پاکستان کیا تم وہ سب بھول گئے ہو جو مشرف نے تمہارے لئے کیا
12 اکتوبر 1999 نیویارک شہر، جہاں میں گریجویشن کا طالب علم تھا، میں ایک عام سا دن تھا۔ مجھے ذرا بھی احساس نہیں تھا۔۔۔
12 اکتوبر 1999 نیویارک شہر، جہاں میں گریجویشن کا طالب علم تھا، میں ایک عام سا دن تھا۔ مجھے ذرا بھی احساس نہیں تھا کہ یہ دن پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ متنازعہ دنوں میں سے ایک کے طور پر گزرے گا۔
یہ وہ دن تھا جب پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن ( پی آئی اے) کی پرواز پی کے 805 کو سری لنکا سے واپسی پر پاکستان میں اترنے کے حقوق سے محروم کردیا گیا تھا۔ کم ایندھن کی وجہ سے پاکستانی حدود کے باہر جانے کا مطلب کمرشل ایئرلائنر کا مسافروں کے ساتھ حادثے کا شکار ہونا ہو سکتا تھا۔ ان مسافروں کے درمیان جنرل پرویز مشرف، یعنی ایک ایسا آدمی جو ملک کا پہلا چیف ایگزیکٹو بننے والا تھا اور اوسط پاکستانی کی زندگی میں کچھ مثبت سماجی تبدیلیاں لانے والا تھا، بھی سوار تھے۔
اپنی کتاب ہائی جیکنگ فرام دی گراؤنڈ میں اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایسن اتھارٹی ( سی اے اے) کراچی امین اللہ چوہدری نے مندرجہ ذیل الفاظ میں اس واقعے کو بیان کیا:
مجھے ایک اوسط پاکستانی کے طور پر اس بات کی فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ مغرب میں میرے کون سے ہم منصب ہمیں نیچا سمجھتے ہیں۔
سماجی سیکیورٹی جو مغرب کے جمہوری اور ترقی یافتہ حکومتی نظام کی شناخت کرتا ہے کسی شک کے بغیر غائب ہے۔ حکومتی مدد کی غیر موجودگی میں ملازمت، اجرت اور قیمتوں جیسے مسائل غداری کے مقدمات سے زیادہ مقدم ہیں۔ اگرچہ یہ بات اہم اور ضروری ہے کہ ہم اپنے حکومتی اداروں کو صحیح طرح چلائیں، عام طور پر یہ نظام مضبوط سماجی بنیادوں کی پیروی کرتا ہے۔ تاہم پاکستان میں یہ طریقہ کار مختلف ہے کیونکہ یہاں ہماری کوشش زمینی حقائق کو مدنظر رکھے بغیر بڑے حاکمانہ نظام کی تیاری ہوتی ہے۔
ذمینی حقائق یہ ہیں کہ ایک اوسط پاکستانی کی زندگی اور طرز زندگی تاریخ کی سب سے نچلی سطح پر ہیں۔ اگرچہ ہم نے جنرل مشرف کے دوران حکومت میں معیار زندگی میں ایک اعتدال پسند اضافہ دیکھاتاہم وہ اشارے بھی گذشتہ پانچ سال کے دوران گرگئے ہیں۔
کسی بھی پاکستانی سے پوچھیں اور میں شرطاً کہتا ہوں کہ وہ یہ کہیں گے کہ اوسط پاکستانی کی حیثیت سے موجودہ وقت کے مقابلے میں پرویز مشرف کے دور حکومت میں مالی طور پر زیادہ مستحکم تھے۔
گذشتہ پانچ سال کے دوران نچلا متوسط طبقہ مزید مالی مشکلات میں گھر گیا ہے۔
اب بھی آپ کو مجھ پر یقین نہیں ہے؟
فوری موازنے کے لیے نیچے دی گئی ان معلومات کو پر نظر ڈالیں۔ یہ گراف واضح طور پر پرویز مشرف کی صدارتی نشست خالی کرنے کے بعد اقتصادی گراوٹ کی نشان دہی کرتا ہے۔ 5.14 کی شرح سے ترقی بہتر صرف اقتصادی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جس کے ثمرات عام پاکستانی تک پہنچے۔ ہاں وہاں شاید کرپشن تھی اور کافی زیادہ مقدار میں تھی لیکن ایک اوسط پاکستانی کا معیار زندگی بھی بہتر ہورہا تھا۔
