ملتان کے کرکٹ سلطانز
نمبرز کی مدد سے میدان میں موجود کھلاڑیوں کو پیغام بھیجنا بہت منفرد تجربہ تھا۔
RAWALPINDI:
''میرا ٹائم کب آئے گا، کیا میں یوں ہی بس ساتھی کھلاڑیوں کو پانی پلاتے رہوں گا''
گذشتہ برس کی بات ہے پی ایس ایل5 کے دوران ایک کرکٹر باؤنڈری لائن کے باہر بیٹھا یہی سوچ رہا تھا مگر کہتے ہیں کہ قسمت اچانک ہی پلٹا کھاتی ہے، وہ کھلاڑی جو 2020 میں میدان کے اندر نہیں جا سکتا تھا، اب 2021میں فاتح ٹرافی تھام کر تصاویر بنوا رہا ہے،آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میرا اشارہ محمد رضوان کی جانب ہے، کراچی کنگز نے ان کی قدر نہیں کی،پانچویں ایڈیشن کی ہی مثال لے لیں، انھیں صرف 2 میچز کھلائے، ایک میں ہی بیٹنگ آئی اور صفر پر ناٹ آؤٹ واپس گئے، اب پی ایس ایل 6میں وہی رضوان ملتان سلطانز کے کپتان بن گئے۔
500 رنز بنا کر تمام بیٹسمینوں میں دوسرے نمبر پر رہے اور20 شکار کر کے نہ صرف ریکارڈ بنایا بلکہ لیگ کے بہترین وکٹ کیپر بھی قرار پائے، حالیہ ایونٹ سے قبل جب شان مسعود کو ملتان سلطانز نے قیادت سے ہٹا کر محمد رضوان کو ذمہ داری سونپی تو اس فیصلے پر خاصی تنقید بھی ہوئی لیکن چونکہ وہ پاکستان ٹیم کیلیے بہترین پرفارم کر رہے تھے اس لیے یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی، ٹیم کراچی میں ابتدائی5میں سے 4 میچز ہار کر فیورٹس کی دوڑ سے باہر ہو گئی لیکن ابوظبی پہنچتے ہی حالات بدل گئے، وہی ٹیم اب پہلی بار چیمپئن بن چکی،ملتان سلطانز کی قسمت کیسے پلٹی یہ جاننے کیلیے تھوڑا ماضی میں جانا پڑے گا، ہم لوگ تو میدان میں کارکردگی دیکھ کر کھلاڑیوں کو سراہتے ہیں۔
پس منظر میں کیا کام ہوا وہ کم لوگوں کو ہی پتا ہوتا ہے، فرنچائز کے 30 فیصد شیئرز علی ترین اور باقی چچا عالمگیر ترین کے پاس رہے، علی کے والد جہانگیر ترین معروف سیاستدان ہیں، بیٹے کو بھی ایک دن سیاست کے اکھاڑے میں اترنا ہے، علی کا پروفائل بنانے اور نوجوانوں میں مقبول کرنے کیلیے کرکٹ کا سہارا لیا گیا،مگر وہ ذاتی تشہیر میں زیادہ پڑ گئے۔
ٹیم کو چلانے میں مسائل ہونے لگے تو چچا جان نے ایک دن بھتیجے سے کہہ دیا کہ بیٹا تم ملتان سلطانز کو چھوڑ دو ہم اسے سنبھال لیں گے، یوں علی ترین فرنچائز کے معاملات سے الگ ہوگئے، اس کی پریس ریلیز بھی آئی،عین وقت پر محمد رضوان کو قیادت سونپنے کا فیصلہ سامنے آیا جو بعد میں ماسٹر اسٹروک ثابت ہوا،کراچی میں ابتدائی ناکامیوں کا ٹیم نے زیادہ اثر نہ لیا، شاہد آفریدی انجری کے سبب یو اے ای نہ جا سکے،اس سے بھی کوئی مسئلہ نہ ہوا اور سلطالز فتوحات کی راہ پر گامزن ہو گئے، ایمرجنگ کھلاڑی بعض ٹیموں کی مجبوری بھی ہوتا ہے۔
زیادہ آپشنز دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ایسے پلیئرز بھی لینے پڑ جاتے ہیں جو ٹاپ لیول پر پرفارم کرنے کیلیے تیار نہیں ہوتے، قوائد کی رو سے انھیں کھلانا بھی پڑتا ہے، جیسے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور لاہور قلندرز کو بھی ایمرجنگ کرکٹرز کے اچھا پرفارم نہ کرنے کا نقصان ہوا، مگر سلطانز نے یہاں بھی زبردست انتخاب کیا۔
