طاقتور صنفِ نازک
کون کہہ سکتا ہے کہ صنفِ نازک کو طاقتور کے ساتھ لکھا جائے تو یہ تضاد ہے
طاقتور صنفِ نازک، اس جملے میں ہی تضاد ہے۔ کسی کا طاقتور ہونا اورکسی کا نرم و نازک ہونا دو مختلف باتیں ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد سوچیں تو کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔ ممکن ہے عورت کو اس کی جسمانی ساخت کی وجہ سے صنفِ نازک کہا جاتا ہو۔ چلیں مان لیا تو ہم نے اس لفظ سے پہلے اسے طاقتور کیوں کہا ہے؟ کیا اس کی جذباتی طاقت کی بدولت، ممتا کی قوت کی وجہ سے، بہن کی محبت کی بدولت یا بیٹی کی خدمت کے باعث یا اہلیہ کی اہلیت کے سبب۔
آئیے عورت کی تاریخ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اماں حوّا دنیا کی پہلی خاتون تھیں۔ اس کے بعد جرأت کی کوئی تصویر نظر آتی ہیں تو وہ حضرت ہاجرہؑ ہیں۔ پہلی مرتبہ دنیا کو ماں کی ممتا انتہا پر نظر آئی۔ بیٹے کی پیاس سے بے قرار ماں نے صفا اور مروہ کے بیچ دوڑنا شروع کردیا۔ ننھے اسمٰعیلؑ نے پائوں مارے تو قدرت نے وہاں پانی کا چشمہ جاری کردیا۔ ماں گھبرا گئی کہ کہیں بہت زیادہ پانی ننھے بچّے کو ڈبو نہ دے۔
انھوں نے پانی کو ٹھہرنے کے لیے ''زم زم'' کہا۔ اﷲ تعالیٰ نے ماں کی محبت کو دیکھتے ہوئے ہر حاجی کے لیے دو پہاڑوں کے درمیاں تیز تیز دوڑنا لازم کردیا کہ یہ ایک ماں کی سنّت ہے۔ ماں کی ممتا ہمیں حضرت موسیٰ ؑ کے زمانے میں بھی نظر آتی ہے۔ وہ دور جب فرعون نے بنی اسرائیل کے ہر بچّے کو قتل کرنے کا حکم جاری کردیا تھا۔ موسیٰ ؑ کی ایک ماں نے اپنے بچّے کی جان بچانے کے لیے اسے دریا کے حوالے کردیا کہ یہ اس کے رب کا حکم تھا۔ یہاں موسیٰ ؑ کی پرورش ایک دوسری عورت کو کرنا تھی، فرعون کے محل کی ایک خاتون حضرت آسیہ۔ حضرت مریمؑ کا تقدس ہمیں حضرت عیسیٰ ؑ کی ماں کی شکل میں دِکھائی دیتا ہے۔ یہ سب خواتین نبیوں کی مائیں تھیں۔ ان مائوں میں سب سے بڑھ کر اعزاز حضرت آمنہؓ کا ثابت ہوتا ہے کہ وہ محسنِ انسانیتؐ کی ماں ہونے کے سبب اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہیں۔
عورت بیوی ہے، بیٹی ہے۔ پندرہ صدیوں قبل دیکھیں تو ہمیں حضرت خدیجہؓ، حضرت فاطمہؓ، حضرت عائشہؓ نظر آتی ہیں۔ نبوت کی صداقت کی پہلی گواہی ایک عورت کی تھی۔ پندرہ سال کی رفاقت نے شوہر کی عظمت کو جان لیا۔ خدیجۃ الکبریٰؓ نے سمجھ لیا کہ خدا ان کے مجازی خدا سے بہت بڑا کام لینا چاہتا ہے۔ بیٹی کی صورت میں وہ ننھے ہاتھ نظر آتے ہیں جو دشمنوں کی گندگی کو صاف کرتے ہیں۔ نو دس سالہ فاطمہؓ کا دکھ شاید کوئی نہ سمجھ سکے جو ابوجہل اور ابولہب کے ہاتھوں ان کے بابا کو تکالیف کی صورت میں دیا جاتا تھا۔ دین کو آگے بڑھانے اور اپنے عظیم شوہر کے مشن کو دنیا تک پہنچانے کا سلیقہ کوئی دیکھنا چاہے تو اماں عائشہؓ کی ذہانت و فراست میں دیکھے۔
واقعۂ کربلا کے بعد حضرت زینبؓ کی ہمت و حوصلے کی نظیر دنیا کی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ان کارناموں کو دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس جملے میں کوئی تضاد نہیں، انتہائی طاقتور ہے صنفِ نازک۔
