طالبان سے مذاکرات کیوں شروع نہیں ہو سکے

حالیہ کاروائیوں کے باوجود بیشتر سیاسی جماعتیں اس حق میں ہیں کہ مرکزی حکومت کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں

حالیہ کاروائیوں کے باوجود بیشتر سیاسی جماعتیں اس حق میں ہیں کہ مرکزی حکومت کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں۔ فوٹو: فائل

بنوں اور پھر راولپنڈی میں سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنائے جانے کے بعد بھی مرکزی حکومت تاحال اپنی پالیسی واضح نہیں کر سکی کہ مرکز نے عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کرنے ہیں یا پھر ان کے خلاف کاروائی کی جانی ہے، طویل خاموشی کے بعد ایک مرتبہ پھر عسکریت پسندوں کی جانب سے کاروائیوں کا آغاز کردیا گیا ہے اور اس مرتبہ ان کا نشانہ سکیورٹی فورسز ہیں۔

اس صورت حال میں مرکزی حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ اب تک اپنی پالیسی واضح کر چکی ہوتی کہ اس نے عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہے یا نہیں اور آیا عسکریت پسند بھی مرکز کے ساتھ مذاکرات کی میز پر یکجا ہونے کے لیے تیار ہیں یا نہیں ،گو کہ عسکریت پسندوں نے بنوں کی کاروائی کے فوراً بعد مذاکرات کی بات بھی چھیڑ دی تاہم صورت حال واضح نہیں ہے اور پھر بنوں کے بعد راولپنڈی میں اسی طرز کی کاروائی کرتے ہوئے معاملات کو مزید سخت کر دیا گیا ہے تاہم اس کے باوجود مرکز اس حوالے سے واضح نہیں ہو سکا ہے کہ اس نے مذاکرات کرنے ہیں یا وہ کاروائی کے بارے میں سوچ رہا ہے یا پھر مذاکرات اور کاروائی دونوں ساتھ ،ساتھ چلیں گے۔

ایک عام تاثر یہ لیا جا رہا ہے کہ مرکزی حکومت تو مذاکرات کی سمت جانا چاہتی ہے تاہم اسے روکا جا رہا ہے، اگر ایسی صورت حال کا مرکز کو سامنا ہے تو اس صورت میں مرکز کو سیاسی جماعتوں کو مدعو کرتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کرنا چاہیے کیو نکہ گزشتہ سال ستمبر میں جو آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی تھی اس وقت کے اور آج کے حالات میں کافی تبدیلی آچکی ہے اس لیے موجودہ حالات کے مطابق مرکز کو ایک مرتبہ پھر سیاسی قوتوں سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ مرکز میں بھی سیاسی پارٹی ہی برسراقتدار ہے اور اگر مرکز میں برسراقتدار مسلم لیگ (ن) کو عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات یا ان کے خلاف کاروائی کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو اس صورت میں ان کی بات کو دیگر سیاسی جماعتیں ہی بہتر انداز میں سمجھ بھی سکتی ہیں اور جن مشکلات کا مسلم لیگ(ن) شکار ہوگی ان سے نکلنے کے لیے اسے بہترین مشورہ بھی دے سکتی ہیں۔

تاہم مرکزی حکومت نجانے کن الجھنوں کا شکار ہے، حالانکہ اگر مرکزی حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالنا چاہتی ہے تو اس کے لیے مولانا فضل الرحمٰن اور مولانا سمیع الحق دونوں تیار بیٹھے ہیں اور مرکزی حکومت کو چاہیے تو یہ تھا کہ وہ ان دونوں مولانا صاحبان کے تجربہ، تعلقات اور اثرو رسوخ کا استعمال کرتی لیکن ایسا نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے پوری قوم اضطرابی کیفیت سے گزر رہی ہے، تاہم اب بھی مرکز اپنی پوزیشن واضح نہیں کر سکا اور بال کو یہ کہہ کر عوام کے کورٹ میں پھینکنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جو عوام کی خواہش اور مرضی ہوگی ویسا ہی کیا جائیگا، حالانکہ عوام نے تو اپنا اختیار ووٹ کے ذریعے حکومتوں کے حوالے کر رکھا ہے تاکہ وہ ان کے اور ملک کے بہترین مفاد میں فیصلے کریں لیکن حکومتوں کی سطح پر پھر بھی کنفیوژن پائی جاتی ہے جس کو دور کرنے کے لیے بھی انھیں خود ہی اقدامات کرنے ہوں گے۔