بڑے بڑے بولرز کی موجودگی کے باوجود پی ایس ایل 6میں سب سے زیادہ 20 وکٹیں ایک ایمرجنگ کرکٹر شاہنواز دھانی نے ہی لیں، اس پر انھیں ٹورنامنٹ کا بہترین بولر بھی قرار دیا گیا، انھوں نے ٹیم میں ایک نئی جان ڈال دی، فیلڈ میں ان کا منفرد انداز نہ صرف ساتھی کھلاڑیوں بلکہ شائقین کو بھی بھا گیا،جس ٹیم کو ایمرجنگ پلیئر میچز جتوانے لگے اس کی فتح کا اور بڑا اشارہ کیا چاہیے۔ اسی طرح صہیب مقصود نے پی ایس ایل 4 کے 5میچز میں 17 کی اوسط سے 69 رنز بنائے تھے جبکہ گذشتہ برس کے واحد میچ میں 16 رنز پر وکٹ گنوا دی تھی۔
اس بار 47 کی اوسط سے 428 رنز بنا کر ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی اور بیٹسمین کے ایوارڈز لے اڑے، صہیب کا یہ اپ گریڈڈ ورڑن بہترین ہے، اعتماد سے بھرپور بیٹنگ اور آتے ہی گیند کو شاندار انداز سے مڈل کرنا زبردست فارم کی گواہی دیتا ہے، دلچسپ بلکہ افسوسناک بات یہ ہے کہ پی ایس ایل 6کے بیسٹ بولر دھانی اور بیٹسمین صہیب کو انگلینڈ کیلیے قومی ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ میں شامل ہی نہیں کیا گیا تھا، وہ تو آؤٹ آف فارم حیدر علی نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارتے ہوئے بائیو ببل توڑا جس کی وجہ سے اسکواڈ سے باہر ہوگئے یوں صہیب کو موقع مل گیا، دھانی تو صرف ٹیسٹ اسکواڈ میں شامل ہو کر ویسٹ انڈیز جائیں گے۔
اس سے ہمارے قومی سلیکٹرز کا ''ویژن'' واضح ہوتا ہے، بورڈ نے پہلے ہی50 سے زائد افراد کے برطانوی ویزے لگوائے ہوئے تھے، ایسے میں ابوظبی میں پی ایس ایل شروع ہونے سے پہلے اسکواڈ کا انتخاب کیوں کیا؟ کیا بعض منظور نظر کرکٹرز کی ناکامی کا ڈر تھا کہ وہ کہیں لیگ میں ایکسپوز ہوگئے تو ٹیم میں لینا مشکل ہوگا، خیر شاید دھانی کی قسمت بھی چمک جائے فی الحال تو انھیں اپنی ٹیم کے ساتھ فتح کا جشن منانا چاہیے، کوچز اینڈی فلاور، مشتاق احمد اور اظہر محمود نے بھی کھلاڑیوں پر بہت محنت کی جو میدان میں نظر بھی آئی، ٹریننگ میں کچھ غیرروایتی انداز بھی اپنائے گئے۔
نمبرز کی مدد سے میدان میں موجود کھلاڑیوں کو پیغام بھیجنا بہت منفرد تجربہ تھا، خوشدل شاہ اور شان مسعود نے بھی بعض میچز میں بہتر بیٹنگ کی،رلی روسو کا بیٹ اہم موقع پر فائنل میں چلا، بولنگ میں چند میچز کے دوران سہیل تنویر اور عمران طاہر نے بھی بہتر کارکردگی سے موجودگی کا احساس دلایا، موزاربانی اور عمران خان کی بولنگ بھی اچھی رہی، ٹورنامنٹ کا بہترین کھلاڑی اور بیسٹ بیٹسمین، بولر، وکٹ کیپر، بہترین ایمرجنگ کرکٹر جس ٹیم کے کھلاڑی قرار پائیں ظاہر ہے وہ چیمپئن ہی ہو گی۔
رضوان بہت ہی مذہبی اور بناوٹ سے پاک سادہ انسان ہیں، ان میں عاجزی بہت ہے، وہ تکبر سے دور رہتے اور ساتھیوں کی بہت عزت کرتے ہیں، شاید اسی لیے اللہ انھیں نواز رہا ہے، ملتان سلطانز نے ابھی پہلا ٹائٹل جیتا ہے، اگر ٹیم اسی ٹریک پر برقرار رہی تو آئندہ بھی مزید کامیابیاں سمیٹے گی۔
