لڑکھڑاتی پاکستان فلم انڈسٹری قدموں پر کیسے کھڑی ہو گی

ڈبوں میں بنددرجن بھر فلمیںپروڈیوسرز کے صبر کا امتحان لینے لگیں۔

ڈبوں میں بنددرجن بھر فلمیںپروڈیوسرز کے صبر کا امتحان لینے لگیں۔ فوٹو: فائل

حسیب احسن پیشے کے اعتبا ر سے تو کاروباری ہیں لیکن فلم دیکھنے کے بے حد شوقین ہیں، جب بھی موقع ملتا ہے تو اپنے دوستوں کے ہمراہ سینما گھر ضرور جاتے ہیں۔

کچھ عرصہ سے پاکستان میں فلم انڈسٹری زوال کا شکار ہے، رہی سہی کسر دنیا بھر میں جاری کوویڈ19 نے پوری کر دی ہے، شوٹنگ بند پڑی ہیں اور پہلے سے تیار2درجن سے زائد فلمیں بھی تاحال سینما گھروں کی زینت نہیں بن سکیں۔ اس صورت حال کی وجہ سے نہ صرف حسیب احسن نا خوش ہیں بلکہ فلموں کے دلدادہ شہری بھی مایوسی کا شکار ہیں۔پاکستان میں فلم بینی کے شوقین افراد کو کس قدر تفریح کے کم مواقع ملے ہیں۔

اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ برس صرف ایک ہی پاکستانی فلم 'ریکارڈ28 فروری کو سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی، یہ وہی تاریخ ہے جب پاکستان میں کرونا وائرس کا پہلا مریض سامنے آیا تھا۔ یہ فلم چند نوجوانوں نے بنائی تھی اور اس کی پروڈکشن کا معیار بہت ادنیٰ تھا۔ یہ ایک تجرباتی فلم تھی جس سے زیادہ توقع نہیں تھی اور ایک ہفتے کی نمائش کے دوران اس فلم نے اتنا بزنس بھی نہیں کیا کہ اپنی ریلیز پر ہونے والا خرچہ ہی پورا کرپاتی۔

فلم کو جملہ فنون لطیفہ آرٹ ،ٹیکنالوجی اور تجارتی تقاضوں کا مجموعہ قراردیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا میڈیم ہے جس کے ذریعے تفریح ،تعلیم،معاشرتی ،سیاسی اور نظریاتی پہلوؤں اور مسائل کی موثر انداز سے عکاسی کی جاسکتی ہے۔دنیا بھر میں فلمسازی میں ارتقاء کا سفر جاری ہے۔ فلم میکنگ کے حوالے سے جدید تصورات ،جدت اور نئی ٹیکنالوجی نے فلم کی تاریخ گویا بدل کر رکھ دی ہے۔

کہاں ایک زمانے میں خطیر بجٹ کے ساتھ بڑے بڑے سیٹ لگائے جاتے تھے ،اور اب تھری ڈی اینیمیشن کی بدولت گویا سارا منظر نامہ ہی بدل گیا۔پاکستان فلم انڈسٹری کی تاریخ اور کئی دہائیوں پر پھیلے اس کے سفر کا جائزہ لیا جائے تویہ سفر کامیابیوں ناکامیوں اور عروج و زوال کا ایک مجموعہ رہا ہے۔تقسیم ہند سے قبل برصغیر میں لاہور اور بمبئی فلمسازی کے بڑے مراکز کے ساتھ مکمل آب و تاب سے دمکتے رہے۔

کئی بھارتی فنکاروں نے لاہور سے ہی فلم سفر کا آغاز کیا جن میں نامور بھارتی ولن پران اور کامیڈین اوم پرکاش شامل ہیں۔اس دور میں کپور خاندان پشاور سے ابھر کر اپنا لوہا منوا رہا تھا۔پشاور کا ہی یوسف خان دلیپ کمار بن کر فلمی دنیا کا سب سے قد آدم اداکار بن کر ابھرا۔لاہور کے ہی گورنمنٹ کالج کا طالب علم دیو آنند اپنے دور کا مشہور رومانوی ہیرو کہلایا۔گویا برصغیر کی مشترکہ فلمی صنعت پاکستان اور بھارت کے قیام سے قبل ہی اپنی ساکھ بنا چکی تھی۔

کئی مسلم فنکار ،بمبئی میں اپنا مقام بنانے کیلئے اپنے نام کی قربانی بھی دے رہے تھے۔جن میں پاکستانی فنکار کمال بھی شامل ہیں جنہوں نے بمبئی میں اپنا نام بدل کر کمل کمار رکھ لیا تھا۔تقسیم سے قبل لاہور میں چھ سٹوڈیوز تھے۔جہاں ہندو فلسازوں کی اجارہ داری تھی۔جبکہ لاہور میں ڈسٹری بیوشن اداروں کی تعداد سولہ تھی جن میں مسلمانوں کے پاس صرف3تین ادارے تھے۔