اب اس کا 2013 کے اعداد و شمار سے موازنہ کریں جب اپریل میں مہنگائی کی شرح 11.3 فیصد تھی۔
معاشی خوشحالی کے علاوہ دیگر عوامل کے بارے میں بات کرتے ہوئےمیں ایک اوسط پاکستانی اس تکنیکی حقیقت کے باوجود کہ آئین کو التوا میں ڈال دیا گیا تھا اس حقیقت کے بارے میں زیادہ پروا کرتا ہوں کہ مشرف کے دور میں ہماری شرح خواندگی میں تقریبا 11 فیصد اضافہ ہوا۔
اور میں کسی شک کے بغیر یہ کہہ سکتا ہوں کہ سیاسی وابستگی سے قطع نظر کوئی بھی پاکستانی سینکڑوں کلو میٹر تعمیر شدہ ہائی وے ، تقریبا 10 فیصد غربت کی سطح میں کمی اور یونیورسٹیوں کے ایک وسیع نیٹ ورک کے قیام کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتا۔
اگر ہم ایک میکرواکنامک کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں تقریبا 17 ارب ڈالر اضافہ ہوا ہے اور مینوفیکچرنگ اور آئی ٹی کے شعبوں میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ خوشحال مینوفیکچرنگ سیکٹر اور آٗئی ٹی کی صنعت نے ملازمتوں اور روزگار کے مواقع فراہم کئے جس کا مطلب سماجی سیکیورٹی ہے جو کہ معاشرے میں جرائم اور چوریوں کی کمی کے حوالے سے بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔
پرویز مشرف کے دور میں بے روزگاری درحقیقت گر گئی تھی اور ان سالوں میں تیزی سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا جنہیں جمہوری قرار دیا گیا۔
حقائق ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ ایک بڑے قسم کے سراب کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔
مزید براں مہنگائی کو بھی مضبوطی سے کنٹرول کیا گیا تھا جیسا کہ اس گراف میں نظر آ رہا ہے:
پھر بھی اگر آپ کو مقامی لوگوں کے اعداوشمار کی رپورٹ پر شک ہے تو یہاں پر پرویز مشرف کے دور حکومت میں پاکستانی کی مجموعی معاشی کارکردگی کے بارے میں ورلڈ بینک کی رپورٹ موجود ہے۔
لہذا اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے ان کے دور حکومت میں چین اور بھارت کے بعد پاکستان کو تیزی سے بڑھتی کو معیشت قرار دیا تھا۔
میں آپ کے بارے میں نہیں جانتا لیکن میں کبھی بھی آئین کی بے معنی خلاف ورزیوں پر ترقی کی اس رفتار کو منتخب کروں گا۔ ہاں اداروں کا قیام اہم ہے لیکن مضبوط ادارے صرف ارتقا کے عمل کے نتیجے میں قیام میں آتے ہیں انہیں جمہوری نظام حکومت کی معمولی خوارک کے ذریعے مصنوعی طور پر تیار نہیں کیا جاسکتا۔
ہمیں اس کا احساس نہیں ہے یا ہم اسے قبول نہیں کرنا چاہتے لیکن کم از کم ایک عام آدمی کے لئے پرویز مشرف کا دور زیادہ جمہوری تھا۔
کیوں، آپ پوچھ رہے ہیں؟
جمہوریت ایک ذہنیت ہے