بی اماں ہوں یا فاطمہ جناح یا بیگم رعنا۔ ماں، بہن اور بیوی نے تحریکِ پاکستان کے لیے کام کرنے والوں کے لیے جذباتی سہارا بننے کا موقع ضایع نہیں کیا۔ مولانا محمد علی جوہر کی والدہ بی اماں، قائداعظم محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح اور نواب زادہ لیاقت علی خان کی اہلیہ بیگم رعنا نے ہر نازک موقع پر طاقتور ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اگر یہ تین خواتین اپنا اہم کردار ادا نہ کرتیں تو تاریخ وہی ہوتی جو ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں۔ اگر ہم یہ مان رہے ہیں کہ عورت تاریخ کا رخ موڑ سکتی ہے تو اسے طاقتور صنفِ نازک کیوں نہ کہا جائے۔
فاطمہ جناح، نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو اور بیگم کلثوم نواز کو آمریت سے ٹکرا جانے والی خواتین میں شمار کیا جائے گا۔ ایوب، ضیاء اور مشرف کی حکومتوں کے خلاف عملی مزاحمت میں ان خواتین کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں ایک بہن ہے جو اپنے بھائی کے قائم کردہ وطن میں آمریت کو برداشت نہیں کرسکی، دوسری ایک بیوی تو تیسری ایک بیٹی ہے تو چوتھی ایک اور بیوی ہے۔ ہمت، جرأت، عزیمت کے ان مجسموں کو کون صرف صنفِ نازک کہہ کر آگے بڑھ سکتا ہے۔ وہ دور جب ان کے خاندان کے سربراہوں کو سیاست کرنے اور عوام کو جگانے کے جرم میں پابندِ سلاسل کردیا گیا تھا۔ یہ گھریلو خواتین، عملی سیاست سے نابلد یہ عورتیں میدانِ عمل میں نکلیں اور ثابت کیا کہ عورت اگر سچ کو سچ مان کر میدان میں نکل آئے تو تاریخ اور محاوروں کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ پھر اہلِ لغت کو ''جواں مردی'' کے لفظ پر سو مرتبہ غور کرنا پڑتا ہے کہ عورت کو صرف صنفِ نازک کہہ کر آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔
دو انتہائی طاقتور خواتین کا ذکر کیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ 21 ویں صدی میں ان دونوں نے عورت کا نیا روپ متعارف کروایا ہے۔ اس سے قبل شاید ہی کسی بیوی نے اس قدر ہمت سے اپنے شوہر کا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ آمنہ مسعود جنجوعہ نے گمشدہ لوگوں کے مسئلے کو اٹھا کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے، دوسری ڈاکٹر فوزیہ ہیں۔ آمنہ مسعود اور ڈاکٹر فوزیہ نے خواتین کی جدوجہد کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔
آمنہ کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر کو خفیہ ایجنسیوں نے غائب کروایا ہے۔ ایک گھریلو خاتون اور چھوٹے چھوٹے بچّوں کی ماں نے ہمت نہ ہاری اور اپنی جدوجہد کو نیا رنگ عطا کیا۔ بے اصولی کے افسوس اور ہار نہ ماننے کے جذبے نے اس معاملے کو واقعی انوکھا رنگ عطا کیا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکا میں قید اور پھر 86 سال کی سزا نے ان کے خاندان کو جدوجہد سے باز نہیں رکھا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ صنفِ نازک کو طاقتور کے ساتھ لکھا جائے تو یہ تضاد ہے۔
ایک اور ایک بیٹی کے ذکر کے بغیر یہ تحریر ادھوری رہے گی۔ یہ کالم صنفِ نازک کی طاقت سے انصاف نہ کرسکے گا۔ وہ بچّی جس نے کم عمری میں کمپیوٹر کی دنیا کے بڑے بڑے سورمائوں کو پچھاڑ کر پاکستان کا نام روشن کردیا۔ 9 سالہ ارفع کریم نے 2005 میں مائیکرو سوفٹ کمپنی کا ایوارڈ جیت کر کمپیوٹر کی دنیا میں بڑے بڑوں کو حیران کردیا۔ ارفع کریم ہم سے 16 سال کی عمر میں رخصت ہوگئی۔ پھول بہت جلد کھل کر بہت جلد مرجھا گیا۔ اس بیٹی کی انوکھی رخصتی نے اسے ''ڈاٹر آف پاکستان'' قرار دلوایا۔ ایک برے وقت میں ایک اچھا ایوارڈ لے کر ارفع کریم نے ظاہر کردیا کہ واقعتاً صنفِ نازک، ملائم، چھوئی موئی، بزدل اور کمزور نہیں بلکہ وہ طاقتور ہے، قابل ہے، اہل ہے لہٰذا ہم اسے کہہ سکتے ہیں طاقتور صنفِ نازک۔