(نوٹ:آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
''میرا ٹائم کب آئے گا، کیا میں یوں ہی بس ساتھی کھلاڑیوں کو پانی پلاتے رہوں گا''
گذشتہ برس کی بات ہے پی ایس ایل5 کے دوران ایک کرکٹر باؤنڈری لائن کے باہر بیٹھا یہی سوچ رہا تھا مگر کہتے ہیں کہ قسمت اچانک ہی پلٹا کھاتی ہے، وہ کھلاڑی جو 2020 میں میدان کے اندر نہیں جا سکتا تھا، اب 2021میں فاتح ٹرافی تھام کر تصاویر بنوا رہا ہے،آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میرا اشارہ محمد رضوان کی جانب ہے، کراچی کنگز نے ان کی قدر نہیں کی،پانچویں ایڈیشن کی ہی مثال لے لیں، انھیں صرف 2 میچز کھلائے، ایک میں ہی بیٹنگ آئی اور صفر پر ناٹ آؤٹ واپس گئے، اب پی ایس ایل 6میں وہی رضوان ملتان سلطانز کے کپتان بن گئے۔
500 رنز بنا کر تمام بیٹسمینوں میں دوسرے نمبر پر رہے اور20 شکار کر کے نہ صرف ریکارڈ بنایا بلکہ لیگ کے بہترین وکٹ کیپر بھی قرار پائے، حالیہ ایونٹ سے قبل جب شان مسعود کو ملتان سلطانز نے قیادت سے ہٹا کر محمد رضوان کو ذمہ داری سونپی تو اس فیصلے پر خاصی تنقید بھی ہوئی لیکن چونکہ وہ پاکستان ٹیم کیلیے بہترین پرفارم کر رہے تھے اس لیے یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی، ٹیم کراچی میں ابتدائی5میں سے 4 میچز ہار کر فیورٹس کی دوڑ سے باہر ہو گئی لیکن ابوظبی پہنچتے ہی حالات بدل گئے، وہی ٹیم اب پہلی بار چیمپئن بن چکی،ملتان سلطانز کی قسمت کیسے پلٹی یہ جاننے کیلیے تھوڑا ماضی میں جانا پڑے گا، ہم لوگ تو میدان میں کارکردگی دیکھ کر کھلاڑیوں کو سراہتے ہیں۔
پس منظر میں کیا کام ہوا وہ کم لوگوں کو ہی پتا ہوتا ہے، فرنچائز کے 30 فیصد شیئرز علی ترین اور باقی چچا عالمگیر ترین کے پاس رہے، علی کے والد جہانگیر ترین معروف سیاستدان ہیں، بیٹے کو بھی ایک دن سیاست کے اکھاڑے میں اترنا ہے، علی کا پروفائل بنانے اور نوجوانوں میں مقبول کرنے کیلیے کرکٹ کا سہارا لیا گیا،مگر وہ ذاتی تشہیر میں زیادہ پڑ گئے۔
ٹیم کو چلانے میں مسائل ہونے لگے تو چچا جان نے ایک دن بھتیجے سے کہہ دیا کہ بیٹا تم ملتان سلطانز کو چھوڑ دو ہم اسے سنبھال لیں گے، یوں علی ترین فرنچائز کے معاملات سے الگ ہوگئے، اس کی پریس ریلیز بھی آئی،عین وقت پر محمد رضوان کو قیادت سونپنے کا فیصلہ سامنے آیا جو بعد میں ماسٹر اسٹروک ثابت ہوا،کراچی میں ابتدائی ناکامیوں کا ٹیم نے زیادہ اثر نہ لیا، شاہد آفریدی انجری کے سبب یو اے ای نہ جا سکے،اس سے بھی کوئی مسئلہ نہ ہوا اور سلطالز فتوحات کی راہ پر گامزن ہو گئے، ایمرجنگ کھلاڑی بعض ٹیموں کی مجبوری بھی ہوتا ہے۔
زیادہ آپشنز دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ایسے پلیئرز بھی لینے پڑ جاتے ہیں جو ٹاپ لیول پر پرفارم کرنے کیلیے تیار نہیں ہوتے، قوائد کی رو سے انھیں کھلانا بھی پڑتا ہے، جیسے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور لاہور قلندرز کو بھی ایمرجنگ کرکٹرز کے اچھا پرفارم نہ کرنے کا نقصان ہوا، مگر سلطانز نے یہاں بھی زبردست انتخاب کیا۔