تقسیم کے ہنگاموں میں ایک سٹوڈیو نذر آتش بھی ہوگیا۔اور ہندو فلمساز اپنے سامان سمیت مجبوراًبھارت چلے گئے۔یوں پاکستان فلم انڈسٹری کی ابتدائی بنیادیں نہایت کمزور رہی۔اگرچہ پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد 1948 میں رہلیز ہوئی مگر یہ اپنا رنگ جمانے میں ناکام رہی۔1947 سے 1951 تک فلمی صنعت بحران کا شکار رہی۔اس ابتدائی دور میں بھارتی فلمیں نمائش کیلئے پاکستانی سینما گھروں کی زینت بنی رہیں مگر یہ سہولت پاکستان فلموں کو بھارت میں میسر نہیں ہوسکی۔البتہ 1951 کے بعد ساٹھ کی دہائی پاکستانی فلمی صنعت کیلئے نہایت کامیاب ثابت ہوئی۔

ملکہ ترنم نور جہاں کی انڈسٹری میں موجودگی اور پرجوش شخصیت نے فلمی صنعت کو ایک پہچان دی، صبیحہ خانم اور نیر سلطانہ کی اداکاری اور حسن نے بھی ہر طرف دھوم مچا دی۔1965 کی جنگ کے بعد بھارتی فلموں پر بندش لگ گئی۔ یوں اس فیصلے کے بعد پاکستانی فلموں کو گویا خالی میدان مل گیا اور روز بروز پاکستانی فلموں کی نمائش ہونے لگی۔ بلاشبہ یہ فلمی صنعت کا سنہرا دور تھا،ساٹھ کی دہائی میں فلم ہیر رانجھا کو بھی ایک کلاسک کی حیثیت حاصل ہے۔

نور جہاں کی آواز ، اعجاز اور فردوس کی لازوال اداکاری نے وارث شاہ کی ہیر رانجھا کو امر کردیا۔1979 تک یہ وہ دور تھا جب ایک سال میں سو سے زائد فلمیں رہلیز ہونے لگیں۔سٹوڈیوز کے اندر شوٹنگز زوروشور سے کی جاتی اور سٹوڈیوز کے باہر عوام کا جم غفیرپنے محبوب فنکاروں کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے برقرار رہتا۔ کراچی میں اردو فلموں جبکہ لاہور اردو اور پنجابی فلموں کا مسکن بن گیا۔

جبکہ محمد علی کی گرجدار آواز اورندیم اور چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کی آمد نے فلمی صنعت میں دو عظیم رومانوی ہیروز سے روشناس کرایا جب 1979 میں ہدایتکار ناصر ادیب کی فلم مولا جٹ منظر عام پر آئی تو اس فلم نے پاکستانی فلم انڈسٹری کا دھارا ہی بدل دیا۔

مولا جٹ کے کردار میں سلطان راہی اور ولن نوری نت کے روپ میں مصطفیٰ قریشی نے گنڈاسہ کلچر لئے ایک ہیجان برپا کردیا۔یہ پنجابی فلموں کے عروج اور اردو سنیما کی تباہی کا آغاز تھا۔اگلے پندرہ سال ہماری فلم گنڈاسہ اور انجمن کے پنجاب کے کھیتوں میں ناچ گانے کے گرد گھومتی رہی۔فلم مولا جٹ سے نکلنے والے اثرات اتنے گہرے رہے کہ اس کردار سے متاثر ہوکر کئی سو فلمیں تخلیق کی گئیں۔


پنجابی فلموں کا یہ دور سلطان راہی کی موت کے ساتھ ہی 1996 میں اپنے اختتام کو پہنچا۔لیکن بلاشبہ اب فلم انڈسڑی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی تھی۔اگرچہ شمیم آراء اور سید نور نے اس مشکل دور میں جیوا ،سنگم ،گھونگھٹ ،ہاتھی میرے ساتھی اور منڈا بگڑا جائے بنا کر بابر علی ،سعود ،ریمبو ،ریشم ،میرا اور ریما جیسے نئے چہروں سے انڈسٹری کے تن مردہ میں جان ڈالنے کی کوشش کی۔لیکن جلد ہی چربہ سازی کی لعنت اور بھیڑ چال کی وجہ سے فلمیں ناکام ہونے لگی۔مجبوراً شان جیسے خوبرو ہیرو کو بھی سلطان راہی کے بدمعاش امیج کو کاپی کرنا پڑا۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1996 کے بعد ملک بھر میں 1200 سنیما گھروں میں محض150 سنیما ہی حوادث زمانہ سے بچ سکے۔کئی پرانے سنیما پلازوں اور پارکنگ ایریا ز میں بدل گئے۔اگرچہ 1998 سے 2000 تک نکاح ،چوڑیاں اور مجھے چاند چاہیے جیسی فلموں نے بھی سنیما کلچر کو ازسر نو بحال کرنے کی کوشش کی۔لیکن جلد ہی لولی ووڈ کے احیاء کی کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔ایک زمانے میں جس انڈسڑی میں سنتوش ،حبیب ،وحید مراد ،ندیم ،جیسے ہیروز کا طوطی بولتا رہا ،جہاں الیاس کاشمیری ،ہمایوں قریشی اور شفقت چیمہ جیسے ولن موجود تھے۔

