ڈیرہ بگٹی کے مہاجرین کی آباد کاری کا مسئلہ
امن وامان بہتر بنانے کیلئے سیاسی جماعتوں اور اداروں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا
ISLAMABAD:
بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے ایک مرتبہ پھر بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے تمام لوگوں کو اعتماد میں لے کر مزاحمت کاروں کے ساتھ بات چیت کا عندیہ دیا ہے اور کہا ہے کہ بات چیت کا طریقہ کار طے کرنے کیلئے رواں ماہ کے آخر میں کل جماعتی کانفرنس منعقد کی جا رہی ہے۔
وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں۔ وزیراعلیٰ نے صوبے کے قبائلی تنازعات کے حوالے سے کہا ہے کہ اس کا امن وامان کی صورتحال پر خاصا اثر پڑتا ہے اور مناسبت فورم کو متحرک کرکے قبائلی تنازعات کو بھی حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وزیراعلیٰ صوبے سے فرقہ واریت کو بھی ختم کرنے کیلئے کوشاں ہیں، ان کا کہنا ہے کہ حکومت فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے مختلف مکتبہ فکر کے علماء کے ساتھ بھی مسلسل رابطے میں ہے اور اس بات کی سرگرمی سے کوشش کی جا رہی ہے کہ افہام و تفہیم کے ذریعے سب کے ساتھ مل بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کر لیا جائے بلوچستان کے وزیراعلیٰ نے یہ باتیں کوئٹہ میں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کے شرکاء سے خطاب میں کہیں، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صوبے کی قیمتی قدرتی معدنیات کو بروئے کار لانے کیلئے وہ سرمایہ کاروں کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن ان وسائل پر بلوچستان کے عوام کے حق سے کبھی دستبردار نہیں ہونگے، ہمیں صرف ایسی ترقی قبول ہے جس کے ثمرات سے بلوچستان کے عوام مستفید ہوں۔
دوسری جانب بلوچستان اسمبلی میں امن وامان سے متعلق ہونے والی گرما گرم بحث کو سمیٹتے ہوئے وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ سابقہ دور کے مقابلے میں موجودہ حکومت کے چھ ماہ کے دوران امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے جسے واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ صوبے میں فرقہ واریت پر قابو پا لیا گیا ہے، افغان مہاجرین کی آمد کے بعد صوبے میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا، امن وامان بہتر بنانے کیلئے سیاسی جماعتوں اور اداروں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا جبکہ اس سے قبل بلوچستان اسمبلی کے اراکین کا بھی یہی کہنا تھا کہ ماضی کے مقابلے میں موجودہ حکومت نے امن و امان کی بہتری کیلئے نمایاں اقدامات کئے ہیں جبکہ بعض اراکین نے امن و امان پر بحث کے دوران ایف سی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبد المالک بلوچ کے بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کے اس اعلان کو سراہا جا رہا ہے جس میں اُنہوں نے صوبے میں امن کیلئے مذاکرات کرنے اورآل پارٹیز کانفرنس بلا کر مذاکرات کیلئے طریقہ کار طے کرنے کی بات کی ہے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی اس خطے میں اہمیت کی وجہ سے یہ عالمی مرکز نگاہ بنا ہوا ہے اس لئے اس مسئلے کو جس قدر جلد ہو سکے حل کر لیا جائے اور ناراض لوگوں کے ساتھ مذاکرات کر کے ان کے جو تحفظات ہیں انہیں دور کیا جائے۔ ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کو مذاکرات سے پہلے ماحول کو ساز گار بنانا ہوگا اور اس لئے حکومت کو اپنی ترجیحات اور ٹھوس پالیسی مرتب کرنا ہو گی۔ جبکہ بلوچستان کابینہ نے مادری زبانوں میں تعلیم کے سلسلے میں پرائمری سطح پر مضمون شامل کرنے، وزیراعلیٰ کابینہ کے اراکین اور اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور دیگر مراعات میں اضافے کے علاوہ سکیورٹی کے حوالے سے محکمہ داخلہ کی رپورٹ ، لیویزڈائریکٹوریٹ کی دوبارہ بحالی، لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل 2014ء، سردار بہادر خان وویمن یونیورسٹی ترمیمی بل، اور بولان یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز اینڈ ہیلتھ کے قیام سے متعلق بل کی منظوری دے دی ہے۔