میں اس بات پر یقین کرتا ہوں کہ جمہوریت ایک ذہنیت ہے جہاں جمود کی جانب سے اختلاف رائے کو زبردستی ہٹایا اور دبایا نہیں جاسکتا۔ جمہوریت بہترین انتقام نہیں بلکہ بہترین حل ہے۔
کیا ان سالوں میں جنہیں غیر جمہوری قرار دیتے ہیں میں ہم نے بے مثال آزادی اظہار رائے کے ساتھ الیکٹرونک میڈیا کا عروج نہیں دیکھا۔ مشرف کا دورغیر جمہوری عمل سے بہت دور تھا اور اس کا سب سے بڑا کارنامہ الیکٹرونک میڈیا کا پھیلاؤ تھا جسے یہاں تک آزادی حاصل تھی کہ وہ ضرورت پڑنے پر مشرف کو بھی کٹہرے میں لا کر کھڑا کر سکیں۔
سرکاری عہدیداروں سے آزادانہ سوال کرنے کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی کی گئی
مشرف نے اپنے جانشینوں کے لئے ایک مثال قائم کردی تھی۔ ان کے اقتدار میں دونوں میڈیا اور لوگوں کے لئے ایک ضابطہ عمل شروع کیا گیا کہ وہ حکمرانوں کے غضب یا سینسر شپ کو خاطر میں لئے بغیر اقتدار میں موجود حکمرانوں سے آزادانہ طور پر سوال کرسکتے تھے۔ یہ پاکستان کے حوالے سے ایک بڑی کامیابی اور اصل جمہوری تقدیر میں بنیادی حق تھا۔ اور ہمیں اس کامیابی کے لئے جنرل پرویز مشرف کو سراہنا چاہئے۔
غلطیوں کا اعتراف، اچھائی اور برائی ایک ساتھ ہوتی ہیں
ہاں جنرل پرویز مشرف نے کچھ غلطیاں کی ہیں، ایسی غلطیاں جو اتنی بڑی تھیں کہ انہیں معاف کرنا یا بھول جانا مشکل ہے۔ اور ہاں ان میں سے چند غلطیوں کا ملک پر بہت بڑا اثر پڑا، لیکن پھر کون غلطیاں نہیں کرتا؟ کوئی ایسا انسان ہے جس نے کبھی غلطی نہ کی ہو؟
اللہ کی طرف سے مقرر کئے گئے پیغمبروں اور رسولوں کے علاوہ دنیا میں کوئی بھی انسان کامل نہیں ہے، اچھائی اور برائی ایک ساتھ موجود ہوتی ہیں۔ ایک خصوصیت جو میں نے زیادہ تر پاکستانیوں میں نوٹ کی ہے وہ یہ کہ وہ نہ صرف اپنے محسن کو بھول جاتے ہیں بلکہ وہ اس بات کا احساس کرنے میں بھی ناکام رہتے ہیں کہ ایک نظام کبھی بھی 100 فیصد درست نہیں ہوسکتا۔
تاہم حکومت کی کارکردگی کی پیمائش کرنا ضروری ہے کہ انہوں نے لوگوں کو کیا فراہم کیا ہے۔ زیادہ تر لوگ کسی شک کے بغیر اس بات سے اتفاق کریں گے کے پاکستان کے سب سے زیادہ خوشحال ادوار ایوب خان اور جنرل مشرف کے تھے۔
ان تمام حقائق کے پیش نظر میرے خیال میں سوال یہ ہے کہ ہمیں ان تمام مقدمات میں پڑنا چاہئے یا نہیں۔ زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم اسے برداشت کرسکتے ہیں۔
یہ لاگت اور فائدہ کے درمیان اعلی درجے کے تعلق اور ریٹرن آن انسویسٹمنٹ ( آر او آئی) تجزیے ہیں جو کہ زیادہ تر کاروباری ادارے اختیار کرتے ہیں، بالآخر ایک ملک اور اس کی انتظامیہ تنظیموں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔
درحقیقت، ایک ملک تمام تعریفوں اور عملی نفاذ کے لحاظ سے ایک ادارہ ہے۔
یاد رکھیں یہ ایک ہائی جیک تھا
