عام انتخابات سے قبل بلدیاتی الیکشن
نئے آرڈیننس کے اجرا کے بعد متحدہ قومی موومنٹ تو خوش ہے لیکن پاکستان پیپلزپارٹی کے اتحادی ناراض ہیں
سندھ میں نئے بلدیاتی آرڈیننس 2012کے اجراء کے بعد ایک نیا پینڈورا باکس کھل گیا ہے ۔متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان پیپلزپارٹی اس کو اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں جب کہ اے این پی ، فنکشنل اور این پی پی سندھ حکومت سے الگ ہوگئے ہیں کیونکہ ان کا شکوہ ہے کہ مسودے کی حتمی منظور سے قبل پاکستان پیپلزپارٹی نے ان سے اتحادی ہونے کے باوجود کسی بھی قسم کی مشاورت تک گوارہ نہیں کی اور رات گئے اس کا عجلت میں اعلان کیا گیا ہے ۔
دوسری جانب سندھی قوم پرست جماعتوں نےآرڈیننس کے خلاف 13ستمبر کو ہڑتال کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ ہڑتال کی حمایت کا اعلان دیگر قومی جماعتوں نے بھی کردیا ہے ۔قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران نکتہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا گیا کہ سندھ بلدیاتی آرڈیننس یا بلدیاتی انتخابات کا انعقاد قومی انتخابات کے التوا کے لیے ہرگز نہیں کیے جارہے ، جب کہ عمران خان کے بقول یہ سب کچھ عام انتخابات کو ملتوی کروانے کے لیے کیا جارہا ہے۔
جب کہ یہ کام تو آیندہ منتخب ہونے والی حکومت کو کرنا ہے ۔آخر اس آرڈیننس میں ایسا کیا ہے کہ جس پر اتنا شدید ردعمل سامنے آیا اب تک جو تفصیلات ہمارے سامنے آئی ہیں ان کے مطابق صوبے میں تین قسم کا بلدیاتی نظام رائج کیا گیا ہے ۔ جس میں میٹروپولیٹن کارپوریشنزکو پہلی مرتبہ وہ امور بھی منتقل کیے گئے جو پہلے صوبائی حکومت کے پاس تھے ۔
آرڈیننس سے سندھ کے پانچ بڑے شہروں کراچی ، حیدرآباد ، میرپور خاص ، سکھر اور لاڑکانہ والوں کو فوقیت حاصل ہوجائے گی اور ان شہروں کی میٹروپولیٹن کارپوریشنز بہت زیادہ اختیارات کی حامل ہونگی جب کہ دیگر چھوٹے شہروں اوردیہاتوںکے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھنے سے عوام میں احساس محرومی پیدا ہوگا ۔آرڈیننس کے اجراء سے پولیس،اینٹی انکروچمنٹ ،محکمہ ورکس اینڈ سروسز کی ضلعی سڑکیں اور میٹروپولیٹن کے پاس ہوں گی ۔
مسلم لیگ فنکشنل سندھ کے سیکریٹری جنرل امتیاز شیخ کا یہ کہنا بجا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی کے 5اضلاع میں ایک نظام جب کہ سندھ کے 18اضلاع میں دوسرا نظام کسی صورت قابل قبول نہیں ۔عوامی نیشنل پارٹی نے بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں کا بائیکاٹ کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ سینیٹر شاہی سید کے مطابق سندھ کے عوام کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والوں کوسندھ کے عوام کبھی معاف نہیں کرینگے۔
جب کہ سندھ کے صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن اور متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے اراکین نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ سندھ لوکل باڈیز آرڈیننس کے نفاذ سے سندھ کے شہری اور دیہی آبادیوں کے درمیان محبتوں میں اضافہ ہوگا اور تمام پروپیگنڈے دم توڑ چکے ہیں پولیس اور ریونیو ڈیپارٹمنٹ سندھ حکومت کے تحت ہی کام کرتے رہیں گے ۔متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما رضا ہارون کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے پہلا جمہوری بلدیاتی نظام متعارف کروا کے تاریخ رقم کی ہے ۔جس پر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور صدر پاکستان آصف علی زرداری مبارکباد کے مستحق ہیں ۔
