پولیو مہمموثر حفاظتی اقدامات کی ضرورت
بد انتظامی اورغفلت کا یہ عالم ہے کہ حکومت پولیو مہم شروع کرنے کا حکم دیتی ہے مگر ورکرز کو کوئی تحفظ نہیں کیا جاتا
ملک بھر میں تین روزہ انسداد پولیو مہم شروع ہوتے ہی خطرات سے دوچار ہو گئی ہے۔ اس مہم کے دوران لاکھوں بچوں کو پولیو کے مرض سے بچاؤ کی ویکسین کے قطرے پلائے جاتے ہیں تاہم کراچی میں ایک بار پھر پولیو ٹیم پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 3 پولیو ورکرز جاں بحق اور دو زخمی ہوگئے جن میں دو خواتین ورکر شامل ہیں، مہم بالآخر روک دی گئی۔ یہ ہلاکتیں افسوس ناک ہیں، بد انتظامی اور غفلت کا یہ عالم ہے کہ حکومت پولیو مہم شروع کرنے کا حکم تو دے دیتی ہیں مگر ورکرز کوکوئی فول پروف تحفظ مہیا نہیں کیا جاتا حالانکہ مسلح گروپ پولیوٹیموں پر حملے کا پہلے ہی الٹی میٹم دے چکے ہیں۔یوں سال رواں کی پہلی قومی انسداد پولیومہم امن وامان کی غیر یقینی اور سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے اپنے آغاز سے ہی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ کراچی کی 15یونین کونسل میں مہم شروع نہیں کی جا سکی جس سے 50 ہزار سے زائد بچے پولیو وائرس سے بچاؤ کی حفاظتی خوراک سے محروم رہ گئے جس پر عالمی ادارہ یونیسف نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم کوئٹہ سمیت بلوچستان کے 30اضلاع میں 13روزہ انسداد پولیو مہم شروع ہوگئی، سبی کی لیڈی ہیلتھ ورکرز نے پولیو مہم کا بائیکاٹ ختم کردیاجس کے بعد گھر گھر بچوں کو قطرے پلانے کا عمل جاری ہوگیا۔
محکمہ صحت پنجاب کے ترجمان نے بتایا کہ انسداد پولیو مہم کے دوران 5 سال تک کی عمر کے ایک کروڑ 70لاکھ بچوں کو پولیو ویکسین کے قطرے پلائے جائیں گے۔ محکمہ صحت نے اس مقصد کے لیے 39 ہزار ٹیمیں تشکیل دی ہیں۔خیبرپختونخوا کے 7ہائی رسک اضلاع میں 16 ہزار سے زائد والدین کے بچوں کو پولیو کے خلاف قطرے پلانے سے انکار کے کیس سامنے آئے ہیں جب کہ تین اضلاع پشاور، چترال اور ہری پور میں پولیو مہم تیاریاں مکمل نہ ہونے اور بعض دیگر وجوہات کی بناء موخر کردی گئی۔ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں بھی چار بچوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ تحریک انصاف نے تمام اضلاع میں اپنے ورکروں کو پولیو مہم رضاکاروں کے طورپر کام کرنے کی ہدایت کی ہے یہ نئی ٹیمیں ہر یونین کونسل کی سطح پر صرف پولیوکے لیے ہی نہیں بلکہ بچوںکی دیگربیماریوں کے حوالے سے بھی کام کریں گی۔ اسی اسپرٹ کا مظاہرہ تمام صوبائی حکومتوں کو کرنا چاہیے۔پولیو مہم ٹیموں کو ہر ممکن تحفظ ملنا چاہیے اور ان ٹیموں کے ساتھ پولیس اور رینجرز سمیت انٹیلی جنس اہلکاروں کی خدمات بھی حاصل کی جائیں تاکہ پولیوکے قطروں سے کوئی بچہ محروم نہ رہے اور پولیو ورکرز کے قاتلوں کو جلد گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔
محکمہ صحت پنجاب کے ترجمان نے بتایا کہ انسداد پولیو مہم کے دوران 5 سال تک کی عمر کے ایک کروڑ 70لاکھ بچوں کو پولیو ویکسین کے قطرے پلائے جائیں گے۔ محکمہ صحت نے اس مقصد کے لیے 39 ہزار ٹیمیں تشکیل دی ہیں۔خیبرپختونخوا کے 7ہائی رسک اضلاع میں 16 ہزار سے زائد والدین کے بچوں کو پولیو کے خلاف قطرے پلانے سے انکار کے کیس سامنے آئے ہیں جب کہ تین اضلاع پشاور، چترال اور ہری پور میں پولیو مہم تیاریاں مکمل نہ ہونے اور بعض دیگر وجوہات کی بناء موخر کردی گئی۔ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں بھی چار بچوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ تحریک انصاف نے تمام اضلاع میں اپنے ورکروں کو پولیو مہم رضاکاروں کے طورپر کام کرنے کی ہدایت کی ہے یہ نئی ٹیمیں ہر یونین کونسل کی سطح پر صرف پولیوکے لیے ہی نہیں بلکہ بچوںکی دیگربیماریوں کے حوالے سے بھی کام کریں گی۔ اسی اسپرٹ کا مظاہرہ تمام صوبائی حکومتوں کو کرنا چاہیے۔پولیو مہم ٹیموں کو ہر ممکن تحفظ ملنا چاہیے اور ان ٹیموں کے ساتھ پولیس اور رینجرز سمیت انٹیلی جنس اہلکاروں کی خدمات بھی حاصل کی جائیں تاکہ پولیوکے قطروں سے کوئی بچہ محروم نہ رہے اور پولیو ورکرز کے قاتلوں کو جلد گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