آزادی صحافت یقینی بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت

کراچی میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کو روکنے میں ناکامی کی ذمہ داری سندھ حکومت کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت۔۔۔

کراچی میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کو روکنے میں ناکامی کی ذمہ داری سندھ حکومت کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے۔ فوٹو: فائل

گذشتہ جمعہ کو کراچی کے علاقے ناظم آباد میں دہشت گردی کا ایک ایسا واقعہ رونما ہوا، جسے صحافت اور آزادی اظہار پر پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اور اندوہناک حملہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ حملہ ایکسپریس نیوز کی گاڑی پر ہوا ، جس میں ایکسپریس نیوز کے تین کارکن وقاص عزیز خان، خالد خان اور محمد اشرف آرائیں شہید ہو گئے۔

اس سانحہ سے پورے پاکستان کی صحافتی برادری میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ۔ کسی میڈیا گروپ کے بے گناہ کارکنوں کو بہیمانہ انداز میں قتل کرنے کا یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا ۔ اس سے نہ صرف صحافتی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے بلکہ خوف وہراس بھی پیدا ہوا ہے۔ اس واقعہ پر صحافی تنظیموں نے پورے ملک میں زبردست احتجاج کیا ۔ ملک کی تمام سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں نے بھی ایکسپریس میڈیا گروپ اور شہداء کے لواحقین کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں میڈیا کے لوگوں کو بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے ماحول میں تحفظ فراہم کرنے کے لیے کوئی حکمت عملی وضع نہیں کر سکی ہیں ۔ اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے ، کم ہے ۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔

اس سے پہلے ایکسپریس میڈیا گروپ کے دفتر پر دو مرتبہ حملے ہو چکے ہیں۔ ایک حملہ 16 اگست 2013ء اور دوسرا حملہ 2 دسمبر 2013ء کو ہوا تھا۔ دفتر پر فائرنگ بھی کی گئی تھی اور بم بھی پھینکا گیا تھا۔ ان دو حملوں کے ملزمان ابھی تک گرفتار نہیں ہو سکے ہیں اور ان دو حملوں کی ذمہ داری بھی کسی نے قبول نہیں کی تھی۔ اگر حکومت ان حملوں کے پس پردہ عناصر کا پتہ چلا لیتی تو جمعہ 17 جنوری 2014ء کا واقعہ شاید رونما نہ ہوتا۔ کراچی میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کو روکنے میں ناکامی کی ذمہ داری سندھ حکومت کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ کراچی میں رینجرز کی قیادت میں ٹارگیٹڈ آپریشن ہو رہا ہے، جو وفاقی حکومت کا ایک ادارہ ہے۔ جمعہ 17 جنوری کو جمعیت علماء اسلام (س) کے رہنما مفتی عثمان یار خان کو دو ساتھیوں سمیت دہشت گردوں نے شہید کردیا۔ ان کے علاوہ 5 دیگر افراد بھی ٹارگٹ کلنگ میں مارے گئے ۔

سندھ میں حالات جس طرف جا رہے ہیں، انہیں دیکھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ بعض قوتیں یہ چاہتی ہیں کہ کراچی میں جاری ٹارگیٹڈ آپریشن ناکام ہو اور بلدیاتی انتخابات بھی نہ ہو سکیں۔ یہ قوتیں کون سی ہیں، ان کے بارے میں سیاسی جماعتیں کھل کر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ پنجاب کے ساتھ ساتھ سندھ میں بلدیاتی انتخابات ملتوی ہو چکے ہیں۔ پنجاب میں تو شاید آئندہ دو تین مہینوں میں بلدیاتی انتخابات ہو جائیں لیکن سندھ میں کوئی یقین سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ بلدیاتی انتخابات کب ہوں گے ۔ پہلے الیکشن کمیشن نے یہ تجویز دی تھی کہ پنجاب میں 13 مارچ اور سندھ میں 23 فروری کو بلدیاتی انتخابات کرائے جا سکتے ہیں، اس کے باوجود سندھ کے لوگوں کو یہ یقین نہیں ہے کہ سندھ میں 23 فروری کو بھی بلدیاتی انتخابات ہو سکتے ہیں کیونکہ سندھ ہائیکورٹ نے متعدد آئینی درخواستوں پر فیصلہ دیتے ہوئے نئی حلقہ بندیوں کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔

ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہے کہ بلدیاتی انتخابات نئی حلقہ بندیوں پر ہوں گے یا نہیں۔ حکومت سندھ نے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے، جسے سماعت کے لیے تو منظور کر لیا گیا ہے مگر سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کی یہ درخواست مسترد کردی ہے کہ سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف عبوری ریلیف مہیا کیا جائے تاکہ انتخابی عمل جاری رہ سکے ۔ اب ساری نظریں سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہیں ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا یہ کہنا درست ہے کہ صوبے میں بلدیاتی انتخابات کا مستقبل سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہے۔




سپریم کورٹ کا فیصلہ کب آئے گا ؟ اس ضمن میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا ۔ سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کی درخواست سمیت اس معاملے پر دیگر درخواستوں کی سماعت کے لیے 27 جنوری کی تاریخ مقرر کی ہے ۔ 27 جنوری سے اگر سماعت شروع ہو تو فریقین کو اپنے دلائل دینے میں وقت درکار ہو گا ۔ سپریم کورٹ کے تین امکانی فیصلے ہو سکتے ہیں ۔ ایک فیصلہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھے۔

اس صورت میں انتخابی شیڈول کے حوالے سے جو بھی مشق کی گئی، وہ سب بے کار چلی جائے گی کیونکہ نئی حلقہ بندیاں مکمل طور پر ختم ہو جائیں گی اور سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق حکومت سندھ کو دوبارہ حلقہ بندیاں کرنا پڑیں گی ۔ اس ضمن میں سندھ حکومت کو نئی قانون سازی کرنا پڑے گی اور نئے رولز وضع کرنا ہوں گے ۔ از سر نو حلقہ بندیوں کے لیے کمیشن قائم کرنا ہو گا ، جس کا حکم سندھ ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں دیا ہے ۔ سندھ حکومت کے ذمہ داروں کا کہنا یہ ہے کہ اس کام کے لیے انہیں کم از کم تین ماہ درکار ہوں گے۔ اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ فروری کے پہلے ہفتے میں بھی آجائے تو از سر نو حلقہ بندیاں کرنے اور ان کے مطابق نیا الیکشن شیڈول جاری کرنے کے لیے کم از کم 5 ماہ درکار ہوں گے۔ جون اور جولائی کے مہینے سندھ میں سخت گرم ہوتے ہیں۔

ان میں انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے ۔ پھر یہ انتخابات آئندہ اکتوبر یا نومبر میں ہو سکتے ہیں اور یہ بھی اس صورت میں کہ سندھ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل نہ کرے ۔ دوسرا امکان یہ ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ سندھ حکومت کی اپیل کو منظور کر لے اور سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیدے۔ اس صورت میں بھی سندھ میں مارچ کے آخر میں جا کر انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکے گا ۔ تیسرا امکان یہ ہے کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں کوئی نیا راستہ نکال دے اور حلقہ بندیوں میں معمولی ردو بدل کرنے کا حکم دے، تب بھی سارا انتخابی عمل نئے سرے سے شروع کرنا پڑے گا۔ اس کے لیے بھی حکومت سندھ اور الیکشن کمیشن اگر بہت جلدی بھی کریں تو اپریل میں انتخابات ہو سکتے ہیں ۔ بہر صورت بلدیاتی انتخابات کے مستقبل کا انحصار سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہے لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے سے زیادہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا انحصار کراچی میں امن وامان کی صورت حال پر بھی ہے۔

اگر ٹارگیٹڈ آپریشن اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکا تو وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو سکتے ہیں۔ ٹارگیٹڈ آپریشن کی حکمت عملی پر وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کی اپروچ میں فرق وقت کے ساتھ ساتھ نمایاں ہو رہا ہے اور تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس پر کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے۔ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کب ہوں گے؟ اس بارے میں کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کیونکہ کراچی میں جاری ٹارگیٹڈ آپریشن کو بھی ناکام بنانے کے لیے خفیہ سرگرمیاں شروع ہو گئی ہیں اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ سندھ خصوصاً کراچی میں آنے والے دنوں میں امن وامان کی کیا صورت حال ہو گی۔
Load Next Story