اجالے اور ہالے کا ایک طائرانہ جائزہ
آپ کے اداریے، کالمز خداخوفی، مذہب و ملت کے درد، حالات پر نظر اور حسن تحریر کا مرقع ہیں۔
صحافت کی دنیا کا ایک معتبر نام معین کمالی کا ہے، ان کی تصنیف ''اجالے اور ہالے'' میں شامل تمام واقعات مستند کتابوں سے لیے گئے ہیں، انداز بیاں انتہائی دلنشیں ہے، آپ کا یہ کارنامہ اس تصنیف میں اجاگر ہو کر سامنے آیا کہ صرف ایک صفحہ پر ان برگذیدہ ہستیوں کا تذکرہ اس دلفریب انداز میں کیا ہے کہ کوئی گوشہ ذکر سے رہ نہیں گیا۔
طرز تحریر کی یہ خوبی خدائے بزرگ نے بہت کم لوگوں کو عطا کی ہے جس میں تحریر کی شگفتگی بھی ہو اور واقعات کی ترتیب اور حسنِ بیاں کا تسلسل سب ہی کچھ شامل ہو۔ یہ مصنف کے ان مضامین کا وہ مجموعہ ہے جو آپ ایک ماہنامے کے لیے لکھتے رہے۔ کتاب میںانبیائے کرام کے سچے واقعات، خلفائے راشدین، صحابہ کرام اور بزرگان ِدین کے قصے اور نصیحت آموز داستانیں شامل ہیں۔
زیرِ نظر کتاب میں پانچ ابواب ہیں: پہلے باب میں انبیاء کرام کے حوالے سے ایمان افروز قصے بیان کیے گئے ہیں جس کا آغاز حضرت آدم ؑ سے ہو کر آدم ثانی حضرت نوحؑ، حضرت ادریسؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت یعقوبؑ، حضرت یوسفؑ، حضرت شعیبؑ، حضرت ہارونؑ، حضرت ایوبؑ، حضرت سلیمانؑ، حضرت یونسؑ، حضرت زکریاؑ، حضرت یحییؑ، حضرت موسیؑ، حضرت عیسیؑ، حضرت داؤد ؑودیگر۔
باب دوم میں خلفائے راشدین حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ، حضرت علیؓ کے دورہ خلافت کے نامور واقعات جن سے اصلاح معاشرہ ہو سکے، جن میں آپؓ کے قابل تقلید عمل کو انتہائی بہترین انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔
تیسرے باب میں جلیل القدر صحابہ کرامؓ جن میں نبی پاکﷺ کے چچا حضرت عباسؓ، حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ، حضرت خالد بن ولیدؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت عمرو بن العاص ؓو دیگر صحابہ کرام کی زندگی کے ناقابل فراموش واقعات کا تذکرہ ہے۔
باب چہارم میں کچھ قرآنی قصے بیان کیے گئے ہیں جن کی مختصر سی حاصلات کچھ یوں ہیں کہ: تمام نعمتیں اللہ ہی کی طرف سے ہیں وہ جس سے چاہے عطا کرے اس کی عطا یا انصاف پر کسی قسم کا سوال اٹھانا کسی مومن کی شان نہیں۔
نبی پاکﷺ دونوں جہانوں کے سردار اور بعداز خدا بزرگ توئی قصہ مختصر کے مصداق لوگوں نے اگر ان کے ارشادات اور فرمودات پر عمل کیا تو ان کی دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں فلاح و کامیابی ہے۔
حضور نبی پاکﷺ کے علم کا کوئی ماخذ دنیاوی ذریعہ نہیں بلکہ وحی الہی ہے۔ رزق کی فراوانی ہو تو غریبوں اور ضرورت مندوں کا بھی خیال رکھیں کیونکہ جب تک سخاوت اور فیاضی کرتے رہو گے نعمتیں اور برکتیں نازل ہوتی رہیں گی۔ حقوق العباد ادا کرنیوالے ہمیشہ پھلتے پھولتے ہیں اور آخری زندگی میں بھی ان کو کامیابی اور کامرانی عطا ہو گی۔