سب سے زیادہ اہم بات جو ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ ہوائی جہاز کو سرکاری طور پر ہائی جیک کیا گیا تھا اس بات پرذرا بھی توجہ دیئے بغیر کہ اس میں وہ عام پاکستانی بھی سوار تھے جو اپنے گھر واپس جارہے تھے۔ یہ پاکستان کی مسلح افواج کا ہوائی جہاز نہیں تھا اور نہ ہی کسی معاہدے کے تحت یہ پرائیوٹ جیٹ تھا۔ مناسب ایندھن نہ ہونے کے باوجود ہوائی سفر کو برقرار رکھنے کے لئے جہاز کو موڑا گیا جو کہ طیارے کی حادثے کی وجہ بن سکتا تھا، لہذا لوگوں سے میرا واحد سوال یہ ہے کہ،
"کیا غداری کے مقدمت کی سماعت موت کے اس فیصلے سے زیادہ اہم ہے جو سرکاری طور پر ان تمام پاکستانیوں کے حوالے کردیا گیا جو اس وقت پی کے 805 میں موجود تھے۔ "
ہمیں کچھ سمجھداری دکھاتے ہوئے اس بات کا احساس کرنا چاہئے کہ اگرچہ جنرل پرویز مشرف نے غلطیاں کیں لیکن انہوں نے اپنی اصل طاقت کا چھوٹا سا حصہ استعمال کرتے ہوئے ایک اوسط پاکستانی کی معیار زندگی کو بہتر بنانے کے کئے مخلص اور ایماندرانہ کوشش بھی کی ہیں۔
ان کے ساتھ جو برتاؤ کیا جارہا ہے اس کو دیکھ کر میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے اور بیک وقت حیرانگی میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
کیا یہی برتاؤ ہے جو کہ اس شخص کے ساتھ ہونا چاہیے جس نے واقعی میں میری زندگی بہتر بنانے کے لئے اقدامات کئے؟
کیا یہ صحیح ہے کہ وہ جو پاکستان کے سماجی ڈھانچے میں بہتری لائے ہیں اس کے مقابلے میں انہیں ان سطحی سے الزامات کی بنیاد پر عدالت میں گھسیٹا جائے؟
ہم پاکستان کے مستقبل کے رہنماؤں کو کس طرح کا سبق بھیج رہے ہیں کہ اگر آپ میں پاکستانیوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کی ہمت ہے تو آپ کے خلاف نہ صرف مقدمہ چلایا جائے گا بلکہ آپ کا پیچھا بھی نہیں چھوڑا جائے گا؟
اگر آپ ان سوالات کے جواب دینے کے عمل میں ہیں تو اس بات کو یاد کرنے کی کوشش کریں کے ہوائی جہاز جس میں تقریبا 198 پاکستانی شہری سوار تھے اور وہ حادثے کے قریب تھا۔
کچھ لوگوں کے لئے اس بات کو جاننا مشکل ہوگا لیکن حکمرانوں کے پاس بھی طاقت نہیں رہی۔ ایسے فیصلے جو کہ قوموں اور شہریوں کو متاثر کریں انہیں لینے سے قبل ایسے لاکھوں مفادات ہیں جن کے بارے میں سوچا جانا چاہیے ۔
ان خوشامدیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے جنہوں نے مشرف کو گھیرے میں لیے رکھا یہ بات نہ صرف قابل ذکر ہے کہ وہ ایک اوسط پاکستانی کی معیار زندگی میں بہتری لانے میں کامیاب ہوئے، یہ اس اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ جنرل مشرف کا دل صحیح جگہ پر تھا۔
تو ان تمام پاکستانیوں کی جانب سے جو مجھ سے اتفاق کرتے ہیں اور وہ تمام جن کے بارے میں مجھے امید ہے کہ وہ میرا نقطہ نظر سمجھنے کی کوشش کریں گے میں جنرل مشرف کو کہنا چاہتا ہوں کہ
ڈیئر سر،