آئیے عورت کی تاریخ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اماں حوّا دنیا کی پہلی خاتون تھیں۔ اس کے بعد جرأت کی کوئی تصویر نظر آتی ہیں تو وہ حضرت ہاجرہؑ ہیں۔ پہلی مرتبہ دنیا کو ماں کی ممتا انتہا پر نظر آئی۔ بیٹے کی پیاس سے بے قرار ماں نے صفا اور مروہ کے بیچ دوڑنا شروع کردیا۔ ننھے اسمٰعیلؑ نے پائوں مارے تو قدرت نے وہاں پانی کا چشمہ جاری کردیا۔ ماں گھبرا گئی کہ کہیں بہت زیادہ پانی ننھے بچّے کو ڈبو نہ دے۔
انھوں نے پانی کو ٹھہرنے کے لیے ''زم زم'' کہا۔ اﷲ تعالیٰ نے ماں کی محبت کو دیکھتے ہوئے ہر حاجی کے لیے دو پہاڑوں کے درمیاں تیز تیز دوڑنا لازم کردیا کہ یہ ایک ماں کی سنّت ہے۔ ماں کی ممتا ہمیں حضرت موسیٰ ؑ کے زمانے میں بھی نظر آتی ہے۔ وہ دور جب فرعون نے بنی اسرائیل کے ہر بچّے کو قتل کرنے کا حکم جاری کردیا تھا۔ موسیٰ ؑ کی ایک ماں نے اپنے بچّے کی جان بچانے کے لیے اسے دریا کے حوالے کردیا کہ یہ اس کے رب کا حکم تھا۔ یہاں موسیٰ ؑ کی پرورش ایک دوسری عورت کو کرنا تھی، فرعون کے محل کی ایک خاتون حضرت آسیہ۔ حضرت مریمؑ کا تقدس ہمیں حضرت عیسیٰ ؑ کی ماں کی شکل میں دِکھائی دیتا ہے۔ یہ سب خواتین نبیوں کی مائیں تھیں۔ ان مائوں میں سب سے بڑھ کر اعزاز حضرت آمنہؓ کا ثابت ہوتا ہے کہ وہ محسنِ انسانیتؐ کی ماں ہونے کے سبب اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہیں۔
عورت بیوی ہے، بیٹی ہے۔ پندرہ صدیوں قبل دیکھیں تو ہمیں حضرت خدیجہؓ، حضرت فاطمہؓ، حضرت عائشہؓ نظر آتی ہیں۔ نبوت کی صداقت کی پہلی گواہی ایک عورت کی تھی۔ پندرہ سال کی رفاقت نے شوہر کی عظمت کو جان لیا۔ خدیجۃ الکبریٰؓ نے سمجھ لیا کہ خدا ان کے مجازی خدا سے بہت بڑا کام لینا چاہتا ہے۔ بیٹی کی صورت میں وہ ننھے ہاتھ نظر آتے ہیں جو دشمنوں کی گندگی کو صاف کرتے ہیں۔ نو دس سالہ فاطمہؓ کا دکھ شاید کوئی نہ سمجھ سکے جو ابوجہل اور ابولہب کے ہاتھوں ان کے بابا کو تکالیف کی صورت میں دیا جاتا تھا۔ دین کو آگے بڑھانے اور اپنے عظیم شوہر کے مشن کو دنیا تک پہنچانے کا سلیقہ کوئی دیکھنا چاہے تو اماں عائشہؓ کی ذہانت و فراست میں دیکھے۔
واقعۂ کربلا کے بعد حضرت زینبؓ کی ہمت و حوصلے کی نظیر دنیا کی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ان کارناموں کو دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس جملے میں کوئی تضاد نہیں، انتہائی طاقتور ہے صنفِ نازک۔
بی اماں ہوں یا فاطمہ جناح یا بیگم رعنا۔ ماں، بہن اور بیوی نے تحریکِ پاکستان کے لیے کام کرنے والوں کے لیے جذباتی سہارا بننے کا موقع ضایع نہیں کیا۔ مولانا محمد علی جوہر کی والدہ بی اماں، قائداعظم محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح اور نواب زادہ لیاقت علی خان کی اہلیہ بیگم رعنا نے ہر نازک موقع پر طاقتور ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اگر یہ تین خواتین اپنا اہم کردار ادا نہ کرتیں تو تاریخ وہی ہوتی جو ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں۔ اگر ہم یہ مان رہے ہیں کہ عورت تاریخ کا رخ موڑ سکتی ہے تو اسے طاقتور صنفِ نازک کیوں نہ کہا جائے۔