زندگی کی ترتیب میں اعتدال؍میانہ روی اختیارکرنا، نرم و آہستہ آواز میں گفتگو کرنا، نماز کا قیام، نیکی کا حکم، برائی سے روکنے اور مصیبت میں صبر کرنے کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ کسی بھی شے کو حقیر نہ سمجھنا، انسان کو نماز میں دل کی، مجلس میں زبان کی، غصے میں ہاتھ کی اور کھانے میں اپنے پیٹ کی حفاظت کرنا چاہیے۔
باب پنجم میں متفرق کہانیاں انتہائی دلکش اور مفید اندازمیں تحریر کی گئی ہیں۔ کتاب میں موجود تمام واقعات اپنے قاری کے جذبہ ایمانی کو ایک نئی دلفریب تازگی بخشتے ہیں، ان کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ کوئی مذہبی عالم آنکھوں دیکھے واقعات بیان کر رہا ہے۔
اس تصنیف میں موجود اہم اسلامی واقعات کی مزید تخلیص کے بجائے قارئین کو اس کے مطالعے کی دعوت دیتا ہوں کیونکہ جس بہترین انداز میں یہ رقم ہوئے ہیں اس کا سرور تو صرف اس کے پڑھنے میں ہی ہے اور ویسے بھی تاریخی واقعات میں کسی قسم کا مبالغہ اس کی تاریخی حیثیت کو ختم کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔
اس کتاب میں موجود تحریروں کے لیے آپ نے جن کتابوں سے استفادہ کیا ان میں قرآن پاک کی مختلف تفاسیر کے علاوہ مولانا عبدالرحمن کی سیرت انبیائے کرام ؑ،مولانا اشرف علی تھانویؒ کی بہشتی زیور اور نشرالطیب، مولانا رحمت اللہ سبحانی کی مخزن اخلاق، مولانا عبدالقدوس ہاشمی کی خلافت اسلامیہ، طالب الہاشمی کی فوزوسعادت کے ایک سو پچاس چراغ اور تاریخ اسلام کی چار سو باکمال خواتین، آباد شاہ پوری کی کتاب خورشید رسالتﷺ کی پانچ کرنیں، مثنوی مولانا روم و دیگر شامل ہیں۔
یہ کتاب اپنی نوعیت کی منفرد اور نایاب کتاب ہے جو ملک و بیرون ملک ہر لائبریری اور ہر گھر میں ہونی چاہیے۔ معین کمالی اجمیر (ہندوستان) میں یکم جولائی 1944کو پیدا ہوئے۔ آپ نے جامعہ سندھ سے شعبہ فلسفہ میں دوسری پوزیشن کے ساتھ اپنا ایم اے فلسفہ مکمل کیا، پھر آپ نے ایم اے صحافت، ایل ایل بی اور بی ایڈ کی سند حاصل کر کے ملت بوائز اینڈ گرلز سکینڈری اسکول، کورنگی نمبر دو سے بحیثیت صدر مدرس انتہائی برائے نام تنخواہ پر منسلک ہوئے۔
آپ نے انتھک محنت سے اس ادارے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر کے ایک مثالی تعلیمی ادارہ بنایا اور یہیں سے وظیفہ پر سبکدوش ہوئے۔ آپ دبلے پتلے، میانہ قد، بے باک، انتہائی مخلص، صاف دل، صاف گو، انسان دوست، باضمیرانسان ہیں۔ مطالعے کے شوقین لکھنے کے عادی ہیں۔ ابتدائی دنوں میں اخبارات کے نام خطوط لکھتے۔