نئے آرڈیننس کے اجرا کے بعد متحدہ قومی موومنٹ تو خوش ہے لیکن پاکستان پیپلزپارٹی کے اتحادی ناراض ہیں حد تو یہ ہے کہ پیرپگار ا نے فون تک سننے سے انکار کیا ہے ۔ دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی نے قومی سطح پر بھی حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دے ڈالی ہے ۔قوم پرست جماعتیں بھی شدید احتجاج کررہی ہیں، اس نازک مرحلے پر صوبائی حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ تمام جماعتوں کے خدشات کو دور کرے اور ان کی مثبت تجاویز کو بھی آرڈیننس میں لازمی طور پر شامل کیا جائے۔
صدر پاکستان آصف علی زرداری کی مفاہمتی پالیسی کا اطلاق نہ صرف سب اتحادی جماعتوں اور دیگر فریقین پر ہونا چاہیے بلکہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو صرف سندھ کی حد تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ حکومت عام انتخابات سے قبل ملک کے چاروں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کروا کے تمام خدشات اور وسوسوں کا خاتمہ کرے۔ ادھر حکومتِ سندھ نے 90 دن میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے سندھ ہائی کورٹ کے مختصر فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کراچی میں اپیل دائر کی ہوئی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کی فوری تیاریاں کی گئیں تو 2013 میں ہونے والے عام انتخابات متاثر ہوسکتے ہیں اس لیے بلدیاتی انتخابات آنے والی حکومت پر چھوڑ دیے جائیں۔
واضح رہے کہ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2000 کی مدت24 فروری 2010 کو ختم ہوگئی اور صوبے میں ایڈمنسٹریٹرز تعینات کیے گئے ہیں تاہم پرانے بلدیاتی نظام (سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979) میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور اس کے تحت نئی حلقہ بندیاں بھی ہونا ہیں۔ ان امور کے بارے میں حکومت اتحادی جماعتوں سے مشاورت کر رہی ہے۔ تاہم اب سپریم کورٹ نے بھی رواں سال بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دے رکھا ہے اور صدر آصف زرداری نے بھی عام انتخابات سے قبل بلدیاتی الیکشن کرانے کا عندیہ دیا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چاروں صوبوں نے الیکشن کمیشن کی رہنما ہدایات کی روشنی میں بلدیاتی اداروں کے لیے ایک جیسے قوانین بنالیے ہیں؟ کیونکہ اب تک کسی صوبے نے بھی عمل درآمد تو کجا الیکشن کمیشن کے خط کا جواب بھیجنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ الیکشن کمیشن نے صوبوں سے کہا تھا کہ وہ بلدیاتی اداروں کے لیے یکساں قانون بنائیں تاکہ الیکشن کمیشن کو بلدیاتی انتخابات کرانے میں آسانی رہے کیونکہ 18 ویں ترمیم کے بعد بلدیاتی انتخابات کی ذمے داری الیکشن کمیشن کو دے دی گئی ہے جب کہ 2009 کے بعد بلدیاتی انتخابات کی ذمے داری صوبوں کے پاس آگئی تھی۔
بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں صوبے کس حد تک تیار اور سنجیدہ ہیں، اس کا اندازہ اس تجزیے سے لگایا جاسکتا ہے کہ دو بڑے صوبوں پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں اب تک کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی۔ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کی حکومتوں نے اس حوالے سے قانون سازی تو کرلی مگر اب تک کوئی رولز نہیں بنائے گئے۔ یعنی ابھی تک صوبے واضح انداز میں بلدیاتی نظام ہی وضع نہیں کرسکے اور ہر جگہ مقامی حکومتوں کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے۔
گزشتہ 4 برس سے اختیارات منتخب نمایندوں کے بجائے بیورو کریسی کو منتقل ہوچکے ہیں اور بلدیاتی الیکشن دور دور تک نظر نہیں آتے۔ غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ وفاقی حکومت نے بجٹ میں بلدیاتی انتخابات کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی بلکہ الیکشن کمیشن کے بجٹ میں 31 کروڑ روپے کم کر دیے گئے ہیں۔ اگر عام انتخابات سے قبل بلدیاتی انتخابات کرانا پڑے تو کم از کم 4 ارب روپے خرچ ہونگے اور ملکی کمزور معاشی صورتحال کے تناظر میں ایک سال میں بڑے الیکشن کا انعقاد مشکل نظر آرہا ہے۔ اندازہ ہے کہ رواں سال ملک میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ناممکن ہے۔ اس ذمے داری کو نئی آنیوالی حکومت کے کاندھوں پر لاد دیا جائے گا۔