فاطمہ جناح، نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو اور بیگم کلثوم نواز کو آمریت سے ٹکرا جانے والی خواتین میں شمار کیا جائے گا۔ ایوب، ضیاء اور مشرف کی حکومتوں کے خلاف عملی مزاحمت میں ان خواتین کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں ایک بہن ہے جو اپنے بھائی کے قائم کردہ وطن میں آمریت کو برداشت نہیں کرسکی، دوسری ایک بیوی تو تیسری ایک بیٹی ہے تو چوتھی ایک اور بیوی ہے۔ ہمت، جرأت، عزیمت کے ان مجسموں کو کون صرف صنفِ نازک کہہ کر آگے بڑھ سکتا ہے۔ وہ دور جب ان کے خاندان کے سربراہوں کو سیاست کرنے اور عوام کو جگانے کے جرم میں پابندِ سلاسل کردیا گیا تھا۔ یہ گھریلو خواتین، عملی سیاست سے نابلد یہ عورتیں میدانِ عمل میں نکلیں اور ثابت کیا کہ عورت اگر سچ کو سچ مان کر میدان میں نکل آئے تو تاریخ اور محاوروں کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ پھر اہلِ لغت کو ''جواں مردی'' کے لفظ پر سو مرتبہ غور کرنا پڑتا ہے کہ عورت کو صرف صنفِ نازک کہہ کر آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔
دو انتہائی طاقتور خواتین کا ذکر کیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ 21 ویں صدی میں ان دونوں نے عورت کا نیا روپ متعارف کروایا ہے۔ اس سے قبل شاید ہی کسی بیوی نے اس قدر ہمت سے اپنے شوہر کا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ آمنہ مسعود جنجوعہ نے گمشدہ لوگوں کے مسئلے کو اٹھا کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے، دوسری ڈاکٹر فوزیہ ہیں۔ آمنہ مسعود اور ڈاکٹر فوزیہ نے خواتین کی جدوجہد کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔
آمنہ کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر کو خفیہ ایجنسیوں نے غائب کروایا ہے۔ ایک گھریلو خاتون اور چھوٹے چھوٹے بچّوں کی ماں نے ہمت نہ ہاری اور اپنی جدوجہد کو نیا رنگ عطا کیا۔ بے اصولی کے افسوس اور ہار نہ ماننے کے جذبے نے اس معاملے کو واقعی انوکھا رنگ عطا کیا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکا میں قید اور پھر 86 سال کی سزا نے ان کے خاندان کو جدوجہد سے باز نہیں رکھا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ صنفِ نازک کو طاقتور کے ساتھ لکھا جائے تو یہ تضاد ہے۔
ایک اور ایک بیٹی کے ذکر کے بغیر یہ تحریر ادھوری رہے گی۔ یہ کالم صنفِ نازک کی طاقت سے انصاف نہ کرسکے گا۔ وہ بچّی جس نے کم عمری میں کمپیوٹر کی دنیا کے بڑے بڑے سورمائوں کو پچھاڑ کر پاکستان کا نام روشن کردیا۔ 9 سالہ ارفع کریم نے 2005 میں مائیکرو سوفٹ کمپنی کا ایوارڈ جیت کر کمپیوٹر کی دنیا میں بڑے بڑوں کو حیران کردیا۔ ارفع کریم ہم سے 16 سال کی عمر میں رخصت ہوگئی۔ پھول بہت جلد کھل کر بہت جلد مرجھا گیا۔ اس بیٹی کی انوکھی رخصتی نے اسے ''ڈاٹر آف پاکستان'' قرار دلوایا۔ ایک برے وقت میں ایک اچھا ایوارڈ لے کر ارفع کریم نے ظاہر کردیا کہ واقعتاً صنفِ نازک، ملائم، چھوئی موئی، بزدل اور کمزور نہیں بلکہ وہ طاقتور ہے، قابل ہے، اہل ہے لہٰذا ہم اسے کہہ سکتے ہیں طاقتور صنفِ نازک۔