پہلی تحریر ایک خط کی شکل میں آوارہ کتوں سے متعلق تھی چونکہ آپ کی اوالین رہائش کورنگی میں تھی جہاں کے رہائشی کتوں کی بہتات سے سخت تنگ تھے، اس مراسلے کی یہ خاصیت بھی ہے کہ پاکستانی صحافت میں یہ شاید پہلا تصویری مراسلہ تھا۔ آپ نے اپنی حیات کا بیشتر حصہ قلم کی مزدوری کرتے ہوئے گزارا۔ وطن عزیز کے مختلف اخبارات و جرائد کو کم از کم چالیس سال سے آپ کا قلمی تعاون حاصل رہا۔
آپ کے اداریے، کالمز خداخوفی، مذہب و ملت کے درد، حالات پر نظر اور حسن تحریر کا مرقع ہیں۔ آپ نے علمی و مذہبی موضوعات پر انتہائی سنجیدہ مضامین لکھے تو دوسری طرف طنزیہ و مزاحیہ کالمزبھی تحریر کیے۔ صلاحیت، ایمانداری اور فرض شناسی صحافت کی دنیا کے وہ اہم محرکات ہیں جن سے فیصلہ کن مدد حاصل ہوتی ہے اور معین کمالی پوری زندگی اس پر سختی سے کاربند رہے۔ مجھ خاکسار کو یہ خوش نصیبی حاصل ہے کہ آپ ہمارے والد کے لائق اور پسندیدہ شاگردوں میں سے ہیں اس لیے آپ سے مجھے گاہے گاہے فیض حاصل ہوتا رہتا ہے جو ان کی اعلیٰ ظرفی کی دلیل ہے۔
اللہ کریم آپ کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور آپ کا سایہ شفیقہ تادیر ہمارے اوپر قائم رکھے (آمین)۔ آج کل آپ ''گوشہ کمال'' کے عنوان سے صحافت کے طالبعلموں کی رہنمائی کے لیے یوٹیوب فیس بک پر مصروف عمل ہیں۔ آپ علم برائے علم کے خواہاں ہیں۔ تدریس بجائے خود ابلاغ کا ایک اہم ذریعہ ہے اور علم کی نشرو اشاعت کرنیوالوں کو انبیاء کا وارث قرار دیا گیا ہے کیونکہ 'علم' انبیاء کی میراث ہے۔
اجل کی گود میں قابل ہوئی ہے عمر تمام
عجب نہیں کہ مری موت زندگی ہوجائے
طرز تحریر کی یہ خوبی خدائے بزرگ نے بہت کم لوگوں کو عطا کی ہے جس میں تحریر کی شگفتگی بھی ہو اور واقعات کی ترتیب اور حسنِ بیاں کا تسلسل سب ہی کچھ شامل ہو۔ یہ مصنف کے ان مضامین کا وہ مجموعہ ہے جو آپ ایک ماہنامے کے لیے لکھتے رہے۔ کتاب میںانبیائے کرام کے سچے واقعات، خلفائے راشدین، صحابہ کرام اور بزرگان ِدین کے قصے اور نصیحت آموز داستانیں شامل ہیں۔
زیرِ نظر کتاب میں پانچ ابواب ہیں: پہلے باب میں انبیاء کرام کے حوالے سے ایمان افروز قصے بیان کیے گئے ہیں جس کا آغاز حضرت آدم ؑ سے ہو کر آدم ثانی حضرت نوحؑ، حضرت ادریسؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت یعقوبؑ، حضرت یوسفؑ، حضرت شعیبؑ، حضرت ہارونؑ، حضرت ایوبؑ، حضرت سلیمانؑ، حضرت یونسؑ، حضرت زکریاؑ، حضرت یحییؑ، حضرت موسیؑ، حضرت عیسیؑ، حضرت داؤد ؑودیگر۔
باب دوم میں خلفائے راشدین حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ، حضرت علیؓ کے دورہ خلافت کے نامور واقعات جن سے اصلاح معاشرہ ہو سکے، جن میں آپؓ کے قابل تقلید عمل کو انتہائی بہترین انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔
تیسرے باب میں جلیل القدر صحابہ کرامؓ جن میں نبی پاکﷺ کے چچا حضرت عباسؓ، حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ، حضرت خالد بن ولیدؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت عمرو بن العاص ؓو دیگر صحابہ کرام کی زندگی کے ناقابل فراموش واقعات کا تذکرہ ہے۔
باب چہارم میں کچھ قرآنی قصے بیان کیے گئے ہیں جن کی مختصر سی حاصلات کچھ یوں ہیں کہ: تمام نعمتیں اللہ ہی کی طرف سے ہیں وہ جس سے چاہے عطا کرے اس کی عطا یا انصاف پر کسی قسم کا سوال اٹھانا کسی مومن کی شان نہیں۔
نبی پاکﷺ دونوں جہانوں کے سردار اور بعداز خدا بزرگ توئی قصہ مختصر کے مصداق لوگوں نے اگر ان کے ارشادات اور فرمودات پر عمل کیا تو ان کی دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں فلاح و کامیابی ہے۔
حضور نبی پاکﷺ کے علم کا کوئی ماخذ دنیاوی ذریعہ نہیں بلکہ وحی الہی ہے۔ رزق کی فراوانی ہو تو غریبوں اور ضرورت مندوں کا بھی خیال رکھیں کیونکہ جب تک سخاوت اور فیاضی کرتے رہو گے نعمتیں اور برکتیں نازل ہوتی رہیں گی۔ حقوق العباد ادا کرنیوالے ہمیشہ پھلتے پھولتے ہیں اور آخری زندگی میں بھی ان کو کامیابی اور کامرانی عطا ہو گی۔
زندگی کی ترتیب میں اعتدال؍میانہ روی اختیارکرنا، نرم و آہستہ آواز میں گفتگو کرنا، نماز کا قیام، نیکی کا حکم، برائی سے روکنے اور مصیبت میں صبر کرنے کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ کسی بھی شے کو حقیر نہ سمجھنا، انسان کو نماز میں دل کی، مجلس میں زبان کی، غصے میں ہاتھ کی اور کھانے میں اپنے پیٹ کی حفاظت کرنا چاہیے۔
باب پنجم میں متفرق کہانیاں انتہائی دلکش اور مفید اندازمیں تحریر کی گئی ہیں۔ کتاب میں موجود تمام واقعات اپنے قاری کے جذبہ ایمانی کو ایک نئی دلفریب تازگی بخشتے ہیں، ان کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ کوئی مذہبی عالم آنکھوں دیکھے واقعات بیان کر رہا ہے۔
اس تصنیف میں موجود اہم اسلامی واقعات کی مزید تخلیص کے بجائے قارئین کو اس کے مطالعے کی دعوت دیتا ہوں کیونکہ جس بہترین انداز میں یہ رقم ہوئے ہیں اس کا سرور تو صرف اس کے پڑھنے میں ہی ہے اور ویسے بھی تاریخی واقعات میں کسی قسم کا مبالغہ اس کی تاریخی حیثیت کو ختم کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔
اس کتاب میں موجود تحریروں کے لیے آپ نے جن کتابوں سے استفادہ کیا ان میں قرآن پاک کی مختلف تفاسیر کے علاوہ مولانا عبدالرحمن کی سیرت انبیائے کرام ؑ،مولانا اشرف علی تھانویؒ کی بہشتی زیور اور نشرالطیب، مولانا رحمت اللہ سبحانی کی مخزن اخلاق، مولانا عبدالقدوس ہاشمی کی خلافت اسلامیہ، طالب الہاشمی کی فوزوسعادت کے ایک سو پچاس چراغ اور تاریخ اسلام کی چار سو باکمال خواتین، آباد شاہ پوری کی کتاب خورشید رسالتﷺ کی پانچ کرنیں، مثنوی مولانا روم و دیگر شامل ہیں۔