بگٹی مہاجرین کا قافلہ نوابزادہ چاکر خان بگٹی کی قیادت میں اپنے آبائی علاقے ڈیرہ بگٹی کیلئے کوئٹہ سے روانہ ہوا ، قافلے میں 35 سے زائد بگٹی مہاجرین کی گاڑیاں تھیں جن میں نوابزادہ شاہ زین بگٹی کی والدہ اور خاندان سمیت دیگر افراد بھی سوار تھے۔ راستے میں نوابزادہ شاہ زین بگٹی نے قیادت سنبھال لی تاہم بگٹی قبائل کے اس قافلے کو کشمور کے قریب ڈیرہ موڑ پر روک دیا گیا جس پر قافلے کے شرکاء نے آبائی علاقے میں داخلے کی اجازت نہ دیئے جانے کے خلاف سندھ اور پنجاب کے سرحدی مقام پر دھرنا دیا، ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں ڈیرہ بگٹی جانے دیا جائے۔
اس سے قبل شاہ زین بگٹی کے قافلے کو سوئی کے علاقے ڈولی چیک پوسٹ پر روک دیا گیا تھا جس کے بعد حکومت نے انہیں ڈیرہ بگٹی جانے کی اجازت نہ دیتے ہوئے واپس بھجوادیا۔ قافلے کے شرکاء ڈیرہ موڑ پہنچ کر دھرنا دیئے ہوئے ہیں شدید سردی کی وجہ سے قافلے میں شامل متعدد مویشی بھی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ نوابزادہ شاہ زین بگٹی کا کہنا ہے کہ وہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی حمایت اور معاونت سے اپنے قبیلے کے لوگوں کو واپس ڈیرہ بگٹی لے جا رہے ہیں انہیں دونوں حکومتوں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ان لوگوں کو صحت، تعلیم، پینے کے صاف پانی سمیت دیگر سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
حکومت بلوچستان کے ترجمان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ نوابزادہ شاہ زین بگٹی کے قافلے کے ڈیرہ بگٹی کے قریبی علاقے میں پہنچنے سے علاقے میں صورتحال کشیدہ ہوگئی ہے اور اسے دانشمندی اور تحمل کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ علاقے کا امن خراب نہ ہو۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ ڈیرہ بگٹی سے نقل مکانی کرنے والوں کی اپنے علاقوں میں واپسی کے حوالے سے نوابزادہ شاہ زین بگٹی کا دو تین ماہ سے صوبائی حکومت سے رابطہ تھا نوابزادہ شاہ زین بگٹی نے جب ڈیرہ بگٹی جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو صوبائی حکومت نے ان کے ساتھ مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی لیکن نوابزادہ شاہ زین بگٹی نے اپنے قافلے سمیت بغیر سکیورٹی اور دیگر ضروری انتظامات کے علاوہ علاقے میں جانے کی کوشش کی جس سے علاقے میں صورتحال کشیدہ ہوئی اور مخالفین کے ساتھ تصادم کا خطرہ پیدا ہوا۔
ترجمان نے اس توقع کا اظہار کیا کہ حالات کے مطابق دانش اور تحمل کا مظاہرہ کیا جائے گا اور علاقے میں ساز گار ماحول پیدا ہونے تک نوابزادہ شاہ زین بگٹی اور ان کے ساتھی ڈیرہ بگٹی کا اپنا پروگرام موخر کردیں گے۔ سیاسی و سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بگٹی مہاجرین کے اس قافلے کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کرکے ڈیرہ بگٹی لے جائے جس کا صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے وعدہ کر رکھا ہے اور اس سلسلے میں جو بھی ضروری انتظامات ہیں وہ کئے جائیں اور بگٹی مہاجرین کو دوبارہ ڈیرہ بگٹی میں آباد کر کے ان کو سہولیات بھی فراہم کی جائیں۔ ان حلقوں کے مطابق حکومت کے اس قسم کے مثبت اقدامات کے آگے چل کر قیام امن کیلئے کئے جانے والے اقدامات پر موثر اور اچھے اثرات مرتب ہونگے اور مذاکرات کیلئے جو حکومت اقدامات کر رہی ہے اور ماحول کو سازگار بنانے کی باتیں کی جا رہی ہیں ان میں اس قسم کے اقدامات کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔
بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے ایک مرتبہ پھر بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے تمام لوگوں کو اعتماد میں لے کر مزاحمت کاروں کے ساتھ بات چیت کا عندیہ دیا ہے اور کہا ہے کہ بات چیت کا طریقہ کار طے کرنے کیلئے رواں ماہ کے آخر میں کل جماعتی کانفرنس منعقد کی جا رہی ہے۔
وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں۔ وزیراعلیٰ نے صوبے کے قبائلی تنازعات کے حوالے سے کہا ہے کہ اس کا امن وامان کی صورتحال پر خاصا اثر پڑتا ہے اور مناسبت فورم کو متحرک کرکے قبائلی تنازعات کو بھی حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وزیراعلیٰ صوبے سے فرقہ واریت کو بھی ختم کرنے کیلئے کوشاں ہیں، ان کا کہنا ہے کہ حکومت فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے مختلف مکتبہ فکر کے علماء کے ساتھ بھی مسلسل رابطے میں ہے اور اس بات کی سرگرمی سے کوشش کی جا رہی ہے کہ افہام و تفہیم کے ذریعے سب کے ساتھ مل بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کر لیا جائے بلوچستان کے وزیراعلیٰ نے یہ باتیں کوئٹہ میں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کے شرکاء سے خطاب میں کہیں، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صوبے کی قیمتی قدرتی معدنیات کو بروئے کار لانے کیلئے وہ سرمایہ کاروں کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن ان وسائل پر بلوچستان کے عوام کے حق سے کبھی دستبردار نہیں ہونگے، ہمیں صرف ایسی ترقی قبول ہے جس کے ثمرات سے بلوچستان کے عوام مستفید ہوں۔
دوسری جانب بلوچستان اسمبلی میں امن وامان سے متعلق ہونے والی گرما گرم بحث کو سمیٹتے ہوئے وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ سابقہ دور کے مقابلے میں موجودہ حکومت کے چھ ماہ کے دوران امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے جسے واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ صوبے میں فرقہ واریت پر قابو پا لیا گیا ہے، افغان مہاجرین کی آمد کے بعد صوبے میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا، امن وامان بہتر بنانے کیلئے سیاسی جماعتوں اور اداروں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا جبکہ اس سے قبل بلوچستان اسمبلی کے اراکین کا بھی یہی کہنا تھا کہ ماضی کے مقابلے میں موجودہ حکومت نے امن و امان کی بہتری کیلئے نمایاں اقدامات کئے ہیں جبکہ بعض اراکین نے امن و امان پر بحث کے دوران ایف سی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبد المالک بلوچ کے بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کے اس اعلان کو سراہا جا رہا ہے جس میں اُنہوں نے صوبے میں امن کیلئے مذاکرات کرنے اورآل پارٹیز کانفرنس بلا کر مذاکرات کیلئے طریقہ کار طے کرنے کی بات کی ہے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی اس خطے میں اہمیت کی وجہ سے یہ عالمی مرکز نگاہ بنا ہوا ہے اس لئے اس مسئلے کو جس قدر جلد ہو سکے حل کر لیا جائے اور ناراض لوگوں کے ساتھ مذاکرات کر کے ان کے جو تحفظات ہیں انہیں دور کیا جائے۔ ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کو مذاکرات سے پہلے ماحول کو ساز گار بنانا ہوگا اور اس لئے حکومت کو اپنی ترجیحات اور ٹھوس پالیسی مرتب کرنا ہو گی۔ جبکہ بلوچستان کابینہ نے مادری زبانوں میں تعلیم کے سلسلے میں پرائمری سطح پر مضمون شامل کرنے، وزیراعلیٰ کابینہ کے اراکین اور اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور دیگر مراعات میں اضافے کے علاوہ سکیورٹی کے حوالے سے محکمہ داخلہ کی رپورٹ ، لیویزڈائریکٹوریٹ کی دوبارہ بحالی، لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل 2014ء، سردار بہادر خان وویمن یونیورسٹی ترمیمی بل، اور بولان یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز اینڈ ہیلتھ کے قیام سے متعلق بل کی منظوری دے دی ہے۔