تمام پاکستانیوں کی جانب سے میں آپ سے معذرت خواہ ہوں، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ جو آپ نے میری زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کس طرح کام کیا یہ بہت کم چیز ہے جو میں کرسکتا ہوں ۔ آپ کی کوششوں کا شکریہ۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
یہ وہ دن تھا جب پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن ( پی آئی اے) کی پرواز پی کے 805 کو سری لنکا سے واپسی پر پاکستان میں اترنے کے حقوق سے محروم کردیا گیا تھا۔ کم ایندھن کی وجہ سے پاکستانی حدود کے باہر جانے کا مطلب کمرشل ایئرلائنر کا مسافروں کے ساتھ حادثے کا شکار ہونا ہو سکتا تھا۔ ان مسافروں کے درمیان جنرل پرویز مشرف، یعنی ایک ایسا آدمی جو ملک کا پہلا چیف ایگزیکٹو بننے والا تھا اور اوسط پاکستانی کی زندگی میں کچھ مثبت سماجی تبدیلیاں لانے والا تھا، بھی سوار تھے۔
اپنی کتاب ہائی جیکنگ فرام دی گراؤنڈ میں اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایسن اتھارٹی ( سی اے اے) کراچی امین اللہ چوہدری نے مندرجہ ذیل الفاظ میں اس واقعے کو بیان کیا:
مجھے ایک اوسط پاکستانی کے طور پر اس بات کی فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ مغرب میں میرے کون سے ہم منصب ہمیں نیچا سمجھتے ہیں۔
سماجی سیکیورٹی جو مغرب کے جمہوری اور ترقی یافتہ حکومتی نظام کی شناخت کرتا ہے کسی شک کے بغیر غائب ہے۔ حکومتی مدد کی غیر موجودگی میں ملازمت، اجرت اور قیمتوں جیسے مسائل غداری کے مقدمات سے زیادہ مقدم ہیں۔ اگرچہ یہ بات اہم اور ضروری ہے کہ ہم اپنے حکومتی اداروں کو صحیح طرح چلائیں، عام طور پر یہ نظام مضبوط سماجی بنیادوں کی پیروی کرتا ہے۔ تاہم پاکستان میں یہ طریقہ کار مختلف ہے کیونکہ یہاں ہماری کوشش زمینی حقائق کو مدنظر رکھے بغیر بڑے حاکمانہ نظام کی تیاری ہوتی ہے۔
ذمینی حقائق یہ ہیں کہ ایک اوسط پاکستانی کی زندگی اور طرز زندگی تاریخ کی سب سے نچلی سطح پر ہیں۔ اگرچہ ہم نے جنرل مشرف کے دوران حکومت میں معیار زندگی میں ایک اعتدال پسند اضافہ دیکھاتاہم وہ اشارے بھی گذشتہ پانچ سال کے دوران گرگئے ہیں۔
کسی بھی پاکستانی سے پوچھیں اور میں شرطاً کہتا ہوں کہ وہ یہ کہیں گے کہ اوسط پاکستانی کی حیثیت سے موجودہ وقت کے مقابلے میں پرویز مشرف کے دور حکومت میں مالی طور پر زیادہ مستحکم تھے۔
گذشتہ پانچ سال کے دوران نچلا متوسط طبقہ مزید مالی مشکلات میں گھر گیا ہے۔
اب بھی آپ کو مجھ پر یقین نہیں ہے؟
فوری موازنے کے لیے نیچے دی گئی ان معلومات کو پر نظر ڈالیں۔ یہ گراف واضح طور پر پرویز مشرف کی صدارتی نشست خالی کرنے کے بعد اقتصادی گراوٹ کی نشان دہی کرتا ہے۔ 5.14 کی شرح سے ترقی بہتر صرف اقتصادی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جس کے ثمرات عام پاکستانی تک پہنچے۔ ہاں وہاں شاید کرپشن تھی اور کافی زیادہ مقدار میں تھی لیکن ایک اوسط پاکستانی کا معیار زندگی بھی بہتر ہورہا تھا۔