بڑے بڑے بولرز کی موجودگی کے باوجود پی ایس ایل 6میں سب سے زیادہ 20 وکٹیں ایک ایمرجنگ کرکٹر شاہنواز دھانی نے ہی لیں، اس پر انھیں ٹورنامنٹ کا بہترین بولر بھی قرار دیا گیا، انھوں نے ٹیم میں ایک نئی جان ڈال دی، فیلڈ میں ان کا منفرد انداز نہ صرف ساتھی کھلاڑیوں بلکہ شائقین کو بھی بھا گیا،جس ٹیم کو ایمرجنگ پلیئر میچز جتوانے لگے اس کی فتح کا اور بڑا اشارہ کیا چاہیے۔ اسی طرح صہیب مقصود نے پی ایس ایل 4 کے 5میچز میں 17 کی اوسط سے 69 رنز بنائے تھے جبکہ گذشتہ برس کے واحد میچ میں 16 رنز پر وکٹ گنوا دی تھی۔
اس بار 47 کی اوسط سے 428 رنز بنا کر ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی اور بیٹسمین کے ایوارڈز لے اڑے، صہیب کا یہ اپ گریڈڈ ورڑن بہترین ہے، اعتماد سے بھرپور بیٹنگ اور آتے ہی گیند کو شاندار انداز سے مڈل کرنا زبردست فارم کی گواہی دیتا ہے، دلچسپ بلکہ افسوسناک بات یہ ہے کہ پی ایس ایل 6کے بیسٹ بولر دھانی اور بیٹسمین صہیب کو انگلینڈ کیلیے قومی ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ میں شامل ہی نہیں کیا گیا تھا، وہ تو آؤٹ آف فارم حیدر علی نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارتے ہوئے بائیو ببل توڑا جس کی وجہ سے اسکواڈ سے باہر ہوگئے یوں صہیب کو موقع مل گیا، دھانی تو صرف ٹیسٹ اسکواڈ میں شامل ہو کر ویسٹ انڈیز جائیں گے۔
اس سے ہمارے قومی سلیکٹرز کا ''ویژن'' واضح ہوتا ہے، بورڈ نے پہلے ہی50 سے زائد افراد کے برطانوی ویزے لگوائے ہوئے تھے، ایسے میں ابوظبی میں پی ایس ایل شروع ہونے سے پہلے اسکواڈ کا انتخاب کیوں کیا؟ کیا بعض منظور نظر کرکٹرز کی ناکامی کا ڈر تھا کہ وہ کہیں لیگ میں ایکسپوز ہوگئے تو ٹیم میں لینا مشکل ہوگا، خیر شاید دھانی کی قسمت بھی چمک جائے فی الحال تو انھیں اپنی ٹیم کے ساتھ فتح کا جشن منانا چاہیے، کوچز اینڈی فلاور، مشتاق احمد اور اظہر محمود نے بھی کھلاڑیوں پر بہت محنت کی جو میدان میں نظر بھی آئی، ٹریننگ میں کچھ غیرروایتی انداز بھی اپنائے گئے۔
نمبرز کی مدد سے میدان میں موجود کھلاڑیوں کو پیغام بھیجنا بہت منفرد تجربہ تھا، خوشدل شاہ اور شان مسعود نے بھی بعض میچز میں بہتر بیٹنگ کی،رلی روسو کا بیٹ اہم موقع پر فائنل میں چلا، بولنگ میں چند میچز کے دوران سہیل تنویر اور عمران طاہر نے بھی بہتر کارکردگی سے موجودگی کا احساس دلایا، موزاربانی اور عمران خان کی بولنگ بھی اچھی رہی، ٹورنامنٹ کا بہترین کھلاڑی اور بیسٹ بیٹسمین، بولر، وکٹ کیپر، بہترین ایمرجنگ کرکٹر جس ٹیم کے کھلاڑی قرار پائیں ظاہر ہے وہ چیمپئن ہی ہو گی۔
رضوان بہت ہی مذہبی اور بناوٹ سے پاک سادہ انسان ہیں، ان میں عاجزی بہت ہے، وہ تکبر سے دور رہتے اور ساتھیوں کی بہت عزت کرتے ہیں، شاید اسی لیے اللہ انھیں نواز رہا ہے، ملتان سلطانز نے ابھی پہلا ٹائٹل جیتا ہے، اگر ٹیم اسی ٹریک پر برقرار رہی تو آئندہ بھی مزید کامیابیاں سمیٹے گی۔
(نوٹ:آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)