بگٹی مہاجرین کا قافلہ نوابزادہ چاکر خان بگٹی کی قیادت میں اپنے آبائی علاقے ڈیرہ بگٹی کیلئے کوئٹہ سے روانہ ہوا ، قافلے میں 35 سے زائد بگٹی مہاجرین کی گاڑیاں تھیں جن میں نوابزادہ شاہ زین بگٹی کی والدہ اور خاندان سمیت دیگر افراد بھی سوار تھے۔ راستے میں نوابزادہ شاہ زین بگٹی نے قیادت سنبھال لی تاہم بگٹی قبائل کے اس قافلے کو کشمور کے قریب ڈیرہ موڑ پر روک دیا گیا جس پر قافلے کے شرکاء نے آبائی علاقے میں داخلے کی اجازت نہ دیئے جانے کے خلاف سندھ اور پنجاب کے سرحدی مقام پر دھرنا دیا، ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں ڈیرہ بگٹی جانے دیا جائے۔
اس سے قبل شاہ زین بگٹی کے قافلے کو سوئی کے علاقے ڈولی چیک پوسٹ پر روک دیا گیا تھا جس کے بعد حکومت نے انہیں ڈیرہ بگٹی جانے کی اجازت نہ دیتے ہوئے واپس بھجوادیا۔ قافلے کے شرکاء ڈیرہ موڑ پہنچ کر دھرنا دیئے ہوئے ہیں شدید سردی کی وجہ سے قافلے میں شامل متعدد مویشی بھی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ نوابزادہ شاہ زین بگٹی کا کہنا ہے کہ وہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی حمایت اور معاونت سے اپنے قبیلے کے لوگوں کو واپس ڈیرہ بگٹی لے جا رہے ہیں انہیں دونوں حکومتوں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ان لوگوں کو صحت، تعلیم، پینے کے صاف پانی سمیت دیگر سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
حکومت بلوچستان کے ترجمان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ نوابزادہ شاہ زین بگٹی کے قافلے کے ڈیرہ بگٹی کے قریبی علاقے میں پہنچنے سے علاقے میں صورتحال کشیدہ ہوگئی ہے اور اسے دانشمندی اور تحمل کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ علاقے کا امن خراب نہ ہو۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ ڈیرہ بگٹی سے نقل مکانی کرنے والوں کی اپنے علاقوں میں واپسی کے حوالے سے نوابزادہ شاہ زین بگٹی کا دو تین ماہ سے صوبائی حکومت سے رابطہ تھا نوابزادہ شاہ زین بگٹی نے جب ڈیرہ بگٹی جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو صوبائی حکومت نے ان کے ساتھ مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی لیکن نوابزادہ شاہ زین بگٹی نے اپنے قافلے سمیت بغیر سکیورٹی اور دیگر ضروری انتظامات کے علاوہ علاقے میں جانے کی کوشش کی جس سے علاقے میں صورتحال کشیدہ ہوئی اور مخالفین کے ساتھ تصادم کا خطرہ پیدا ہوا۔
ترجمان نے اس توقع کا اظہار کیا کہ حالات کے مطابق دانش اور تحمل کا مظاہرہ کیا جائے گا اور علاقے میں ساز گار ماحول پیدا ہونے تک نوابزادہ شاہ زین بگٹی اور ان کے ساتھی ڈیرہ بگٹی کا اپنا پروگرام موخر کردیں گے۔ سیاسی و سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بگٹی مہاجرین کے اس قافلے کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کرکے ڈیرہ بگٹی لے جائے جس کا صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے وعدہ کر رکھا ہے اور اس سلسلے میں جو بھی ضروری انتظامات ہیں وہ کئے جائیں اور بگٹی مہاجرین کو دوبارہ ڈیرہ بگٹی میں آباد کر کے ان کو سہولیات بھی فراہم کی جائیں۔ ان حلقوں کے مطابق حکومت کے اس قسم کے مثبت اقدامات کے آگے چل کر قیام امن کیلئے کئے جانے والے اقدامات پر موثر اور اچھے اثرات مرتب ہونگے اور مذاکرات کیلئے جو حکومت اقدامات کر رہی ہے اور ماحول کو سازگار بنانے کی باتیں کی جا رہی ہیں ان میں اس قسم کے اقدامات کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