اب اس کا 2013 کے اعداد و شمار سے موازنہ کریں جب اپریل میں مہنگائی کی شرح 11.3 فیصد تھی۔
معاشی خوشحالی کے علاوہ دیگر عوامل کے بارے میں بات کرتے ہوئےمیں ایک اوسط پاکستانی اس تکنیکی حقیقت کے باوجود کہ آئین کو التوا میں ڈال دیا گیا تھا اس حقیقت کے بارے میں زیادہ پروا کرتا ہوں کہ مشرف کے دور میں ہماری شرح خواندگی میں تقریبا 11 فیصد اضافہ ہوا۔
اور میں کسی شک کے بغیر یہ کہہ سکتا ہوں کہ سیاسی وابستگی سے قطع نظر کوئی بھی پاکستانی سینکڑوں کلو میٹر تعمیر شدہ ہائی وے ، تقریبا 10 فیصد غربت کی سطح میں کمی اور یونیورسٹیوں کے ایک وسیع نیٹ ورک کے قیام کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتا۔
اگر ہم ایک میکرواکنامک کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں تقریبا 17 ارب ڈالر اضافہ ہوا ہے اور مینوفیکچرنگ اور آئی ٹی کے شعبوں میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ خوشحال مینوفیکچرنگ سیکٹر اور آٗئی ٹی کی صنعت نے ملازمتوں اور روزگار کے مواقع فراہم کئے جس کا مطلب سماجی سیکیورٹی ہے جو کہ معاشرے میں جرائم اور چوریوں کی کمی کے حوالے سے بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔
پرویز مشرف کے دور میں بے روزگاری درحقیقت گر گئی تھی اور ان سالوں میں تیزی سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا جنہیں جمہوری قرار دیا گیا۔
حقائق ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ ایک بڑے قسم کے سراب کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔
مزید براں مہنگائی کو بھی مضبوطی سے کنٹرول کیا گیا تھا جیسا کہ اس گراف میں نظر آ رہا ہے:
پھر بھی اگر آپ کو مقامی لوگوں کے اعداوشمار کی رپورٹ پر شک ہے تو یہاں پر پرویز مشرف کے دور حکومت میں پاکستانی کی مجموعی معاشی کارکردگی کے بارے میں ورلڈ بینک کی رپورٹ موجود ہے۔
لہذا اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے ان کے دور حکومت میں چین اور بھارت کے بعد پاکستان کو تیزی سے بڑھتی کو معیشت قرار دیا تھا۔
میں آپ کے بارے میں نہیں جانتا لیکن میں کبھی بھی آئین کی بے معنی خلاف ورزیوں پر ترقی کی اس رفتار کو منتخب کروں گا۔ ہاں اداروں کا قیام اہم ہے لیکن مضبوط ادارے صرف ارتقا کے عمل کے نتیجے میں قیام میں آتے ہیں انہیں جمہوری نظام حکومت کی معمولی خوارک کے ذریعے مصنوعی طور پر تیار نہیں کیا جاسکتا۔
ہمیں اس کا احساس نہیں ہے یا ہم اسے قبول نہیں کرنا چاہتے لیکن کم از کم ایک عام آدمی کے لئے پرویز مشرف کا دور زیادہ جمہوری تھا۔
کیوں، آپ پوچھ رہے ہیں؟
جمہوریت ایک ذہنیت ہے
میں اس بات پر یقین کرتا ہوں کہ جمہوریت ایک ذہنیت ہے جہاں جمود کی جانب سے اختلاف رائے کو زبردستی ہٹایا اور دبایا نہیں جاسکتا۔ جمہوریت بہترین انتقام نہیں بلکہ بہترین حل ہے۔