جہاں منور ظریف ،ننھا،علی اعجاز،رنگیلا اور لہری جیسے معروف کامیڈین نے ایک جگ کوبہلائے رکھا۔ جہاں آغا طالش ،علاؤ الدین جیسے کیریکٹر ایکٹر اپنی دم دار پرفارمنس سے سماں باندھ دیا کرتے۔ وہاں اب ویرانیوں کا راج تھا۔ ایور نیو سٹوڈیو، باری سٹوڈیو ،شاہ نور سٹوڈیو اجاڑ بیابان میں تبدیل ہوگئے۔ بوسیدہ مشینری ، فرسودہ فلمی تکنیکی سامان اور پوسٹ پروڈکشن کی سہولیات کے فقدان نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ اور یوں نگار خانے ویران ہوگئے۔

ان دنوں ایک بار پھر یہ بحث جاری ہے ، اگر پاکستان میں معیاری فلمیں نہیں بن رہیں تو بھارت سمیت دوسرے ملکوں کی فلموں کو سنیما گھروں کی زینت بنا لیا جائے ، فلم انڈسٹری میں اکثر ''کوپروڈکشن'' کی ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے، شائقین کے نالج کے لئے اس کی تشریح اور تفصیل میں جانا اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ اسی اصطلاح کے بل بوتے پر ہی ہمارے بھولے بھالے شائقین کو ہمیشہ سے بے وقوف بنایا جاتا رہا ہے۔

کوپروڈکشن سے مراد یہ ہے کہ آپ کسی بھی ملک کے ساتھ اگر کام کریں تو اسے برابری کی سطح پر ہونا چاہیے، ماضی میں ہماری کوپرڈوکشن نیپال اور بنگلہ دیش کے ساتھ چلتی رہی،یہ ممالک فلم انڈسٹری میں بھی ہمارے ہم پلہ تھے،ہم ان کے آرٹسٹ لیتے تھے اور وہ اپنی فلموں میںپاکستانی اداکاروں کو کاسٹ کرتے تھے،مل جل کر اچھا کام چلتا تھا تاہم جب سے ہم بھارت کے ساتھ کوپروڈکشن کے خبط میں مبتلا ہوئے، اپنی انا، عزت وقار سب کچھ گنوا بیٹھے۔

سوچنے اور محسوس کرنے کی بات یہ ہے کہ بالی ووڈ کے ساتھ ہماری کوپروڈکشن ہو ہی نہیں سکتی۔ ان کا بجٹ اربوں روپے میں ہوتا ہے جبکہ ہمارا کروڑوں میں ، ان کا ایک آرٹسٹ جتنے پیسے لیتا ہے، ہم اس سے بھی کم بجٹ میں پوری فلم بنا لیتے ہیں۔ پھر ایک تاثر دینے کی یہ کوشش کی گئی کہ چلو ممبئی نہیں تو دونوں ملکوں کے پنجاب کی سطح پر ہی مشترکہ طور پر کام کر لیتے ہیں۔

ہم یہاں بھی یہ بھول گئے کہ ہمارے اور بھارتی پنجاب کے ماحول میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے،ہمارے لہجہ اور کلچر ان سے بہت مختلف ہے، اس کے باوجود چند سرے پھروں نے دو، تین پنجابی میں فلمیں بنائیں لیکن یہ فلمیں بھی شائقین میں مقبول نہ ہو سکیں۔

1966ء تک بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش پر کبھی بھی پابندی نہ تھی،دونوں ملکوں کی پہلے پالیسی یہ تھی کہ ایک فلم بھارت سے آئے گی اور دوسری پاکستان سے وہاں جائے گی، ہم اس پالیسی پر عمل تو کرتے رہے لیکن ہمسایہ ملک نے اس پالیسی کو زیادہ لفٹ نہ کروائی، بھارتی زیادہ تر بارڈر سسٹم میں ہماری فلم خرید لیتے تھے لیکن اپنے سینماؤں میں نہیں لگاتے تھے۔ ہمسایہ ملک کی اس پریکٹس سے پاکستان کے فلم پروڈیوسر کو تو فائدہ ضرور ہو جاتا تھا تاہم مجموعی طور پر پاکستان فلم انڈسٹری اس فائدے سے محروم رہتی تھی۔