یہ کتاب اپنی نوعیت کی منفرد اور نایاب کتاب ہے جو ملک و بیرون ملک ہر لائبریری اور ہر گھر میں ہونی چاہیے۔ معین کمالی اجمیر (ہندوستان) میں یکم جولائی 1944کو پیدا ہوئے۔ آپ نے جامعہ سندھ سے شعبہ فلسفہ میں دوسری پوزیشن کے ساتھ اپنا ایم اے فلسفہ مکمل کیا، پھر آپ نے ایم اے صحافت، ایل ایل بی اور بی ایڈ کی سند حاصل کر کے ملت بوائز اینڈ گرلز سکینڈری اسکول، کورنگی نمبر دو سے بحیثیت صدر مدرس انتہائی برائے نام تنخواہ پر منسلک ہوئے۔
آپ نے انتھک محنت سے اس ادارے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر کے ایک مثالی تعلیمی ادارہ بنایا اور یہیں سے وظیفہ پر سبکدوش ہوئے۔ آپ دبلے پتلے، میانہ قد، بے باک، انتہائی مخلص، صاف دل، صاف گو، انسان دوست، باضمیرانسان ہیں۔ مطالعے کے شوقین لکھنے کے عادی ہیں۔ ابتدائی دنوں میں اخبارات کے نام خطوط لکھتے۔
پہلی تحریر ایک خط کی شکل میں آوارہ کتوں سے متعلق تھی چونکہ آپ کی اوالین رہائش کورنگی میں تھی جہاں کے رہائشی کتوں کی بہتات سے سخت تنگ تھے، اس مراسلے کی یہ خاصیت بھی ہے کہ پاکستانی صحافت میں یہ شاید پہلا تصویری مراسلہ تھا۔ آپ نے اپنی حیات کا بیشتر حصہ قلم کی مزدوری کرتے ہوئے گزارا۔ وطن عزیز کے مختلف اخبارات و جرائد کو کم از کم چالیس سال سے آپ کا قلمی تعاون حاصل رہا۔
آپ کے اداریے، کالمز خداخوفی، مذہب و ملت کے درد، حالات پر نظر اور حسن تحریر کا مرقع ہیں۔ آپ نے علمی و مذہبی موضوعات پر انتہائی سنجیدہ مضامین لکھے تو دوسری طرف طنزیہ و مزاحیہ کالمزبھی تحریر کیے۔ صلاحیت، ایمانداری اور فرض شناسی صحافت کی دنیا کے وہ اہم محرکات ہیں جن سے فیصلہ کن مدد حاصل ہوتی ہے اور معین کمالی پوری زندگی اس پر سختی سے کاربند رہے۔ مجھ خاکسار کو یہ خوش نصیبی حاصل ہے کہ آپ ہمارے والد کے لائق اور پسندیدہ شاگردوں میں سے ہیں اس لیے آپ سے مجھے گاہے گاہے فیض حاصل ہوتا رہتا ہے جو ان کی اعلیٰ ظرفی کی دلیل ہے۔
اللہ کریم آپ کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور آپ کا سایہ شفیقہ تادیر ہمارے اوپر قائم رکھے (آمین)۔ آج کل آپ ''گوشہ کمال'' کے عنوان سے صحافت کے طالبعلموں کی رہنمائی کے لیے یوٹیوب فیس بک پر مصروف عمل ہیں۔ آپ علم برائے علم کے خواہاں ہیں۔ تدریس بجائے خود ابلاغ کا ایک اہم ذریعہ ہے اور علم کی نشرو اشاعت کرنیوالوں کو انبیاء کا وارث قرار دیا گیا ہے کیونکہ 'علم' انبیاء کی میراث ہے۔
اجل کی گود میں قابل ہوئی ہے عمر تمام
عجب نہیں کہ مری موت زندگی ہوجائے