معاشرہ ہمیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں خواجہ سراؤں کا شکوہ
زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کے لیے خواجہ سراؤں نے مختلف ہنر سیکھنا شروع کر دیے ہیں، لاہور کے علاقہ جوہر ٹاؤن میں ووکیشنل سینٹر قائم کیا گیا ہے جہاں خواجہ سراؤں کو سلائی، کڑھائی اور ڈیزائنگ سمیت مختلف ہنر سکھائے جائیں گے۔
باعزت روزگار کی راہ میں بڑی رکاوٹ پڑھا لکھا نہ ہونا ہے
خواجہ سراؤں کی مقامی گرو لیلیٰ ناز کہتی ہیں کہ لوگ اکثر خواجہ سراؤں پر اعتراض کرتے ہیں کہ ہمارا طبقہ بھیک مانگتا ہے، ناچ گانا کرتا ہے اور بعض غلط کام بھی کرتے ہیں لیکن اب خواجہ سرا آہستہ آہستہ ان کاموں کو چھوڑ رہے ہیں کیوں کہ وہ بھی عام لوگوں کی طرح محنت مزدوری، نوکری اور کسی ہنرمندی کے بل بوتے پر روزی کمانا چاہتے ہیں مگر اس راہ کو اپنانے میں سب سے بڑا مسئلہ خواجہ سراؤں کا ان پڑھ ہونا ہے۔
پڑھے لکھے خواجہ سراؤں کی تعداد بہت کم ہے
انہوں نے بتایا کہ چند ایک خواجہ سرا ایسے بھی ہیں جو خاصی پڑھی لکھی اور بہترین جاب کررہے ہیں لیکن ایسی خواجہ سراؤں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے، اس لیے انہوں نے اپنی شاگردوں کو کپڑوں کی سلائی کڑھائی، ڈیزائننگ سمیت مختلف ہنرسکھانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔
خواجہ اب سرا اپنا شناخت کارڈ بنواسکتے ہیں
خواجہ سراؤں کو ہنرمند بنانے کے ووکیشنل سینٹر امپاورمنٹ آف ٹرانس جینڈر کی بانی انوشہ طاہربٹ ہیں۔ ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے انوشہ طاہربٹ کا کہنا تھا کہ ان سمیت مختلف این جی اوز کی کوششوں سے خواجہ سراؤں کو نہ صرف ووٹ کا حق مل چکا ہے بلکہ وہ خواجہ سرا کے طور پر اپنا شناختی کارڈ بھی بنواسکتے ہیں۔
پیدائش کا سرٹیفکیٹ شناخت کارڈ کی راہ میں رکاوٹ
انہوں نے کہا کہ اس عمل میں مسئلہ یہ آرہا ہے کہ اکثرخواجہ سراؤں کے والدین نے بچپن میں ان کے پیدائش کے جو سرٹیفکیٹ بنوائے تھے ان میں ان کی جنس لڑکا یا لڑکی درج ہے، اسی طرح ان لوگوں نے اسکول اور کالج میں تعلیم بھی بطور لڑکا اور لڑکی حاصل کی ہے اور ان کے نادرا سرٹیفکیٹ اور تعلیمی اسناد پر ان کے نام کے ساتھ جنس مرد یا عورت درج ہے۔
خواجہ سرا ہونے کا مستند سرٹیفکیٹ ملے تو ہمیں مخصوص سہولت ملے
انوشہ طاہر بٹ کہتی ہیں حکومت نے خواجہ سراؤں کے لیے مختلف سہولتوں کا اعلان کیا ہے لیکن یہ وہ سہولت تو اس وقت حاصل کرسکیں گے جب ان کے پاس خواجہ سرا ہونے کا کوئی سرکاری سرٹیفکیٹ ہوگا، ان کے مطابق حکومت کواس حوالے سے بھی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے کہ جو خواجہ سرا اب اپنا قومی شناختی کارڈ تبدیل کروانا چاہتے ہیں یا تعلیمی اسناد پر سے اپنی جنس تبدیل کروانا چاہتے ہیں وہ کسی مستند سرکاری اسپتال کی تصدیق شدہ میڈیکل رپورٹ جمع کروا کر دستاویزات پر سے اپنی جنس تبدیل کرواسکیں۔