1966ء میں بھارتی فلم کی پاکستان میں نمائش پر پہلی بار پابندی لگی۔اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ پاکستانی فلم ''ڈوپٹہ'' کے بدلے میں بھارت سے فلم ''جال'' آ رہی تھی،فلم ڈوپٹہ نے پاکستان میں اچھا خاصا بزنس کیا،ایک بھارتی ڈسٹری بیوٹر نے سوچا کہ پاکستان میں یہ فلم اچھی چلی ہے تو میں بھی اس کی بھارت میں نمائش کیوں نہ کروں،اس ڈسٹری بیوٹر نے یہ پاکستانی فلم بھارتی سینمامیں لگائی تو وہاں شور مچ گیا، انتہا پسند ہندؤں نے اس سینما کو ہی آگ لگا دی، اس دلخراش واقعہ کے بعد پاکستان میں ''جال'' تحریک کا آغاز ہوا جس میں سید شوکت حسین رضوی، سنتوش کمار، یوسف خان، آغا طالش سمیت نامور اداکاروں اور اعلی شخصیات نے گرفتاریاں پیش کیں۔

اسی تحریک کے نتیجہ میں اس وقت کے صدر جنرل ایوب نے قا نون ایل او آر 8کے تحت پاکستان میں پہلی بار بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی لگا دی۔یہ قانون ایسٹ اور ویسٹ پاکستان دونوں مقامات پر لاگو ہوا، 1984ئمیں بھی اسی طرح کا ایک اور لیٹر اس وقت جاری ہوا جب صدر جنرل ضیاء الحق نے اسی قانون کے تحت بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش پر دوبارہ پابندی لگا دی۔

اس لاء میں ایک اور اضافہ یہ کیا گیا کہ اس قانون کے تحت وہ انگلش فلمیں بھی پاکستان میں بین تھیں جن میں کسی بھارتی اداکار یا اداکارہ نے کام کیا تھا، وقت اپنی رفتار چلتا رہا کہ 2007ء میں بھارتی فلموں کی پاکستان میں دوبارہ نمائش کے حق میں نئی تحریک چلی جس میں ہماری فلم انڈسٹری نے نہایت چالاکی اور عیاری کے ساتھ حکومت کو یہ باور کروایا کہ ملک میں سینما بند ہو رہے ہیں، اگر فوری طور پر ایکشن نہ لیا گیا تو پاکستان فلم انڈسٹری ماضی کا حصہ بن جائے گی، اس تحریک کی بدولت حکومت دباؤ میں آگئی اور چند نئے مطالبات تسلیم کرنے کے ساتھ جذوی طور پر بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کی اجازت بھی دے دی گئی۔

اب تک 2 درجن سے زائد ٹاپ پاکستانی فنکاروں کو بھارتی فلموں میں کام کرنے کا موقع میسر آیا ہے، ان آرٹسٹوں میں ندیم بیگ، ماورا حسین، ہمائمہ ملک، میشا شفیع، متھیرا، میکال ذوالفقار، علی ظفر، وینا ملک ، سارہ لورین، زیبا بختیار،جاوید شیخ، میرا،صباء قمر، سلمی آغا، طلعت حسین، محسن خان، صومی علی، سلمان شاہد، انتیا ایوب، ہمایوں سعید، میرا، مہر حسن، ثناء ور معمر رانا قابل ذکر ہیں۔پاکستان فنکاروں کی موجودگی میں بننے والی بھارتی زیادہ تر فلمیں یا تو فلاپ رہیں، اگرکامیاب بھی رہیں توان فلموں میں بھارتی عوام نے پاکستانی فنکاروں کی اداکاری کو ہی پسند نہ کیا۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں اداکاری سمیت کسی بھی شعبہ میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں، ملک میں ایسے اداکار، رائٹر، موسیقار، گلوکار، ہدایتکار اور فلمساز موجود ہیں جو بیساکھیوں پر کھڑی فلم انڈسٹری کو دوبارہ عروج دلانے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں، اگر حکومت بھی حقیقی معنوں میں پاکستان میں فلم انڈسٹری کو دوبارہ عروج دلانے کے لئے سنجیدہ ہے تو اسے چاہیے کہ نہ صرف فلم انڈسٹری کے لئے پرکشش معاشی پیکج کا اعلان کرے بلکہ فنکاروں کو بھی زیادہ سے زیادہ مراعات دے۔
Load Next Story