دہشت گردی کی لہر اور کمزور حکومتی عزم
ملک میں دہشت گردی اور امن و امان کی جو صورت حال ہے‘ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ارباب اختیار اس سے لاعلم ہیں
ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے بعد جو غیر معمولی صورتحال پیدا ہوئی ہے' اس کے تناظر میں اگلے روز وفاقی کابینہ کا اہم اجلاس ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کی۔ سانحہ بنوں و راولپنڈی کے بعد اس اجلاس کی بہت اہمیت تھی کیونکہ وزیراعظم اپنا دورہ سوئٹزر لینڈ منسوخ کرچکے تھے۔ اس اجلاس میں وزیراعظم نے تسلیم کیا کہ پاکستان کو سیکیورٹی کی سنگین صورتحال کا سامنا ہے اور غیر معمولی صورتحال کے لیے ہمیں غیر معمولی اقدامات کرنا ہوں گے۔ انھوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے تناظر میں کہا کہ کل جماعتی کانفرنس کے فیصلوں کی تمام سیاسی جماعتوں نے توثیق کی تھی اور ہم سیاسی جماعتوں کو کسی بھی پیش رفت سے آگاہ رکھیں گے اور انھیں اعتماد میں لیں گے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے وفاقی کابینہ کو طالبان سے رابطوں پر بریفنگ دی اور نئی سیکیورٹی پالیسی کے بارے میں آگاہ کیا۔ سیکیورٹی پالیسی کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ غیر ملکی طالبان کی نشاندہی کے بعد متعلقہ حکومتوں سے رابطہ کیا جائے گا۔ حساس اداروں کے ذریعے مواصلاتی نیٹ ورک کی ٹریکنگ کی جائے گی۔ اس پالیسی کی باقاعدہ منظوری آیندہ اجلاس میں دی جائے گی۔
ملک میں اس وقت دہشت گردی اور امن و امان کی جو صورت حال ہے' یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ارباب اختیار اس سے لاعلم ہیں۔ ایک عام حکومتی اہلکار سے لے کر وزیراعظم تک ہر کوئی اس سے آگاہ ہے۔ فوج کے جوانوں اور افسروں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے' پولیس اہلکاروں اور افسروں کو مارا جا رہا ہے' پولیو سے محفوظ رہنے والے قطرے پلانے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مارا جا رہا ہے' بم دھماکوں میں عام اور بے گناہ شہری مارے جا رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں یقینی طور پر غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے اور وزیراعظم نے ایسی ہی غیر معمولی صورت حال کا ذکر کیا ہے لیکن عملی میدان میں ایسے اقدامات نظر نہیں آ رہے۔ اگلے روز وفاقی کابینہ کا جو اجلاس ہوا' اس میں بھی کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکا۔ وزیراعظم نے یہ ضرور کہا کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری کوششیں پاکستان کی بقا کے لیے ہیں۔ سیاسی مفاد نہیں دیکھا جائے گا' اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ادھر صورت حال یہ رہی کہ نئی سیکیورٹی پالیسی کی منظوری بھی اگلے اجلاس تک کے لیے موخر کر دی گئی۔
اخبارات میں جو اطلاعات شایع ہوئی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ قومی سلامتی پالیسی کا مسودہ کابینہ کے ارکان کو صرف پڑھنے کے لیے دیا گیا اور بعد میں واپس لے لیا گیا۔ مسودے میں مذاکرات نہ کرنے والے مقامی طالبان کو الگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ غیر ملکی طالبان کی نشاندہی کی جائے گی جس کے بعد ان کی متعلقہ حکومتوں سے رابطہ کیا جائے گا۔ مسودے میں طالبان سے مذاکرات کا ذکر موجود نہیں۔ دہشت گردی کو روکنے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھانے کا حتمی فیصلہ بھی سامنے نہیں آیا' اگر یہ کہا جائے کہ وفاقی کابینہ کا یہ اجلاس بھی ماضی کا تسلسل ہی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے بھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا بلکہ ایک اور کل جماعتی کانفرنس بلانے کا اشارہ سامنے آ گیا۔ ماضی میں جو کل جماعتی کانفرنس ہوئی' اس نے وفاقی حکومت کو طالبان سے مذاکرات کا مینڈیٹ دیا تھا' جو اب تک قائم ہے' اگلی اے پی سی مزید کیا کرے گی؟ زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ وہ ایک بار پھر وفاقی حکومت کو مذاکرات کا مینڈیٹ دے گی۔ یوں معاملات جوں کے توں رہیں گے۔
اس حوالے سے پارلیمنٹ کا غیر معمولی اجلاس بھی طلب نہیں کیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قومی اسمبلی' سینیٹ' چاروں صوبائی اسمبلیوں کا مشترکہ اجلاس طلب کر کے کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے لیکن اس حوالے سے بھی کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ اس گومگو اور ابہام کے باعث کالعدم تحریک طالبان بھی مذاکرات کے لیے کیسے تیار ہو گی' اس کا کسی کے پاس جواب نہیں ہے۔ کالعدم تحریک طالبان نے تو مذاکرات کی بات کر دی ہے' حکومت بھی مذاکرات کی بات کر رہی ہے' اس کے باوجود معاملات آگے نہیں بڑھ رہے تو اس کی بنیادی وجہ صورت حال کا واضح نہ ہونا یا فریقین کا ایک دوسرے پر اعتماد نہ کرنا ہے۔ معاملہ وہی ہے کہ جو کچھ بھی کرنا ہے' اسے پوری سنجیدگی اور نیک نیتی سے کیا جائے' یہ بات دونوں فریقوں پر صادق آتی ہے۔