دوسری جانب سندھی قوم پرست جماعتوں نےآرڈیننس کے خلاف 13ستمبر کو ہڑتال کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ ہڑتال کی حمایت کا اعلان دیگر قومی جماعتوں نے بھی کردیا ہے ۔قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران نکتہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا گیا کہ سندھ بلدیاتی آرڈیننس یا بلدیاتی انتخابات کا انعقاد قومی انتخابات کے التوا کے لیے ہرگز نہیں کیے جارہے ، جب کہ عمران خان کے بقول یہ سب کچھ عام انتخابات کو ملتوی کروانے کے لیے کیا جارہا ہے۔
جب کہ یہ کام تو آیندہ منتخب ہونے والی حکومت کو کرنا ہے ۔آخر اس آرڈیننس میں ایسا کیا ہے کہ جس پر اتنا شدید ردعمل سامنے آیا اب تک جو تفصیلات ہمارے سامنے آئی ہیں ان کے مطابق صوبے میں تین قسم کا بلدیاتی نظام رائج کیا گیا ہے ۔ جس میں میٹروپولیٹن کارپوریشنزکو پہلی مرتبہ وہ امور بھی منتقل کیے گئے جو پہلے صوبائی حکومت کے پاس تھے ۔
آرڈیننس سے سندھ کے پانچ بڑے شہروں کراچی ، حیدرآباد ، میرپور خاص ، سکھر اور لاڑکانہ والوں کو فوقیت حاصل ہوجائے گی اور ان شہروں کی میٹروپولیٹن کارپوریشنز بہت زیادہ اختیارات کی حامل ہونگی جب کہ دیگر چھوٹے شہروں اوردیہاتوںکے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھنے سے عوام میں احساس محرومی پیدا ہوگا ۔آرڈیننس کے اجراء سے پولیس،اینٹی انکروچمنٹ ،محکمہ ورکس اینڈ سروسز کی ضلعی سڑکیں اور میٹروپولیٹن کے پاس ہوں گی ۔
مسلم لیگ فنکشنل سندھ کے سیکریٹری جنرل امتیاز شیخ کا یہ کہنا بجا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی کے 5اضلاع میں ایک نظام جب کہ سندھ کے 18اضلاع میں دوسرا نظام کسی صورت قابل قبول نہیں ۔عوامی نیشنل پارٹی نے بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں کا بائیکاٹ کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ سینیٹر شاہی سید کے مطابق سندھ کے عوام کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والوں کوسندھ کے عوام کبھی معاف نہیں کرینگے۔
جب کہ سندھ کے صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن اور متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے اراکین نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ سندھ لوکل باڈیز آرڈیننس کے نفاذ سے سندھ کے شہری اور دیہی آبادیوں کے درمیان محبتوں میں اضافہ ہوگا اور تمام پروپیگنڈے دم توڑ چکے ہیں پولیس اور ریونیو ڈیپارٹمنٹ سندھ حکومت کے تحت ہی کام کرتے رہیں گے ۔متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما رضا ہارون کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے پہلا جمہوری بلدیاتی نظام متعارف کروا کے تاریخ رقم کی ہے ۔جس پر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور صدر پاکستان آصف علی زرداری مبارکباد کے مستحق ہیں ۔
نئے آرڈیننس کے اجرا کے بعد متحدہ قومی موومنٹ تو خوش ہے لیکن پاکستان پیپلزپارٹی کے اتحادی ناراض ہیں حد تو یہ ہے کہ پیرپگار ا نے فون تک سننے سے انکار کیا ہے ۔ دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی نے قومی سطح پر بھی حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دے ڈالی ہے ۔قوم پرست جماعتیں بھی شدید احتجاج کررہی ہیں، اس نازک مرحلے پر صوبائی حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ تمام جماعتوں کے خدشات کو دور کرے اور ان کی مثبت تجاویز کو بھی آرڈیننس میں لازمی طور پر شامل کیا جائے۔