کیا ان سالوں میں جنہیں غیر جمہوری قرار دیتے ہیں میں ہم نے بے مثال آزادی اظہار رائے کے ساتھ الیکٹرونک میڈیا کا عروج نہیں دیکھا۔ مشرف کا دورغیر جمہوری عمل سے بہت دور تھا اور اس کا سب سے بڑا کارنامہ الیکٹرونک میڈیا کا پھیلاؤ تھا جسے یہاں تک آزادی حاصل تھی کہ وہ ضرورت پڑنے پر مشرف کو بھی کٹہرے میں لا کر کھڑا کر سکیں۔
سرکاری عہدیداروں سے آزادانہ سوال کرنے کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی کی گئی
مشرف نے اپنے جانشینوں کے لئے ایک مثال قائم کردی تھی۔ ان کے اقتدار میں دونوں میڈیا اور لوگوں کے لئے ایک ضابطہ عمل شروع کیا گیا کہ وہ حکمرانوں کے غضب یا سینسر شپ کو خاطر میں لئے بغیر اقتدار میں موجود حکمرانوں سے آزادانہ طور پر سوال کرسکتے تھے۔ یہ پاکستان کے حوالے سے ایک بڑی کامیابی اور اصل جمہوری تقدیر میں بنیادی حق تھا۔ اور ہمیں اس کامیابی کے لئے جنرل پرویز مشرف کو سراہنا چاہئے۔
غلطیوں کا اعتراف، اچھائی اور برائی ایک ساتھ ہوتی ہیں
ہاں جنرل پرویز مشرف نے کچھ غلطیاں کی ہیں، ایسی غلطیاں جو اتنی بڑی تھیں کہ انہیں معاف کرنا یا بھول جانا مشکل ہے۔ اور ہاں ان میں سے چند غلطیوں کا ملک پر بہت بڑا اثر پڑا، لیکن پھر کون غلطیاں نہیں کرتا؟ کوئی ایسا انسان ہے جس نے کبھی غلطی نہ کی ہو؟
اللہ کی طرف سے مقرر کئے گئے پیغمبروں اور رسولوں کے علاوہ دنیا میں کوئی بھی انسان کامل نہیں ہے، اچھائی اور برائی ایک ساتھ موجود ہوتی ہیں۔ ایک خصوصیت جو میں نے زیادہ تر پاکستانیوں میں نوٹ کی ہے وہ یہ کہ وہ نہ صرف اپنے محسن کو بھول جاتے ہیں بلکہ وہ اس بات کا احساس کرنے میں بھی ناکام رہتے ہیں کہ ایک نظام کبھی بھی 100 فیصد درست نہیں ہوسکتا۔
تاہم حکومت کی کارکردگی کی پیمائش کرنا ضروری ہے کہ انہوں نے لوگوں کو کیا فراہم کیا ہے۔ زیادہ تر لوگ کسی شک کے بغیر اس بات سے اتفاق کریں گے کے پاکستان کے سب سے زیادہ خوشحال ادوار ایوب خان اور جنرل مشرف کے تھے۔
ان تمام حقائق کے پیش نظر میرے خیال میں سوال یہ ہے کہ ہمیں ان تمام مقدمات میں پڑنا چاہئے یا نہیں۔ زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم اسے برداشت کرسکتے ہیں۔
یہ لاگت اور فائدہ کے درمیان اعلی درجے کے تعلق اور ریٹرن آن انسویسٹمنٹ ( آر او آئی) تجزیے ہیں جو کہ زیادہ تر کاروباری ادارے اختیار کرتے ہیں، بالآخر ایک ملک اور اس کی انتظامیہ تنظیموں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔
درحقیقت، ایک ملک تمام تعریفوں اور عملی نفاذ کے لحاظ سے ایک ادارہ ہے۔
یاد رکھیں یہ ایک ہائی جیک تھا
سب سے زیادہ اہم بات جو ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ ہوائی جہاز کو سرکاری طور پر ہائی جیک کیا گیا تھا اس بات پرذرا بھی توجہ دیئے بغیر کہ اس میں وہ عام پاکستانی بھی سوار تھے جو اپنے گھر واپس جارہے تھے۔ یہ پاکستان کی مسلح افواج کا ہوائی جہاز نہیں تھا اور نہ ہی کسی معاہدے کے تحت یہ پرائیوٹ جیٹ تھا۔ مناسب ایندھن نہ ہونے کے باوجود ہوائی سفر کو برقرار رکھنے کے لئے جہاز کو موڑا گیا جو کہ طیارے کی حادثے کی وجہ بن سکتا تھا، لہذا لوگوں سے میرا واحد سوال یہ ہے کہ،