بے عملی کا نتیجہ سب کے سامنے ہے' ابہام اور گومگو کی اس صورت حال میں سب سے زیادہ نقصان عام آدمی کا ہو رہا ہے۔ ایک جانب ان کی جانیں جا رہی ہیں تو دوسری جانب کاروباری سرگرمیاں معطل ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ حکمران اشرافیہ نے اپنے لیے تو سیکیورٹی کے انتظامات کر لیے ہیں اور وہ خود محفوظ ہیں۔ ان کے اہل خانہ بیرون ملک مقیم ہیں' اس لیے انھیں صورت حال کی سنگینی کا کوئی احساس نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لفظی طور پر تو کہہ دیا جاتا ہے کہ صورت حال غیر معمولی ہے اور غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے لیکن عملی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ اس غیر معمولی صورتحال سے نکلنے کے لیے ایک واضح اور دو ٹوک لائن اختیار کرنی چاہیے۔
ملک میں اس وقت دہشت گردی اور امن و امان کی جو صورت حال ہے' یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ارباب اختیار اس سے لاعلم ہیں۔ ایک عام حکومتی اہلکار سے لے کر وزیراعظم تک ہر کوئی اس سے آگاہ ہے۔ فوج کے جوانوں اور افسروں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے' پولیس اہلکاروں اور افسروں کو مارا جا رہا ہے' پولیو سے محفوظ رہنے والے قطرے پلانے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مارا جا رہا ہے' بم دھماکوں میں عام اور بے گناہ شہری مارے جا رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں یقینی طور پر غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے اور وزیراعظم نے ایسی ہی غیر معمولی صورت حال کا ذکر کیا ہے لیکن عملی میدان میں ایسے اقدامات نظر نہیں آ رہے۔ اگلے روز وفاقی کابینہ کا جو اجلاس ہوا' اس میں بھی کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکا۔ وزیراعظم نے یہ ضرور کہا کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری کوششیں پاکستان کی بقا کے لیے ہیں۔ سیاسی مفاد نہیں دیکھا جائے گا' اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ادھر صورت حال یہ رہی کہ نئی سیکیورٹی پالیسی کی منظوری بھی اگلے اجلاس تک کے لیے موخر کر دی گئی۔
اخبارات میں جو اطلاعات شایع ہوئی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ قومی سلامتی پالیسی کا مسودہ کابینہ کے ارکان کو صرف پڑھنے کے لیے دیا گیا اور بعد میں واپس لے لیا گیا۔ مسودے میں مذاکرات نہ کرنے والے مقامی طالبان کو الگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ غیر ملکی طالبان کی نشاندہی کی جائے گی جس کے بعد ان کی متعلقہ حکومتوں سے رابطہ کیا جائے گا۔ مسودے میں طالبان سے مذاکرات کا ذکر موجود نہیں۔ دہشت گردی کو روکنے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھانے کا حتمی فیصلہ بھی سامنے نہیں آیا' اگر یہ کہا جائے کہ وفاقی کابینہ کا یہ اجلاس بھی ماضی کا تسلسل ہی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے بھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا بلکہ ایک اور کل جماعتی کانفرنس بلانے کا اشارہ سامنے آ گیا۔ ماضی میں جو کل جماعتی کانفرنس ہوئی' اس نے وفاقی حکومت کو طالبان سے مذاکرات کا مینڈیٹ دیا تھا' جو اب تک قائم ہے' اگلی اے پی سی مزید کیا کرے گی؟ زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ وہ ایک بار پھر وفاقی حکومت کو مذاکرات کا مینڈیٹ دے گی۔ یوں معاملات جوں کے توں رہیں گے۔
اس حوالے سے پارلیمنٹ کا غیر معمولی اجلاس بھی طلب نہیں کیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قومی اسمبلی' سینیٹ' چاروں صوبائی اسمبلیوں کا مشترکہ اجلاس طلب کر کے کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے لیکن اس حوالے سے بھی کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ اس گومگو اور ابہام کے باعث کالعدم تحریک طالبان بھی مذاکرات کے لیے کیسے تیار ہو گی' اس کا کسی کے پاس جواب نہیں ہے۔ کالعدم تحریک طالبان نے تو مذاکرات کی بات کر دی ہے' حکومت بھی مذاکرات کی بات کر رہی ہے' اس کے باوجود معاملات آگے نہیں بڑھ رہے تو اس کی بنیادی وجہ صورت حال کا واضح نہ ہونا یا فریقین کا ایک دوسرے پر اعتماد نہ کرنا ہے۔ معاملہ وہی ہے کہ جو کچھ بھی کرنا ہے' اسے پوری سنجیدگی اور نیک نیتی سے کیا جائے' یہ بات دونوں فریقوں پر صادق آتی ہے۔
بے عملی کا نتیجہ سب کے سامنے ہے' ابہام اور گومگو کی اس صورت حال میں سب سے زیادہ نقصان عام آدمی کا ہو رہا ہے۔ ایک جانب ان کی جانیں جا رہی ہیں تو دوسری جانب کاروباری سرگرمیاں معطل ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ حکمران اشرافیہ نے اپنے لیے تو سیکیورٹی کے انتظامات کر لیے ہیں اور وہ خود محفوظ ہیں۔ ان کے اہل خانہ بیرون ملک مقیم ہیں' اس لیے انھیں صورت حال کی سنگینی کا کوئی احساس نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لفظی طور پر تو کہہ دیا جاتا ہے کہ صورت حال غیر معمولی ہے اور غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے لیکن عملی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ اس غیر معمولی صورتحال سے نکلنے کے لیے ایک واضح اور دو ٹوک لائن اختیار کرنی چاہیے۔