خواجہ سرا باصلاحیت بھی ہیں جن کی صلاحیتیں اجاگر کرنے کی ضرورت ہے
انوشہ طاہر بٹ کہتی ہیں خواجہ سرا صرف ناچ گانا اور بھیک مانگنا ہی نہیں جانتے بلکہ ان میں صلاحیتیں بھی پوشیدہ ہوتی ہیں جنہیں اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، کئی خواجہ سرا بہت اچھا کھانا پکالیتی ہیں، ڈیزائنگ بہت اچھی کرتی ہیں، جن کی آوازا چھی ہے وہ پروفیشنل سنگر بن سکتی ہیں صرف ان کے اندر چھپی صلاحیتیوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور اسی حوالے سے کام کر رہے ہیں۔
بدقسمتی سے معاشرہ ہمیں کسی بھی شعبہ میں قبول نہیں کررہا
خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے سرگرم خواجہ سرا عنائیہ چوہدری کا کہنا ہے کہ ان کی برادری میں سے کئی خواجہ سرا اب سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں اہم پوسٹوں پر کام کررہے ہیں، بعض نے بزنس شروع کر رکھا ہے، ٹی وی، ڈرامہ اور فلموں میں بھی خواجہ سرا بطور آرٹسٹ کام کررہے ہیں لیکن بدقسمتی سے انہیں ابھی تک معاشرے میں قبول نہیں کیا جارہا، مرد اور عورتیں خواجہ سراؤں کو خود سے کم تر سمجھتے ہیں، خواجہ سراؤں کی صلاحیتوں کونہیں دیکھا جاتا بلکہ ان کی جنس کی بنیاد پر ان سے سلوک کیا جاتا ہے جس سے دل دکھی ہوجاتا ہے۔
کالج تک لڑکا بن کر تعلیم حاصل کی، خواجہ سرا ہوں تو میرا کیا قصور
عنائیہ چوہدری کے مطابق انہوں نے خود کالج تک لڑکا بن کر تعلیم حاصل کی مگر انہیں لڑکے کے روپ میں ایک گھٹن کا احساس ہوتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا تھا جیسے میرے اندر کوئی اور بیٹھا ہے اور میں باہر کوئی اور لبادہ اوڑھ رکھا ہے، اس اندرونی کشمکش میں کئی سال بیت گئے لیکن بالآخر میرے اندر جو حقیقت تھی وہ جیت گئی اور آج میں آپ کے سامنے ہوں، میں خواجہ سرا ہوں تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں، مجھے بھی اسی پروردگار نے پیدا کیا ہے جس نے باقی انسانوں کو پیدا کیا، میں اس حال میں بھی اللہ کا شکرادا کرتی ہوں۔
خواجہ سراؤں کی تعلیم اور ہنر مندی پر توجہ دی جائے
عنائیہ چوہدری نے بتایا کہ خواجہ سراؤں کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے ان کی ایجوکیشن اور ہنرمندی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، یہ حقیقت ہے کہ معاشرہ خواجہ سراؤں کو صرف اس وجہ سے قبول کرنے کو تیار نہیں کہ وہ انہیں ناچنے گانے، بھیک مانگنے اور جسم فروش سمجھتا ہے، معاشرے میں اپنا مقام بنانے کے لیے ہم خواجہ سراؤں کو خود کو بدلنا ہوگا، اپنے رویوں، اپنے کام اور صلاحیتوں سے ثابت کرنا ہوگا کہ خواجہ سرا کسی بھی دوسرے مرد اور عورت سے کم نہیں۔