صدر پاکستان آصف علی زرداری کی مفاہمتی پالیسی کا اطلاق نہ صرف سب اتحادی جماعتوں اور دیگر فریقین پر ہونا چاہیے بلکہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو صرف سندھ کی حد تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ حکومت عام انتخابات سے قبل ملک کے چاروں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کروا کے تمام خدشات اور وسوسوں کا خاتمہ کرے۔ ادھر حکومتِ سندھ نے 90 دن میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے سندھ ہائی کورٹ کے مختصر فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کراچی میں اپیل دائر کی ہوئی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کی فوری تیاریاں کی گئیں تو 2013 میں ہونے والے عام انتخابات متاثر ہوسکتے ہیں اس لیے بلدیاتی انتخابات آنے والی حکومت پر چھوڑ دیے جائیں۔
واضح رہے کہ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2000 کی مدت24 فروری 2010 کو ختم ہوگئی اور صوبے میں ایڈمنسٹریٹرز تعینات کیے گئے ہیں تاہم پرانے بلدیاتی نظام (سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979) میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور اس کے تحت نئی حلقہ بندیاں بھی ہونا ہیں۔ ان امور کے بارے میں حکومت اتحادی جماعتوں سے مشاورت کر رہی ہے۔ تاہم اب سپریم کورٹ نے بھی رواں سال بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دے رکھا ہے اور صدر آصف زرداری نے بھی عام انتخابات سے قبل بلدیاتی الیکشن کرانے کا عندیہ دیا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چاروں صوبوں نے الیکشن کمیشن کی رہنما ہدایات کی روشنی میں بلدیاتی اداروں کے لیے ایک جیسے قوانین بنالیے ہیں؟ کیونکہ اب تک کسی صوبے نے بھی عمل درآمد تو کجا الیکشن کمیشن کے خط کا جواب بھیجنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ الیکشن کمیشن نے صوبوں سے کہا تھا کہ وہ بلدیاتی اداروں کے لیے یکساں قانون بنائیں تاکہ الیکشن کمیشن کو بلدیاتی انتخابات کرانے میں آسانی رہے کیونکہ 18 ویں ترمیم کے بعد بلدیاتی انتخابات کی ذمے داری الیکشن کمیشن کو دے دی گئی ہے جب کہ 2009 کے بعد بلدیاتی انتخابات کی ذمے داری صوبوں کے پاس آگئی تھی۔
بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں صوبے کس حد تک تیار اور سنجیدہ ہیں، اس کا اندازہ اس تجزیے سے لگایا جاسکتا ہے کہ دو بڑے صوبوں پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں اب تک کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی۔ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کی حکومتوں نے اس حوالے سے قانون سازی تو کرلی مگر اب تک کوئی رولز نہیں بنائے گئے۔ یعنی ابھی تک صوبے واضح انداز میں بلدیاتی نظام ہی وضع نہیں کرسکے اور ہر جگہ مقامی حکومتوں کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے۔
گزشتہ 4 برس سے اختیارات منتخب نمایندوں کے بجائے بیورو کریسی کو منتقل ہوچکے ہیں اور بلدیاتی الیکشن دور دور تک نظر نہیں آتے۔ غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ وفاقی حکومت نے بجٹ میں بلدیاتی انتخابات کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی بلکہ الیکشن کمیشن کے بجٹ میں 31 کروڑ روپے کم کر دیے گئے ہیں۔ اگر عام انتخابات سے قبل بلدیاتی انتخابات کرانا پڑے تو کم از کم 4 ارب روپے خرچ ہونگے اور ملکی کمزور معاشی صورتحال کے تناظر میں ایک سال میں بڑے الیکشن کا انعقاد مشکل نظر آرہا ہے۔ اندازہ ہے کہ رواں سال ملک میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ناممکن ہے۔ اس ذمے داری کو نئی آنیوالی حکومت کے کاندھوں پر لاد دیا جائے گا۔