"کیا غداری کے مقدمت کی سماعت موت کے اس فیصلے سے زیادہ اہم ہے جو سرکاری طور پر ان تمام پاکستانیوں کے حوالے کردیا گیا جو اس وقت پی کے 805 میں موجود تھے۔ "
ہمیں کچھ سمجھداری دکھاتے ہوئے اس بات کا احساس کرنا چاہئے کہ اگرچہ جنرل پرویز مشرف نے غلطیاں کیں لیکن انہوں نے اپنی اصل طاقت کا چھوٹا سا حصہ استعمال کرتے ہوئے ایک اوسط پاکستانی کی معیار زندگی کو بہتر بنانے کے کئے مخلص اور ایماندرانہ کوشش بھی کی ہیں۔
ان کے ساتھ جو برتاؤ کیا جارہا ہے اس کو دیکھ کر میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے اور بیک وقت حیرانگی میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
کیا یہی برتاؤ ہے جو کہ اس شخص کے ساتھ ہونا چاہیے جس نے واقعی میں میری زندگی بہتر بنانے کے لئے اقدامات کئے؟
کیا یہ صحیح ہے کہ وہ جو پاکستان کے سماجی ڈھانچے میں بہتری لائے ہیں اس کے مقابلے میں انہیں ان سطحی سے الزامات کی بنیاد پر عدالت میں گھسیٹا جائے؟
ہم پاکستان کے مستقبل کے رہنماؤں کو کس طرح کا سبق بھیج رہے ہیں کہ اگر آپ میں پاکستانیوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کی ہمت ہے تو آپ کے خلاف نہ صرف مقدمہ چلایا جائے گا بلکہ آپ کا پیچھا بھی نہیں چھوڑا جائے گا؟
اگر آپ ان سوالات کے جواب دینے کے عمل میں ہیں تو اس بات کو یاد کرنے کی کوشش کریں کے ہوائی جہاز جس میں تقریبا 198 پاکستانی شہری سوار تھے اور وہ حادثے کے قریب تھا۔
کچھ لوگوں کے لئے اس بات کو جاننا مشکل ہوگا لیکن حکمرانوں کے پاس بھی طاقت نہیں رہی۔ ایسے فیصلے جو کہ قوموں اور شہریوں کو متاثر کریں انہیں لینے سے قبل ایسے لاکھوں مفادات ہیں جن کے بارے میں سوچا جانا چاہیے ۔
ان خوشامدیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے جنہوں نے مشرف کو گھیرے میں لیے رکھا یہ بات نہ صرف قابل ذکر ہے کہ وہ ایک اوسط پاکستانی کی معیار زندگی میں بہتری لانے میں کامیاب ہوئے، یہ اس اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ جنرل مشرف کا دل صحیح جگہ پر تھا۔
تو ان تمام پاکستانیوں کی جانب سے جو مجھ سے اتفاق کرتے ہیں اور وہ تمام جن کے بارے میں مجھے امید ہے کہ وہ میرا نقطہ نظر سمجھنے کی کوشش کریں گے میں جنرل مشرف کو کہنا چاہتا ہوں کہ
ڈیئر سر،
تمام پاکستانیوں کی جانب سے میں آپ سے معذرت خواہ ہوں، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ جو آپ نے میری زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کس طرح کام کیا یہ بہت کم چیز ہے جو میں کرسکتا ہوں ۔ آپ کی کوششوں کا شکریہ۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