یہ بات بڑی واضح ہے کہ حالیہ کاروائیوں کے باوجود بیشتر سیاسی جماعتیں اس حق میں ہیں کہ مرکزی حکومت کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں اور خود مرکزی حکومت کا جھکاؤ بھی اسی طرف لگتا ہے اس لیے مرکزی حکومت اگر اس آپشن کو درست سمجھتی ہے تو فوری طور پر اس کا استعمال کرنا چاہیے تاکہ طالبان اگر مرکزی حکومت کے ساتھ مل بیٹھنے کے لیے تیار ہیں اور بات چیت آگے بڑھ سکتی ہے تو اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے اور اگر مرکزی حکومت کی جانب سے دست تعاون بڑھانے کے باوجود طالبان مذاکرات گریز پالیسی ہی پر گامزن رہتے ہیں تو اس صورت میں نہ صرف یہ کہ مرکز کے پاس عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی کے لیے مضبوط جواز پیدا ہو جائے گا بلکہ پوری قوم اورسیاسی جماعتیں بھی مرکز کی پشت پر موجود ہوں گے جو ممکنہ طور پر مرکز چاہ بھی رہا ہے تاہم دونوں میں سے جو بھی آپشن استعمال کیا جانا ہے اس کے حوالے سے فیصلہ بہرکیف مرکزی حکومت کو ہی کرنا ہے اور اس کے لیے اسے مشاورت کی غرض سے سرجوڑ کر بیٹھ جانا چاہیے تاکہ مزید وقت ضائع نہ ہو۔

مرکز اور خیبرپختونخوا حکومت کے درمیان نیٹو سپلائی کی بندش سے مخاصمت کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ بجلی چوری کے الزامات سے ہوتا ہو اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ وزیراعظم محمد نواز شریف کے دورہ سوات کے موقع پر نہ تووزیراعلیٰ ان کے استقبال یا تقریب میں شرکت کے لیے گئے اور نہ ہی صوبائی حکومت کا کوئی دوسرا نمائندہ ،مرکز اور خیبرپختونخوا کے درمیان مخالفتوں کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اس کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے اس کی توقع کی جا رہی تھی اور انہی سطور میں کہا گیا تھا کہ کہیں بڑھتے ،بڑھتے معاملہ اس حد تک نہ چلا جائے کہ جہاں وہ صورت حال پیدا نہ ہو جائے کہ جس میں وزیراعلیٰ ، وزیراعظم کے صوبہ میں آمد کے موقع پر ان کے استقبال تک کے لیے نہ جائیں، ایسی صورت حال اس سے قبل بھی پیدا ہو چکی ہے جب خود میاں محمد نواز شریف بحیثیت وزیراعلیٰ پنجاب، بے نظیر بھٹو کے دورہ لاہور کے موقع پر ان کے استقبال کے لیے نہیں گئے تھے جبکہ گزشتہ دور میں میاں محمد شہباز شریف بھی مرکز کے نمائندوں کے حوالے سے ایسا ہی طرز عمل اپنا چکے ہیں اور اب خود ان کو تحریک انصاف کی جانب سے ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔

یہ محاذ آرائی مرکز کے مفاد میں بھی نہیں تاہم صوبہ کے مفاد میں تو کسی بھی طور نہیں، تاہم جہاں صوبہ میں ایک جانب تحریک انصاف کا جذباتی پن ہے تو ساتھ ہی جماعت اسلامی اس سے بھی ایک قدم آگے ہے اور ایسی صورت حال سے سیاسی طور طریقے اپنا کر ہی نکلا جاسکتا ہے جنگی طرز عمل کے ذریعے نہیں۔

اگرچہ مرکزی حکومت کا طرز عمل بھی اس حوالے سے کوئی مناسب نہیں ہے کہ وہ خیبرپختونخوا کو نہ تو بجلی منافع اور اس کے دیگر مطالبات کے حوالے سے جو اب تک نہیں دے رہا ہے تاہم ساتھ ہی خیبرپختونخوا کا رویہ بھی ایسا ہے کہ وہ زبردستی مرکز سے لینے کی راہ پر چلتا ہوا دکھائی دیتا ہے حالانکہ چاہیے تو یہ تھا سینئر وزیر سراج الحق نے سابق وزرائے خزانہ پر مشتمل جو کونسل تشکیل دی تھی اس کی سطح پر کوئی اکٹھ دیکھنے کو ملتا ، جبکہ دوسری جانب صوبائی حکومت عدالتی راستہ بھی نہیں اپنا رہی، تاہم خیبرپختونخوا کے بڑے تاحال سوچ وبچار کی منازل ہی طے کر رہے ہیں اور اب تک وہ یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ آیا صرف سیاسی سکورنگ کا سلسلہ ہی جاری رکھا جائے گا یا پھر مرکز سے اپنے حقوق آئینی فورمز کا استعمال کرتے ہوئے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی ، صوبہ کو اس حوالے سے ضرور فیصلہ کرنا ہوگا۔
Load Next Story