقت امریکا کی پچاس میں سے دس ریاستوں میں پلاسٹک کی بوتلوں کے حوالے سے قوانین موجود ہیں، جس میں عوام کو خالی کینز اور پلاسٹک کی بوتلیں واپس کرنے پر صارف کو پانچ سے دس امریکی سینٹ عدد کے حساب سے دیے جاتے ہیں۔ امریکا کی کئی ریاستوں میں پلاسٹک کی بوتل اور کینز واپس کرنے کا تناسب نوے فیصد تک ہے اور جن کمپنیز کی بوتلیں اور کینز ری سائیکل مشین تک نہیں پہنچتے، تو وہ پیسہ کمپنی اس ریاست میں ہونے والے صفائی ستھرائی کے کاموں میں لگاتی ہے۔
بات یہاں یہ سمجھنے کی ہے کہ جو پیسے صارف کو واپس کیے جارہے ہیں وہ پہلے ہی مشروب کے ساتھ بوتل کی مد میں وصول کرلیے گئے تھے۔ جیسا کہ نوے کی دہائی میں ریگلولر ڈرنک جو کانچ کی بوتل میں ملتی تھی وہ سستی، اور ڈسپوزل ڈرنک مہنگی ہوا کرتی تھی۔ اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ نجی کمپنیاں شہر کی صفائی میں اپنا حصہ ملا رہی ہیں۔ یورپ کے بعد دوسرے ممالک نے بھی اس ضمن میں کام کرنا شروع کردیا ہے۔
پاکستان میں بڑا منافع کمانے والی پانی و مشروبات کی کمپنیاں ہیں، جو صرف اشتہارات پر کروڑوں روپے سالانہ خرچ کرتی ہیں۔ مگر حکومت کے ساتھ عوامی مفادات کے منصوبوں میں ان کا اشتراک اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ اگر ان مشروبات بنانے والی کمپنیوں اور مینوفیکچررز کو پابند کیا جائے کہ وہ اس طرح کے منصوبے کا حصہ بنیں، کیونکہ بوتل کی قیمت جو وہ مشروب کے ساتھ وصول کرچکے ہوتے ہیں اگر پلاسٹک ری سائیکل کےلیے واپس کرتے ہیں تو آگے چل کر اس میں ان ہی کا فائدہ ہوگا اور ان کو پلاسٹک بنانے کا خام مال کم نرخوں پر دستیاب ہوگا۔
مشروبات بنانے والی ایک کمپنی کی طرف سے اپنی نوعیت کا ایک منفرد پروگرام 2019 میں ترتیب دیا گیا تھا، جو ایک معروف مشروب کمپنی اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کے اشتراک سے تھا۔ جس میں عوام سے خالی بوتلیں لے کر انہیں انعامات دیے گئے تھے، جس سے خالی بوتلوں کی ری سائیکلنگ کو فروغ دیا گیا تھا اور عوام نے بڑی تعداد میں خالی بوتلیں اس ''پلاسٹک ہٹ'' میں لاکر جمع کروائی تھیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ہنگامی بنیادوں پر اس منصوبے پر کام کرے اور تمام مشروبات بنانے والی کمپنیوں اور مینوفیکچرز کو اس نظام کا حصہ بنائے اور سردست پاکستان کے بڑے شہروں میں شاپنگ مالز اور سپر اسٹورز کے پاس ''ریورس وینڈنگ مشین'' یا پھر ''پلاسٹک ہٹ'' طرز کے کیمپپ لگائے جائیں جہاں پر لوگ ہفتے میں ایک بار آکر اپنی خالی بوتلوں اور کینز کے عوض دوسری اشیا لے سکیں یا پھر کچھ نقد رقم دی جائے۔ اگر اس نظام کو ایک منظم طریقے سے نافذ کیا جائے تو ہم ماحول کے بچاؤ اور اس کی بحالی کےلیے معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پلاسٹک کی بوتلوں کی وجہ سے زہریلے کیمیکل مٹی میں داخل ہوجاتے ہیں، جو زمین اور پانی کو آلودہ کردیتے ہیں۔ پلاسٹک کی بوتلوں کو ری سائیکل کرنا ایک بہترین عمل ہے کیونکہ پلاسٹک کے ذرات ہزاروں سال تک زمین میں رہ سکتے ہیں۔ پلاسٹک کی بوتلوں کی ری سائیکلنگ کی وجہ سے لینڈ فلز میں کچرا کم ہوگا، قدرتی وسائل کا تحفظ اور گرین ہاؤس گیس کا اخراج کم ہوپائے گا، جبکہ توانائی کے تحفظ اور آلودگی میں بھی کمی واقع ہوگی۔ ری سائیکلنگ کا عمل سڑکوں اور گلی محلوں میں بھی گندگی کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا، جبکہ فضائی آلودگی میں کمی آئے گی۔ اگر اس طرح کے منصوبوں میں نجی کمپنیاں بھی اپنی ذمے داری سمجھیں اور عوام ساتھ دیں تو ہم سب مل کر پاکستان میں ماحول کی آلودگی کو ختم کرسکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